اسلام میں ہجرت کا مقام آخری حصہ

ہجرت سنت انبیا ہے۔ آپؐ کی طرح کئی انبیا علیہم السلام کو ہجرت کی منزل سے گزرنا پڑا۔

drtayyabsinghanvi100@gmail.com

ہجرت کا فلسفہ یہ ہے کہ اگر ایک جگہ کفر کی وجہ سے عسر کی کیفیت پیدا ہوجائے اور اللہ کی بندگی بجا لانے کے تقاضے پورے نہ ہوسکیں تو اﷲ کے سامنے شرمندگی سے بچنے کے لیے پوری سنجیدگی کے ساتھ اس سرزمین کی طرف نقل مکانی کر جاؤ جہاں یسر میسر ہوسکے اور زندگی کو بندگی کے سانچے میں ڈھالا جاسکے۔ ''ملک خدا تنگ نیست پائے گدا لنگ نیست'' کی مثل مومن پر صادق آتی ہے۔ سورۂ نسا میں ارشاد ہوتا ہے:

''جو لوگ اپنی جانوں پر ظلم کرتے رہے، جب فرشتے ان کی جان قبض کرنے لگتے ہیں تو ان سے پوچھتے ہیں کہ تم کس حال میں تھے، وہ کہتے ہیں کہ ہم ملک میں کمزور اور مجبور تھے۔ فرشتے کہتے ہیں کیا خدا کی زمین فراخ اور وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کر جاتے، ایسے لوگوں کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور وہ بری جگہ ہے۔'' (سورۃ النسا آیت نمبر 97)

یہ اﷲ کا بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے مسلمان کو اپنا دین اور ایمان بچانے اور ان کی حفاظت کی خاطر ہجرت کی اجازت مرحمت فرمادی۔ اسلامی تصور ہجرت، مغربی تصور وطنیت کی نفی کرتا ہے۔ انسان خاکی ضرور ہے لیکن اس کی نسبت خاک سے نہیں، اللہ پاک سے ہے۔ اس کی غرض کسی خاص خطہ ارض سے نہیں۔ ساری زمین خدا کی ہے اور مسلمان بذات خود خدا کے لیے ہے۔ جب زمین خدا کی اور وہ خدا کا ہے تو سارا جہاں اس کا وطن ہے۔ ساری زمین اس کے لیے ہے۔ ''ہر ملک، ملک ماست کہ ملک خدائے ماست'' کہنے پر اس کو فخر ہے بقول اقبال:

چین و عرب ہمارا، ہندوستاں ہمارا

مسلم ہیں ہم، وطن ہے سارا جہاں ہمارا

ایک مسلمان قوم اور وطن سے محبت کرنے والا ضرور ہوتا ہے۔ لیکن فرض کو محبت پر قربان کرنے والا ہرگز نہیں۔ رسول کریمؐ فرض اور محبت کی کشمکش میں یہ کہتے ہوئے ''اے مکہ تو مجھے بے حد عزیز ہے لیکن تیرے فرزند مجھے رہنے نہیں دیتے'' سرزمین وطن کو دین کی خاطر الوداع کہہ کر مدینہ کی طرف ہجرت کرگئے۔

ہجرت سنت انبیا ہے۔ آپؐ کی طرح کئی انبیا علیہم السلام کو ہجرت کی منزل سے گزرنا پڑا۔ حضرت ابراہیمؑ کو والدین، قوم و وطن کو ایمان کی خاطر الوداع کہنا پڑا۔ بے برگ و نوا حالت میں بے آب و گیاہ جنگل جنگل، صحرا صحرا رہنا پڑا۔ کلدانین سے حاران وہاں سے مصر اور بالآخر وادی غیر ذی زرع جانا پڑا۔ اسی طرح حضرت لوطؑ اور حضرت موسیٰؑ کی راہ حق میں نقل مکانی کی حکایتیں اور روایتیں شہرہ آفاق ہیں۔ غرض یہ کہ ہجرت ہما شما کے بس کی بات نہیں، یہ صرف عاشقان ایمان و ایقان ہی کی شان ہے کہ ہوائے عشق انھیں خس و خاشاک کی طرح جہان میں جہاں چاہے وہاں اڑائے لیے پھرتی ہے۔

ہجرت جذبہ حسن کی صفت عشق کی نمود ہے یہی نگاہ عشق و مستی تھی جو نہ جانے کتنے اولیا کرام کو ہند اور سندھ کی سرزمین کو نور اسلام سے منور کرنے کے لیے اپنی جائے پیدائش اور جائے رہائش سے یہاں کھینچ لائی۔ جنھوں نے ایمان کی خاطر اوطان کو چھوڑا۔ آج وہ وطن میں نہیں پردیس میں دفن ہیں۔ لیکن ہمارا اور ان کے درمیان نسلی لونی، لسانی اور مکانی اختلافات ہونے کے باوجود ایمان کی بنیاد پر اتحاد ہے اور ہم ان عاشقان پاک طینت کے نام بڑی عقیدت اور احترام کے ساتھ لیتے اور ان کی یاد مناتے ہیں۔

ہجرت توکل علی اللہ اور ایثار و قربانی فی سبیل اللہ کا نام ہے۔ حضرت صہیب رومیؓ جن کے من میں اللہ کی لگن تھی۔ دھن اور وطن کو چھوڑ کر تن کے کپڑوں میں تہی دامن دارالکفر سے دارالسلام چل دیے۔


ہجرت، قربتوں کا فاصلوں میں بدل جانے کا نام ہے۔ سب سے پہلے مہاجر حضرت ابو سلمہؓ اپنی ازدواجی ہم سفر ام سلمہؓ اور شیر خوار رشک قمر لخت جگر کی رفاقت سے اللہ کی رضا کی خاطر مفارقت اختیار کرکے مدینے کی طرف تخت سفر باندھ چلے۔

غرض یہ کہ ہجرت مسلمان کے دین و ایمان کا سخت ترین امتحان ہے۔ ایک اعرابی نے رسول اکرمؐ سے ہجرت کے متعلق سوال کیا آپؐ نے جواب دیا ''تجھ پر افسوس ہے! ہجرت بہت ہی سخت ہے۔'' ہجرت کے لیے جب مسلمان پابہ رکاب ہوتا ہے تو نہ جانے کتنے فکرات، خطرات اور خدشات پا بہ زنجیر ہوجاتے ہیں اور اس کی قوت ارادی کو کمزور کرنے اور اس کی قوت ایمانی کو شکست دینے کے لیے اس کو چاروں طرف سے گھیر لیتے ہیں لیکن اس مومن کی ہمت اور جرأت کا کیا کہنا جو دنیا اور جہان کی ہر محبت کے لیے ناقابل شکست اور ناقابل تسخیر ثابت ہوجائے اور اللہ کی راہ پر ہوا ہوجائے۔ بقول شاعر:

ہزار دام سے نکلا ہوں، ایک ہی جنبش میں

جسے غرور ہو آئے کرے شکار مجھے

ایمان کے اس مرحلے سے گزر جانے والے نہایت عظیم ہیں۔ قرآن کی روح سے ان کے لیے عظمت، عزت، رحمت، مغفرت اور جنت کی بشارت ہے۔ قرآن حکیم میں متعدد مقامات پر ہجرت اور اس کے برکات و ثمرات کا ذکر آیا ہے۔

جہاں حق کی راہ میں ماحول سد راہ ہوجائے۔ حالات ناقابل برداشت ہوجائیں۔ صبر استقامت کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے کا خطرہ لاحق ہوجائے درندگی اپنی انتہا کو پہنچ جائے۔ حتیٰ کہ زندگی اللہ کی بندگی سے محروم ہوجائے تو ایسے مقام سے ہجرت کرجانا مسلمان پر فرض ہوجاتا ہے۔ اور اگر فکر جان، فکر فردا، فکر معاش یا کسی اور دنیوی فکر کی وجہ سے نقل مکانی نہ کی جائے تو یہ دنیا پر ایمان کو قربان کرنے والی بات ہوگی جس کا حاصل جہنم ہے۔

جو مسلمان دارالکفر میں ایمان کا خطرہ مول لے کر رہنا پسند کریں جب کہ دارالسلام کے دروازے ان پر کھلے ہوں پھر بھی وہ نہ آئیں تو ایسے مسلمان ایمان کی دولت سے محروم سمجھے جائیں گے سوائے ان کے جو واقعی بے بس اور لاچار ہوں یا وہ جو سرزمین کفر میں اسم محمدؐ کا اجالا کرنے کی غرض سے وہاں رہنا پسند کریں۔ اگر کوئی کافر قوم مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے اور ان سے ان کا سرمایہ حیات یعنی دولت ایمان چھیننے کی کوشش کرے اور وہ مظلوم مسلمین اخوت کے رشتے اور ناطے کی بنیاد پر ظالم کے خلاف اپنی مدد کی درخواست کریں تو ان کی ہر ممکنہ اخلاقی سیاسی اور مادی مدد کرنا امت مسلمہ کا دینی اور ملی فریضہ بن جاتا ہے الا یہ کہ کوئی قانونی رکاوٹ نہ ہو۔ اگر مہاجرین کی بنیادی ضروریات زندگی کی محرومی کی حالت میں ان کی مدد نہ کی جائے ان کی معاشی اور ذہنی پریشانی کو دور نہ کیا جائے۔ تو یہ اس بات کا ثبوت ہوگا کہ اس ملک کے مسلمان جذبہ ایمانی تو بڑی بات جذبہ انسانی سے بھی محروم ہیں جیساکہ آپؐ نے فرمایا:

''وہ ہرگز مومن نہیں ہوسکتا جو خود پیٹ بھر کر کھانا کھائے اور اس کے پڑوس میں مسلمان بھوک سے کروٹیں بدل رہا ہو۔''

ہجرت مدینہ کے موقع پر جس طرح انصار مدینہ نے مہاجرین مکہ کی ولایت، نصرت اور حمایت کی وہ ایمان سے محبت کی درخشاں مثال ہے۔ اور انما المومنون اخوۃ اور رحماء بینھم کا بہترین عملی اور مثالی نمونہ ہے۔ جو تاقیامت اہل ایمان کے دلوں کو گرماتا رہے گا اور دین اسلام میں ہجرت اور نصرت کی اہمیت کو اجاگر کرتا رہے گا۔
Load Next Story