شفاف الیکشن فیئرپلے کی آزمائش

الیکشن کمیشن ،عدلیہ ،اپلیٹ ٹریبونلز اور نگراں حکومت سبھی اپنے پیرا میٹرز میں مصروف عمل ہیں


Editorial June 28, 2018
الیکشن کمیشن ،عدلیہ ،اپلیٹ ٹریبونلز اور نگراں حکومت سبھی اپنے پیرا میٹرز میں مصروف عمل ہیں۔فوٹو: فائل

انتخابات کے دن جوں جوں قریب آرہے ہیں سیاسی جماعتوں کے قائدین پر الیکشن کا دباؤ بڑھتا جارہا ہے، اسے خلفشار ، انتشار یا ٹکٹوں کی تقسیم کے میکنزم کی خرابی کہہ کر سیاسی جماعتوں کے جمہوری طرز عمل کو مطعون نہیں کیا جانا چاہیے کیونکہ تقریباً تمام مین اسٹریم سیاسی جماعتیں کاغذات نامزدگی کی سختی سے اسکروٹنی اور حلف ناموں کے ساتھ ساتھ امیدواروں کے اثاثوں کی تفصیلات کی فراہمی کے نئے تجربے سے کچھ شاکی بھی رہیں اور انتخابی مہم کی تاریخ کے تیزی سے قریب آنے کے باعث اسٹرٹیجکل محاصرہ میں خود کو پاتی ہیں، مگر یہ انوکھی بات نہیں ، خوش آیند امر سیاسی اور جمہوری عمل کا تسلسل ہے یعنی قوم اب تیسری مرتبہ اقتدار کی پرامن منتقلی کی راہ تک رہی ہے۔

اسے یقین ہے کہ الیکشن ہونے ہیں اور وہ ہونگے۔الیکشن کی سرگرمی اور امیدواروں کے ناموں کو فائنل کرنے کا عمل عموماً مشکل اور اعصاب شکن صورتحال پر منتج ہوتا ہے، اسے کوئی سیاسی مبصر پارٹیز کے اندر انارکی ، داخلی کشمکش، محاذ آرائی یا مستقل رونما ہونے والی دراڑ سے تعبیر نہیں کرسکتا، یہ جمہوری نظام اور الیکشن کی گہماگہمی کا لازمی نتیجہ ہوتا ہے، ٹکٹوں کا مسئلہ ایک انار سو بیمار والی حکایت کے مصداق ہے، الیکٹ ایبلز کی اپنی اہمیت ہے، آزاد امیدواروں کا اپنا کردار ہے، میڈیا الیکشن فیور کی نفسیات کے مطابق لائحہ عمل طے کرچکا ہے، وہ انتخابی ڈائنامکس کی روشنی میں تحریک انصاف، پیپلز پارٹی ، ن لیگ اور دیگر سیاسی جماعتوں کی حرکیات اور امیدواروں کے حوالہ سے خبریں دیتا ہے، پورے ملکی سیاسی منظرنامہ میں الیکشن کا شفاف انعقاد بنیادی نکتہ ہے۔

الیکشن کمیشن ،عدلیہ ،اپلیٹ ٹریبونلز اور نگراں حکومت سبھی اپنے پیرا میٹرز میں مصروف عمل ہیں، کوئی بے یقینی نہیں، کئی بیرونی اور داخلی خدشات ضرور ہیں تاہم سیاسی اتحادوں کی تشکیل جاری ہے، سیٹ ایڈجسٹمنٹ اور سولو فلائیٹ سمیت مین اسٹریم جماعتوں کی طرف سے الیکشن سوئپ کیے جانے کے دعوے بھی ہو رہے ہیں ۔ ساتھ ساتھ مقامی رہنماؤں ،کارکنوں کی ناراضی ، ٹکٹوں کی واپسی سے پیدا شدہ بدمزگی اور احتجاج و عارضی دھرنوں کے واقعات بھی ہوئے ہیں، تحریک انصاف نے پولنگ کا وقت رات 8 بجے تک بڑھانے کی درخواست کی ہے، عمران خان نے پہلی بار اپنی پارٹی میں گروپنگ کا اعتراف بھی کیا ہے۔ سابق وزیرا عظم شاہد خاقان عباسی نے ایک بیان میں عام انتخابات کو متنازع بنانے کا شکوہ کیا ہے،ان کا کہنا ہے کہ یہ پہلا الیکشن ہے جس میں کاغذات نامزدگی منظور ہونا بھی ایک بہت بڑا مرحلہ ہے۔

ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ ہم نتائج کو تسلیم کریں گے، ہم نے ہمیشہ نتائج کو تسلیم کیا ہے۔ سابق وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ الیکشن میں دھاندلی کے نتائج ملک کے لیے ہمیشہ گھناؤنے نکلے، لندن میں کلثوم نواز کی عیادت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے نواز شریف نے گرفتاریوں کے حوالے سے سوال پر کہا کہ اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے وہ دنیا میں مذاق بنا ہوا ہے۔ ادھر پیپلزپارٹی کو پنجاب میں امیدواروں کی سلیکشن میں مشکلات کا سامنا ہے ، وسطی اور جنوبی پنجاب کے ٹکٹ ہولڈرز کی لسٹ تاخیر کا شکار ہوگئی ۔ سابق صدر آصف علی زرداری اس وقت بلاول ہاؤس لاہورمیں موجود ہیں اورپنجاب میں امیدواروں کے معاملہ پر پنجاب کی قیادت سے مشاورت کررہے ہیں، ن لیگ اور پی ٹی آئی کی طرف سے امیدواروں کی لسٹیں جاری کی جا چکی ہیں ۔ ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما فاروق ستار نے کہا ہے کہ کسی بھی قیمت پر ایم کیو ایم کا ووٹ بینک تقسیم نہیں ہوگا۔

وہ منگل کو سندھ ہائیکورٹ میں قائم اپیلٹ ٹریبونل میں این اے 245 سے کاغذات نامزدگی مسترد ہونے کے خلاف اپنی اپیل کی سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے، اس کے مقابل پی ایس پی کے سربراہ مصطفیٰ کمال اردو کمیونٹی کے ووٹوں کی آس لگائے ہوئے ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے کراچی میں انتخابی جلسوں، تاجر وصنعتکار برادری اور سینئر صحافیوں سے گفتگو میںکراچی اور اندرون سندھ عوام کی تقدیر بدلنے اور کراچی کو پیرس بنانے کی بات کی ،ان کا کہنا تھا اگر الیکشن جیتے تو قومی حکومت بنائیں گے ، وہ ایک سوال پر خلائی مخلوق کے اصطلاحی تنازع پر جواب دینے سے گریز کرکے یہ تاثر دینے میں کامیاب رہے کہ ان کا بیانیہ نواز شریف سے کچھ مختلف ہوسکتا ہے،ادھرچیئرمین نیب نے کہا کہ عدالتی فیصلوں پر من و عن عمل کیا جائے گا ، قانون کی نظر میں سب برابر ہیں، نیب کا الیکشن سے کو ئی تعلق نہیں۔ حقیقت میں چوہدری نثار کے مقابل ن لیگ کے امیدوار قمرالاسلام کی گرفتاری پر ن لیگ کا سخت رد عمل سامنے آیا ہے ۔

بلاشبہ 25 جولائی کے الیکشن کا جہاں تک تعلق ہے وہ ماضی کے برعکس میدان میں معرکہ آرا سیاسی جماعتوں میں ''مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا '' کا سا نہیںہوگا، یہ صبر آزما اور ملک میں جمہوریت کے تسلسل کی سب سے بڑی انتخابی جنگ ہے جس میں ہر جماعت کی کوشش اور اس کا عزم ہے کہ وہ الیکشن جیتے، اس مسابقت میں شرط فیئر پلے کی ہے، شفافیت کے ساتھ انتخابات ہوئے تو یہ قوم کی عظیم توقعات کے عین مطابق ایک غیر معمولی بریک تھرو ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔