انتخابی ضابطۂ اخلاق کون کرے گا پاسداری

دنیابھر میں انتخابی ضابطوں پر سختی سے عمل درآمد کرایاجاتاہے


ماضی میں بھی عام انتخابات سے قبل الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے ایک ضابطۂ اخلاق جاری کیاجاتا رہا فوٹو : فائل

ماضی میں بھی عام انتخابات سے قبل الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے ایک ضابطۂ اخلاق جاری کیاجاتا رہا، اس بار بھی الیکشن ایکٹ2017ء کے سیکشن 233کے تحت الیکشن کمیشن نے انتخابات میں حصہ لینے والی سیاسی جماعتوں، انتخابی امیدواروں، الیکشن ایجنٹوں اور پولنگ ایجنٹوں کے لئے ضابطۂ اخلاق مرتب کیا، اس ضمن میں 31مئی2018ء کو منعقدہ اجلاس بمقام الیکشن کمیشن سیکرٹریٹ میں سیاسی جماعتوں کے نمائندوں سے بھی مشاورت کی گئی۔

اس سے پہلے الیکشن کمیشن نے ضابطۂ اخلاق کا مسودہ سیاسی جماعتوں کو ارسال کیاتھا تاکہ وہ اس پر غوروخوض کریں اور مکمل تیاری کے ساتھ ڈرافٹ میں ترمیم واضافہ کے لئے اپنی تجاویز سمیت اجلاس میں شریک ہوں۔ مقررہ تاریخ کو چیف الیکشن کمشنر کی زیرصدارت اجلاس، جہاں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے تمام ارکان موجود تھے، میں سیاسی جماعتوںکے نمائندوں نے اپنی تجاویز پیش کیں۔ بعدازاں ان تجاویز کو الیکشن کمیشن کی منظوری کے بعد ضابطۂ اخلاق کا حصہ بناکر جون کے وسط میں جاری کیاگیا۔ ضابطۂ اخلاق کے مطابق:

٭ سیاسی جماعتیں ، انتخابی امیدواران اور الیکشن ایجنٹس ایسی کوئی بات یا عمل نہیں کریں گے جو نظریہ پاکستان ، ملک کی خودمختاری، سالمیت اور عدلیہ کی آزادی کے منافی ہو، وہ عدلیہ اور افواج پاکستان کی تضحیک بھی نہیں کریں گے۔

٭ سیاسی جماعتیں، انتخابی امیدواران ، الیکشن ایجنٹس اور ان کے سپورٹرز کسی بھی فرد کو الیکشن لڑنے یا نہ لڑنے، انتخابی عمل سے دستبردار ہونے یا دستبردار نہ ہونے کے لئے کوئی تحفہ یا رشوت یا ترغیب نہیں دیں گے۔

٭ سیاسی جماعتیں الیکشن ایکٹ کے سیکشن 206 کے تحت جنرل سیٹوں پر کم ازکم پانچ فیصد نمائندگی خواتین کو دیں گے، وہ کوئی ایسا معاہدہ نہیں کریں گی جس کے تحت مرد وخواتین یا مخنثوں کوانتخابی امیدوار بننییا ووٹ ڈالنے سے روکاجائے۔ سیاسی جماعتیں خواتین کی انتخابی عمل میں حصہ لینے کے لئے حوصلہ افزائی کریں گی۔

٭انتخابی امیدوار، الیکشن ایجنٹ اور ان کے سپورٹرز کسی وفاقی و صوبائی سرکاری، نیم سرکاری ادارے کے کسی بھی ملازم سے اپنے انتخابی عمل میں تعاون حاصل نہیں کریں گے۔ یہ عمل غیرقانونی تصور کیاجائے گا۔

٭امیدوار بینک میں ایک خصوصی اکاؤنٹ کھلوائے گا، جس میں انتخابی عمل کے لئے رقوم جمع کرائی جائیں گی اور وہ اسی بینک اکاؤنٹ سے اخراجات کرنے کا پابند ہوگا، یہاں سے رقوم انھی فرموں یا افراد کو جاری کی جائیں گی جو ٹیکس(جنرل سیلزٹیکس) اداکرتے ہوں۔

٭انتخابی اخراجات میں وہ اخراجات شامل ہوں گے جو انتخابی امیدوار کے ایما پر اس کی پارٹی یا کوئی فرد کرے گا۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے انتخابی امیدواروں کی حتمی فہرست جاری ہونے کے ہر پندرہ دن بعد امیدوار انتخابی اخراجات کی اسٹیٹمنٹ ریٹرننگ افسرکو جمع کرائے گا۔

٭سیاسی جماعتیں، انتخابی امیدواران اور الیکشن ایجنٹس اپنے ورکرز کو پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر دباؤ ڈالنے سے باز رکھیں گے، اس میں اخبارات کے دفاتر، پرنٹنگ پریس بھی شامل ہوں گے۔ وہ میڈیا کے خلاف اشتعال انگیزی اور حملوں سے باز رکھیں گے۔

٭انتخابی اجتماعات میں کسی بھی قسم کا آتشیں اسلحہ نہیں لایاجائے گا، اس کی نمائش نہیں کی جائے گی۔ یہ پابندی پولنگ کے دن، ریٹرننگ افسروں کی طرف سے انتخابی نتائج جاری ہونے کے 24گھنٹے بعد تک برقرار رہے گی۔ اس کی خلاف ورزی کو غیرقانونی عمل تصور کیاجائے گا۔ عوامی اجتماعات اور پولنگ اسٹیشنز کے نزدیکی علاقے میں کسی بھی فرد کی طرف سے کسی بھی قسم کی فائرنگ، ہوائی فائرنگ، کریکرز کا استعمال غیرقانونی ہوگا۔

٭صدرمملکت، وزیراعظم، چئیرمین اور ڈپٹی چئیرمین سینیٹ، اسمبلیوں کے اسپیکرز اور ڈپٹی اسپیکرز، وفاقی وزرا، وزرائے مملکت، گورنرز، وزرائے اعلیٰ، صوبائی وزراء، وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کے مشیران، شہروں کے مئیرز، چئیرمین، ناظمین اور ان کے نائبین، دیگرتمام سرکاری ملازمین انتخابی مہم میں کسی بھی اندازمیں شرکت نہیں کریں گے۔ نگران سیٹ اپ کا بھی کوئی فرد ایسا نہیں کرسکے گا۔ اگرکسی اسمبلی کا اسپیکر خود انتخاب لڑے تو وہ اس پابندی سے مستثنیٰ ہوگا لیکن وہ سرکاری پروٹوکول اور وسائل استعمال نہیں کرسکے گا۔

٭ کوئی سیاسی جماعت پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں سرکاری رقوم استعمال کرتے ہوئے انتخابی مہم نہیں چلاسکتی، نہ ہی ایسی رقم کے بدلے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں اشتہارات دئیے جاسکتے ہیں۔ وفاقی، صوبائی اور مقامی حکومتیں بھی کسی انتخابی پارٹی کے حق میں مہم نہیں چلاسکتیں۔

٭ کوئی سیاسی جماعت، انتخابی امیدوار اور الیکشن ایجنٹ پولنگ والے دن کوئی ایسا پمفلٹ یا پرچی تقسیم نہیں کرسکتی جس پرسیاسی جماعت اور امیدوار کا نام اور انتخابی نشان موجود ہو۔ بالخصوص پولنگ سٹیشن اور اس کے اردگرد400میٹر کے علاقے میں ایسی کوئی بھی سرگرمی برداشت نہیں کی جائے گی۔

٭ کوئی بھی فرد یا سیاسی جماعت 18 x 23 انچ سے بڑا پوسٹر نہیں استعمال کرسکتی،9×6 انچ سے بڑا ہینڈبل، پمفلٹ اور لیف لیٹ شائع نہیں کرے گی، 3×9 فٹ سے بڑا بینر اور2×3 فٹ سے بڑا پورٹریٹ نہیں لگاسکے گی۔ انتخابی امیدوار اور سیاسی جماعت مذکورہ بالا مواد پر متعلقہ پرنٹر، پبلشر کا نام اور ایڈریس شائع کرے گی۔ خلاف ورزی کو غیرقانونی عمل تصورکیاجائے گا۔

٭ انتخابی مواد پر قرآن مجید اور احادیث نبویﷺ، دیگرمذاہب کے مقدس کلمات کو شائع نہ کیاجائے تاکہ ان کی بے ادبی نہ ہو۔

٭ سیاسی جماعتیں، انتخابی امیدواران اور الیکشن ایجنٹس دیواروں اور عمارتوں پرکسی بھی اندازمیں پوسٹرزچسپاں نہیں کریں گے۔ ہورڈنگز، بل بورڈز، وال چاکنگ اور کسی بھی سائز کے پینافلیکسز پر مکمل پابندی ہوگی۔کسی بھی سیاسی جماعت، انتخابی امیدوار اور الیکشن ایجنٹ کی طرف سے سرکاری افسر کی تصویر کو انتخابی مہم کے دوران میں استعمال نہیں کیاجاسکے گا۔

٭کسی بھی پارٹی کے ورکرز کسی دوسرے کے پوسٹرز، پورٹریٹس اور بینرز نہیں اتاریں گے اور نہ ہی اپنے پوسٹرز اور بینرز کسی کی دیوار یا ملکیتی جگہ پر مالک کی اجازت کے بغیر لگاسکتے ہیں۔

٭ سیاسی جماعت اور انتخابی امیدواران صرف ان جگہوں اور روٹس پر جلسے اور ریلیاں کرسکیں گے جن کا متعلقہ حکومتیں تعین کریں گی، ایسی کسی بھی سرگرمی کے لئے انتظامیہ سے اجازت لینا ہوگی۔ انتظامیہ بھی اس جلسہ اور ریلی کے تناظر میں ایسے انتظامات کرے گی جس کے نتیجے میں عوام الناس کی نقل وحرکت میں رکاوٹ پیدا نہ ہو۔

٭ضابطۂ اخلاق میں بے بنیاد الزامات اور امیدواروں کی ذاتی زندگی پر تنقید پر سخت پابندی عائد کی گئی ہے،قراردیاگیاہے کہ ضابطۂ اخلاق کی کسی بھی قسم کی خلاف ورزی کو غیر قانونی عمل سمجھا جائے گا۔

٭ کوئی بھی امیدوار، الیکشن ایجنٹ یا سپورٹر یا پھر پولنگ ایجنٹ پریذائیڈنگ افسر، اسسٹنٹ پریذائیڈنگ افسر اور سیکورٹی پر مامور اہلکاروں کی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں میں رکاوٹ نہیں ڈالے گا، اسی طرح ان اہلکاروں کے خلاف کسی بھی قسم کی اشتعال انگیزی نہیں کی جائے گی ۔

٭ انتخابی امیدوار، الیکشن ایجنٹ اور سپورٹرز ووٹرز کو پولنگ سٹیشن تک لانے یا واپس لے جانے کے لئے گاڑیاں استعمال نہیں کرے گا، وہ صرف اپنے اور اپنے گھرانے کے افراد کو لانے کے لئے گاڑی استعمال کرسکتے ہیں۔ یہ پابندی سیاسی جماعتوں کے لئے بھی ہے۔

٭ انتخابی امیدواران، سیاسی جماعتیں ، الیکشن ایجنٹس اور سپورٹرز دیہاتی علاقوں میں پولنگ سٹیشن کے اردگرد400 میٹر اور شہری علاقوں میں100میٹر کے اندر انتخابی کیمپس قائم نہیں کرسکیں گے۔ ان کیمپوں پر بھی کچھ ایسا نہیں ہوناچاہئے جو کسی امیدوار یا سیاسی جماعت کی انتخابی مہم کے زمرے میں آتاہو۔ اس میں تشہیری مواد، بیجز، ٹوپیاں اور سٹکرز وغیرہ بھی شامل ہیں۔ الیکشن کمیشن 8300 پر ایس ایم ایس کرکے اپنے ووٹ اور پولنگ سٹیشن کی بابت معلومات فراہم کرے گا۔

٭ ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر اور ریٹرننگ افسر ضلعی و مقامی انتظامیہ ، پولیس کے تعاون سے انتخابی ضابطۂ اخلاق کو نافذ کرنے کے ذمہ دار ہوں گے۔ وہ فوری طور پر قانون کے مطابق سزائیں سنانے کے مجاز ہوں گے۔

٭ضابطۂ اخلاق کے مطابق دوسری سیاسی جماعتوں اور مخالف امیدواروں پر تنقید ان کے ماضی کے ریکارڈ کے حوالے سے، ان کی پالیسیوں اور پروگرام تک محدود ہونی چاہیئے۔پارٹیوں اور امیدواروں کودوسرے پارٹی کے رہنماؤں اور کارکنان کی نجی زندگی جس کا تعلق عوامی سرگرمیوں سے نہ ہو پر تنقید سے اجتناب کرنا ہوگا۔ غیر مصدقہ الزامات اور حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرکے تنقید کرنے اسے اجتنا ب برتا جائے۔

٭سیاسی جماعتیں ، انتخابات میں حصہ لینے والے امیداواروں ، الیکشن ایجنٹس اور ان کے حامیوںکو جان بوجھ کر غلط اور عداوت پر مبنی معلومات پھیلانے سے اجتناب کرنا ہوگاکہ جس سے دوسری سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں کی بدنامی ہو۔ سیاسی رہنماؤں اور امیدواروں کے خلاف بدزبانی کو ہرقیمت روکنا ہوگا۔

٭ہر شخص کی پرامن اور پرسکون نجی زندگی گزارنے کے حق کا احترام کیا جائے گا ، چاہے اس کی سیاسی جماعت یا امیدوار سے کتنی ہی مخاصمت ہو۔ ایسے افراد کی سیاسی رائے کے خلاف احتجاج کی خاطر اس کے گھر کے باہر دھرنے جیسی سرگرمیوں کا ہر صورت تدارک کیا جائے گا۔

٭ ضابطۂ اخلاق کی کسی بھی شق کی خلاف ورزی پر تعزیری کارروائی عمل میں لائی جائے گی ، مثلاًانتخابات کو کرپٹ یا غیر قانونی اعمال کی وجہ سے کالعدم قرار دے دیا جائے گا۔ اسی طرح ضابطۂ اخلاق انتخابی عمل یا مہم کے دوران ووٹرز کو کسی قسم کا فائدہ پہنچانے پر پابندی بھی عائد کرتا ہے۔

ضابطۂ اخلاق کے پوائنٹ 61کے مطابق آرٹیکل 218(3)ای سی پی کو اس بات کا اختیار دیتا ہے کہ وہ کسی بھی غلط اعمال کے خلاف تحفظ فراہم کرے۔ مثلاًبھتا خوری، کسی کا روپ دھارنا، کسی پر اثر انداز ہونا، پولنگ اسٹیشن یا پولنگ بوتھ پر قبضہ کرنا، پیپرز میں تبدیلی او ر غلط بیان یا ڈیکلیئریشن بنانا یا شائع کرنا اور الیکشن اخراجات کی مقررہ حد سے تجاوز کرنا وغیرہ۔ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی پر تعزیری اقدامات کیے جاسکتے ہیں مثلاًالیکشن کو کرپٹ یا غیرقانونی اعمال کے باعث کالعدم قرار دے دیا جائے۔

پاکستان کی انتخابی تاریخ کا جائزہ لیاجائے تو معلوم ہوتاہے کہ الیکشن کمیشن ملک کاسب سے کمزور ادارہ ہے۔ ہمیشہ عام انتخابات کے موقع پر انتخابی ضابطۂ اخلاق کی سنگین ترین خلاف ورزیاں ہوتی ہیں لیکن کمیشن ان کا کسی بھی سطح پر نوٹس نہیں لیتا۔ اگرکوئی ان کے ہاں شکایت لے کر آجائے تو اس کی شکایت کو جلد ہی خارج کردیاجاتاہے یاپھر اس قدر معرض التوا میں ڈال دیاجاتاہے کہ شکایت کنندہ خود ہی مایوس ہوکر گھر بیٹھ جائے۔

پاکستان میں کوئی ایسا الیکشن نہیں گزرا جس میں انتخابی امیدواروں نے مقررہ حدود کے اندر انتخابی اخراجات کئے ہوں۔ حالیہ عام انتخابات کے لئے الیکشن کمشن کے مطابق قومی اسمبلی کے امیدوار کے لیے اخراجات کی حد40 لاکھ اور صوبائی اسمبلی کے امیدوار کے لئے 20 لاکھ مقرر ہے۔ یعنی ایک امیدوار کی انفرادی اخراجات کی حد متعین کردی گئی ہے لیکن ایک جماعت کس قدر خرچ کرسکتی ہے۔

اس کی کوئی حد نہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ پاکستان میں امیدواران برائے رکنیت قومی وصوبائی اسمبلی کی اکثریت اس طرح کی حدود سے تجاوز کرتی ہے اور اس پر الیکشن کمیشن اپنا منہ دوسری طرف پھیر لیتاہے۔ سن2013 کے انتخابات میں الیکشن مہم کے دوران نت نئی روایتیں قائم ہوئیں،الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں مہم چلانے کے لیے سیاسی جماعتوں نے بہت زیادہ پیسہ خرچ کیا لیکن اس پر الیکشن کمیشن ٹس سے مس نہیں ہوا۔ وہ غیرقانونی عمل کے مرتکب فرد کو کبھی سزائیں نہ دے سکا۔

یادرہے کہ ضابطۂ اخلاق صرف عام انتخابات ہی کے لئے نہیں ہوتا بلکہ اگلے عام انتخابات تک منعقدہ ضمنی انتخابات میں بھی نافذالعمل ہوتاہے۔ گزشتہ چندبرسوں کے دوران میں ملک بھر میں منعقدہ ضمنی انتخابات میںبعض امیدواروں کے ایک ایک جلسہ پر کروڑوں روپے کے اخراجات ہوئے، اس حوالے سے میڈیا میں خبریں شائع بھی ہوئیں لیکن الیکشن کمیشن نے کبھی ایسی خبروں کا نوٹس نہیں لیا۔ اس کا واضح مطلب ہے کہ الیکشن کمیشن ایک امیدوار کے لئے انتخابی اخراجات کی ایک حد مقرر کرکے سوجاتاہے اور اسے کوئی پرواہ نہیں ہوتی کہ کوئی اس حد کی خلاف ورزی کرتاہے یا نہیں۔

ماہ رواں کے وسط میں جاری ہونے والا یہ پہلا انتخابی ضابطۂ اخلاق نہیں ہے کہ جس میں امیدواروں کو خصوصی بینک اکاؤنٹ کھلوانے، اس میں انتخابی عمل کے لئے رقوم جمع کرانے اور اسی بینک اکاؤنٹ سے اخراجات کرنے کا پابند کیا گیاہو، گزشتہ انتخابات کے موقع پر جاری کردہ ضابطۂ اخلاق میں بھی کہاگیا تھا کہ انتخابی اخراجات کے لئے انہی فرموں یا افراد کو رقوم جاری کی جائیں گی جو ٹیکس(جنرل سیلزٹیکس) اداکرتی ہوں۔تاہم اس ضابطے کی پاسداری شاید ہی کہیں دیکھنے کو ملی ہو۔ ایسی مثال بھی کم ہی دکھائی دی کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے انتخابی امیدواروں کی حتمی فہرست جاری ہونے کے ہر پندرہ دن بعد انتخابی امیدواروں نے انتخابی اخراجات کی سٹیٹمنٹس ریٹرننگ افسرکو جمع کرائی ہوں۔

حالیہ انتخابی مہم کے دوران میں بھی ہر حلقے کی گلیوں، کوچوں، چوکوں اور چوراہوں میں ضابطۂ اخلاق میں متعین سائز سے زیادہ بڑے سائز میں پوسٹرز اور پورٹریٹ آویزاں کئے جارہے ہیں، مکمل پابندیکے باوجود مختلف حلقوں میں ہورڈنگز اور بل بورڈز نصب کئے جارہے ہیں۔ ضابطۂ میں انتخابی مواد پر قرآن مجید اور احادیث نبویﷺ، دیگرمذاہب کے مقدس ناموں اور کلمات کے استعمال کو بھی ممنوع قراردیاگیاہے تاکہ ان کی بے ادبی نہ ہو۔ تاہم سیاست میں قدم رکھنے والی ایک نئی مذہبی جماعت اپنے پوسٹرز، پمفلٹس، پینافلیکسز اور دیگرتشہیری مواد پر رسول اکرم ﷺ کا اسم گرامی استعمال کررہی ہے اور ووٹروں کو واضح طور پر کہاجارہاہے کہ ان کی جماعت کے امیدوار کو ووٹ دینے کا مطلب جنت میں داخلہ ہے۔ ایک تاثر ہے کہ اس مذہبی جماعت کی پشت بانی بعض طاقت ور گروہ کررہے ہیں، اس لئے وہ انتخابی ضابطۂ اخلاق کی کھلم کھلا خلاف ورزیاں کررہی ہے۔اگرایک گروہ کو ایسی حرکتوں سے صرف نظر کیا جائے تو باقی گروہوں کو بھی نہیں روکا جاسکتا۔ اگروفاقی اور صوبائی چیف الیکشن کمشنرز صرف چند گھنٹوں کے لئے اپنے ائیرکنڈیشنڈ دفاتر سے باہر نکلیں، شہروں کا دورہ کریں تو ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزیاں جابجا ان کا منہ چڑائیں گی۔

ضابطۂ اخلاق میں واضح طور پر لکھاہواہے کہ کسی بھی سطح کے حکمران الیکشن شیڈول جاری ہونے کے بعد کسی بھی ترقیاتی اسکیم کا خفیہ یا علانیہ اعلان نہیں کرسکتے، کسی بھی ایسی ترقیاتی اسکیم کا افتتاح یا کوئی دوسری سرگرمی سرانجام نہیں دے سکتے جس کے نتیجے میں وہ ووٹرز پر اثراندازہوں۔ اس کے باوجود حکمران پارٹی اور حکومتی شخصیات کھلم کھلم اس ضابطے کی خلاف ورزی کرتی رہی ہیں لیکن متعلقہ فرد کو محض طلب کرکے چھوڑ دیاجاتاتھا، اس کے لئے کوئی ایسی سزا تجویز نہیں کی گئی جس سے ایسی خلاف ورزیوں کا راستہ رک سکے۔

عمران خان جن کی پارٹی 'تحریک انصاف' کی پانچ سال تک صوبہ خیبرپختونخوا میں حکومت رہی، وہ بار بار ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی کرتے رہے ، ان کے خلاف کیسز الیکشن کمیشن میں آئے لیکن تاریخوں پر تاریخیں دی جاتی رہیں حتیٰ کہ پانچ سالہ مدت ہی ختم ہوگئی۔ اسی طرح 2013ء سے2018ء تک وفاق اور صوبہ پنجاب کی حکمران 'مسلم لیگ ن' سے تعلق رکھنے والے وزرا اور ارکان اسمبلی کے خلاف بھی ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزیوں سے متعلق کیسز درج ہوئے لیکن کوئی بھی کیس اپنے منطقی انجام تک نہ پہنچ سکا۔

سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن آف پاکستان کنورمحمد دلشاد کا کہناہے کہ ''ہمارے ہاں بھی انتخابات کے حوالے سے بڑے سخت قانون موجود ہیں لیکن عمل درآمد نہیں ہوتا، انتخابات کے دنوں میں الیکشن کمیشن کی باگ دوڑ ریٹرننگ افسروں کے ہاتھ میں آجاتی ہے،ہرحلقے میں الیکشن کمیشن کے ضابطۂ اخلاق پر عمل درآمد کی ذمہ داری ریٹرننگ افسر ، ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر پر ہوتی ہے یا اس کمیٹی پر جو کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کی سربراہی میں بنائی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں ادارے اشرافیہ کے خلاف کارروائی نہیں کرسکتے۔انتخابی ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی بہت سے لوگوں نے کی ، ضمنی انتخابات میں بھی خلاف ورزی کی گئی لیکن کوئی کارروائی نہیں کی گئی، تاریخوں پر تاریخیں ڈالی جاتی ہیں، چار سال گزرنے کے باوجود کسی کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیاگیا،خواجہ سعد رفیق کو الیکشن ٹریبونل نے نااہل قراردیا، پھر ان کا کیس چارسال تک سپریم کورٹ میں چلتا رہا، اب اسمبلیاں ختم ہوگئیں اور کیس بھی ختم ہوگیا''۔

''مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں عملدرآمد نہیں ہوتا بلکہ عمل درآمد کرانے کی خواہش بھی نہیں ہے۔بس! رسمی کارروائی ہوتی ہے، بھارت میںا گرکوئی پارٹی ضابطۂ اخلاق کی پابندی نہ کرے تو الیکشن کمیشن اس پر پابندی عائد کردیتاہے۔وہاں فیصلے ایک دو دن میں کردیتے ہیں یہاں چار، پانچ سال تک لٹکے رہتے ہیں۔ عمران خان کی پارٹی کے خلاف فارن فنڈنگ کا کیس ہے، ابھی تک کاغذی کارروائی ہوئی ہے، کوئی ایکشن نہیں لیاگیا۔ ہمارے ہاں نوٹس پر نوٹس جاری ہوتے رہتے ہیں، بھارت میں نوٹس جاری کیا جاتاہے، اگرپارٹی سربراہ نہیں آتا تو اس کی پارٹی کو کالعدم قراردیدیاجاتاہے''۔

ضابطۂ اخلاق کے تحت کسی بھی سرکاری عہدیدار کی تصویر کسی بھی تشہیری یا الیکشن مواد پر شائع نہیں کی جاسکتی۔ تاہم دیکھنے میں آرہاہے کہ ہمارے ہاں سیاسی مقاصد کی خاطر پاک فوج کے سربراہ کی تصاویر کا استعمال کیاجاتا ہے، ظاہر ہے کہ وہ سرکاری ملازم ہیں، آئین پاکستان فوج کو سیاست سے دور رکھنے کے عمل کو یقینی بنانے کی بات کرتاہے لیکن انتخابی امیدواران بلکہ ایک آدھ سیاسی جماعت کے امیدواران بھی محض یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ انھیں فوج کی آشیرباد حاصل ہے، چیف آف آرمی سٹاف کی تصاویر کا استعمال کرتے ہیں، افسوسناک امر یہ ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان اس سے چشم پوشی اختیار کرتا رہا ہے۔

بھارتی الیکشن کمیشن کی نسبت پاکستانی الیکشن کمیشن کی فعالیت اور کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ بھارت میںانتخابی ضابطے کے مطابق ہر امیدوار کو الیکشن کے بعد اپنے اخراجات کی تفصیلات ریاستی الیکشن کمیشن کے سامنے پیش کرنا ہوتی ہیں۔ اگر کوئی امیدوار ایسا نہ کرے تو الیکشن کمیشن اس کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے تین سال تک امیدوار کو انتخابات میں حصہ لینے کے لئے نااہل قرار دیتا ہے۔ انتخابی اخراجات الیکشن کمیشن کے سامنے پیش کرنا شکست خوردہ امیدواروں کے لئے بھی ضروری ہیں۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ ہمارے یہاں ضابطے بنائے جاتے ہیں لیکن ان کی پاسداری نہیں کرائی جاتی، امیدوار انتخابی اخراجات کی حد سینہ تان کے توڑتے ہیں لیکن الیکشن کمیشن والے ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی صورت بنے نظر آتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایسے الیکشن کمیشن کا فائدہ جو اپنے ہی بنائے ہوئے ضابطوں کی پابندی کرانے کی اہلیت نہ رکھتا ہو۔

عام انتخابات 2018ء، موجودہ الیکشن کمیشن کے لئے بہترین موقع ہیں کہ وہ اپنی آزادی اور وقار ثابت کرسکے۔ اگرچہ اس نے امیدواروںکو آئین کی دفعہ 62اور63کی چھلنی سے نہیں گزارا، اسے کئی مہینوں پہلے اعلان کرناچاہئے تھا کہ سیاسی جماعتیں آئین کی مذکورہ بالا دفعہ کے تحت پورے اترنے والے امیدوار ہی میدان میں اتاریں کیونکہ وہ چھلنی سے گزر کر ہی پارلیمان کی طرف دوڑ میں شریک ہوسکتے ہیں تاہم ایسا نہ کیاگیا۔ اب بھی وقت ہے کہ وہ ایک طرف امیدواروں کے بارے میں چھان بین کرے، جو آئین میں درج شرائط پر پورے نہ اتریں، انھیں منتخب ہوجانے کی صورت میں بھی نااہل قراردے۔ دوسری طرف وہ انتخابی ضابطۂ اخلاق کی معمولی سی خلاف ورزی کو بھی برداشت نہ کرے اور مرتکب افراد کو سزائیں دے۔ جو سیاسی جماعتیں اور امیدوار مسلسل سنگین خلاف ورزیوں کا ارتکاب کریں، انھیں اگلے انتخابات کے لئے نااہل قراردے۔ صرف اسی صورت میں ملک تعمیر وترقی کی بہترین شاہراہ پر گامزن ہوسکتاہے۔

دنیا میں ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی پر سزائیں
انتخابات کو آزادانہ و منصفانہ، صاف وشفاف بنانے کے لئے دنیا بھر میں ضابطے تقریباً ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔ مثلاً پاکستان اور بھارت کے ضابطۂ اخلاق میں درج 80 فیصد نکات یکساں ہیں۔ الیکشن کمیشن آف انڈیا کے ضابطۂ اخلاق 2014میں آئین، انتخابی قوانین اور ہدایات پر سختی سے عمل پیرا ہونے کی بات کی گئی ہے،کسی بھی عوامی ریلی یا جلسے سے قبل باقاعدہ اجازت لینا اور الیکشن والے روز بیان کیے گئے طریقہ کار پر عمل درآمد کا کہا گیا ہے، بے بنیاد الزامات اور امیدواروں کی ذاتی زندگی پر تنقید پر سخت پابندی عائد کی گئی ہے۔

قراردیاگیا ہے ضابطۂ اخلاق کی کسی بھی قسم کی خلاف ورزی کو غیر قانونی عمل سمجھا جائے گا۔ دوران مہم یا پولنگ کے روز نشہ آور محلول کی ترسیل پر سخت پابندی ہے، دوسری سیاسی جماعتوں پر جب تنقید کی جائے گی تو وہ ان کے ماضی کے کام اور ریکارڈ کی بنیا دپر ان کی پالیسیوں اور پروگرام تک محدود ہوگی۔ کہاگیاکہ امیدوار اور سیاسی جماعتیں ذاتی زندگی پر تنقید سے اجتناب کریں ، جس کا تعلق لیڈروں کی عوامی زندگی سے یا دیگر سیاسی کارکنان سے نہیں ہو۔دوسری جماعتوں اور ان کے کارکنوں پر غیر مصدقہ الزامات سے اجتناب برتا جائے۔ قراردیاگیا کہ ہر شخص کی پرامن گھریلو زندگی کا احترام کیا جائے ، تاہم زیادہ تر سیاسی جماعتیں اور امیدوار اپنی سیاسی آرا اور سرگرمیوں کی خفگی کا اظہار کرسکتی ہیں۔کسی بھی فرد کے خلاف اس کے گھر کے آگے دھرنے دینا تاکہ اس کی رائے کے خلاف احتجاج کیا جائے ، کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔

بھارت میں ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی پر بڑی تعدادمیں امیدواروں(چاہے وہ شکست خوردہ ہی کیوں نہ ہوں) کو نااہلی کا سامنا کرنا پڑا، بعض سیاسی جماعتوں پر پابندی بھی عائد کی گئی۔ جنوبی افریقہ نے بھی انتخابی ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی پر سخت ترین سزائیں رکھی ہیں۔ اگرکوئی امیدوار اس کا ارتکاب کرے گا تو اسے جرمانہ ادا کرنا پڑے گا بصورت دیگر 10برس کے لئے جیل جانا پڑے گا۔ اگرکوئی سیاسی پارٹی خلاف ورزی کرتی ہے تو اسے دولاکھ روپے تک جرمانہ عائد کیاجاتاہے، اسکا زرضمانت ضبط کرلیاجاتاہے، جس علاقے میں خلاف ورزی کی ہے وہاں سیاسی جماعت کو کام کرنے سے روک دیاجاتاہے، متعلقہ علاقے میں اس پارٹی کے حق میں کاسٹ ہونے والے ووٹ مسترد کردئیے جاتے ہیں۔ اگرخلاف ورزی سنگین تر ہوگی تو پارٹی کی رجسٹریشن منسوخ کردی جاتی ہے۔

ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی، آج تک کوئی بھی نااہل نہ ہوسکا
سن 2012ء میں اُس وقت کے چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم نے کہاتھا کہ انتخابی ضابطۂ اخلاق پر عمل درآمدکے لئے صرف اخلاق سے کام نہیں چلے گا بلکہ سخت اقدامات کرنا ہوں گے، ان کے دور میں الیکشن کمیشن نے فیصلہ کیا کہ انتخابی ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے والے امیدوار کو نااہل قرار دیاجائے گا۔ سن 2013ء کے انتخابات سے قبل الیکشن کمیشن کے اُس وقت کے سیکرٹری اشتیاق احمد نے کہاتھا:''جو بھی امیدوار ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی کرے گا، نااہلی کی سزا کا مستوجب ہوگا۔''

2015ء میں ضمنی انتخابات کے موقع پر الیکشن کمیشن کے سیکرٹری بابر یعقوب فتح نے کہا تھا کہ قومی اور صوبائی اسمبلی کے تینوں حلقوں میں ضابطۂ اخلاق پرعمل درآمد ہر صورت یقینی بنایا جائے گا،کسی بھی قسم کی خلاف ورزی پر فوری کارروائی ہوگی اور معاملہ نااہلی تک بھی جاسکتا ہے۔ انھوں نے آئین کے آرٹیکل 204 اور عوامی نمائندگی ایکٹ کے سیکشن103 اے کے تحت جرمانوں اور سزائوں کی بات بھی کی تھی۔ یادرہے کہ الیکشن کمیشن کے ضابطۂ اخلاق کو حکم نامہ کا درجہ دیاگیا ہے جس کی خلاف ورزی توہین عدالت کے زمرے میں آئے گی۔ تاہم انتخابی مہم کے دوران میں اور انتخاب کے دن سنگین ترین خلاف ورزیاں کی جاتی رہیں لیکن کسی امیدوار کو نااہل نہ کیاگیا، کسی سیاسی جماعت پر پابندی عائد نہ کی گئی۔ n

آئین کی دفعہ 62 اور 63... الیکشن کمیشن کی ذمہ داری
آئین پاکستان کی دفعات62اور63 بتاتی ہیں کہ پارلیمان کے ارکان کن خصوصیات کے حامل ہوں گے اور کون سی خامیوں کی بنیاد پر نااہل ہوجائیں گے۔ دفعہ 62 کے مطابق پارلیمان کا رکن منتخب ہونے کا اہل وہی ہوگا جو پاکستان کا شہری ہو، قومی اسمبلی کی صورت میں پچیس سال کا ہو اور بطور ووٹر اس کے نام کا اندراج کسی بھی انتخابی فہرست میں موجود ہو جو پاکستان کے کسی حصے میں جنرل سیٹ یا غیر مسلم سیٹ کے لئے ہو، اور صوبے کے کسی حصے میں اگر عور ت کی مخصوص سیٹ ہو تو اس کے لئے۔ سینیٹ کی صورت میں تیس سال کی عمر کا ہو اور صوبے کے کسی ایریا میں اس کا نام بطور ووٹر درج ہو، یا جیسی بھی صورت ہو، فیڈرل کیپیٹل یا فاٹا میں جہاں سے وہ ممبر شپ حاصل کر رہا ہو۔

وہ اچھے کردار کا حامل ہو اور عام طور پر احکام اسلامی سے انحراف میں بدنام نہ ہو، اسلامی تعلیمات کا خاطر خواہ علم رکھتا ہو ، اسلام کے بتائے ہوئے فرائض کا پابند ہو ،کبیرہ گناہ سے اجتناب کرتا ہو، سمجھدار ہو ، پارسا ہو، ایماندار اور امین ہو،کسی عدالت کا فیصلہ اس کے خلاف نہ ہو، اس نے پاکستان بننے کے بعد ملک کی سالمیت کے خلاف کام نہ کیا ہو اور نظریہ پاکستان کی مخالفت نہ کی ہو۔ غیرمسلم اس دفعہ کے بعض سیکشنز سے مستثنیٰ ہوں گے لیکن ان کے لئے بھی اچھی شہرت کا حامل ہونا ضروری ہے۔

آئین کی دفعہ 63 کے مطابق ہر وہ شخص پارلیمان کی رکنیت کے لئے نااہل ہوگا جو فاتر العقل ہو اور کسی مجاز عدالت کی طرف سے ایسا قرار دیا گیا ہو ، یا غیر بریت یا فتہ دیوالیہ ہو یا پاکستان کا شہری نہ رہے ، یا کسی بیرونی ریاست کی شہریت حاصل کرے، یا پاکستان کی ملازمت میں کسی منفعت بخش عہدے پر فائز ہو ماسوائے ایسے عہدے کے جسے قانون کے ذریعے ایسا عہدہ قرار دیا گیا ہو، جس پر فائز شخص نا اہل نہیں ہوتا ، یا کسی ایسی آئینی باڈی یا کسی باڈی کی ملازمت میں ہو جو حکومت کی ملکیت یا اس کے زیر نگرانی ہو ، یا جس میں حکومت کنٹرولنگ حصہ یا مفاد رکھتی ہو، یا پاکستان کا شہری ہوتے ہوئے بھی زیر دفعہ 14B شہریت پاکستان ایکٹ 1951ء کے وہ وقتی طور پر نا اہل ہو جائے، آزاد اور جموں کشمیر کے رائج الوقت قانون کے تحت لیجسلیٹو اسمبلی آزاد جموں اور کشمیر کا ممبر منتخب ہوسکتا ہو۔

اسے کسی عدالت مجاز سے ایسی رائے کی تشہیر یا کسی ایسے طریقے پر عمل کرنے ، جو پاکستان کے نظریہ ، اقتدار اعلیٰ ، سالمیت یا سلامتی یا اخلاقیات یا امن عامہ کے قیام یا پاکستان کی عدلیہ کی دیانتداری یا آزادی کے لئے مضر ہو ، یا جو پاکستان کی مسلح افواج یا عدلیہ کو بدنام کرے ، یا اس کی تضحیک کا باعث ہو ، اس جرم کی سزا ہوئی ہو اور اس کو پانچ سال رہا ہوئے نہ گزرے ہوں۔ اسے کسی ایسے جرم کے لئے سزا یابی پر جو اخلاقی پستی کا جرم ہو اور اس پر سزا کم از کم دو سال ہو چکی ہو اور اس کو پانچ سال رہا ہوئے نہ گزرے ہوں۔ اسی طرح دفعہ 63 میں نااہلی کو واضح کرنے والے دیگر سیکشنز بھی موجود ہیں۔

یہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان دفعات کی روشنی میں امیدواروں کی اہلیت کا جائزہ لے، صرف انہی کو انتخاب لڑنے کی اجازت دے جو ان دفعات پر پورے اترتے ہوں۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ ابھی تک اس اہم ترین ادارے نے اپنی ذمہ داریوں کو پورا نہیں کیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔