تحریک طالبان پاکستان کا زوال

ملک سے انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے دلیر افواج پاکستان اور غیور عوام کی قربانیاں رنگ لا رہی ہیں۔


ملک سے انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے دلیر افواج پاکستان اور غیور عوام کی قربانیاں رنگ لا رہی ہیں۔ فوٹو : فائل

KARACHI: یہ 14 جون 2018ء کی رات تھی۔ افغان صوبے کنر کے ضلع مرود میں ایک گاڑی اپنی منزل کی سمت رواں دواں ہوئی۔ اچانک وہاں ایک امریکی ڈرون نمودار ہوا۔ اس نے میزائل سے گاڑی کو نشانہ بنایا جس میں بیٹھے چار پانچ افراد فوراً جل بھن کر ہلاک ہوگئے۔ مقتولین میں تحریک طالبان پاکستان کا امیر فضل اللہ بھی شامل تھا۔ اس شخص نے پاکستانی عوام اور سکیورٹی اداروں پر کئی دہشت گردانہ حملے کرائے تھے۔ ان میں آرمی سکول، پشاور کے معصوم بچوں پر خوفناک حملہ بھی شامل ہے۔ اسی لیے پاکستان میں انتہا پسند لیڈر،فضل اللہ کے مارے جانے پر اظہار خوشی کیا گیا۔

پاکستان طویل عرصے سے افغانستان اور امریکا سے مطالبہ کررہا تھا کہ فضل اللہ کو نشانہ بنایا جائے تاہم یہ آواز صدالبصحرا ثابت ہوئی۔ آخر بدلتے حالات نے امریکیوں کو مجبور کردیا کہ وہ پاکستانی حکومت کا مطالبہ پورا کردیں۔ خاص طور پر امریکا کا تو فرض تھا کہ پاکستان کے ایک بڑے دشمن کو ٹھکانے لگادے۔ آخر قبائلی علاقہ جات میں ریاست پاکستان کے بہت سے دشمن پیدا کرنے کا ذمے دار امریکا ہی ہے۔

جب امریکیوں نے 2001ء میں افغانستان پر حملہ کیا، تو کئی افغان، عرب، ازبک، تاجک جنگجو پاکستان کے قبائلی علاقوں میں چلے آئے تھے۔ تب امریکا کی ایما پر جنرل پرویز مشرف نے قبائلی علاقوں میں فوج بھجوادی تاکہ جنگجوؤں کا قلع قمع ہوسکے۔ مگر قبائلیوں نے فوج کی آمد کو اپنی آزادی پر حملہ سمجھا۔ یوں وہ امریکا و نیٹو کے ساتھ ساتھ ریاست پاکستان سے بھی نبرد آزما ہوگئے۔دسمبر 2007ء میں پاکستان دشمن تنظیموں کے اتحاد ''تحریک طالبان پاکستان'' نے جنم لیا۔اسے مغرب دشمن تنظیموں القاعدہ اورچند فرقہ وارانہ تنظیموں کی حمایت حاصل تھی۔ تحریک کے کارندے 2009ء تک پاکستانی سکیورٹی فورسز پر بم حملے اور خودکش حملے کرتے رہے۔ پھر وہ پاکستانی عوام کو بھی نشانہ بنانے لگے۔ انہوں نے نظریہ تکفیر اپنا کر اپنے نظریات کے مخالف تمام مسلمانوں کو واجب القتل قرار دے ڈالا۔ گویا وہ دور جدید کے خارجی بن بیٹھے۔

تحریک طالبان پاکستان اور دیگر انتہا پسند جنگجو اور متشدد تنظیموں نے پاکستان کو معاشی و معاشرتی طور پر بہت نقصان پہنچایا۔ ریاست کو 75 ارب ڈالر کا مالی نقصان برداشت کرنا پڑا۔ سب سے بڑھ کر پچاس ہزار سے زائد پاکستانی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ نیز ملک و قوم کا دفاع کرتے ہوئے افواج پاکستان اور دیگر سکیورٹی اداروں کے ہزارہا دلیر جوانوں نے بھی اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔

حقیقت یہ ہے کہ افواج پاکستان نے نہایت بہادری سے اور بڑے منظم انداز میں تمام ملک دشمن طاقتوں کا مقابلہ کیا اور انہیں پسپا ہونے پر مجبور کردیا۔ یوں دنیا والوں نے دیکھ لیا کہ افواج پاکستان جنگی مہارت، تجربے اور بہادری میں کسی سے کم نہیں۔ ان کے پے در پے فوجی آپریشنوں کا نتیجہ ہے کہ پاکستان دشمن تنظیموں ،خاص طور پر تحریک طالبان پاکستان کی بنیادیں ہل گئیں اور اب وہ پہلے کے مانند فعال نہیں رہیں۔فضل اللہ کی موت سے ان تنظیموں اور ان کے سرپرستوں کو مزید ضعف پہنچے گا۔

فضل اللہ اس قول کی عملی مثال ہے کہ انتہا پسندی ماچس کی ایسی تیلی ہے جو پورا معاشرہ جلا کے راکھ کرسکتی ہے۔ فضل اللہ 1974ء میں علاقہ سوات میں پیدا ہوا۔ لڑکپن میں وہ کرکٹ اور فٹ بال کا شیدائی تھا۔ انٹرمیڈیٹ تک تعلیم پائی۔ پھر چیئرلفٹ کے ادارے میں ملازمت کرنے لگا۔

نوجوانی میں فضل حیات المعروف بہ فضل اللہ کی ملاقات ایک شدت پسند رہنما صوفی محمد سے ہوئی جو بزور اپنے نظریات معاشرے پر لاگو کرنا چاہتے تھے۔ فضل اللہ بہت جلد اپنے استاد کا قریبی چیلا بن گیا۔ حتیٰ کہ صوفی محمد نے بیٹی کی شادی اس سے کردی۔صوفی محمد کے سبھی مطالبات غلط نہیں تھے۔ مگر انہوں نے مطالبات منوانے کی خاطر جو طریق عمل اختیار کیا' وہ غلط تھا۔

فضل اللہ کو شہرت 2006ء میں ملی جب وہ پُر اسرار انداز میں ایک ایف ایم ریڈیو اسٹیشن کا مالک بن بیٹھا۔ وہ پھر تعلیم نسواں، بال کٹوانے، موسیقی سننے اور دیگر معاشرتی سرگرمیوں کے خلاف تقریریں کرنے لگا۔ وہ ایک جوشیلا مقرر تھا اور اس نے جذبات بھڑکا دینے والی تقاریر کی مدد سے اپنے گرد بیروزگار اور ناخواندہ نوجوان اکٹھے کرلیے۔ ان نوجوانوں کی مدد سے وہ مخصوص مذہبی نظریات کو شریعت کا نام دے کر سوات کے عوام پر ٹھونسنے کی کوشش کرنے لگا۔

قرآن و حدیث میں واضح طور پر درج ہے کہ علم و تعلیم حاصل کرنا ہرمرد و عورت پر فرض ہے۔ لیکن فضل اللہ نے خود ساختہ نظریات کے تحت تعلیم نسواں پر پابندی لگادی۔ جن لڑکیوں نے تعلیم جاری رکھی، ان پر حملے کیے گئے۔ ملالہ پر بھی ایک ایسا ہی حملہ ہوا کیونکہ وہ تعلیم پانے کی حامی تھی۔ علاقے میںبچے بچیوں کے بہت سے اسکول بم دھماکوں سے اڑا دیئے گئے۔اسی طرح فضل اللہ تمام جدید الیکٹرونک اشیا مثلاً کمپیوٹر، ٹی وی، ریڈیو وغیرہ کو غیر شرعی سمجھتا تھا۔ لیکن منافقت کی انتہا ہے کہ قانونی طور پر اجازت لیے بغیر وہ خود ایف ایم ریڈیو اسٹیشن چلاتارہا۔

جب سوات کے علاقے میں فضل اللہ کا اثرورسوخ بڑھا تو اس نے وہاں شرعی عدالتیں قائم کردیں۔لوگ خوش ہوئے کہ اب فوری انصاف ملے گا۔ مگر ان عدالتوں میں مناسب تحقیق و تفتیش کے بغیر فیصلے دیئے جانے لگے۔ چنانچہ بہت سے بے گناہ سزاوار قرار پائے۔ اس خرابی نے اہل سوات کو متوحش و خبردار کردیا۔ وہ پھر حکومت سے مطالبہ کرنے لگے کہ علاقے کو نام نہاد مذہبی رہنما کے خود ساختہ نظام سے نجات دلائی جائے۔

آخر وسط 2009ء میں پاک فوج نے علاقہ سوات میں جنگی آپریشن کیا اور تمام شدت پسندوں کو مار بھگایا۔ میدان جنگ میں کبھی پیٹھ نہ موڑنے کی بڑھک مارنے والا فضل اللہ رات کی تاریکی میں اپنے ساتھیوں اور پیروکاروں کو دغا دے کر افغانستان فرار ہوگیا۔ وہ پھر وہاں سے مکاروں کی طرح چھپ کر اہل پاکستان اور سکیورٹی فورسز پر وار کرنے لگا۔کہا جاتا ہے کہ اس دوران امریکا ،بھارت اور افغانستان کی خفیہ ایجنسیوں نے فضل اللہ کو اپنا آلہ کار بنالیا۔ وہ اسے مال و سامان فراہم کرنے لگیں تاکہ فضل اللہ پاکستان کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچا سکے۔ یوں گویا پاکستان کے خلاف پراکسی یا خفیہ جنگ چھیڑ دی گئی۔

بھارتی اور افغان کٹھ پتلی بن جانے سے اب فضل اللہ کے پاس وافر سرمایہ تھا اور جنگی ہتھیار بھی! اسی امر نے اسے تحریک طالبان پاکستان کا اہم لیڈر بنا دیا۔ یہی وجہ ہے، جب نومبر 2013ء میں تنظیم کا امیر،حکیم اللہ محسود ڈرون حملے میں مارا گیا تو فضل اللہ اپنے اثرو رسوخ کی وجہ سے تحریک طالبان کا نیا امیر بننے میں کامیاب رہا۔

تحریک طالبان پاکستان میں کارکنوں اور رہنماؤں کی اکثریت قبائلی علاقہ جات کے قبائلیوں خصوصاً محسود قبیلوں سے تعلق رکھتی ہے۔ اسی لیے قبائلی رہنماؤں کی سعی ہوتی ہے کہ ان میں سے کسی کو امیر تحریک بنایا جائے۔ جب فضل اللہ امیر بنا، تو بعض قبائلی رہنماؤں مثلاً شہریار محسود اور طارق محسود نے اس کے خلاف بغاوت کردی ۔ نتیجتاً تحریک میں خانہ جنگی چھڑگئی اور کئی شدت پسند آپس میں لڑتے ہوئے مارے گئے۔

2014ء میں بھارت میں ایک انتہا پسند لیڈر، نریندر مودی حکمران بن گیا۔ اس نے اجیت دوال کو مشیر قومی سلامتی مقرر کیا۔ اجیت دوال نے پاکستان دشمن تنظیموں سے روابط بڑھائے اور انہیں مزید سرمایہ و اسلحہ فراہم کرنے لگا۔ ایک طرف یہ پراکسی جنگ جاری تھی تو عالمی سطح پر مودی حکومت پاکستان کو تنہا کرنے کی سعی کرنے لگی۔

نریندر مودی نے خصوصاً افغانستان اور ایران سے رابطے بڑھائے تاکہ پاکستان کو تنہائی کا شکار کیا جاسکے۔ مودی نے گوادر بندرگاہ کو ناکام بنانے کی خاطر بھارتی سرمائے سے ایران میں چاہ بہار بندرگاہ بنوا ڈالی۔ نیز ایران سے افغانستان تک سڑک تعمیر کرائی۔ مدعا یہ تھا کہ بھارت کا سامان تجارت بذریعہ ایران افغانستان پہنچ سکے۔ اس دوران امریکا درپردہ مودی حکومت کی حمایت کرتا رہا۔ لیکن نریندر مودی پاکستان کو یکا و تنہا کرنے کے اپنے مذموم عزائم میں کامیاب نہیں ہوسکا۔

پاکستان کوعالمی تنہائی کا شکار کرنے کی کوششوں پر پہلے چین اور روس نے پانی پھیر دیا۔ بعد ازاں ٹرمپ حکومت نے امریکا ایران ایٹمی معاہدہ منسوخ کر ڈالا۔ نیز ایران پر سخت پابندیاں عائد کرنے سے چابہار بندرگاہ فعال کرنے کی بھارتی کوششوں کو نقصان پہنچا۔یہ حقیقت بھی سامنے آئی کہ ایران کے راستے بھارتی مال افغانستان بھجوانا بہت مہنگا پڑتا ہے۔ لہٰذا مودی حکومت صرف ایک بار بھارتی گندم افغانستان بھجوا کر ہمت ہار بیٹھی۔ دلچسپ بات یہ کہ گندم مفت بھجوائی گئی تھی۔

پچھلے چند برس میں افغانستان اور پاکستان کی باہمی تجارت بہت گھٹ گئی تھی۔ وجہ یہی کہ افغان حکومت کو خوش فہمی تھی کہ پاکستان کی راہ جو سامان تجارت آتا ہے، وہ اسے بھارت فراہم کرتا رہے گا۔ لیکن بے پناہ اخراجات کی وجہ سے چند ہی ماہ بعد بھارتی تاجروں نے افغانستان مال و اسباب بھجوانے سے معذرت کرلی۔ مودی حکومت کی ناکامی کے بعد ہی افغان حکمران طبقے کو احساس ہوا کہ پاکستان سے تجارت کرنا نہ صرف سہل ہے بلکہ بیرونی ممالک سے بذریعہ کراچی سامان منگوانا سستا بھی پڑتا ہے۔ انہی حقائق نے افغان حکومت کو دوبارہ پاکستان کے قریب ہونے پر مجبور کردیا۔

اس دوران ٹرمپ حکومت بھی جان گئی کہ امریکا کبھی افغان طالبان کو میدان جنگ میں شکست نہیں دے سکتا۔افغان طالبان مسلسل افغانستان کے کئی اضلاع میں طاقتور ہو رہے ہیں۔نیز یہ بھی اطلاعات ہیں کہ روس،چین اور ایران ان کی ہر ممکن مدد کرنے لگے ہیں۔اس عالم تنہائی میں امریکی حکمران طبقے کو پھر پاکستان کی یاد ستانے لگی جو بہرحال اب بھی افغان طالبان میں اثرورسوخ رکھتا ہے۔ٹرمپ حکومت اب خواہش کرنے لگی کہ پاکستان کی وساطت سے افغان طالبان سے امن کی خاطر گفت وشنید کی جائے۔اپنے مفادات کی خاطر امریکی رخ بدلنے میں ایک سیکنڈ بھی نہیں لگاتے!

روٹھے دوست کو خوش کرنے کے لیے ہی امریکا و افغان حکومت نے اپنے پیادے، فضل اللہ کو قتل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ فضل اللہ اب اپنے آقاؤں کے لیے اہم مہرہ نہیں رہا تھا۔قبائلی علاقہ جات میں افواج پاکستان کے پے در پے زبردست حملے ٹی ٹی پی اور دیگر ملک دشمن تنظیموں کا تقریباً سارا انفراسٹرکچر تباہ کر چکے۔اسی لیے یہ تنظیمیں اب افغانستان میں اپنے ہیڈ کوارٹر قائم کر چکیں۔لیکن سرحد پر خاردار باڑ کی تعمیر سے پاکستان آنا پہلے کی طرح آسان نہیں رہا۔اسی باعث ٹی ٹی پی اور دیگر پاکستان دشمن تنظیمیں ماضی کی طرح فعال نہیں رہیں۔

سچ یہ ہے کہ فضل اللہ کے قتل سے ثابت ہو گیا کہ پاکستان کے دشمن افغانستان میں چھپ کر پاکستانی عوام ،قومی تنصیبات اور ہماری سیکورٹی فورسز پر حملوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔تحریک طالبان پاکستان نے مفتی نور ولی کو نیا امیر مقرر کر دیا ہے۔ یہ نام نہاد امیر اغوا برائے تاوان اور اجرت پر قتل کرنے کی وارداتوں میں ملوث رہا ہے۔ اب خصوصاً بھارت کی خفیہ ایجنسی،را بھرپور کوششیں کرے گی کہ اس نئے امیر کے ہاتھ مضبوط کیے جائیں تاکہ پاکستان کے خلاف دہشت گردی کا سلسلہ جاری رہے۔افغان حکومت اور امریکا اگر پاکستان سے پُرامن اور خوشگوار تعلقات چاہتے ہیں تو انھیں اپنی سرزمین میں ٹی ٹی پی سمیت تمام پاکستان مخالف تنظیموں کے ٹھکانوں ،تنصیبات اور لیڈروں کا صفایا کرنا ہو گا۔

بعض عسکری ماہرین کا تجزیہ ہے کہ امریکا،بھارت اور افغان حکومت کا ٹولہ اب افغانستان اور پاکستان میں خفیہ طور ایک نئے مہرے،داعش کو پروان چڑھا رہا ہے تاکہ اپنے مذموم مقاصد پورے کیے جا سکیں۔(ایک بڑا مقصد دنیائے اسلام کی اکلوتی ایٹمی قوت کو مختلف جغرافیائی حصّوں میں تقسیم کرنا ہے۔)افغان طالبان اور ٹی ٹی پی کے ناراض گروہوں کے علاوہ دیگر جنگجو تنظیمیں بھی داعش کے جھنڈے تلے جمع کی جا چکیں۔لہٰذا مستقبل میں داعش پاکستان کے لیے زیادہ بڑا خطرہ بن سکتی ہے۔افواج پاکستان اور وطن عزیز کے دیگر سیکورٹی اداروں کو اس نئے عفریت سے چوکنا رہنا ہو گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں