ابنِ صفی شخصیت اور فن
فیصل لکھتے ہیں ’’ابن صفی نے اس سے اختلاف کیا اور اسی اختلاف کے نتیجے میں ماہنامہ ’’جاسوسی دنیا‘‘ کا اجرا عمل میں آیا۔
محمد فیصل اپنی کتاب ''ابن صفی شخصیت اور فن'' میں جو نیشنل بک فاؤنڈیشن نے شایع کی ہے لکھتے ہیں کہ ابن صفی کی تخلیقات کے بعد مقبول عام ادب نہ صرف ایک بالکل نئی زندگی پاگیا بلکہ اپنی مقبولیت کے باعث ادب عالیہ سے ایک قدم آگے نکل گیا۔
فیصل کمپیوٹر سائنس میں ماسٹر ہیں، کچھ عرصہ تدریس کے شعبے سے وابستہ رہے، اب ایک سرکاری ادارے میں کمپیوٹر کے شعبے میں فرائض انجام دے رہے ہیں۔ ادب خصوصاً اردو انگریزی فکشن اور شاعری سے دلچسپی رکھتے ہیں۔ ان کے مضامین پاکستان اور بیرونی ممالک کے رسائل و جرائد میں شایع ہوتے ہیں۔
وہ لکھتے ہیں ''مقبول عام ادب ایسے ادب کو کہا جاتا ہے جو ہر دل عزیز ہو۔ نیز اس میں عمومیت، عوامیت اور انسانی سماج سے قربت ہو۔ عام معاشروں اور سماج کے مسائل آسان انداز میں بیان کیے جائیں۔ اس کے مرکزی کردار اسی معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں۔ یہ ادب عوام کے دل کی آواز ہوتی ہے اور اس کا بنیادی وصف یہ ہے کہ پڑھنے والا اسے اپنی کہانی اور اپنا انداز مانے۔ ادب کی اصطلاح میں مقبول ادب اس وقت سے انسان کا ساتھی ہے جب سے انسان نے بولنا، سوچنا اور لکھنا سیکھا۔ انسانی ترقی کے ساتھ ساتھ مقبول ادب بھی موضوعات اور کرداروں کے حوالے سے ترقی پاتا چلا گیا۔''
جاسوسی ادب بھی مقبول ادب کا ایک موضوع ہے جس کی ابتدا تراجم سے ہوئی۔ جاسوسی ادب کو فیصل دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں، ابن صفی سے پہلے کا جاسوسی ادب اور ان کے بعد کا جاسوسی ادب۔ ابن صفی سے پہلے جاسوسی ناول اور افسانہ صرف تراجم تک محدود تھا۔ 1956 میں ان کے ناول ''دلیر مجرم'' سے اردو میں طبع زاد جاسوسی ادب کا آغاز ہوا۔
محمد فیصل لکھتے ہیں ''ابن صفی کے ادبی پس منظر میں ہمیں بہت سے داخلی و خارجی عوامل نظر آتے ہیں۔ داخلی عوامل میں خاندان کے بزرگ، علمی اور ادبی ماحول اور مطالعے کا شوق لاشعوری طور پر محرک ہے۔ خارجی عناصر میں اساتذہ اور دوستوں کے علاوہ دوسری عالمی جنگ اور تقسیم ہند شامل تھے۔ اس پس منظر میں ابن صفی کے ادبی سفر کا آغاز ہوا جس نے برصغیر میں ادبی دنیا میں انقلاب برپا کردیا۔ ادبی منظرنامے میں مقبول عام ادب نے ادب عالیہ کو پیچھے چھوڑ دیا اور پاک و ہند میں ایک نئی طرز کی لائبریریوں کا قیام عمل میں آیا، جہاں سے قارئین ابن صفی کے ناول کرایہ پر لے کر اپنی پیاس بجھایا کرتے تھے۔''
فیصل کہتے ہیں کہ ابن صفی کی ادبی زندگی کا آغاز اس دن سے ہوگیا تھا جب انھوں نے ''طلسم ہوش ربا'' کی جلدیں پڑھنا شروع کیں۔ اس دل پذیر داستان نے ان کے ذہن میں ایسی جگہ بنائی کہ وہ ساری عمر اس کے طلسم سے باہر نہ آسکے۔ ابن صفی خود اس داستان کے اپنے اوپر تاثرات کا ذکر یوں کرتے ہیں ''سورج غروب ہوتے ہی سال خوردہ محرابوں میں ابابیلیں بسیرا لینے لگتیں اور مجھے ایسا محسوس ہوتا جیسے اب باغِ سیب میں افراسیاب کی محفل لگے گی اور چالاک بن عمرو ملکہ حیرت کی کسی کنیز کے بھیس میں اسی کی سواری کے ہمراہ اس محفل میں دَر آئے گا۔ میں گھنٹوں طلسم ہوش ربا کے کرداروں کے بارے میں سوچتا رہتا۔ سات آٹھ سال کی عمر میں طلسم ہوش ربا کی ساتوں جلدیں پڑھ ڈالیں۔'' انھی دنوں میں ابن صفی کو رائیڈر ہیگرڈ کی کتابیں She اور The Return of She پڑھنے کو ملیں اور وہ ان کو پڑھ کر بالکل ہی نئے قسم کے خوابوں میں ڈوب گئے۔
محمد فیصل ابن صفی کی زندگی کے مختلف ادوار کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اپنے وطن نارا میں پرائمری اسکول کے بعد ابن صفی مزید تعلیم کے لیے الٰہ آباد چلے آئے۔ میٹرک تک ان کی کہانیاں جو زیادہ تر رومانی ہوتی تھیں بمبئی کے ایک ہفتہ وار پرچے ''شاہد'' میں شایع ہوتی تھیں۔ میٹرک ہی میں انھوں نے شاعری بھی شروع کردی۔ 1935 میں جب ترقی پسند تحریک کا آغاز ہوا، صف اول کے ادیب اس میں شامل ہوئے اور علی سردار جعفری، جانثار اختر، مجاز جیسے شاعر بھی تو ابن صفی بھی اپنے شہر کے نوجوانوں کے ساتھ ترقی پسندی کے جوش میں ظالم سماج اور سرمایہ داری کے خلاف شاعری کرنے لگے۔ بہرحال یہ کیفیت جلد ختم ہوگئی اور ان کی زندگی کا وہ دور شروع ہوا جس میں ان کی شاعرانہ صلاحیتیں کھل کر سامنے آئیں۔ وہ مشاعروں میں بھی نظر آنے لگے۔
ان کی مشہور نظم ''بنسری کی آواز'' اسی دور کی ہے۔ کالج سے نکل کر الٰہ آباد یونیورسٹی میں بھی شاعری کا شغف پوری آب و تاب سے جاری رہا۔ برصغیر میں اس وقت افسانہ نگاری عروج پر تھی اور عوام کی ایک بڑی تعداد مختصر کہانیوں کی دل دادہ تھی۔ ان افسانوں میں رومانوی انداز نمایاں تھا۔ عام خیال یہ تھا کہ اردو ادب میں صرف رومانوی اور جنسی کہانیاں ہی جگہ بناسکتی ہیں۔
فیصل لکھتے ہیں ''ابن صفی نے اس سے اختلاف کیا اور اسی اختلاف کے نتیجے میں ماہنامہ ''جاسوسی دنیا'' کا اجرا عمل میں آیا۔ فریدی، حمید، علی عمران اور سیکرٹ سروس کی تخلیق ہوئی۔ اردو زبان میں پہلی مرتبہ سرّی ادب تخلیق کیا جانے لگا وگرنہ اس سے پہلے صرف تراجم دستیاب تھے۔ پہلی بار مقبول ادب (پاپولر لٹریچر) جیسی اصطلاحات سننے کو ملیں۔
محمد فیصل یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا جاسوسی تخلیق ابن صفی کی اس ذہنی اُپچ کا نتیجہ تھی جو طلسم ہوش ربا یا رائیڈر ہیگرڈ کے ناول پڑھنے سے پیدا ہوئی اور کیا ان کی ناولوں کا مقصد صرف سرّیت تھی یا وہ کسی مقصد کے تحت لکھ رہے تھے؟ پھر خود ابن صفی کی ایک تحریر سے اس سوال کا جواب دیتے ہیں۔ ابن صفی لکھتے ہیں ''یہ میرا مشن ہے کہ انسان قانون کا احترام کرنا سیکھے۔ جاسوسی ناول کی راہ میں نے اسی لیے منتخب کی تھی۔ تھکے ہارے ذہنوں کے لیے تفریح بھی مہیا کرتا ہوں اور انھیں قانون کا احترام کرنا بھی سکھاتا ہوں۔ فریدی میرا آئیڈیل ہے جو خود بھی قانون کا احترام کرتا ہے اور دوسروں سے قانون کا احترام کرانے کے لیے اپنی زندگی تک داؤ پر لگا دیتا ہے۔''
فیصل لکھتے ہیں ''تو یہ تھا بنیادی مقصد ابن صفی کا جس کے تحت انھوں نے ''جاسوسی دنیا'' اور ''عمران سیریز'' کی داغ بیل ڈالی۔ ابن صفی کی تخلیقات میں ناانصافی، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور جرائم کی وجوہات اور ان کے سدباب پر جابجا بات کی گئی۔ پیرایہ اس طرح کا تھا کہ پڑھنے والا آسانی سے ان چیزوں کو سمجھ سکے۔''
اردو ادب کے ناقدین ابن صفی کی تخلیقات اور اس کے پس پردہ مصنف کے مقاصد اور اسلوب نگارش کو کس نظر سے دیکھتے ہیں اس کا کچھ اندازہ ان کے تبصروں سے ہوتا ہے جو محمد فیصل نے اپنی کتاب میں شامل کیے ہیں۔ مولوی عبدالحق فرماتے ہیں ''اس شخص کا اردو پر بڑا احسان ہے۔''
شمس الرحمن فاروقی فرماتے ہیں ''ابن صفی ہمارے زمانے کے مقبول ترین ناول نگار تھے۔'' ڈاکٹر توصیف تبسم کہتے ہیں ''ابن صفی کی نثر ہو یا شعر دونوں میں تخلیقی بصیرت، عصری حسیت، فن کارانہ شعور اور مشاہدہ پایا جاتا ہے۔'' امجد اسلام امجد کہتے ہیں کہ جو شہرت اور مقبولیت ابن صفی کی جاسوسی دنیا اور عمران سیریز کے ناولوں کو ملی اس کی کوئی مثال کم ازکم اردو کے جاسوسی ادب میں پیش نہیں کی جاسکتی۔ ان کے مکالموں کی برجستگی اور روانی متاثر کن ہے۔ ان کی تحریریں آپ کو سوچنے پر بھی مجبور کرتی ہیں۔ علی سفیان آفاقی فرماتے ہیں ''اللہ اللہ ابن صفی کے پڑھنے والوں کی دیوانگی اور شوق کا بھی کیا عالم تھا، بقول شاعر ''یہ عالم شوق کا دیکھا نہ جائے۔''
فیصل نے اپنی کتاب میں ابن صفی کے ریڈیو پاکستان سے نشر ہونے والے ایک انٹرویو کا ذکر کیا ہے۔ انٹرویو لینے والے نصیر ترابی تھے۔ انھوں نے پوچھا، ابن صفی صاحب! آپ ایک بہت اچھے شاعر بھی ہیں تو کیا آپ اپنے سننے والوں کو اپنا کلام سنائیں گے؟ ابن صفی نے فرمایا، چند شعر حاضر ہیں:
تنہائی سی تنہائی ہے' کیسے کہیں' کیسے سمجھائیں
چشم و رخسار کی تہ میں روحوں کے ویرانے ہیں
ہم کو سہارے کیا راس آئیں' اپنا سہارا ہیں ہم آپ
خود ہی صحرا' خود ہی دِوانے' شمع نفس پروانے ہیں
بالآخر تھک ہار کے یارو! ہم نے بھی تسلیم کیا
اپنی ذات سے عشق ہے سچا' باقی سب افسانے ہیں