بیراج کی برکت

سو ایسی بات بھی نہیں تھی کہ سب کے سب مقامی اہلِ ثروت، خصوصاً زمیندار تعلیم کے دشمن تھے


سردار قریشی June 27, 2018

سندھ میں نہری پانی کو کنٹرول کرنے کا بیراج سسٹم دنیا کے اس نوع کے بہترین نظاموں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس نظام نے ریلوے نظام کے ساتھ مل کر ازمنہ قدیم کے مصر سے موازنہ کیے جانے والی وادی مہران کو دور جدید سے متعارف کرایا۔ غلامی کے دنوں کے یادگار، انگریزوں کے قائم کردہ ان دونوں نظاموں، خصوصاً بیراج کی برکت سے سر زمینِ سندھ کے باسیوں میں پنجابی آبادکاروں کی نئی جنس کا اضافہ ہوا، جو اپنی الگ شناخت قائم رکھتے ہوئے مستقل بنیادوں پر یہاں آباد تو ہوگئے لیکن انھوں نے پنجاب کی دھرتی سے تعلق بھی نہیں توڑا اور جینے مرنے کی بنیاد پر سندھ میں سکونت اختیار کرنے کے باوجود کسی نہ کسی بہانے اپنی مٹی سے جڑے رہے۔

ان کا یہ عمل غیر فطری بھی نہیں تھا کیونکہ سب کے سب پنجابی تو بہرحال نقل مکانی کرکے یہاں نہیں آ گئے تھے۔ ایک خاندان کے دو افراد نے اگر سندھ میں چند ایکڑ زمین خریدی اور اسے آباد کرنے کے لیے بیوی بچوں کے ساتھ پنجاب سے یہاں منتقل ہوگئے تو ان کے باقی اعزہ و رشتہ دار وہیں تھے اور ان کا آپس میں میل جول رکھنا کسی بھی طرح غلط، ناجائز یا غیر فطری نہیں۔ یہ سوچ ہی غلط اور متعصبانہ ہے کہ اس طرح پنجاب نے سندھ کو اپنی نوآبادی، بیٹھک یا کالونی بنالیا ہے۔

ان کی آمد اور آبادکاری کا سلسلہ تو اب تک جاری ہے، جائزہ لینے یا سروے کرنے سے معلوم ہوگا کہ اتنا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے۔ اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ ان کے آنے سے سندھ کی زمینوں کی زرخیزی اور قابل کاشت رقبے میں بے پناہ اضافہ ہوا، نیز پیداواری صلاحیت بڑھی ہے۔ انفرادی طور پر کچھ پنجابی آبادکار فطرتاً برے بھی ہوں گے لیکن بطور فارمولہ اس کا اطلاق سب پر نہیں کیا جاسکتا، بالکل اسی طرح جیسے سندھ میں پیدا ہونے والے کئی بدنام ڈاکوؤں کی چھاپ ہر سندھی کے ماتھے پر تلاش نہیں کی جاسکتی۔

تصویر کا دوسرا رخ دیکھنے سے معلوم ہوگا کہ ہمارے ان پنجابی آبادکار بھائیوں نے جہاں سندھ میں اپنے گاؤں دیہات پنجاب کی طرز پر بسائے اور انھیں ''چک'' جیسے ٹھیٹ پنجابی نام دیے وہاں انھوں نے بعض ایسے اچھے اور قابل تقلید کام بھی کیے جنھیں نظر انداز کرنا اور نہ سراہنا پرلے درجے کی بخیلی ہوگی۔ مثلاً ٹنڈو غلام علی ڈگری روڈ پر ان کے گاؤں ''70 چک'' میں قیام پاکستان کے بعد کے ابتدائی برسوں میں بھی وہاں کے چوہدری یا نمبردار نے ہائی اسکول منظور کروا رکھا تھا۔ انھوں نے نہ صرف اس کو یقینی بنایا کہ اسکول میں معیاری تعلیم دی جائے اور اساتذہ محض سرکاری نوکری سمجھ کر مرضی کی ڈیوٹی نہ دیں بلکہ انھوں نے حکومت پر کوئی بوجھ ڈالے بنا اپنی مدد آپ کے اصول پر طلباء کو ہاسٹل کی سہولت بھی فراہم کر رکھی تھی۔ نہ صرف رہائش بلکہ چوہدری کے ذاتی خرچ پر انھیں کھانا بھی فراہم کیا جاتا تھا۔

مقصد صرف غریبوں کے بچوں کو بلا امتیاز تعلیم حاصل کرنے کے مواقع فراہم کرنا تھا۔ چوہدری زیادہ سے زیادہ سو ڈیڑھ سو ایکڑ زمین کا مالک ہوگا، جب کہ ٹنڈو غلام علی کے میر بندہ علی خان تالپور خود اعلیٰ تعلیم یافتہ اور بہت بڑے جاگیردار (ایک لاکھ 80 ہزار ایکڑ زمین کے مالک) ہوتے ہوئے اپنے شہر میں اس کا انتظام نہیں کر پائے تھے، نتیجتاً 1960ء تک وہاں میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے کی سہولت بھی نہیں تھی۔ 70 چک جیسا دوسرا ہائی اسکول اسی روڈ پر نیا دمبالو اور کپری موری کے درمیان چوہدری غلام علی کے گاؤں میں تھا۔ انھیں بے وسیلہ کسانوں کے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ دیکھنے کا کچھ زیادہ ہی شوق تھا جبھی وہ اپنے اسکول کے ہاسٹل میں رہائش پذیر بچوں کو نہ صرف کھانا بلکہ کتابیں، کاپیاں اور یونیفارم بھی مفت فراہم کرتے تھے۔ سو ان اچھے اور عوامی فلاح و بہبود کے کاموں کو محض اس لیے تو نہیں جھٹلایا جا سکتا کہ ان کے کرنے والے پنجابی آبادکار تھے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ سندھ میں فروغ تعلیم کے لیے ان سے بہت پہلے بھی مقامی زمینداروں اور صاحبان ثروت نے بڑے بڑے کارہائے نمایاں انجام دیے تھے۔ سندھ مدرسۃ الاسلام یونیورسٹی کراچی کے بانی حسن علی آفندی سندھ کے سرسید کہلائے، جب کہ زیریں سندھ (لاڑ) کے شہر ٹنڈو باگو میں مدرسہ ہائی اسکول کے بانی میر غلام محمد تالپور کئی عشروں بعد آج بھی دلوں پر راج کرتے ہیں اور ان دونوں حضرات کو انتہائی عزت و احترام سے یاد کیا جاتا ہے۔ متذکرہ چوہدریوں کے ہمعصر مقامی زمیندار سعید محمد شاہ نے بھی 60ء کے عشرے میں اپنے ٹنڈو محمد خان کے نواحی گاؤں سعید پور ٹکر میں غریبوں کے بچوں کے لیے مفت تعلیم حاصل کرنے کا بندوبست کر رکھا تھا، جہاں معیاری تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ دور دراز سے آئے ہوئے طلبا کو ان کے خرچ پر لاجنگ اینڈ بورڈنگ کی سہولت بھی حاصل ہوتی تھی۔

سو ایسی بات بھی نہیں تھی کہ سب کے سب مقامی اہلِ ثروت، خصوصاً زمیندار تعلیم کے دشمن تھے یا انھوں نے فروغ تعلیم کے لیے سرے سے کوئی کام نہیں کیا۔ پنجابی آبادکاروں کے ہاتھوں سندھ میں انجام پانے والے فلاحی کاموں کے تذکرے کا مقصد صرف ان کے اچھے کاموں کو سراہنا ہے اور بس۔ ان میں چاچا اسماعیل مرحوم جیسے کچھ بذلہ سنج لوگ بھی تھے جو شیخیاں بگھیرنے کے انداز میں کہتے کہ سندھ کے مقامی لوگ ہمیں دعائیں دیں کہ ہم نے انھیں انسانوں کی طرح رہنا سکھایا ورنہ وہ تو استنجا و طہارت تک کرنا نہیں جانتے تھے۔ وہ خاص طور مجھے چھیڑنے اور تنگ کرنے کے لیے ایسی باتیں کیا کرتے تھے۔ پھر جنرل ضیاء کے کرائے ہوئے ریفرنڈم کے دنوں میں جب اپنی بڑی بہن سے ملنے ان کے گاؤں گیا ہوا تھا، مجھے چاچا اسماعیل سے حساب صاف کرنے کا موقع مل گیا۔ پبلک ٹرانسپورٹ دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے میں پہلے بذریعہ پرائیویٹ کار حیدرآباد سے میرپورخاص گیا اور وہاں سے براستہ ڈگری گاؤں پہنچا تھا۔

رات کے بمشکل 9 بجے ہوں گے، لیکن گاؤں پر سناٹا طاری تھا۔ ہر طرف تاریکی کا راج تھا اور کتے تک نہیں بھونک رہے تھے، یوں لگتا تھا جیسے گاؤں میں کوئی نہیں ہے۔ کافی دیر کے بعد جب انھوں نے میری آواز پہچان کر اندر آنے کو کہا تو پتہ چلا رامجی کولہی نام کے کسی ڈاکو نے پورے علاقے میں دہشت پھیلا رکھی تھی۔ کچھ روز قبل اس کی طرف سے چاچا اسماعیل کو چٹھی موصول ہوئی تھی کہ اتنی نقد رقم اور فلاں فلاں چیزوں کا انتظام کرکے رکھو، میں فلاں دن لینے آؤں گا، نہ ملیں تو تمہاری خیر نہیں۔ یہ وہی دن تھا اور چاچا اسماعیل کے بیٹے بھری ہوئی بندوقیں لیے اپنے گھروں کی چھت پر مورچہ زن ہوکر اس کا انتظار کر رہے تھے۔ چاچا اسماعیل کے ہاتھ میں لمبی سی تسبیح تھی اور وہ بہت پریشان نظر آتے تھے۔

مجھے مذاق سوجھا اور میں نے ان کے قریب جاکر کہا آپ نے اسے بتایا نہیں کہ ہم تو وہ لوگ ہیں جنھوں نے تمہیں انسانوں کی طرح رہنا سکھایا، تم ہمیں اس کا یہ بدلہ دے رہے ہو۔ بولے میں نے ایسا کب کہا تھا، تمہیں سننے میں مغالطہ ہوا ہوگا، میں نے تو یہ کہا تھا کہ ہمیں کچھ نہیں آتا تھا، بھلا ہو مقامی سندھی بھائیوں کا جنھوں نے ہمیں جینے کے آداب سکھائے۔ پھر مجھے بے تحاشا ہنستے اور اپنی پریشانی کا مزہ لیتا دیکھ کر انھوں نے پینترا بدلا اور بولے کہیں تم اس کے ایجنٹ بن کر تو نہیں آئے ہو۔

اگر بیراج کی برکت سے ہمارے یہ پنجابی آباد کار بھائی یہاں نہ آئے ہوتے تو وہ بہت سی چیزیں مفقود ہوتیں جو آج جا بجا نظر آتی ہیں۔ تعصب کی عنیک اتار کر دیکھا جائے تو کھیتی باڑی سے وابستہ ان لوگوں اور مقامی آبادگاروں اور ہاریوں (کسانوں) میں آپ کو کاف (ک) اور گاف (گ) کے سواکوئی فرق نظر نہیں آئے گا، وہ زیادہ تر اپنی زمینیں آباد کرتے ہیں جب کہ یہ بطور کھیت مزدور دوسروں کی زمینوں میں ہل چلاتے ہیں۔ سب باہم بھائیوں کی طرح مل جل کر رہتے ہیں مگر ان کے نام پر سیاست کرنے والے ہیں کہ نفرتیں پھیلانے سے باز نہیں آتے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں