کراچی میں خطرہ ہے تاہم فوج کی ضرورت نہیںڈی جی رینجرز

رینجرز آرمی کا ہی حصہ ہے تاہم ہمیں ایف آئی آر درج کرنے اور تفتیش کا اختیار نہیں


Business Reporter May 01, 2013
رینجرز آرمی کا ہی حصہ ہے تاہم ہمیں ایف آئی آر درج کرنے اور تفتیش کا اختیار نہیں۔ فوٹو اے ایف پی

ڈائریکٹر جنرل پاکستان رینجرز سندھ میجر جنرل رضوان اخترنے کہا ہے کہ انتخابات تک کراچی میں خطرات ہیں تاہم شہر میں فوج کی ضرورت نہیں کیونکہ رینجرز بھی فوج کا ہی حصہ ہے۔

یہ بات انھوں نے منگل کو کراچی چیمبرآف کامرس میں تاجروصنعتکاروں سے خطاب کے دوران کہی۔ ڈی جی رینجرز نے کہا کہ کراچی میں بد امنی پرقابو پانے کے لیے رینجرزسندھ کو 25 اگست 2011کو اضافی اختیارات تفویض کیے گئے لیکن ان اختیارات سے متعلق عمومی طور پریہ غلط تاثرقائم ہے کہ رینجرز کے پاس تمام اختیارات ہیں۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ رینجرزصرف سراغ لگانے اورگرفتاری کے اختیارات رکھتی ہے لیکن اسے ایف آئی آر کے اندراج اور انویسٹی گیشن کے اختیارات حاصل نہیں ۔ انھوں نے بتایاکہ پولیس کی کمزورتفتیش کے باعث ملزمان گرفتاری کے بعد رہا ہوجاتے ہیں جو اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ اس حوالے سے مزید قانون سازی کی ضرورت ہے۔

کراچی پاکستان کی شہ رگ ہے، تجارتی واقتصادی سرگرمیوںکا مرکز ہونے کی وجہ سے یہاں کی عوام کو نسبتاًزیادہ مسائل ومشکلات کا سامنا ہے، ہمیں تاجر برادری کے مسائل و مشکلات کا بھی ادراک ہے۔ انھوں نے کہا کہ آرمی چیف کے دورہ کراچی کے موقع پر تاجربرادری نے اپنے تحفظات کا اظہار کیاتھا، کراچی کی تمام بڑی ٹریڈ باڈیزمیں قائم رینجرز کے کرائم مانیٹرنگ سینٹرز خدمات انجام دے رہے ہیں جن کا یومیہ بنیادوں پرڈیٹا باقاعدگی سے جانچا جاتا ہے۔انھوں نے کہاکہ رینجرز نشاندہی پر جرائم پیشہ افرادکو گرفتارتوکرلیتی ہے لیکن ملزمان کی شناخت کے حوالے سے گواہ نہیں مل پاتے کیونکہ پاکستان میںگواہوں کے تحفظ کا قانون موجود نہیں۔



سندھ میں رینجرز کے تقریباً22ہزار500اورکراچی میں12ہزار اہلکار ہیں جبکہ باقی نفری سرحدوں پر تعینات ہے،۔ رینجرز پر کسی قسم کا کوئی دباؤ نہیں،ہ پولیس کو عزت دی جائے تو اس کے اندر عوام کے تحفظ کا عزم مزید اجاگر ہوگا۔ڈی جی رینجرز نے کے سی سی آئی کے صدر کو ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی بھی کرائی، اس موقع پرکراچی چیمبر کے صدر محمد ہارون اگر نے کہا ہے کہ کراچی میں بدترین امن وامان کی صورتحال کے باجود تاجرو صنعتکار برادری ملک وقوم کے وسیع ترمفاد میں جان ومال کو درپیش خطرات کے باجودتجارتی وصنعتی سرگرمیاںجاری رکھے ہوئے ہے۔

جرائم پیشہ عناصر کی جانب سے بھتہ ، اغواء برائے تاوان، ڈکیتی کی وارداتوں میں تاجروں کی ہلاکتوں اور ان واقعات کو کنٹرول کرنے میں حکومت کی عدم دلچسپی پر تاجربرادری کی جانب سے کڑی تنقید کی جاتی ہے، امن و امان کو قائم کرنا حکومت اور اس کے اداروں کی اولین ذمے داری ہے۔ انھوں نے کہاکہ کراچی کے 7صنعتی زون میں تقریباً16ہزار صنعتیں ہیں جبکہ مارکیٹوں اور کمرشل سینٹرز کی تعداد500سے زائد ہے، شہر صرف ایک دن بند ہونے سے تقریباً5ارب روپے کے تجارتی نقصان کا باعث بنتا ہے جبکہ روزانہ کمانے اور کھانے والا طبقہ سب سے زیادہ متاثرہوتاہے،انھوںنے سیاسی جماعتوں سے اپیل کی کہ وہ جرائم پیشہ افراد کی حمایت نہ کریں اور ہڑتال کی بجائے احتجاج کا کوئی دوسرا طریقہ اختیار کیا جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں