اثاثوں کے دلفریب افسانے
کسی فلمی ہدایتکار کا کہنا ہے کہ سینما کے تاریک کمرے میں دکھائی جانے والی مووی پر اعتبار نہ کریں
ملک میں انوکھی، غیر معمولی اور الف لیلائی سیاسی اور انتخابی ہلچل مچی ہوئی ہے۔ بالکل فلمی اسکرین پلے جیسی، پتہ نہیں چلتا کب سیاست دان اداکار بنتے ہیں اور کب اداکار سیاستدان۔ ہر منظر سنسنی خیز، دلکش، بقول شاعر حیراں ہوں کہ دو آنکھوں سے کیا کیا دیکھوں۔ لگتا ہے سارے چینلز پر ایک جیسا ٹی وی تماشا ہورہا ہے۔ جیسی سیاست پست ویسا فلمی اسکرین پلے بھی فرسودہ گھٹیا اور عشق وجنس پر مبنی۔ زندگی جیسی کٹھور، سنگدل و سفاک حقیقت بھی چھوٹے اور بڑے اسکرین اور سیاست میں اپنے زمینی حقائق اور معروضی سچائیوں سے لاتعلق نظر آتی ہے۔
سیاست کے شب و روز ہالی وڈ، لالی وڈ اور بالی وڈ کے رنگ میں رنگ گئے، آپ محض اداکار ہیں تو کیا ہوا، ڈائریکٹر، فلم ساز یا ٹی وی پروڈیوسر آپ کو نپولین، ابراہام لنکن، ارے گاڈ فادر تک بنادے گا، آپ ڈان کہلائیں گے، اسکرین پر آپ مارلن برانڈو کو مات دیں گے، چاہے عام زندگی میں آپ کو گھوڑے کی سواری نہیں آتی، موٹی توند کے ساتھ بھاگ نہیں سکتے، مگر بڑا کردار لے سکتے ہیں۔ اور آپ دبلی پتلی نازک اندام لڑکی ہیں تو اسٹریٹ کرمنل سے شاپنگ مالز کے قریب دوبدو فائٹ نہیں کرسکتیں مگر فلم اور ٹی وی ڈرامہ میں آپ کو ٹارگٹ کلر سے لے کر فولادی ہیروئن کا رول ملے گا، آپ پردہ سیمیں پر تباہی مچادیں گی، آپ کا نام ''ونڈر وومن'' ہوگا۔ یہی کام سیاستدانوں نے سالہا سال کیا اور اب عین انتخابی سورج کے سوا نیزے پر آنے کے بعد ان کی بے تحاشا دولت کے افسانے ہزاروں ہیں۔ سیاستدان سبھی
بدل کر فقیروں کا ہم بھیس غالبؔ
تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں
کی سیاست گری میں مصروف رہے مگر ان کے چھپے اثاثے ''وقت آنے'' پر زلزلہ خیز ثابت ہوئے، کسی کو قانون نافذ کرنے والوں سے پوچھنے کی جرات نہیں کہ یہ دولت آئی کہاں سے؟ اگر پوچھا بھی تو طاہر نجمی صاحب نے اپنے کالم کے ذریعہ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ سیاستدان اپنی جمع پونجی سمیت مفت ہوئے بدنام، البتہ اگر کوئی منشیات کا تاجر ہے، بیوروکریسی کے ہٰذا من فضل ربی محکموں میں بھیس بدلے مال کما رہا ہے، اسمگلر، ذخیرہ اندوز ہے، بلیک مارکیٹر ہے، لینڈ مافیا، واٹر ٹینکر مافیا، کلاشنکوف مافیا کا بندہ ہے، ایمنسٹی اسکیم سے گریزاں ہے تو کوئی بات نہیں، اس کی پکڑ موضوع بحث نہیں، اس وقت تختہ مشق سویلین سیاست دان ہیں جو کہہ رہے ہیں لاؤ تو قتل نامہ مرا، میں بھی دیکھ لوں۔
کسی فلمی ہدایتکار کا کہنا ہے کہ سینما کے تاریک کمرے میں دکھائی جانے والی مووی پر اعتبار نہ کریں، بند ڈبوں میں فیتے پر لپیٹی جانے والے کرداروں کے وجود سے پھوٹنے والی عکس بندی سے بڑی جعلسازی آرٹ کے نام سے کہیں اور نہیں ہوتی، اس کا فرق کمرشل مووی اور آرٹ مووی کے نام سے ظاہر ہے، بعض ملکوں میں متوازی سینما کا خیال بھی اسی سوچ کی حمایت میں ہے کہ کمرشل فلم اپنی اولین تعریف میں صرف انٹرٹینمنٹ ہے، تخلیق اور جینیئس لوگوں کی اداکاری یا گریٹر وژن کے حامل رائٹر کے قلم سے تراشے ہوئے وہ بتان رنگ وبو ہیں، اداکاری دلربائی کا نام ہے، فلم کو زندگی کا حقیقی عکس قرار دینے کی دوڑ لگی ہے، ایک فلم 1958ء میں ریلیز ہوئی، نام تھا ''بن حر''، کچھ ماہ قبل نیٹ پر اس کا ری میک دیکھا، اندازہ ہوا کہ ڈیجیٹل فلم سازی نے اداکاری کے فن کے ساتھ کتنا بڑا مذاق کیا ہے۔
یہ مذاق ان ٹی وی ڈراموں میں عام ہے جس میں انسانی احساسات کی گرامر سے ہمارے سپر اسٹار بھی ناواقف ہیں، بڑا ٹیلنٹ ہے مگر ضایع جا رہا ہے، کرداروں کی ادائیگی میں اداکارانہ ریاضت، کاملیت، گریٹ ایکٹنگ اور تھیٹر کی تپسیا سب بیکار ہے، ایک ناپا کافی نہیں، ٹی وی ڈرامے ایک ہی بنگلہ میں ایک ماہ کے اندر تیار ہوکر ٹاپ رینکنگ کی مالا جپتے ہیں۔ ملک فلم اور سیاسی کلچر سے محروم ہے۔ سیاست وفن کا کوئی تہذیبی تناظر نہیں، بس پیسہ کماؤ، گلیمر دکھاؤ۔ کہتے ہیں سیاست عبادت ہے جب کہ اداکاری مسرت آگیں کربhappy agony ۔۔۔ کسی کے نزدیک ایکٹنگ ذہنی کیفیت ہے۔ مائیکل کین نے صاف کہہ دیا تھا کہ ایکٹنگ ٹوٹل ری ایکشن ہے۔ میں پاکستان میں ایک پیٹر اوٹول کے ابھرنے کی حسرت ہی کرتا رہ گیا۔
مجھے اسٹیج کی جگت بازی ملی۔ ہوبہو سیاسی اسٹیج کی صورتحال بھی یہی ہے، کوئی مدبر نہ ملا، سیاست دان بھی سب سے بڑا اداکار ہے، اس کے بھی رول ڈیفرنٹ ہیں، کتنے روپ بدلتا ہے، ووٹر کو خبر تک نہیں ہوتی، آج جاکر پتہ چلا کہ ارب پتی اور کروڑ پتی سیاست دانوں کے گوشواروں سے غربت جھلک رہی ہے۔ میڈیا ان گوشواروں کو چٹخارے لے لے کر اچھالتا ہے، کوئی امیدوار یا سیاستدان ایسا نہیں جو بادشاہی میں فقیری کی ہنرمندی سے معذور ہو، سب باون گزے نکلے، ہر ایک کے ترکش میں نعروں، وعدوں کے تیر نیم کش بھی بہت اور سونے کے زیورات، نقدی، پلاٹ، لگژری گاڑیاں، ہزاروں پرائز بانڈز مگر پھر بھی کنگلے، مقروض۔ میڈیا نے کھل جا سم سم کا منظر سجایا ہے۔ فلمی کہانیوں اور ٹی وی ڈراموں کی سیاست 21 کروڑ پاکستانیوں کے لیے حیرتوں کا طلسم کدہ ہے، الیکشن کمیشن نے کیا پردہ چاک کیا کہ ''جو تری بزم سے نکلا سو پریشاں نکلا''۔
25 جولائی سے پہلے اصلی تے وڈے سیاست دانوں سے آئین و قانون کے تحت روسیاہی کی ایک شرم ناک کیٹ واک کروائی گئی، علی بابا کے غار کا در کھلا، قوم کو باور کرایا گیا کہ سیاسی بادشاہوں کی فقیری کے دعوے سب جھوٹے ہیں، وہ تو راسپوتین ہیں، یہ تو خیر گزری کہ گوشواروں میں اس جبر سے کام نہیں لیا گیا کہ اپنی سماجی، نفسیاتی، جنسی، رومانوی زندگی سے متعلق ویڈیوز اور داستانوں کی تفصیل بھی جمع کرائیں، اگر ایسا ہوتا تو کسی کو ندامت بے جا کا خوف بھی نہ ہوتا، کیونکہ ایک سینئر سیاستدان کا یہ تبصرہ سب نے ٹی وی پر سنا ہے کہ پاکستانی قوم کا حافظہ بہت کمزور ہے۔ اس کے ارباب اختیار کو اپنی غلطیوں سے ہونے والے سنگین سانحات کا دکھ بھی نہیں تڑپاتا۔ وہ تو سقوط ڈھاکا کو پی جاتے ہیں۔''
بہت احتیاط ہوئی کہ سیاستدانوں کے گھر سے جو ساماں نکلا وہ ماتاہریوں کے قصوں سے بیگانہ تھا۔ اب سیاست میں بھی کمال فن ملاحظہ ہو، ہر چند سیاسی اور جمہوری عمل بھی جاری ہے اور انتخابات کا جوش وخروش بھی پیمانہ بکف اور میخانہ بدوش۔ میڈیا پر سیاست دانوں کی چھپائی گئی دولت طشت ازبام ہوئی ہے، یہ آزاد میڈیا اور آزاد الیکشن کمیشن کی برکتوں کے طفیل ہے۔ ہے ناں؟ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سیاست کا پوسٹ مارٹم ہوا ہے، سیاستدانوں کے اندر کی کہانیاں باہر آئی ہیں، سچ زنجیریں توڑ کر پولنگ بوتھ کی طرف جانے کو بیتاب ہے۔ ایک بزرجمہر کو یہ بھی کہتے سنا کہ قوم، ارے ہاں پاکستانی قوم اپنے حکمرانوں کو اب صاف ستھرا، پاک دامن، فرشتہ سیرت، جینٹل مین اور اخلاق کے مقام بلند پر دیکھنے کی تمنائی ہے۔ وہ اپنے نئے وزیراعظم کو رول ماڈل دیکھنا چاہتی ہے جس کے دامن پر کوئی چھینٹ ہو نہ خنجر پہ کوئی داغ۔ وہ 'قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو' والے شعر کی تفسیر ہو۔
تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو
دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں
دیکھئے 25 جولائی کو کیا ہو۔ ابھی تو محبت کا آغاز ہے، ابھی تو محبت کا انجام ہوگا۔ وہی دولت مند سیاست دان بصورت امیدواران مملکت خداداد پاکستان کے آیندہ حکمراں بننے کے لیے انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ تاحال ان کی دولت بحق سرکار ضبط ہونے کی کوئی ترمیم نہیں آئی۔ لیکن ٹھہریے ایک فہمیدہ سی بات کسی نے کہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستانی سماج میں اخلاق ایک اضافی شے اور غیر سیاسی حوالہ ہے، کیونکہ سیاست کے سینہ میں دل نہیں ہوتا، جس طرح جنگ اور محبت میں ہر چیز جائز ہے، سیاست میں شہرت اور بدنامی لازم وملزوم ہیں اور پاکستان کی سیاسی تاریخ اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ جو جتنا بدنام ہوا اس کا اسی قدر نام ہوا، گستاخی معاف! بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا۔ دور کیوں جائیے، اپنے آج کے ہمہ رنگ سلیبریٹیز کے چارٹ پر نظر ڈالیں۔ کیسے کیسے لوگ ہمارے جی کو جلانے آجاتے ہیں۔ کتنی مکاریاں، عیاریاں، خودفریبیاں اور جعلسازیاں سیاست و فنون لطیفہ کے اجلے چہروں کی چغلی کھاتی ہیں۔ آج 70 برس کی سیاسی دشت نوردی کے بعد ڈھول پیٹا جارہا ہے کہ جنھیں قوم رہبر جانتی تھی وہ کم بخت چھپے رہزن نکلے۔ کیسے دیومالائی انداز میں سویلینز کا احتساب ہوا انتخاب سے پہلے۔ قربان جائیے۔
اے ترا غمزہ یک قلم انگیز
اے ترا ظلم سر بہ سر انداز
(غالبؔ)