
بہرکیف، آج جہاں یہ کچھ سب ہو رہا ہے تو ایسے میں ملک کی سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے بھی اپنی انتخابی مہم بھرپور طریقے سے شروع کردی ہے؛ تو وہیں ووٹرز بھی تذبذب کے شکار ہیں کہ کیسے ووٹ دیں؟ کیسے نہ دیں؟ اگر کسی کو دیں تو کیوں دیں؟ اور کسی کو نہ دیں تو کیوں؟ یہی وہ سوالات ہیں کہ آج جن کی وجہ سے ایک ووٹر شدید ذہنی تناؤ کا شکارہے کیوں کہ انتخابات میں یہ ووٹرز ہی تو ہیں جنہیں سب سے ہم کردار ادا کرنا ہے۔ ویسے اِس مرتبہ بھی حسبِ معمول سیاستدان الیکشن میں اپنے حلقے کے ووٹرز کو طرح طرح کے سبز باغ دِکھا کر اپنا چورن بیچیں گے، جیسا کہ یہ بیچ رہے ہیں۔ بڑھکیاں ماررہے ہیں، لنترانیاں ہانک رہے ہیں اور شیخیاں بھگاررہے ہیں۔ مگر ایسے میں دیکھنا یہ ہے کہ ووٹرز کس سیاستدان کا چورن پسند کریں گے؟ کس کا چورن کس مقدار میں ووٹ سے خریدیں گے؟ کس کے چورن کے عوض کسے مسندِ اقتدار پر بٹھائیں گے؟ اور اپنے مسائل کی بدہضمی کس کے چورن سے ختم کرنے کا سامان کریں گے؟ اِس کےلیے بھی سب کو بڑی بے چینی سے انتظار ہے۔
فی الحال تو کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا کیونکہ ابھی تو سارے سیاسی بازی گر اور چورن فروش اپنے خریدار کی دہلیز پر جا کر، ناک رگڑ کر اور طرح طرح کی آوازیں نکال کر اپنے چور کے بدلے ووٹ کی بھیک مانگ رہے ہیں، جیسے کہ: مجھے کیو ں نکالا؛ ووٹ کو عزت دو؛ قوم کو روٹی، کپڑا اور مکان ہم دیں گے؛ توانا ئی بحران کے خاتمے کی کنجی میرے پاس ہے؛ ہم مزدور کی تنخواہ 20 ہزار ماہوار کردیں گے؛ ملک و قوم کو مسائل کے دلدل سے نکال کر خوشحالی کی راہ پر گامزن کرنے کا فارمولا میری پارٹی کے منشور میں ہے؛ قوم کی ترقی کا دار و مدار موٹر ویز میں ہے؛ ہم کل بھی ایک تھے، ہم آج بھی ایک ہیں؛ نہ ہم پہلے بٹے تھے نہ آج بٹے ہیں؛ ہمارے اور ووٹرز کے دل ایک ہیں جو ایک ساتھ دھڑکتے ہیں وغیرہ۔ غرضیکہ ایسی ان گنت صداؤں کی بازگشت متواتر بلند ہورہی ہے اور زور و شور سے سنی بھی جارہی ہے۔ یعنی کہ سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے بہروپیے، الیکشن میں اپنی کامیابی کو یقینی بنانے کےلیے وعدوں اور دعووں پر قلعی چڑھاتے ہوئے اپنے دلکش اور دلفریب منشوروں کی گٹھڑی کو بھی اپنے سروں پر اُٹھائے گلی، محلوں، بازاروں، شاہراہوں اور چھوٹے بڑے عوامی اجتماعات میں اپنے عوامی خدمات کے ماضی، حال اور مستقبل کے کارناموں پر گلے پھاڑ رہے ہیں۔
اِن سیاسی جوکروں کا بس ایک ہی مقصد ہے: ملک کے بائیس کروڑ عوام اِن کے بہکاوے میں آجائیں اور اِنہیں ووٹ دے کر اقتدار کی خوبصورت چڑیا اِن کی مٹھی میں قید کردیں تو پھر یہ جو چاہیں کریں۔ کوئی اِن کے سا منے بند نہ باندھے، یہ مادر پدر آزاد ہوں۔ قومی خزانہ ہو اور اِن کا ہاتھ اور دامن ہو۔ یہ قومی خزانے سے جیسے چاہیں اللے تللے کریں۔ جمہوریت کی آڑ میں ووٹروں کے سر گن کر اقتدار کے مسندِ خاص پر اپنے قدمِ ناپاک رنجا فرمانے والے پھر اپنے ہی غریب ووٹروں کے بنیادی حقوق غضب کریں، ڈاکہ ڈالیں اور غریب ووٹروں کے سر کاٹ کر اپنے لیے امارات کے محلات تعمیر کریں... مگر اِس پر بھی کوئی اِنہیں کچھ نہ کہے۔
سُنیے جناب! بہت ہوچکا، اَب ایسے کام نہیں چلے گا۔ کچھ بھی ہوجائے، ستر سال سے ظالم فاسق و فاجر اشرافیہ کو اقتدار سجا کردینے والے میرے ملک کے غریب، مفلوک الحال، ننگے بھوکے، ایڑیاں رگڑتے، بلکتے سسکتے ووٹروں کو اِس مرتبہ اپنی خودساختہ ستر سالہ پرانی روایت کو پسِ پست ڈال کر اپنا ووٹ دینے کےلیے ہر حال میں اپنے گھروں سے اپنی نیک اور ایماندار، نڈر اور بے باک قیادت کے چناؤ کےلیے ضرور نکلنا ہوگا۔ اگر ایسا نہ کیا تو پھر کوئی یہ شکایت نہ کرے کہ وہ ''ووٹ ڈالنے بھی نہیں جاتے، مگر پھر بھی ہمارا ووٹ ڈل جاتا ہے!''
اے عوام الناس! یاد رکھو کہ اگر تم اپنا ووٹ ڈالنے نہ نکلے تو پھر ایسے ہی کرپٹ اور آف شور کمپنیوں والے، اقامے اور سوئس بینکوں میں 770 ہزار ارب روپے رکھنے والے قومی چور ہی حکمران بنیں گے۔
تاہم آج ضرورت اِس امر کی ہے کہ حکمرانوں کی شکل میں مُلک اور قوم پر مسلط قومی لٹیروں اور کرپٹ عناصر سے چھٹکارا پانے کےلیے ووٹرز اپنی اِس سوچ کو ہر حال خود بدلیں کہ میں نہ بھی گیا تو ووٹ پڑ ہی جائے گا۔ اَب جب تک ووٹر اپنی اِس سوچ کو اپنے ضمیر کی آواز کے مطابق خود نہیں بدلیں گے، مُلک اور قوم میں کسی بھی صورت میں مثبت تبدیلی نہیں آسکتی۔
یاد رکھیے کہ ووٹرز ووٹ ڈالنے نہ جا کر جعلی ووٹنگ کرنے والے شیطان کے چیلے چانٹوں کےلیے خود راہ ہموار کرتے ہیں۔ پھر خود ہی کہتے پھرتے ہیں کہ ہم نہ بھی جائیں تو ہمارا ووٹ ڈل جاتا ہے اور ہم پر کرپٹ حکمران قابض ہوکر ملک و قوم کو لوٹ کھاتے ہیں۔
آج اگر ایک لمحے کو آپ یہ سوچ لیں کہ جعلی ووٹنگ میں برابر کے شراکت دار وہ ووٹرز بھی ہیں جو اپنا ووٹ کاسٹ کرنے نہیں جاتے؛ اور اگر یہ اپنا ووٹ ڈالنے جائیں تو کسی مائی کے لعل میں کیا ہمت اور مجال پیدا ہو کہ کوئی کسی کے نام کا جعلی ووٹ ڈال دے۔
تو اے ووٹرو! آپ پر لازم ہے کہ آپ اپنا ووٹ قومی فریضہ سمجھ کر ادا کیجیے یا ڈالنے جائیے۔ اِس طرح آپ اپنے اِس طاقتور اختیار کا استعمال کرکے نہ صرف اپنی بلکہ اپنے مُلک اور اپنی قوم کی بھی تقدیر بدلیں گے بلکہ مُلک سے دھاندلی اور بوگس ووٹنگ کے ستر سالہ کلچر کے خاتمے میں بھی اپنا اہم کردار ادا کریں گے۔
تو پھر آئیے، اللہ کو حاضر و ناظر جان کر وعدہ کریں کہ ہر حال میں اپنا ووٹ قومی فریضہ سمجھتے ہوئے، اپنی پسند کے کسی بھی اُمیدوار کو ضرور دینے جا ئیں گے؛ کیوںکہ اِسی میں ملک و قوم اور ہماری آنے والی نسلوں کی بھلائی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
تبصرے
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔