لاڑکانہپیپلزپارٹی کیلئے باغی لیڈرخطرہ بن گئے
این اے 204 پر ایاز سومرو کو ٹک ملنے پر سابق ایم این اے شاہد حسین بھٹو اور معظم عباسی نے ان کے مقابلےمیں آزاد الیکشن۔۔۔
پیپلزپارٹی کی طاقت عوام تھے، یہی وجہ تھی کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو نے ہمیشہ طاقت کا سر چشمہ عوام کو قرار دیا، لیکن پیپلز پارٹی کے قائدین نے حالیہ پانچ سالہ اقتدار میں اس سر چشمے کو نالی میں تبدیل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، موجودہ پیپلز پارٹی عوام سے خالی ہوتی نظر آ رہی ہے۔
انتخابی مہم پر جانے والے امیدواروں کے ساتھ جو سلوک ہورہا ہے، وہ تاریخ کی کتاب میں درج ہو رہا ہے، شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اب پیپلز پارٹی میں قیادت کا بہت بڑا خلا پیدا ہو چکا ہے، کوئی ایسا نام ، کوئی ایسی بے لوث اور کرشماتی شخصیت نہیں، جسے یہاں کے عوام کی بے لوث حمایت حاصل ہو۔
عوامی پارٹی کہلوانے والی یہ جماعت عوامی نمائندوں کے بجائے سندھ کے وڈیروں، جاگیرداروں کا سہارا لے کر الیکشن لڑنے جا رہی ہے لیکن پیپلز پارٹی میں شامل ہونے والے شیرازیوں، مزاریوں، مہروں، وڈیروں، جاگیروں اور میروں نے بھی اس پارٹی کی موجودہ حیثیت کو جان لیا ہے، ان میں سے چند تو قلابازی کھا کر پیپلز پارٹی چھوڑ گئے، جبکہ بیشتر نے اپنے مطالبات منوا کر شمولیت اختیار کی۔
پاکستان پیپلز پارٹی لاڑکانہ میں وہ جماعت تھی جو ماضی میں بجلی کے پول کو بھی امیدوار مقرر کرتی تو وہ بھاری اکثریت سے کامیاب تصور کر لیا جاتا تھا، لیکن اس بار ایسا نہیں ہے اور پارٹی قائدین کو کئی چیلینجز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، صدر آصف علی زرداری نے تمام تر اختیارات اپنی ہمشیرہ فریال تالپور کو دے دیئے، تاہم وہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کا نعم البدل نہ بن سکیں اور لاڑکانہ نوڈیرو ہاؤس میں ڈیڑہ ماہ قیام کے دوران وہ ناراض رہنماؤں کو منانے میں مکمل طور پر ناکام ہوگئی۔
یہاں تک کہ چند رہنماؤں نے قیادت کا فیصلہ ماننے سے بھی انکاربھی کردیا، جس پر ان کی بنیادی رکنیت بھی ختم کی گئی، اور آج پیپلزپارٹی کو ووٹ دے کر کامیاب کرنے والے عام شہری بھی ملنے والی اذیتوں کے نتیجے میں سابق منتخب نمائندوں کو بددعائیں دیتے نظر آتے ہیں، یہی وجہ تھی کہ آج سندھ بشمول لاڑکانہ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی کسی قسم کی کوئی انتخابی مہم زوروں پر نہیں چل رہی۔ضلع لاڑکانہ سندھ کا چوتھا بڑا اور اہم ترین ضلع ہے، اس ضلع کو دو سابق وزراء اعظم شہید ذوالفقار علی بھٹو اور شہید بے نظیر بھٹو کی وجہ سے بھی دنیا بھر میں منفرد مقام حاصل ہے۔
جبکہ وادی سندھ کی قدیم تہذیب موہنجو داڑو بھی اس ضلع کی پہچان ہے۔ضلع لاڑکانہ چار تحصیلوں باقرانی، رتوڈیرو، ڈوکری اور لاڑکانہ پر مشتمل ہے، جس کی کل آبادی تقریبا 14لاکھ کے قریب ہے، 11 مئی کے الیکشن میں 6 لاکھ کے قریب رجسٹرڈ ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔ اس ضلع کی اہمیت کا انداز ہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ یہاں سے ایک صدر مملکت، دو وزراء اعظم، متعدد گورنر ز اور وزرائے اعلیٰ سندھ منتخب ہو چکے ہیں۔لاڑکانہ کی سیاست ہمیشہ پیپلز پارٹی کے گرد ہی گھومتی رہی ہے تاہم اس بار مسلم لیگ فنکشنل اور ن لیگ اپنے اتحادیوں کے ساتھ میدان میں سرگرم عمل نظر آ رہی ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے بعض رہنما ؤں کی جانب سے انتخابی ٹکٹ نہ ملنے پر پیپلز پارٹی کے نامزد امیدواروں کے خلاف ہی آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے کا اعلان کیا گیا ہے، جس کے بعد پیپلز پارٹی کیلئے اس کے اپنے گھر لاڑکانہ میں کئی مشکلات پیدا ہوچکی ہیں، پیپلز پارٹی اور جیالوں کیلئے بھٹو فیکٹرنہایت اہمیت کا حامل ہے، لیکن پہلی بار یہ منظر بھی دیکھا ہے کہ پانچ برس اقتدار میں رہنے کے بعد اور عین عام انتخابات سے پہلے پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین اور سابق وزیراعظم شہید ذوالفقار علی بھٹو کی چار اپریل 2013ء کو منائی جانی والی برسی کی گڑھی خدا بخش بھٹو میں منعقدہ تمام تقریبات منسوخ کردی گئی ہیں۔
لاڑکانہ ضلع کی سب سے بڑی شخصیات میں سابق وزیر اعظم شہید ذوالفقار علی بھٹو، شہید بے نظیر بھٹو، بیگم نصرت بھٹو، جماعت اسلامی کے سابق نائب امیر جان محمد عباسی، سابق وزیراعلیٰ و گورنر سندھ نواب ممتاز علی خان بھٹو، شہید میر مرتضیٰ بھٹو، جمعیت علماء اسلام صوبہ سندھ کے سیکریٹری ڈاکٹر خالد محمود سومرو، پیپلز پارٹی شہید بھٹو کی چیئرپرسن غنویٰ بھٹو، نامور لکھاری فاطمہ بھٹو، سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی بیگم اشرف عباسی، سابق سینیٹر ڈاکٹر صفدر عباسی، سابق صوبائی وزیر حاجی منور عباسی، سندھ اسمبلی کے سپیکر نثار احمد کھوڑو، پاکستان انجنیئرنگ کونسل کے صدر ممتاز شیخ سمیت دیگر شخصیات کا تعلق بھی لاڑکانہ سے ہے۔
ضلع لاڑکانہ میں بسنے والی بڑی برادریوں میں بھٹو، عباسی، کھوڑو، شیخ،ابڑو، میمن، جتوئی، ابڑو، سانگی، میرانی، کلہوڑو، جلبانی، چانڈیو ، اور دیگر شامل ہیں، ماضی میں ان برادریوں میں سے اکثریت کا جھکاؤ پیپلز پارٹی کی طرف ہی رہا، تاہم حالیہ انتخابات میں ان میں سے بھٹو، شیخ، عباسی، میرانی، سانگی، ابڑو اور دیگر برادریاں پیپلز پارٹی کے مخالف امیدواروں کو ووٹ دینے کا اعلان کر چکی ہیں اور متعدد نے انتخابات میں اپنے امیدوار کھڑے کردیئے ہیں، جس سے بھی پیپلز پارٹی مرکزی اور مقامی قیادت پریشان نظر آتی ہے۔
2008ء کے الیکشن میں لاڑکانہ کی دو قومی اور چار صوبائی نشستوں پر پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدواروں نے کامیابی حاصل کی تھی، جبکہ دوسری نمبر پر آنے والے امیدوار ق لیگ سے تعلق رکھتے تھے، 2008ء میں این اے 204 پر شاہد حسین بھٹو نے 81439، جبکہ پیپلز پارٹی شہید بھٹو کی چیئرپرسن غنویٰ بھٹو نے 12271 ووٹ حاصل کئے، این اے 205 پر پیپلز پارٹی کے نظیر احمد بگھیو نے 72928، جبکہ ق لیگ کے حاجی الطاف انڑ نے 25846ووٹ حاصل کئے تھے۔
اسی طرح صوبائی اسمبلی کی 8 نشستوں پی ایس 35پر پیپلز پارٹی کے غلام سرور سیال نے 31262، جبکہ ق لیگ کے حاجی الطا ف حسین انڑ18572 ووٹ حاصل کئے، پی ایس 36 پر پیپلز پارٹی کے نثار احمد کھوڑو نے 40727، جبکہ ان کے مد مقابل ایم کیو ایم کے جاوید مٹھانی نے 929 ووٹ حاصل کر سکے، پی ایس 37پر ایاز سومرو 40770، جبکہ آزاد امیدوار امیر بخش خان بھٹو نے 18124 ووٹ حاصل کئے، اپی ایس 38پر پیپلز پارٹی کے حاجی منور علی عباسی نے 37023، جبکہ فنکشنل لیگ کے سید رافع اکبر راشدی نے 12146 ووٹ حاصل کئے، پی ایس 41 پر پیپلز پارٹی کے عزیز احمد جتوئی نے 37661، جبکہ ق لیگ کے عبدالغفار نے 6485ووٹ حاصل کئے۔
الیکشن 2013ء میں پیپلز پارٹی کے پارلیمانی بورڈ نے ناقص کارکردگی کی بنیاد پر اس بار اپنے روایتی انتخابی امیدواروں میں تبدیلی کرتے ہوئے چند نئے چہرے بھی میں متعارف کروائے ہیں ۔ قائدین کے فیصلوں پر بیشتر رہنما باغی ہو کر پیپلز پارٹی کے امیدواروں کے خلاف ہی میدان میں آزاد حیثیت سے الیکشن لڑرہے ہیں،چند کو تو پارٹی قائدین نے منا لیا ہے باقی نے بغاوت کا فیصلہ بر قرار رکھا ہے جن میں عباسی خاندان کا نام سر فہرست ہے ،لاڑکانہ کی سیاست میں عباسی خاندان کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے، وہ عام انتخابات میں اپنے حلقوں میں کامیابی کی ضمانت سمجھے جاتے ہیں، پیپلز پارٹی سے اصولی اختلافات کے بعد پہلی مرتبہ عباسی خاندان آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے جا رہے ہیں، جنہیں عوام کی بھی بھرپور حمایت حاصل دکھائی دے رہی ہے۔
پیپلز پارٹی کے قائدین اور عباسی خاندان میں اختلافات اس وقت بڑھ گئے جب پیپلز پارٹی کے رہنماحاجی منور علی عباسی کے بیٹے معظم عباسی نے درخواست دینے کے باوجود انتخابی ٹکٹ نہ ملنے کی صورت میں این اے 204 پر پیپلز پارٹی کے نامزد امیدوار ایازسومرو کے مد مقابل آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے کیلئے کاغذات نامزدگی جمع کروائے ،جس کے بعد پیپلز پارٹی میں ہلچل مچ گئی اور صدر مملکت کی ہمشیرہ فریال ٹالپر کی ہدایات پر پارٹی رہنما سید قائم علی شاہ ،سپیکر سندھ اسمبلی نثار احمد کھوڑو و دیگر حاجی منور علی عباسی کی رہائش گاہ پر پہنچے۔
جہاں پہلے تو معظم عباسی نے اپنا موبائل بند کردیا، بعد ازاں کئی گھنٹو ں کے طویل انتظار کے بعد معظم عباسی نے آئے ہوئے رہنماؤں سے ملاقات کی، لیکن دستبرداری سے انکار کردیا، جس کے بعد سالہا سال سے پی ایس 38میروخان پر کامیاب ہونے والے پیپلز پارٹی کے مضبوط امیدوار حاجی منور علی عباسی نے بھی پارٹی ٹکٹ واپس کرتے ہوئے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے کا اعلان کردیا۔ عباسی خاندان کے ایک اور اہم رہنما سابق سینیٹر صفدر عباسی نے بھی حاجی منور علی عباسی اور معظم عباسی کے فیصلے کی تائید کی اور فوری لاڑکانہ پہنچ کر خود بھی این اے 205 پر پیپلز پارٹی کے نامزد امیدوار نظیر احمد بگھیو اور لاڑکانہ میں پی ایس 36 سے نثار احمد کھوڑو کے مد مقابل کاغذات نامزدگی جمع کروائے۔
ذرائع کے مطابق اس اہم تبدیلی اور عباسی خاندان کی پیپلز پارٹی سے ناراضگی کا پیپلز پارٹی کے سرپرست اعلیٰ بلاول بھٹو زرداری نے نوٹس لیا اور پارٹی رہنماؤں کو ہر حال میں عباسی خاندان کو منانے کا ٹاسک دیا، تاہم عباسی خاندان نے حاجی منور علی عباسی کو پی ایس 38 کے ٹکٹ کے علاوہ صفدر عباسی کو سینیٹر شپ کی پیشکش کے باوجود مذاکرات سے صاف انکار کردیا۔ اس سلسلے میں سابق سینیٹر ڈاکٹر صفدر عباسی کا کہنا ہے کہ موجودہ سرکاری پیپلز پارٹی کے قائدین انہیں صوبائی نشست کا ٹکٹ اور سینیٹر شپ کی پیشکش کر کے شہید ذوالفقار علی بھٹو اور شہید بے نظیر بھٹو کے نظریات سے الگ نہیں کرسکتے، اور یوں پیپلز پارٹی سے کئی دہائیوں سے وابستہ عباسی خاندان کارشتہ پیپلز پارٹی سے ہمیشہ کیلئے ختم ہوگیا۔
عباسی برادری کے علاوہ پیپلز پارٹی کی روحانیت سمجھی جانے والی بھٹو برادری بھی قائدین کے رویوں اور منتخب نمائندوں کی لوٹ مار کے علاوہ بھٹو برادری کو نظر اندازکئے جانے سے تنگ آکر کنارہ کشی کرتے ہوئے پیپلز پارٹی چھوڑنے کا اعلان کر چکی ہے، اس سلسلے میں بھٹو برادری کے چیف سردار سردار عامر بھٹو نے اپنی رہائش گاہ پر پریس کانفرنس کرکے باضابطہ طور پر پیپلز پارٹی سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے پیپلز پارٹی شہید بھٹو کی چیئرپرسن غنویٰ بھٹو کو این اے 207پر پیپلز پارٹی کی امیدوار فریال تالپور کے مد مقابل بھرپور حمایت کا اعلان کیا۔
اس بار نہایت اہمیت کی حامل بات یہ بھی ہے کہ سردار عامر بھٹو 13برسوں کے بعد تمام گلے شکوے اور ناراضگیاں ختم کر کے 5 سو سے زائد بھٹو برادری کے معززین کے ہمراہ نواب ممتاز علی خان بھٹو کے پاس پہنچے ، جس پر دونوں رہنما بغلگیر ہوگئے، اس موقع پر بھٹو برادری نے مسلم لیگ ن کے رہنما اور پی ایس 37 رتوڈیرو کے مضبوط امیدوار نوابزادہ امیر بخش خان بھٹو کی مکمل حمایت کا اعلان بھی کیا۔ بھٹو برادری کے علاوہ لاڑکانہ سے تعلق رکھنے والی شیخ برادری بھی پیپلز پارٹی کو خیرباد کہتے ہوئے فنکشنل لیگ میں شمولیت کر چکی ہے، شیخ برادری کا دعویٰ ہے کہ ان کے لاڑکانہ شہر میں 24 ہزار سے زائد ووٹ ہیں جہاں سے پیپلز پارٹی کے سابق تحصیل ناظم نظیر احمد شیخ نے پیپلز پارٹی سے علیحدگی اختیار کر کے فنکشنل لیگ میں شمولیت اختیار کی اور ف لیگ کے ٹکٹ پر سپیکر سندھ اسمبلی نثار احمد کھوڑو کے مد مقابل الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیاہے، جو بات پیپلز پارٹی کیلئے درد سر بنی ہوئی ہے۔
اسی طرح شہید بے نظیر بھٹو کے اپنے آبائی شہر نوڈیرو سے تعلق رکھنے والی اورنوڈیرو شہر کی 60فیصد آبادی پر مشتمل میرانی برادری بھی پارٹی قائدین کے فیصلوں سے دلبرداشتہ ہو کر ٹاؤن ہال میں منعقدہ کنونشن میں پیپلز پارٹی سے علیحدگی کا اعلان کرچکی ہے اور انہوں نے بھی پی ایس 37پر اپنا امیدوار کھڑا کردیا ہے۔ اور یوںپاکستان پیپلز پارٹی کی پانچ سالہ کارکردگی بہتر نہ ہونے اور منتخب نمائندوں کی ریکارڈ مبینہ کرپشن کے باعث پیپلز پارٹی کے قائدین اور رہنماؤں کو اپنے ہی سیاسی گڑھ لاڑکانہ جو کہ پیپلز پارٹی کا قلعہ بھی کہا جاتا ہے میں نہ صرف مشکلات کا سامنا ہے بلکہ اس قلعہ میں واضع دراڑیں بھی پڑ چکی ہیں۔
سابق صوبائی وزیر محمد ایاز سومرو کی انتہائی ناقص کارکردگی اور حلقہ کے عوام کی شدید مزاحمت کے بعد انہیں پی ایس 37 رتوڈیرو سے نکال کر این اے 204 پر انتخابی ٹکٹ جاری کیاگیا جہاں سابق ایم این اے شاہد حسین بھٹو کوپارٹی کی جانب سے ٹکٹ نہ دیئے جانے پر انہوں نے بھی قائدین کے فیصلے کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے کا اعلان کیا، اسی طرح پاکستان مسلم لیگ فنکشنل کی جانب سے مہتاب اکبر راشدی ، عباسی خاندان کی جانب سے معظم خان عباسی، تحریک انصاف کی جانب سے بخت جمال چانڈیو،آل پاکستان مسلم لیگ کے عبدالمجید کھوکھر، مسلم لیگ ق کے بابوغلام سرور سیال، پیپلز پارٹی شہید بھٹو کی چیئرپرسن غنویٰ بھٹو الیکشن لڑیں گی، جن میں سے اصل مقابلہ فنکشنل لیگ اور عباسی خاندان کے درمیان ہوگا، این اے 205پر نظیر احمد بگھیو کانام فائنل کیا گیا۔
جہاں پیپلز پارٹی کے ناراض رہنما عباسی خاندان سے تعلق رکھنے والے آزاد امیدوارسابق سینیٹر صفدر عباسی، پاکستان مسلم لیگ فنکشنل کے سرفراز احمد بگھیو، تحریک انصاف کے سخاوت علی راجپوت، نظیر احمد بگھیوکے مدمقابل ہوں گے، جہاں اصل مقابلہ پیپلز پارٹی اور عباسی خاندان کے درمیان ہوگا، اسی طرح پی ایس 35 پر پیپلز پارٹی کے حاجی الطاف حسین انڑکامقابلہ ان کے اپنے بھتیجے اور عباسی خاندان کے اتحادی آزاد امیدوار حاجی شفقت حسین انڑ، فنکشنل لیگ کے آصف علی، ق لیگ کے بابو غلام سرور سیال،آل پاکستان مسلم لیگ کے منور علی ابڑو اور تحریک انصاف کے نوید احمد ابڑوسے ہوگا،لیکن اصل مقابلہ پیپلز پارٹی کے حاجی الطاف انڑاور حاجی شفقت حسین انڑ کے درمیان متوقع ہے۔
پی ایس 36 پر پیپلز پارٹی کے نامزد نثار احمد کھوڑو کی پوزیشن اس بار ان کے اپنے غیر سنجیدہ رویئے کی وجہ سے کمزور نظر آرہی ہے جبکہ ان کے برعکس فنکشنل لیگ کے نظیر احمد شیخ، ق لیگ کی مرکزی رہنما کلپنا دیوی ایڈووکیٹ، جے یو آئی کے خالد محمود سومرو، مسلم لیگ ن کے رضوان احمد کیہر، پیپلز پارٹی شہید بھٹو کی غنویٰ بھٹو، اور آزاد امیدوار صفدر عباسی کی پوزیشن قدر ے مضبوط ہے۔ تاہم اصل مقابلہ نثار کھوڑو، نظیر احمد شیخ، کلپنہ دیوی اور رضوان احمد کیہر کے درمیان ہوگا۔سیاسی مبصرین کے مطابق پی ایس 37 رتوڈیرو اس بار پیپلزپارٹی کے ہاتھوں سے نکلنے کے خدشات بڑھ چکے ہیں۔
کیونکہ اس حلقہ پرسابق ایم پی اے ایازسومرو کے خلاف لوگوں کے شدید ردعمل پرپارٹی ٹکٹ شہید محترمہ بینظیر بھٹو کے کزن مرحوم مشتاق احمد بھٹو کے بیٹے محمد علی بھٹو کو جاری کیاگیا جو عوام میں غیر معروف ہیں،پیپلزپارٹی کے ناراض رہنما انجینئر سیف اللہ ابڑو نے محمد علی بھٹو کے خلاف آزادحیثیت میں الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ہے، جن کے اس فیصلے کے بعد پیپلز پارٹی کے سرپرست اعلیٰ بلاول بھٹو زرداری کے احکامات پر ان کی پارٹی بنیادی رکنیت بھی ختم کردی گئی ہے، دوسری جانب اسی حلقہ پر مسلم لیگ ن کے رہنما سردار ممتاز علی خان بھٹو کے بیٹے نوابزادہ امیر بخش خان بھٹو انتہائی مضبوط امیدوار بتائے جاتے ہیں۔
پی ایس 38 میروخان کی صورتحال بھی انتہائی دلچسپ ہے کیونکہ اس حلقہ میں پہلی بار پیپلز پارٹی کے سالہا سال سے وفادار بیگم اشرف عباسی کے بیٹے حاجی منور علی عباسی کو ان کے بھائی سابق سینیٹر صفدر عباسی اور بیٹے معظم عباسی کی جانب سے پی پی پی امیدواروں کے خلاف آزاد حیثیت میں الیکشن لڑا نے کے اعلان کے بعد پارٹی ٹکٹ خورشید احمد جونیجوکو دیاگیاہے جو اس حلقہ میں غیر معروف ہیں، فنکشنل لیگ کے سید رافع اکبر راشدی اور پیپلز پارٹی سے ناراض سیف اللہ ابڑو آزاد الیکشن لڑیں گے۔
جہاں اصل مقابلہ پیپلز پارٹی کو چھوڑ کر باقی تین امیدواروں کے درمیان بتایا جاتا ہے۔ پی ایس 41 ڈوکری باڈھ نصیرآباد پر بھی پیپلز پارٹی کو انتہائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ، جہاں قائدین کی جانب سے کئی بار امیدواروں کے ناموں کو تبدیل کیا جاتا رہا، تاہم ایک بار پھر عزیز احمد جتوئی کو پارٹی ٹکٹ دے دیاگیا ہے لیکن اس حلقہ پر اس بار ان کی پوزیشن مضبوط نظر نہیں آتی، کیونکہ ان کے مقابلے میں پیپلز پارٹی کے ہی رہنما اللہ بخش انڑ، مسلم لیگ فنکشنل کی مہتاب اکبر راشدی اور مسلم لیگ ن کے امداد چولیانی مد مقابل ہونگے، جہاں کانٹے دار مقابلہ متوقع ہے۔
ایک جانب پاکستان مسلم لیگ فنکشنل، جمعیت علماء اسلام، پاکستان مسلم لیگ نواز، مسلم لیگ قائد اعظم، پیپلز پارٹی شہید بھٹو سمیت دیگر سیاسی، دینی و قوم پرست جماعتوں کی جانب سے انتخابی مہم زوروں پر ہے اور وہ روزانہ کی بنیاد پر کئی کئی جلسے کر کے لوگوں سے رابطے میں ہے، اور انہیں اس محنت کا بھرپور صلہ بھی مل رہا ہے تو دوسری جانب چند روز قبل پیپلز پارٹی کی جانب سے این اے 204 پر نامزد امیدوار سابق صوبائی وزیر محمد ایاز سومرو کو انتخابی مہم کے دوران رتوڈیرو کے علاقہ بنگل دیرو میں جانا اس وقت مہنگا پڑ گیا جب مشتعل افراد نے سابق صوبائی وزیر سے تلخ کلامی کی ، جس کے بعد وہ فوری طور پر گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہونے لگے تو لوگوں نے گاڑی پر نہ صرف جوتیاں برسائیں۔
بلکہ نالی کا گندہ پانی بھی پھینکا، جبکہ کچھ دنوں بعد جب سابق صوبائی وزیر محمد ایاز سومرو، اسپیکر سندھ اسمبلی نثار احمد کھوڑو کے ہمراہ شہر کے ریشم بازار میں انتخابی مہم پر نکلے تو تاجروں نے اپنی دکانیں بند کرلیں، جس پر سپیکر سندھ اسمبلی نے بھی سابق صوبائی وزیر کے ہمراہ انتخابی مہم سے کنارہ کشی کرلی ہے اور وہ الگ انتخابی مہم چلانے پر مجبور ہوگئے ہیں، یہ صورتحال یہیں ختم نہیں ہوتی، بلکہ دیہات میں بھی لوگوں نے پیپلز پارٹی کیامیدواروں کے آنے کی اطلاعات پا کر پتھرڈال کر، درخت رکھنے کے ساتھ ساتھ راستوں میں کتے باندھ کر ان کا راستہ روکنے کی بھی کوششیں کی ہیں، دوسری جانب پیپلز پارٹی لیڈیز ونگ کی مرکزی صدر سابق ایم این اے فریال تالپور نے بھی اپنے امیدواروں پر بھروسہ کرنے کی بجائے ڈیڑھ ماہ کے دوران سندھ کی بیس سے زائد درگاہوں پر حاضری دے کر دعائیں مانگنا شروع کردی ہیں، حالانکہ اس سے پہلے پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ اقتدار کے دوران وہ کبھی کبھار ہی کسی درگاہ پرجاتی دکھائی دی ہیں۔
انتخابی مہم پر جانے والے امیدواروں کے ساتھ جو سلوک ہورہا ہے، وہ تاریخ کی کتاب میں درج ہو رہا ہے، شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اب پیپلز پارٹی میں قیادت کا بہت بڑا خلا پیدا ہو چکا ہے، کوئی ایسا نام ، کوئی ایسی بے لوث اور کرشماتی شخصیت نہیں، جسے یہاں کے عوام کی بے لوث حمایت حاصل ہو۔
عوامی پارٹی کہلوانے والی یہ جماعت عوامی نمائندوں کے بجائے سندھ کے وڈیروں، جاگیرداروں کا سہارا لے کر الیکشن لڑنے جا رہی ہے لیکن پیپلز پارٹی میں شامل ہونے والے شیرازیوں، مزاریوں، مہروں، وڈیروں، جاگیروں اور میروں نے بھی اس پارٹی کی موجودہ حیثیت کو جان لیا ہے، ان میں سے چند تو قلابازی کھا کر پیپلز پارٹی چھوڑ گئے، جبکہ بیشتر نے اپنے مطالبات منوا کر شمولیت اختیار کی۔
پاکستان پیپلز پارٹی لاڑکانہ میں وہ جماعت تھی جو ماضی میں بجلی کے پول کو بھی امیدوار مقرر کرتی تو وہ بھاری اکثریت سے کامیاب تصور کر لیا جاتا تھا، لیکن اس بار ایسا نہیں ہے اور پارٹی قائدین کو کئی چیلینجز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، صدر آصف علی زرداری نے تمام تر اختیارات اپنی ہمشیرہ فریال تالپور کو دے دیئے، تاہم وہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کا نعم البدل نہ بن سکیں اور لاڑکانہ نوڈیرو ہاؤس میں ڈیڑہ ماہ قیام کے دوران وہ ناراض رہنماؤں کو منانے میں مکمل طور پر ناکام ہوگئی۔
یہاں تک کہ چند رہنماؤں نے قیادت کا فیصلہ ماننے سے بھی انکاربھی کردیا، جس پر ان کی بنیادی رکنیت بھی ختم کی گئی، اور آج پیپلزپارٹی کو ووٹ دے کر کامیاب کرنے والے عام شہری بھی ملنے والی اذیتوں کے نتیجے میں سابق منتخب نمائندوں کو بددعائیں دیتے نظر آتے ہیں، یہی وجہ تھی کہ آج سندھ بشمول لاڑکانہ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی کسی قسم کی کوئی انتخابی مہم زوروں پر نہیں چل رہی۔ضلع لاڑکانہ سندھ کا چوتھا بڑا اور اہم ترین ضلع ہے، اس ضلع کو دو سابق وزراء اعظم شہید ذوالفقار علی بھٹو اور شہید بے نظیر بھٹو کی وجہ سے بھی دنیا بھر میں منفرد مقام حاصل ہے۔
جبکہ وادی سندھ کی قدیم تہذیب موہنجو داڑو بھی اس ضلع کی پہچان ہے۔ضلع لاڑکانہ چار تحصیلوں باقرانی، رتوڈیرو، ڈوکری اور لاڑکانہ پر مشتمل ہے، جس کی کل آبادی تقریبا 14لاکھ کے قریب ہے، 11 مئی کے الیکشن میں 6 لاکھ کے قریب رجسٹرڈ ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔ اس ضلع کی اہمیت کا انداز ہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ یہاں سے ایک صدر مملکت، دو وزراء اعظم، متعدد گورنر ز اور وزرائے اعلیٰ سندھ منتخب ہو چکے ہیں۔لاڑکانہ کی سیاست ہمیشہ پیپلز پارٹی کے گرد ہی گھومتی رہی ہے تاہم اس بار مسلم لیگ فنکشنل اور ن لیگ اپنے اتحادیوں کے ساتھ میدان میں سرگرم عمل نظر آ رہی ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے بعض رہنما ؤں کی جانب سے انتخابی ٹکٹ نہ ملنے پر پیپلز پارٹی کے نامزد امیدواروں کے خلاف ہی آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے کا اعلان کیا گیا ہے، جس کے بعد پیپلز پارٹی کیلئے اس کے اپنے گھر لاڑکانہ میں کئی مشکلات پیدا ہوچکی ہیں، پیپلز پارٹی اور جیالوں کیلئے بھٹو فیکٹرنہایت اہمیت کا حامل ہے، لیکن پہلی بار یہ منظر بھی دیکھا ہے کہ پانچ برس اقتدار میں رہنے کے بعد اور عین عام انتخابات سے پہلے پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین اور سابق وزیراعظم شہید ذوالفقار علی بھٹو کی چار اپریل 2013ء کو منائی جانی والی برسی کی گڑھی خدا بخش بھٹو میں منعقدہ تمام تقریبات منسوخ کردی گئی ہیں۔
لاڑکانہ ضلع کی سب سے بڑی شخصیات میں سابق وزیر اعظم شہید ذوالفقار علی بھٹو، شہید بے نظیر بھٹو، بیگم نصرت بھٹو، جماعت اسلامی کے سابق نائب امیر جان محمد عباسی، سابق وزیراعلیٰ و گورنر سندھ نواب ممتاز علی خان بھٹو، شہید میر مرتضیٰ بھٹو، جمعیت علماء اسلام صوبہ سندھ کے سیکریٹری ڈاکٹر خالد محمود سومرو، پیپلز پارٹی شہید بھٹو کی چیئرپرسن غنویٰ بھٹو، نامور لکھاری فاطمہ بھٹو، سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی بیگم اشرف عباسی، سابق سینیٹر ڈاکٹر صفدر عباسی، سابق صوبائی وزیر حاجی منور عباسی، سندھ اسمبلی کے سپیکر نثار احمد کھوڑو، پاکستان انجنیئرنگ کونسل کے صدر ممتاز شیخ سمیت دیگر شخصیات کا تعلق بھی لاڑکانہ سے ہے۔
ضلع لاڑکانہ میں بسنے والی بڑی برادریوں میں بھٹو، عباسی، کھوڑو، شیخ،ابڑو، میمن، جتوئی، ابڑو، سانگی، میرانی، کلہوڑو، جلبانی، چانڈیو ، اور دیگر شامل ہیں، ماضی میں ان برادریوں میں سے اکثریت کا جھکاؤ پیپلز پارٹی کی طرف ہی رہا، تاہم حالیہ انتخابات میں ان میں سے بھٹو، شیخ، عباسی، میرانی، سانگی، ابڑو اور دیگر برادریاں پیپلز پارٹی کے مخالف امیدواروں کو ووٹ دینے کا اعلان کر چکی ہیں اور متعدد نے انتخابات میں اپنے امیدوار کھڑے کردیئے ہیں، جس سے بھی پیپلز پارٹی مرکزی اور مقامی قیادت پریشان نظر آتی ہے۔
2008ء کے الیکشن میں لاڑکانہ کی دو قومی اور چار صوبائی نشستوں پر پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدواروں نے کامیابی حاصل کی تھی، جبکہ دوسری نمبر پر آنے والے امیدوار ق لیگ سے تعلق رکھتے تھے، 2008ء میں این اے 204 پر شاہد حسین بھٹو نے 81439، جبکہ پیپلز پارٹی شہید بھٹو کی چیئرپرسن غنویٰ بھٹو نے 12271 ووٹ حاصل کئے، این اے 205 پر پیپلز پارٹی کے نظیر احمد بگھیو نے 72928، جبکہ ق لیگ کے حاجی الطاف انڑ نے 25846ووٹ حاصل کئے تھے۔
اسی طرح صوبائی اسمبلی کی 8 نشستوں پی ایس 35پر پیپلز پارٹی کے غلام سرور سیال نے 31262، جبکہ ق لیگ کے حاجی الطا ف حسین انڑ18572 ووٹ حاصل کئے، پی ایس 36 پر پیپلز پارٹی کے نثار احمد کھوڑو نے 40727، جبکہ ان کے مد مقابل ایم کیو ایم کے جاوید مٹھانی نے 929 ووٹ حاصل کر سکے، پی ایس 37پر ایاز سومرو 40770، جبکہ آزاد امیدوار امیر بخش خان بھٹو نے 18124 ووٹ حاصل کئے، اپی ایس 38پر پیپلز پارٹی کے حاجی منور علی عباسی نے 37023، جبکہ فنکشنل لیگ کے سید رافع اکبر راشدی نے 12146 ووٹ حاصل کئے، پی ایس 41 پر پیپلز پارٹی کے عزیز احمد جتوئی نے 37661، جبکہ ق لیگ کے عبدالغفار نے 6485ووٹ حاصل کئے۔
الیکشن 2013ء میں پیپلز پارٹی کے پارلیمانی بورڈ نے ناقص کارکردگی کی بنیاد پر اس بار اپنے روایتی انتخابی امیدواروں میں تبدیلی کرتے ہوئے چند نئے چہرے بھی میں متعارف کروائے ہیں ۔ قائدین کے فیصلوں پر بیشتر رہنما باغی ہو کر پیپلز پارٹی کے امیدواروں کے خلاف ہی میدان میں آزاد حیثیت سے الیکشن لڑرہے ہیں،چند کو تو پارٹی قائدین نے منا لیا ہے باقی نے بغاوت کا فیصلہ بر قرار رکھا ہے جن میں عباسی خاندان کا نام سر فہرست ہے ،لاڑکانہ کی سیاست میں عباسی خاندان کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے، وہ عام انتخابات میں اپنے حلقوں میں کامیابی کی ضمانت سمجھے جاتے ہیں، پیپلز پارٹی سے اصولی اختلافات کے بعد پہلی مرتبہ عباسی خاندان آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے جا رہے ہیں، جنہیں عوام کی بھی بھرپور حمایت حاصل دکھائی دے رہی ہے۔
پیپلز پارٹی کے قائدین اور عباسی خاندان میں اختلافات اس وقت بڑھ گئے جب پیپلز پارٹی کے رہنماحاجی منور علی عباسی کے بیٹے معظم عباسی نے درخواست دینے کے باوجود انتخابی ٹکٹ نہ ملنے کی صورت میں این اے 204 پر پیپلز پارٹی کے نامزد امیدوار ایازسومرو کے مد مقابل آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے کیلئے کاغذات نامزدگی جمع کروائے ،جس کے بعد پیپلز پارٹی میں ہلچل مچ گئی اور صدر مملکت کی ہمشیرہ فریال ٹالپر کی ہدایات پر پارٹی رہنما سید قائم علی شاہ ،سپیکر سندھ اسمبلی نثار احمد کھوڑو و دیگر حاجی منور علی عباسی کی رہائش گاہ پر پہنچے۔
جہاں پہلے تو معظم عباسی نے اپنا موبائل بند کردیا، بعد ازاں کئی گھنٹو ں کے طویل انتظار کے بعد معظم عباسی نے آئے ہوئے رہنماؤں سے ملاقات کی، لیکن دستبرداری سے انکار کردیا، جس کے بعد سالہا سال سے پی ایس 38میروخان پر کامیاب ہونے والے پیپلز پارٹی کے مضبوط امیدوار حاجی منور علی عباسی نے بھی پارٹی ٹکٹ واپس کرتے ہوئے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے کا اعلان کردیا۔ عباسی خاندان کے ایک اور اہم رہنما سابق سینیٹر صفدر عباسی نے بھی حاجی منور علی عباسی اور معظم عباسی کے فیصلے کی تائید کی اور فوری لاڑکانہ پہنچ کر خود بھی این اے 205 پر پیپلز پارٹی کے نامزد امیدوار نظیر احمد بگھیو اور لاڑکانہ میں پی ایس 36 سے نثار احمد کھوڑو کے مد مقابل کاغذات نامزدگی جمع کروائے۔
ذرائع کے مطابق اس اہم تبدیلی اور عباسی خاندان کی پیپلز پارٹی سے ناراضگی کا پیپلز پارٹی کے سرپرست اعلیٰ بلاول بھٹو زرداری نے نوٹس لیا اور پارٹی رہنماؤں کو ہر حال میں عباسی خاندان کو منانے کا ٹاسک دیا، تاہم عباسی خاندان نے حاجی منور علی عباسی کو پی ایس 38 کے ٹکٹ کے علاوہ صفدر عباسی کو سینیٹر شپ کی پیشکش کے باوجود مذاکرات سے صاف انکار کردیا۔ اس سلسلے میں سابق سینیٹر ڈاکٹر صفدر عباسی کا کہنا ہے کہ موجودہ سرکاری پیپلز پارٹی کے قائدین انہیں صوبائی نشست کا ٹکٹ اور سینیٹر شپ کی پیشکش کر کے شہید ذوالفقار علی بھٹو اور شہید بے نظیر بھٹو کے نظریات سے الگ نہیں کرسکتے، اور یوں پیپلز پارٹی سے کئی دہائیوں سے وابستہ عباسی خاندان کارشتہ پیپلز پارٹی سے ہمیشہ کیلئے ختم ہوگیا۔
عباسی برادری کے علاوہ پیپلز پارٹی کی روحانیت سمجھی جانے والی بھٹو برادری بھی قائدین کے رویوں اور منتخب نمائندوں کی لوٹ مار کے علاوہ بھٹو برادری کو نظر اندازکئے جانے سے تنگ آکر کنارہ کشی کرتے ہوئے پیپلز پارٹی چھوڑنے کا اعلان کر چکی ہے، اس سلسلے میں بھٹو برادری کے چیف سردار سردار عامر بھٹو نے اپنی رہائش گاہ پر پریس کانفرنس کرکے باضابطہ طور پر پیپلز پارٹی سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے پیپلز پارٹی شہید بھٹو کی چیئرپرسن غنویٰ بھٹو کو این اے 207پر پیپلز پارٹی کی امیدوار فریال تالپور کے مد مقابل بھرپور حمایت کا اعلان کیا۔
اس بار نہایت اہمیت کی حامل بات یہ بھی ہے کہ سردار عامر بھٹو 13برسوں کے بعد تمام گلے شکوے اور ناراضگیاں ختم کر کے 5 سو سے زائد بھٹو برادری کے معززین کے ہمراہ نواب ممتاز علی خان بھٹو کے پاس پہنچے ، جس پر دونوں رہنما بغلگیر ہوگئے، اس موقع پر بھٹو برادری نے مسلم لیگ ن کے رہنما اور پی ایس 37 رتوڈیرو کے مضبوط امیدوار نوابزادہ امیر بخش خان بھٹو کی مکمل حمایت کا اعلان بھی کیا۔ بھٹو برادری کے علاوہ لاڑکانہ سے تعلق رکھنے والی شیخ برادری بھی پیپلز پارٹی کو خیرباد کہتے ہوئے فنکشنل لیگ میں شمولیت کر چکی ہے، شیخ برادری کا دعویٰ ہے کہ ان کے لاڑکانہ شہر میں 24 ہزار سے زائد ووٹ ہیں جہاں سے پیپلز پارٹی کے سابق تحصیل ناظم نظیر احمد شیخ نے پیپلز پارٹی سے علیحدگی اختیار کر کے فنکشنل لیگ میں شمولیت اختیار کی اور ف لیگ کے ٹکٹ پر سپیکر سندھ اسمبلی نثار احمد کھوڑو کے مد مقابل الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیاہے، جو بات پیپلز پارٹی کیلئے درد سر بنی ہوئی ہے۔
اسی طرح شہید بے نظیر بھٹو کے اپنے آبائی شہر نوڈیرو سے تعلق رکھنے والی اورنوڈیرو شہر کی 60فیصد آبادی پر مشتمل میرانی برادری بھی پارٹی قائدین کے فیصلوں سے دلبرداشتہ ہو کر ٹاؤن ہال میں منعقدہ کنونشن میں پیپلز پارٹی سے علیحدگی کا اعلان کرچکی ہے اور انہوں نے بھی پی ایس 37پر اپنا امیدوار کھڑا کردیا ہے۔ اور یوںپاکستان پیپلز پارٹی کی پانچ سالہ کارکردگی بہتر نہ ہونے اور منتخب نمائندوں کی ریکارڈ مبینہ کرپشن کے باعث پیپلز پارٹی کے قائدین اور رہنماؤں کو اپنے ہی سیاسی گڑھ لاڑکانہ جو کہ پیپلز پارٹی کا قلعہ بھی کہا جاتا ہے میں نہ صرف مشکلات کا سامنا ہے بلکہ اس قلعہ میں واضع دراڑیں بھی پڑ چکی ہیں۔
سابق صوبائی وزیر محمد ایاز سومرو کی انتہائی ناقص کارکردگی اور حلقہ کے عوام کی شدید مزاحمت کے بعد انہیں پی ایس 37 رتوڈیرو سے نکال کر این اے 204 پر انتخابی ٹکٹ جاری کیاگیا جہاں سابق ایم این اے شاہد حسین بھٹو کوپارٹی کی جانب سے ٹکٹ نہ دیئے جانے پر انہوں نے بھی قائدین کے فیصلے کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے کا اعلان کیا، اسی طرح پاکستان مسلم لیگ فنکشنل کی جانب سے مہتاب اکبر راشدی ، عباسی خاندان کی جانب سے معظم خان عباسی، تحریک انصاف کی جانب سے بخت جمال چانڈیو،آل پاکستان مسلم لیگ کے عبدالمجید کھوکھر، مسلم لیگ ق کے بابوغلام سرور سیال، پیپلز پارٹی شہید بھٹو کی چیئرپرسن غنویٰ بھٹو الیکشن لڑیں گی، جن میں سے اصل مقابلہ فنکشنل لیگ اور عباسی خاندان کے درمیان ہوگا، این اے 205پر نظیر احمد بگھیو کانام فائنل کیا گیا۔
جہاں پیپلز پارٹی کے ناراض رہنما عباسی خاندان سے تعلق رکھنے والے آزاد امیدوارسابق سینیٹر صفدر عباسی، پاکستان مسلم لیگ فنکشنل کے سرفراز احمد بگھیو، تحریک انصاف کے سخاوت علی راجپوت، نظیر احمد بگھیوکے مدمقابل ہوں گے، جہاں اصل مقابلہ پیپلز پارٹی اور عباسی خاندان کے درمیان ہوگا، اسی طرح پی ایس 35 پر پیپلز پارٹی کے حاجی الطاف حسین انڑکامقابلہ ان کے اپنے بھتیجے اور عباسی خاندان کے اتحادی آزاد امیدوار حاجی شفقت حسین انڑ، فنکشنل لیگ کے آصف علی، ق لیگ کے بابو غلام سرور سیال،آل پاکستان مسلم لیگ کے منور علی ابڑو اور تحریک انصاف کے نوید احمد ابڑوسے ہوگا،لیکن اصل مقابلہ پیپلز پارٹی کے حاجی الطاف انڑاور حاجی شفقت حسین انڑ کے درمیان متوقع ہے۔
پی ایس 36 پر پیپلز پارٹی کے نامزد نثار احمد کھوڑو کی پوزیشن اس بار ان کے اپنے غیر سنجیدہ رویئے کی وجہ سے کمزور نظر آرہی ہے جبکہ ان کے برعکس فنکشنل لیگ کے نظیر احمد شیخ، ق لیگ کی مرکزی رہنما کلپنا دیوی ایڈووکیٹ، جے یو آئی کے خالد محمود سومرو، مسلم لیگ ن کے رضوان احمد کیہر، پیپلز پارٹی شہید بھٹو کی غنویٰ بھٹو، اور آزاد امیدوار صفدر عباسی کی پوزیشن قدر ے مضبوط ہے۔ تاہم اصل مقابلہ نثار کھوڑو، نظیر احمد شیخ، کلپنہ دیوی اور رضوان احمد کیہر کے درمیان ہوگا۔سیاسی مبصرین کے مطابق پی ایس 37 رتوڈیرو اس بار پیپلزپارٹی کے ہاتھوں سے نکلنے کے خدشات بڑھ چکے ہیں۔
کیونکہ اس حلقہ پرسابق ایم پی اے ایازسومرو کے خلاف لوگوں کے شدید ردعمل پرپارٹی ٹکٹ شہید محترمہ بینظیر بھٹو کے کزن مرحوم مشتاق احمد بھٹو کے بیٹے محمد علی بھٹو کو جاری کیاگیا جو عوام میں غیر معروف ہیں،پیپلزپارٹی کے ناراض رہنما انجینئر سیف اللہ ابڑو نے محمد علی بھٹو کے خلاف آزادحیثیت میں الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ہے، جن کے اس فیصلے کے بعد پیپلز پارٹی کے سرپرست اعلیٰ بلاول بھٹو زرداری کے احکامات پر ان کی پارٹی بنیادی رکنیت بھی ختم کردی گئی ہے، دوسری جانب اسی حلقہ پر مسلم لیگ ن کے رہنما سردار ممتاز علی خان بھٹو کے بیٹے نوابزادہ امیر بخش خان بھٹو انتہائی مضبوط امیدوار بتائے جاتے ہیں۔
پی ایس 38 میروخان کی صورتحال بھی انتہائی دلچسپ ہے کیونکہ اس حلقہ میں پہلی بار پیپلز پارٹی کے سالہا سال سے وفادار بیگم اشرف عباسی کے بیٹے حاجی منور علی عباسی کو ان کے بھائی سابق سینیٹر صفدر عباسی اور بیٹے معظم عباسی کی جانب سے پی پی پی امیدواروں کے خلاف آزاد حیثیت میں الیکشن لڑا نے کے اعلان کے بعد پارٹی ٹکٹ خورشید احمد جونیجوکو دیاگیاہے جو اس حلقہ میں غیر معروف ہیں، فنکشنل لیگ کے سید رافع اکبر راشدی اور پیپلز پارٹی سے ناراض سیف اللہ ابڑو آزاد الیکشن لڑیں گے۔
جہاں اصل مقابلہ پیپلز پارٹی کو چھوڑ کر باقی تین امیدواروں کے درمیان بتایا جاتا ہے۔ پی ایس 41 ڈوکری باڈھ نصیرآباد پر بھی پیپلز پارٹی کو انتہائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ، جہاں قائدین کی جانب سے کئی بار امیدواروں کے ناموں کو تبدیل کیا جاتا رہا، تاہم ایک بار پھر عزیز احمد جتوئی کو پارٹی ٹکٹ دے دیاگیا ہے لیکن اس حلقہ پر اس بار ان کی پوزیشن مضبوط نظر نہیں آتی، کیونکہ ان کے مقابلے میں پیپلز پارٹی کے ہی رہنما اللہ بخش انڑ، مسلم لیگ فنکشنل کی مہتاب اکبر راشدی اور مسلم لیگ ن کے امداد چولیانی مد مقابل ہونگے، جہاں کانٹے دار مقابلہ متوقع ہے۔
ایک جانب پاکستان مسلم لیگ فنکشنل، جمعیت علماء اسلام، پاکستان مسلم لیگ نواز، مسلم لیگ قائد اعظم، پیپلز پارٹی شہید بھٹو سمیت دیگر سیاسی، دینی و قوم پرست جماعتوں کی جانب سے انتخابی مہم زوروں پر ہے اور وہ روزانہ کی بنیاد پر کئی کئی جلسے کر کے لوگوں سے رابطے میں ہے، اور انہیں اس محنت کا بھرپور صلہ بھی مل رہا ہے تو دوسری جانب چند روز قبل پیپلز پارٹی کی جانب سے این اے 204 پر نامزد امیدوار سابق صوبائی وزیر محمد ایاز سومرو کو انتخابی مہم کے دوران رتوڈیرو کے علاقہ بنگل دیرو میں جانا اس وقت مہنگا پڑ گیا جب مشتعل افراد نے سابق صوبائی وزیر سے تلخ کلامی کی ، جس کے بعد وہ فوری طور پر گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہونے لگے تو لوگوں نے گاڑی پر نہ صرف جوتیاں برسائیں۔
بلکہ نالی کا گندہ پانی بھی پھینکا، جبکہ کچھ دنوں بعد جب سابق صوبائی وزیر محمد ایاز سومرو، اسپیکر سندھ اسمبلی نثار احمد کھوڑو کے ہمراہ شہر کے ریشم بازار میں انتخابی مہم پر نکلے تو تاجروں نے اپنی دکانیں بند کرلیں، جس پر سپیکر سندھ اسمبلی نے بھی سابق صوبائی وزیر کے ہمراہ انتخابی مہم سے کنارہ کشی کرلی ہے اور وہ الگ انتخابی مہم چلانے پر مجبور ہوگئے ہیں، یہ صورتحال یہیں ختم نہیں ہوتی، بلکہ دیہات میں بھی لوگوں نے پیپلز پارٹی کیامیدواروں کے آنے کی اطلاعات پا کر پتھرڈال کر، درخت رکھنے کے ساتھ ساتھ راستوں میں کتے باندھ کر ان کا راستہ روکنے کی بھی کوششیں کی ہیں، دوسری جانب پیپلز پارٹی لیڈیز ونگ کی مرکزی صدر سابق ایم این اے فریال تالپور نے بھی اپنے امیدواروں پر بھروسہ کرنے کی بجائے ڈیڑھ ماہ کے دوران سندھ کی بیس سے زائد درگاہوں پر حاضری دے کر دعائیں مانگنا شروع کردی ہیں، حالانکہ اس سے پہلے پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ اقتدار کے دوران وہ کبھی کبھار ہی کسی درگاہ پرجاتی دکھائی دی ہیں۔