ہیپاٹائٹس۔۔۔۔ خاموش قاتل

ڈیڑھ کروڑ پاکستانی ہیپاٹائٹس بی اور سی کا شکار ہیں، ہر سال دو لاکھ نئے کیسز سامنے آرہے ہیں

آگاہی اور علاج معالجے کی سہولیات کا فقدان پھیلاؤ کی اہم وجوہ ہیں

پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں ہیپاٹائٹس کا مرض تیزی سے پھیل رہا ہے مصر کے بعد ہیپاٹائٹس سی کے مریضوں کی سب سے زیادہ تعداد پاکستان میں ہے اور اس تعداد میں روز افزوں اضافہ ہورہا ہے۔

عالمی ادارۂ صحت کی گذشتہ برس جاری کی گئی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ہیپاٹائٹس کے پینتیس کروڑ مریض تھے ان مریضوں میں ڈیڑھ کروڑ پاکستانی بھی شامل تھے۔ پاکستان میں ہیپاٹائٹس کے ڈیڑھ کروڑ میں سے ایک کروڑ چالیس لاکھ ہیپاٹائٹس بی اور سی کے مریض ہیں جو اس مرض کی خطرناک اقسام شمار ہوتی ہیں۔ ہیپاٹائٹس کے پھیلاؤ کی بنیادی وجہ عوام الناس میں اس مرض کے حوالے سے شعور کی کمی اور علاج معالجے کی سہولیات کی عدم دستیابی ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ ہیپاٹائٹس پاکستان میں ایک چیلنج کی صورت اختیار کرگیا ہے، اگر اس پر قابو پانے کے لیے ہنگامی اقدامات نہ کیے گئے تو مستقبل قریب میں صورت حال سنگین تر ہوجائے گی۔

ہیپا ٹائٹس جگر کی سوزش یا ورم کو کہتے ہیں۔ عام طور پر یہ مرض وائرل انفیکشن سے لاحق ہوتا ہے مگر اس کے دیگر اسباب بھی ہوسکتے ہیں۔ جگر انسانی جسم کے بالائی حصے میں دائیں جانب ہوتا ہے۔ یہ اعضائے رئیسہ میں شامل ہے اور کئی انتہائی اہم افعال انجام دیتا ہے جو جسم کو توانائی فراہم کرنے کے عمل ( میٹابولزم) پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر:

٭ جگر میں صفرا نامی سیال مادّہ بنتا ہے جو غذا کو ہضم کرنے میں معاون ہوتا ہے۔

٭ یہ جسم سے زہریلے مادّوں کی تقطیر کرتا ہے اور ان کے اخراج میں مدد دیتا ہے۔

٭ جسم میں کاربوہائیڈریٹس، چربی، اور لحمیات کی ٹوٹ پھوٹ میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے جس سے جسم کو توانائی حاصل ہوتی ہے۔

٭ جگر مختلف خامروں یعنی مخصوص لحمیات کو فعال کرتا ہے جو جسمانی افعال کی انجام پذیری کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔

٭ گلائیکوجن ( ایک قسم کی شوگر) ، معدنیات، اور وٹامن ( اے ، ڈی ، ای اور کے) کی ذخیرہ گاہ ہے۔

٭ بلڈ پروٹین جیسے البومن کی تالیف یعنی سادہ سے پیچیدہ مرکب بنانے کا عمل جگر میں انجام پاتا ہے۔

اس کے علاوہ بھی جگر انسانی جسم میں کئی طرح کے افعال انجام دیتا ہے۔ چناں چہ اس کی صحت انسانی صحت کی ضامن ہوتی ہے۔ اس کی کارکردگی میں نقص پیدا ہوجائے تو پھر انسان کی صحت کا متأثر ہونا یقینی ہے۔ عام طور پر ہیپاٹائٹس کی دو اقسام بی اور سی کا تذکرہ زیادہ سننے میں آتا ہے، مگر ان کے علاوہ اس کی تین اور اقسام اے ، ڈی اور ای بھی ہوتی ہے۔ پانچوں اقسام کا سبب بننے والے وائرس الگ الگ ہوتے ہیں۔ ہیپاٹائٹس اے کی نوعیت کی اگرچہ شدید ہوتی ہے مگر اس کا دورانیہ مختصر ہوتا ہے، یعنی یہ جلد ختم ہوجاتا ہے۔ ہیپاٹائٹس بی، سی اور ڈی زیادہ خطرناک اور طویل المدت ہوتے ہیں۔ ہیپاٹائٹس ای بھی عام طور پر شدید ہوتا ہے۔ یہ قسم حاملہ خواتین کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔ ہیپاٹائٹس کے علاج معالجے کا انحصار اس بات پر ہے کہ مریض کو کون سی قسم لاحق ہے۔ ہیپاٹائٹس کی کئی اقسام سے بچاؤ حفاظتی ویکسین اور طرززندگی میں تبدیلی کے ذریعے بھی ممکن ہے۔

ہیپاٹائٹس کی اقسام
ہیپاٹائٹس اے

اس کا سبب ہیپاٹائٹس اے وائرس ( ایچ اے وی) بنتا ہے۔ عمومی طور پر ہیپاٹائٹس کی یہ قسم اس وائرس سے متأثرہ فرد کے فضلے سے آلودہ خوراک کھانے سے لاحق ہوتی ہے۔

ہیپاٹائٹس بی

متأثرہ فرد کے جسم سے نکلنے والے خون اور دوسرے سیال مادّوں اور رطوبتوں کے چُھو جانے سے صحت مند انسان اس سنگین مرض کا شکار ہوسکتا ہے۔ انجکشن کے ذریعے منشیات کا استعمال، متاثرہ فرد کے ساتھ جنسی روابط قائم کر نے ، متأثرہ شخص کا شیونگ ریزر استعمال کرنے سے ہیپاٹائٹس بی لاحق ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ امریکا کے سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن کے مطابق دنیا بھر میں پینتیس کروڑٖ افراد اس خطرناک مرض کا شکار ہیں۔

ہیپاٹائٹس سی

یہ قسم ہیپاٹائٹس سی وائرس ( ایچ سی وی ) کے جسم میں داخل ہونے کی وجہ سے لاحق ہوتی ہے۔ یہ وائرس متأثرہ فرد کے جسم سے خارج ہونے والے سیال مادوں سے براہ راست ربط میں آنے کی وجہ سے صحت مند شخص کے جسم میں داخل ہوجاتا ہے۔ انجکشن کے ذریعے منشیات کا استعمال اور غیرمحفوظ جنسی تعلقات خاص طور سے اس کی وجہ بنتے ہیں۔ہیپاٹائٹس کی یہ قسم سب سے عام ہے۔ درحقیقت بی اور سی ہی زیادہ خطرناک ہیں۔ عموماً ہیپاٹائٹس سے ہونے والی اموات کا سبب یہی دو اقسام ہوتی ہیں۔

ہیپاٹائٹس ڈی

اسے ڈیلٹا ہیپاٹائٹس بھی کہا جاتا ہے۔ یہ بھی ہیپاٹائٹس کی خطرناک قسم ہے جو ہیپاٹائٹس ڈی وائرس ( ایچ ڈی وی )کی وجہ سے لاحق ہوتی ہے۔ انسان متأثرہ فرد کے خون سے براہ راست ربط میں آنے کے بعد اس کا شکار ہوتا ہے۔ ہیپاٹائٹس ڈی کا ہیپاٹائٹس بی سے گہرا تعلق ہے۔ اس کا وائرس، ہیپاٹائٹس بی وائرس کی موجودگی ہی میں نمو پاتا ہے۔ گویا ہیپاٹائٹس کی یہ قسم اسی فرد کو لاحق ہوتی ہے جو پہلے ہی ہیپا ٹائٹس بی سے متأثر ہو۔ اس طرح یہ ہیپاٹائٹس کی نایاب قسم ہے۔

ہیپاٹائٹس ای

ہیپاٹائٹس کی اس قسم کا وائرس ان علاقوں میں پھیلتا ہے جہاں فراہمی و نکاسی آب کا نظام ناقص ہو اور پانی میں فضلے کی ملاوٹ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ہیپاٹائٹس ای کے زیادہ کیسز ایشیا، مشرق وسطیٰ ، وسطی امریکا اور افریقا میں سامنے آتے ہیں۔

مندرجہ بالا تما ہیپاٹائٹس کی متعدی یعنی ایک سے دوسرے کو لگنے والی اقسام ہیں۔ تاہم غیر متعدی اقسام بھی ہوتی ہیں۔ ان اقسام میں سب سے عام شراب نوشی کی وجہ سے جگر کی خرابی ہے۔ اسے طبی اصطلاح میں الکوحلک ہیپاٹائٹس کہاجاتا ہے۔ الکوحل سے جگر کے خلیے براہ راست متأثر ہوتے ہیں۔ کثرت مے نوشی کی وجہ سے جگر کے خلیے تباہ ہونے لگتے ہیں اور بالآخر اس کا نتیجہ جگر کے ناکارہ ہوجانے کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔ کثرت مے نوشی کے علاوہ ادویات کا حد سے زیادہ استعمال اور زہرخورانی بھی اس کا سبب بنتی ہے۔

بعض صورتوں میں جسم کا دفاعی نظام ( امیون سسٹم )ہی جگر کا دشمن ہوجاتا ہے۔ وہ جگر کو ضرر رساں سمجھتے ہوئے اس پر حملہ آور ہوجاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں جگر میں سوزش ہونے لگتی ہے۔ اس کی شدت زیادہ بھی ہوسکتی ہے۔ ہیپاٹائٹس کی یہ شکل عورتوں میں مردوں سے تین گنا زیادہ ہوتی ہے۔

ہیپاٹائٹس کی علامات

دنیا بھر میں متعدیہیپاٹائٹس کی طویل المدت اقسام یعنی بی اور سی زیادہ پائی جاتی ہیں۔ عموماً ان کی علامات اس وقت ظاہر ہوتی ہیں جب ان سے جگر کو نقصان پہنچنے لگتا ہے۔ ہیپاٹائٹس جب شدت اختیار کرجائے تو پھر اس کی درج ذیل علامات ظاہر ہوتی ہیں:

٭ جسمانی تھکن

٭ فلو کی سی علامات

٭ گہرے رنگ کا پیشاب آنا

٭ پیٹ میں درد

٭ فضلے کا رنگ زرد ہوجانا

٭بھوک نہ لگنا

٭ وزن میں مسلسل کمی جس کی کوئی وجہ سمجھ میں نہ آرہی ہو

٭ جلد اور آنکھوں کا رنگ پیلا پڑجانا، جو یرقان کی علامات بھی ہوسکتی ہے

ہیپاٹائٹس بی اور سی سست رفتاری سے نموپاتے ہیں، اسی لیے ان کی علامات زیادہ نمایاں نہیں ہوتیں اور اکثر انھیں نظرانداز کردیا جاتا ہے۔ عموماً ان کا انکشاف اس وقت ہوتا ہے جب جگر ان سے خاصا متأثر ہوچکا ہوتا ہے۔

ہیپاٹائٹس کا علاج


ہیپاٹائٹس کا علاج اس کی نوعیت اور قسم کے لحاظ سے کیا جاتا ہے۔

ہیپاٹائٹس اے

اس کے لیے عموماً علاج کی ضرورت نہیں پڑتی، کیوں کہ یہ مختصر مدت کا مرض ہے اور ازخود ختم ہوجاتا ہے۔ اگر مریض زیادہ بے چینی محسوس کرے تو پھر ڈاکٹر اسے مکمل آرام کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ اگر مریض کو قے اور اسہال ہونے لگیں تو پھر ڈاکٹر سے فوری رجوع کرنا چاہیے۔

ہیپاٹائٹس اے کے انفیکشن سے بچاؤ کے لیے حفاظتی ویکسین لگائی جاتی ہے۔ شیرخوار بچوں کو بارہ سے اٹھارہ ماہ کی عمر کے درمیان اس کی ویکسین لگائی جاتی ہے۔ بالغان کو بھی اس کی ویکسین لگائی جاسکتی ہے۔

ہیپاٹائٹس بی

ہیپاٹائٹس بی جب مزمن ہوجائے تو اس کا علاج اینٹی وائرل ادویہ سے کیا جاتا ہے۔ تاہم یہ طریقہ علاج مہنگا ہے کیوں کہ دوائیں طویل عرصے تک استعمال کرنی ہوتی ہیں۔ علاوہ ازیں مرض کی شدت کی جانچ کے لیے باقاعد گی سے معائنہ اور ٹیسٹ وغیرہ بھی کروائے جاتے ہیں۔ ویکسینیشن کے ذریعے ہیپاٹائٹس بی سے بچاؤ ممکن ہے۔ ہر نومولود کو ہیپاٹائٹس بی کی ویکسین کا کورس مکمل کروانا چاہیے۔

ہیپاٹائٹس سی

اس کا علاج بھی اینٹی وائرل ادویہ کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ بروقت علاج نہ ہونے کی صورت میں یہ مرض بگڑ جاتا ہے اور پھر اس کا علاج جگر کی پیوندکاری ہی ہوتا ہے جس کے اخراجات برداشت کرنا ہر مریض کے بس کی بات نہیں ہوتی۔

واضح رہے کہ ہیپاٹائٹس بی اور سی کا بروقت علاج نہ ہونے کی صورت میں جگر شدید متأثر ہوتا ہے، اور یہ مرض بڑھ کر جگر کے سرطان میں بھی تبدیل ہوسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں ہر سال دس لاکھ افراد ان امراض اور ان کی وجہ سے ہونے والی پیچیدگیوں کے باعث موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

فی الوقتہیپاٹائٹس سی کی کوئی ویکسین موجود نہیں ہے۔

ہیپاٹائٹس ڈی

فی الوقتہیپاٹائٹس کی اس قسم کا کوئی علاج موجود نہیں ہے۔ تاہم ہیپاٹائٹسبی کی ویکسین اس سے بچاؤ میں بھی مؤثر ہوتی ہے کیوں کہہیپاٹائٹس ڈی کا وائرس ہیپاٹائٹس بی کے وائرس کی موجودگی پنپتا ہے۔

ہیپاٹائٹس ای

ہیپاٹائٹس کی یہ قسم بھی فی الحال لاعلاج ہے۔ اس کے مریضوں کو عام طور پر آرام کرنے، زیادہ سے زیادہ مشروبات پینے اور مقوی غذائیں کھانے کی ہدایت کی جاتی ہے۔ تاہم مریض جو عموماً حاملہ خواتین ہوتی ہیں، انھیں باقاعدگی سے اپنا معائنہ کروانے کی ضرورت ہوتی ہے۔

ہیپاٹائٹس سے بچاؤ حفظان صحت

حفظان صحت کے اصولوں پر عمل کرنے سے ہیپاٹائٹس اے اور ای سے بچا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ جراثیم سے پاک پانی استعمال کیا جائے۔ بہتر یہ ہے کہ اُبلا ہوا پانی استعمال کیا جائے۔ مختلف کمپنیوں کے فلٹرشدہ پانی پر بھروسا نہ کیا جائے۔ سبزیاں، پھل وغیرہ اچھی طرح دھو کر استعمال کیا جائیں۔ ذاتی صفائی ستھرائی کے ساتھ گھر کی صفائی ستھرائی کا خاص اہتمام کیا جائے۔غرض جراثیم سے بچنے کے لیے ہر ممکن احتیاطی تدابیر اپنائی جائیں۔

ہیپاٹائٹس بی ، سی اور ڈی جو وائرس سے متأثرہ خون کے انتقال سے لاحق ہوتی ہیں، ان سے بچاؤ کے لیے مندرجہ ذیل احتیاطی تدابیر اپنائی جائیں:

٭ ڈسپوزایبل سرنج استعمال کی جائے

٭ کسی دوسرے کا شیونگ ریزر استعمال کرنے سے گریز کریں

٭ کسی دوسرے کا ٹوتھ برش استعمال نہ کریں

٭ خون یا خون کے قطرات کہیں پڑے ہوں تو انھیں چُھونے سے پرہیز کریں

٭ قربت کے تعلقات میں احتیاط برتیں

پیچیدگیاں

ہیپاٹائٹس بی اور سی صحت کے دیگر مسائل اور امراض کا باعث بن سکتے ہیں۔ چوں کہ وائرس جگر کو نشانہ بناتا ہے، لہٰذاہیپاٹائٹس بی اور سی کے مریض کو مندرجہ ذیل امراض بھی لاحق ہوسکتے ہیں:

٭ جگر کے امراض

٭صلابت جگر یعنی جگر کا چھوٹا اور بے ڈول ہوجانا

٭ جگر کا کینسر

جب جگر اپنے افعال انجام دینا چھوڑ دے تو پھر :

٭ جگر ناکارہ ہوسکتا ہے

٭ جسم سے خون کا اخراج ہوسکتا ہے

٭ پیٹ میں پانی پڑ سکتا ہے

٭ جگر میں داخل ہونے والی وریدوں میں بلڈ پریشر بڑھ جاتا ہے

٭ گردے ناکارہ ہوسکتے ہیں

٭تھکن،یادداشت کی کمزوری،دماغی صلاحیتوں کا ماند پڑجانا جیسی علامات ظاہر ہوسکتی ہیں

٭ آخر کار موت واقع ہوسکتی ہے
Load Next Story