انویسٹر کا سماجی کردار
جب بھی کوئی نئی بستی آباد ہوتی ہے انویسٹر اسٹیٹ ایجنٹوں سے مل کر اس علاقے پر قبضہ کرتے ہیں۔
اردو معنی اور مفہوم کے اعتبار سے لشکری زبان ہے، اس کا دامن بڑا وسیع ہے، عربی، فارسی، ترکی، ہندی کے بعد انگریزی لشکر کے اثرات بھی ایجادات کے بعد نئے الفاظ کی آمد کا سلسلہ جاری رہا۔ ٹیلی فون، ریڈیو، ٹیلی ویژن اور دیگر بے شمار الفاظ جوں کے توں صوت و آہنگ کے ساتھ اردو کے سنگ مل کر 100 پچاس سال سے داخل ہو رہے ہیں مگر کمپیوٹر کی آمد نے الفاظ کی ریل پیل کر دی اور بعض الفاظ معنی اور مفہوم کو لے کر اردو زبان میں داخل ہو گئے۔
حالیہ برسوں میں انویسٹر (Investor) بھی ایسا ہی لفظ ہے۔ اسٹیٹ ایجنسی اور اس سے ملحقہ کاروباری حلقہ اس لفظ کو بخوبی استعمال کر رہا ہے، خود لفظ اسٹیٹ ایجنسی بھی عملی طور پر ہر ہر علاقے میں موجود ہونے کی وجہ سے لوگ اس لفظ کے عام استعمال سے واقف ضرور ہو گئے، مگر لفظ انویسٹر کے فوائد اور نقصانات سے واضح طور پر واقف نہیں کہ انویسٹر کے فوائد کیا ہیں اور عام لوگوں کو انویسٹر حضرات کس قسم کا معاشی نقصان پہنچا سکتے ہیں اور ملکی سرمایہ کاری میں اس کے نقصانات کیا ہیں۔
الیکشن کا موقع ہے، اثاثے نمایاں کیے جا رہے ہیں، خود اپنے منہ سے اپنی دولت کے انبار کو کیسے ظاہر کیا جا رہا ہے، اربوں کو لاکھوں میں ظاہر کرنا، کروڑوں کو ہزار بنانا ہر روز کا کھیل ہے اور کبھی جب ضرورت پڑے تو اس کے برعکس لاکھ کو کروڑوں کا لباس پہنا دینا اور کروڑوں کو اربوں کی شکل دینا کوئی بات نہیں۔ جہاں جیسی ضرورت ہو لیڈر اس کو ایسا ہی نمایاں کرتے ہیں، مگر ان لوگوں میں ایک ایسا بھی الیکشن لڑنے والا ہے جو خود کو کسی دائیں یا بائیں سے منسلک نہیں کرتا، بس غریبوں کا ہمدرد ہے، مگر اجتماعی قوت سے عاری ہے۔
بس کبھی کبھی اس کی آواز قومی اسمبلی میں گونجتی ہے، جو پنجاب کے مرکز سے دور جسے جنوبی پنجاب کا نام دیا گیا، جو حقیقتاً مضافاتی پنجاب ہے، جو انڈسٹری اور ڈیولپمنٹ سے محروم ہے اور الیکشن سے قبل اس کو صوبہ بنانے کا ڈرامہ بھی سبھوں نے رچایا تھا۔ مگر یہاں کا اکیلا لیڈر متمول انویسٹر لیڈروں کے سامنے بے بس ہے۔ یہ تہی دست جمشید دستی ہے۔
اس علاقے میں انویسٹر لیڈروں نے لوگوں کو سستے مکانات بنانے کا خواب دکھایا تھا مگر اس علاقے کا وہی حال ہے جو کراچی کی ایک بستی کا ہے جو تقریباً پانچ لاکھ سے زائد نفوس پر مشتمل ہے اور جس کا نام سرجانی ٹاؤن ہے، جہاں نہ بجلی کے لیے (PMT) ہے، البتہ ملحقہ آبادی خدا کی بستی میں اجتماعی اشتراک سے ایک پی ایم ٹی نصب کی گئی ہے، پانی کا نام نہیں، یہ تو کہیے کہ بورنگ کا پانی نل کے پانی جیسا ہے، سو یہاں کے لوگ زندہ ہیں۔ جنوبی پنجاب کا حال کچھ ایسا ہی ہے۔ مگر لیڈروں کا حال اربوں اور کھربوں کی زمینیں کوڑیوں کے مول دکھانا ایسی صورت میں ایک محدود علاقے کا لیڈر کیا کر سکتا ہے؟
ہاں البتہ اگر کرنا چاہتا تو انویسٹروں سے بچ کے کراچی آنا اور یہاں کے انقلابی دوستوں یا ورکرز پارٹی سے اشتراک کر کے منصوبہ بندی کرنا ہے، مگر ورکرز پارٹی کے کلیدی عہدیدار ہمہ اوقات عدالت میں مصروف کار ہوتے ہیں، ورنہ کراچی آج ان کی دسترس سے باہر کیوں ہوتا؟ جنوبی پنجاب ایک محروم علاقہ ہے، انویسٹر کی اس پر بڑی نظر ہے، یہاں صنعتی ترقی کا چکر گھمانے پر کوئی لیڈر تیار نہیں۔ مگر ان کو یہ معلوم نہیں کہ جنوبی پنجاب کی بیشتر آبادی سرجانی ٹاؤن کے بد حالات سے بدتر حالات میں زندگی گزار رہی ہے اور اگر یہی حال رہا تو اس علاقے کے لوگ پھٹی کی کاشت والے علاقے چھوڑ جائیں گے اور کراچی کے گلی کوچوں میں آباد ہوتے جائیں گے۔ نتیجہ یہ ہو گا کہ کپاس کی فصل مزید کمی کا شکار ہوتی رہے گی اور ملک اپنے سفید سنہرے ریشے سے محروم ہوتا جائے گا۔
مگر لیڈروں کا کیا؟ انھوں نے مکانوں کی مصنوعی قلت پیدا کر دی ہے اور انھوں نے کراچی کو انویسٹرز سٹی بنا دیا ہے۔ صورتحال یہ ہو گئی ہے کہ غریب طبقہ ندی نالوں میں آباد ہو رہا ہے۔ لیاری ندی اور ملیر ندی کے بالائی علاقے آباد ہو چکے ہیں، دور دراز کے علاقے میں پانی اور بجلی کی نایابی نے مرکزی شہر پر دباؤ ڈالا ہے جس سے مکانوں اور دکانوں کے ماہانہ کرایوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ مرکزی شہر میں فلیٹوں کے کرائے آسمان سے باتیں کر رہے ہیں، کم ازکم کرایہ 25 ہزار ماہانہ سے فیڈرل بی ایریا 120 گز گراؤنڈ فلور 20 ہزار دہلی کالونی فلیٹ تین کمروں کا 18 تا 20 ہزار اور سب سے بڑھ کر ڈی ایچ اے 100 گز کے فلیٹ کا ماہانہ کرایہ 50 سے 60 ہزار۔ اس کاروبار میں انویسٹر، اسٹیٹ ایجنٹ اور بلاواسطہ حکومتی کارندے بھی شامل ہیں۔
کیونکہ جب بھی کوئی نئی بستی آباد ہوتی ہے انویسٹر اسٹیٹ ایجنٹوں سے مل کر اس علاقے پر قبضہ کرتے ہیں اور اصل بے مکان اور بے زمین کے خریدار کئی کئی مکان اور فلیٹ کے خریدار بن کر عام لوگوں کو مشکلات میں ڈال دیتے ہیں۔ ڈی ایچ اے کی 10x10 کی دکان عام طور پر 50 تا60 ہزار ماہانہ کرایہ پر موجود ہیں، ایسی صورت میں وہ یہ کرائے انھیں پر رکھی اشیا سے نکالے گا، لہٰذا ڈی ایچ اے میں پھل اور سبزیاں کراچی کی عام مارکیٹ سے دگنے دام پر دستیاب ہیں۔ یہ ان کی مجبوری ہے کہ وہ پالک اور ٹماٹر جیسی اشیا سے اتنا کرایہ نکالیں جب کہ ڈی ایچ اے میں دکاندار تو درکنار عام صارف کو انتظامی اعتبار سے ایک بوند پانی بھی نلوں میں نہیں آتا۔ ان تمام اسباب نے ملک میں قیمتوں کا مصنوعی تیار کردہ بحران پیدا کر دیا ہے اور یہ سب حکومت کی نگاہ کے سامنے ہو رہا ہے۔
انویسٹر کی بدولت کنسٹرکشن کے عمل میں مہنگائی کا براہ راست اور بالواسطہ دخل ہے جب کہ حکومت کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ علاقے کے اعتبار سے اور رقبے کے اعتبار سے کرایہ کا نرخ نامہ جاری کرے اور عام صارف کو رعایت دے اور اب جب کہ پھر لوٹ کے آیا ہے الیکشن کا زمانہ، اور ہر ایک امیدوار کا شور ہے مجھے بھول نہ جانا۔ کسی امیدوار کا کوئی منشور نہیں، صرف جلسوں میں زبانی کلامی شور برپا ہے کہ ہم ہیں انصاف کے دیوتا اور غریبی دور کرنے والے جب کہ ان کے چیلے اور ٹکٹ کے خریدار بھی کوئی کم اثاثوں کے مالک نہیں۔ ہر بڑے لیڈروں کے ہر بڑے شہر کی تعمیراتی اداروں کے چیف سے براہ راست مراسم ہوتے ہیں، دراصل یہی ہیں صادق و امین کے فرمانبردار تو پھر کیسے کوئی شہر غریب عوام کو اپنا گھر بنانے دے گا۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ایک نام نہاد اشرافیہ کا علاقہ بسانے سے قبل ہی کم درجہ لوگوں کے 110 گز کے تقسیم کر دینے چاہئیں اور ورکنگ کلاس کے ملازمین کو 150 تا 200 گز کے پلاٹ قرعہ اندازی سے کئی اقساط میں فروخت کیے جائیں، بشرطیکہ یہ ان لوگوں کے حلف نامے اور تحقیق کے بعد کہ جن کے پاس خود کوئی اپنا مکان نہ ہو اور اگر بعد میں کہیں سے معلوم ہوا تو الاٹمنٹ منسوخ اور رقم واپس بھی نہ دی جائے تاکہ انویسٹروں کے مفادات پر ضرب کاری لگائی جائے، ورنہ ایک فیصد بے زمین و مکان کے لوگ ایک فیصد بھی مستفید نہ ہو سکیں گے۔
اس طرح انویسٹر دوسرے ترقیاتی کاموں میں مصروف ہوں گے اور لوگوں کو کاروبار کے وسیع مواقع نصیب ہوں گے، نہ کہ لے دے کے اسٹیٹ ایجنسی۔ چونکہ پنجاب میں انڈسٹریل ڈویلپمنٹ کی کمی ہے اس لیے جنوبی پنجاب سے کراچی میں لوگ بستے چلے جا رہے ہیں۔ انویسٹر حضرات کوئی برے لوگ نہیں بلکہ ان کو دیگر مواقع دستیاب نہیں یہ تو سرمایہ دار سوسائٹی کی پیداوار ہیں۔ دراصل ملک کی ترقیاتی منزلوں کے لیے فلسفیانہ بحث کا آغاز کر کے بڑے ترقیاتی منصوبوں پر غور کی ضرورت ہے تاکہ ملک عوامی ضروریات پر پورا اتر سکے ورنہ آنے والے الیکشن مزید نئی مشکلات کے دروازے کھول دیں گے۔