فطرت کی رہنمائی

پاکستان میں بھی ہزار کی تعداد میں زہریلے پودے موجود ہیں، جنھیں مختلف دواؤں میں استعمال کیا جاتا ہے

shabnumg@yahoo.com

پچھلی بار کالم میں نباتات کے حوالے سے بات کی تھی۔ اس ضمن میں کیسٹر آئل (ارنڈی) کی افادیت کا ذکر آیا تھا۔ محترمہ ثمینہ یاسمین نے ای میل میں سوال کیا ہے کہ ''آپ نے Ricim کی تعریف کی ہے مگر وہ تو ایک زہر ہے۔ اس پر بھی روشنی ڈالیے'' ثمینہ صاحبہ آپ کی بات سو فیصد درست ہے کہ کیسٹر کا بیج مہلک زہر Ricin کا حامل ہے، جسے Toxic Protein کہا جاتا ہے۔ مگر تیل بنانے کے طریقہ کار کے دوران گرمی کی تپش سے یہ پروٹین زائل ہوجاتے ہیں۔

یونائیٹڈ نیشنز کی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (FDA) نے کیسٹر آئل کو محفوظ اور موثر قرار دیا ہے اور اسے Laxative کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ ہر انسان کے جسم کی کیمسٹری الگ ہے۔ اسے علم ہونا چاہیے کہ کون سی چیز اسے استعمال کرنی چاہیے اور کون سی ترک کردے تو بہتر، دوسری بات یہ کہ یہ تیل پیا بھی جاتا ہے مگر اس کی لوکل ایپلی کیشن زیادہ موثر ہے یعنی چمڑی، ناخن و بالوں پر لگانے سے کسی قسم کا نقصان سامنے نہیں آیا۔

جہاں تک نباتات کے زہریلے مادوں کا تعلق ہے تو اکثر دواؤں میں زہریلے پودے، جڑی بوٹیاں وغیرہ استعمال کی جاتی ہیں مگر ان کے تیل یا عرق کے کشید کرنے کے طریقے انھیں مکمل طور پر محفوظ بنا دیتے ہیں۔ چار سو سال پہلے یہ زہریلے کشید کیے ہوئے عرق کھانسی کی دوائی میں استعمال کیے جاتے تھے اور مرکری پاؤڈر بچوں کے دانتوں کے نکلنے کے وقت استعمال کیا جاتا تھا۔ بالکل اسی طرح Yewtree, Taxus ایک ایسا پودا ہے جسے 1960ء میں یو ایس نیشنل سینٹر انسٹیٹیوٹ نے کینسر کی دواؤں کے لیے مفید قرار دیا۔ صرف پودے اور جڑی بوٹیاں ہی علاج کے لیے مفید قرار نہیں پائے بلکہ جانوروں کا زہر بھی دواؤں میں استعمال کیا جاتا رہا ہے۔

مثال کے طور پر 100,000 جانوروں جیسے کہ چھپکلی، سانپ یا جیلی فش وغیرہ میں Venom(زہر) پایا جاتا ہے۔ مگر ایک ہزار زہر کے نمونے دواؤں میں استعمال کیے جاتے ہیں جو مہلک بیماریوں جیسے کہ کینسر، ذیابیطس یا دل کی بیماریوں کا دفاع کرتے ہیں۔ جونک کی مثال لے لیجیے، جسے دوا کے طور پر 2,500 سال سے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ جونک کے Saliva (تھوک) سے دل کی بیماریوں یا جسم میں خون جمنے والے امراض کی دواؤں کو تشکیل دیا جاتا ہے۔

نباتات میں بھی چار لاکھ اقسام کے پودے و جڑی بوٹیاں دستیاب ہیں۔ جن کا زہر کشید کرکے انھیں زندگی بخش ادویات میں تبدیل کردیا جاتا ہے۔

پاکستان میں بھی ہزار کی تعداد میں زہریلے پودے موجود ہیں، جنھیں مختلف دواؤں میں استعمال کیا جاتا ہے، خاص طور پر پاکستان کے شمالی علاقہ جات و مالاکنڈ وغیرہ میں مختلف اقسام کے پودے پائے جاتے ہیں، جو اپنے اندر شفایاب اثرات کے حامل بتائے جاتے ہیں۔ مالاکنڈ میں رہائش کے دوران میں نے یہ بات محسوس کی کہ وہاں کے لوگ اپنا علاج جڑی بوٹیوں سے کرتے ہیں اور کافی حد تک ان کی افادیت سے واقف ہیں۔


ان زہریلے پودوں میں واٹر ہیملاک بھی ہے جو سقراط کی موت کا باعث بنا تھا، جسے Cicuta Maculata کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں ڈیڈلی نائٹ شیڈ، وائٹ سنیک روٹ، کیسٹر بین، روزدی پی، اولینڈر، ٹوبیکو (نکوٹاٹیانا ٹیبیکم) وغیرہ شامل ہیں۔ جنھیں دوا کے طور پر کشید کیا جاتا ہے۔ ایٹروپا بیلاڈونا بھی ایک زہریلا پودا ہے جو اکثر درد کی دواؤں میں استعمال کیا جاتا ہے جو کھانسی سے لے کر پیٹ کے امراض کے لیے مفید ہے۔

لیکن جہاں ان کا استعمال فائدے سے منسوب کیا جاتا ہے وہاں ان کے مضر اثرات بھی ہیں۔ یہ فاسق پودے، جڑی بوٹیاں ایلوپیتھک دواؤں کے ساتھ حکمت کی ادویات میں بھی شامل کی جاتی رہی ہیں۔ اوپیم پوپی کا نام بھی آپ نے سنا ہوگا۔ جس سے خشخاش و افیم کے بیج دریافت ہوتے ہیں۔ انھیں درد کی ادویات میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اسپتالوں میں Moto Phine، Codeine، Hydromorphone سرجری کے درد کے حل کے طور پر جانے جاتے ہیں۔یہ دوائیں اوپیم پوپی کے اجزات سے تشکیل پاتی ہیں۔

خشخاش کی اگر بات کریں تو تھادل سندھ کا قومی مشروب کہلاتا ہے۔ خشخاش، بادام کے امتزاج سے پینے سے نروس سسٹم کو استحکام ملتا ہے اور یادداشت فعال ہوجاتی ہے۔ بعض اس کا استعمال دودھ میں کرتے ہیں۔ خشخاش کا حلوہ بھی بنتا ہے، جو ذہنی سکون اور فعالیت کے لیے موثر سمجھا جاتا ہے لیکن اب خشخاش کو بین الاقوامی طور پر منشیات میں شامل کرلیا گیا ہے۔ فضائی سفر کے دوران اس کے لے جانے پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ دریافت ہونے پر سزائے موت دی جائے گی۔

دوسری جانب بھنگ کو کینیڈا میں پابندیوں سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔ پاکستان میں اس کے استعمال پر پابندی ہے، جب کہ انڈیا میں ہولی فیسٹیول کے دوران اس کا استعمال عام ہے۔ انڈیا کے مختلف مذہبی تہواروں کے موقع پر یہ مشروب صدیوں سے استعمال ہوتا رہا ہے۔ Marijuna کے نام سے جانی جانے والی بھنگ، صدیوں سے آیورویدک دواؤں میں شامل کی جاتی رہی ہے۔ ان دواؤں کا استعمال آئی بی ایس، بے خوابی، درد اور معدے کے امراض میں مفید سمجھا جاتا ہے۔ تاہم اس کی مقدار کی زیادتی مہلک ثابت ہوسکتی ہے۔ دوا کے طور پر استعمال کرنے کے لیے ان پتوں کو کپڑے میں باندھ کر تین گھنٹے تک دودھ میں ابالا جاتا ہے۔ باہر نکالنے کے بعد جب خشک ہوجاتے ہیں تو انھیں گھی میں تلنے کے بعد دوا کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں ۔ ان کا استعمال اینگزائٹی، ڈپریشن، مثانے و جنسی امراض میں موثر گردانا جاتا ہے۔

دواؤں میں تمام تر نباتات کا استعمال قدیم تہذیبیں شروع سے کرتی آئی ہیں۔ جیسے چائنا میں ٹریڈیشنل چائنیز میڈیسن کا استعمال ہزاروں برسوں پر محیط ہے۔ یہ طبی ماہرین ہربل دواؤں کے ساتھ ذہن و جسم کی مختلف مشقوں کے ذریعے بیماریوں کا علاج کرتے ہیں۔ امریکا میں 1997ء سے دس ہزار TCM کے ماہر ہر سال ایک ملین مریضوں کی شفایابی کا سبب بنتے ہیں۔ مگر ان دواؤں کے مضر اثرات بھی اپنی جگہ موجود ہیں۔ مثال چینی جڑی بوٹی (Ma Haung) Ephedra پیچیدہ صحت کے امراض کا پیش خیمہ بنی، جس میں ہارٹ اٹیک اور فالج وغیرہ شامل ہے۔

انسان کی صحت اس کی اپنے احتیاط میں مضمر ہے ۔ وقت پر صحیح غذا، فطری علاج اور فطرت کی قربت۔ ذہنی و جسمانی پیچیدگیوں کا حل ہے۔ دواؤں کے فوائد و مضر اثرات ساتھ چلتے ہیں۔ فطرت سے بڑھ کر موثر طبیب کوئی اور نہیں ہوسکتا۔ پھول، پودوں، جڑی بوٹیوں و درختوں کی سمجھ اور دوستی ہمارے کئی پیچیدہ مسائل کا حل ڈھونڈ کر دے سکتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ انگریزی کے شاعر ولیم ورڈز ورتھ نے فطرت کو ماں کی گود قرار دیا ہے۔ اس کی نظر میں فطرت کے پاس رہنمائی کا جوہر موجود ہے۔
Load Next Story