سپر اسٹور
سپر اسٹورز کے رجحان میں اضافے کے بارے میں عام شہریوں نے ملے جلے خیالات کا اظہار کیا۔
آج سے تقریباً 3 ہزار سال قبل تک کسی چیز یا خدمت کی خرید کا پیمانہ چیزوں یا خدمت کی فروخت ہی تھا، جسے عرف عام میں بارٹر سسٹم (Barter System) کہا جاتا ہے۔ یعنی چیز کے بدلے چیز۔ کسی کو اگر گوشت کی ضرورت ہے تو وہ جس کے پاس گوشت ہوتا، اسے قیمتی پتھر دے کر حاصل کر لیتا تھا اور اگر کسی کو کلہاڑے کی ضرورت ہوتی تو وہ اس کے مالک کو چاول دے کر یہ خرید لیتا تھا۔ لیکن پھر وقت بدلا، سوچ بدلی اور معاشرتی ڈھانچے کی ازسرنو تشکیل ہوئی تو کاغذ کا ٹکڑا (کرنسی) یا سونے کا سکہ چیزوں کی خریدوفروخت کا حتمی ذریعہ بن گیا۔
اشیائے ضروریہ کی خریدوفروخت کے لیے پہلے جو قافلے چلتے تھے، وہ آہستہ آہستہ ایک جگہ پر اکٹھے ہونے لگے۔ یعنی چیزوں کی خریدوفروخت کے لیے مخصوص مقامات بننے لگے، جنہیں بازار کہا جاتا ہے۔ دنیا میں پہلی بار فارس میں چیزوں کی خریدوفروخت کے لیے بازار بنائے گئے، جو بعدازاں دنیا بھر میں پھیل گئے۔ پھر وقت گزرنے کے ساتھ ان بازاروں میں موجود دکانیں پختہ ہونے لگیں، چھوٹے چھوٹے بازاروں سے مارکیٹس بن گئیں اور آج ایک مخصوص جگہ (مارکیٹ) کے بجائے ایسے سپراسٹورز کا رجحان تقویت پا رہا ہے، جہاں ایک ہی چھت تلے ضروریات زندگی کی تمام اشیاء دست یاب ہوں۔
عمومی قومی رویے کے عین مطابق دنیا بھر میں کئی برسوں سے موجود سپر اسٹور کا تصور آج پاکستان میں بھی تیزی سے مقبولیت حاصل کر رہا ہے۔ سپراسٹورز نے نہ صرف متوسط طبقے بلکہ امراء کے لیے بھی سہولت فراہم کی ہے۔ وہ چیزیں جو امراء بیرون ممالک سے خرید کر پاکستان لاتے تھے، آج وہ انہیں اپنے ہی ملک میں دست یاب ہیں۔ سپراسٹورز نے عام شہری کے لیے یہ سہولت فراہم کردی کہ مختلف چیزوں کی فروخت کے لیے دن بھر مارکیٹوں کے دھکے کھانے کے بجائے اسے ایک ہی چھت تلے کھانے پینے سے لے کر پہننے اوڑھنے تک سارا سامان مہیا کر دیا۔ مجموعی طور پر ان سپراسٹورز پر لوگوں کے لیے کم نرخوں پر معیاری چیزیں دست یاب ہیں۔ ملک میں سرمایہ کاری بڑھی تو روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوئے۔ لیکن ان تمام تر فوائد کے ساتھ کچھ نقصانات بھی ہوئے ہیں۔
بلاشبہہ سپراسٹورز کی وجہ سے روزگار کے مواقع بڑھے، لیکن معاشرتی و معاشی ناانصافی کی صورت حال بھی گمبھیر ہوئی۔ سپراسٹورز بنانے والے سرمایہ دار کا پیسہ پیسے کو کھینچ رہا ہے جب کہ چھوٹا دکان دار اس رجحان کی وجہ سے متاثر ہورہا ہے۔ یوں پیسہ چند افراد کے ہاتھوں میں محدود ہو رہا ہے۔ روزگار کے مواقع ضرور پیدا ہوئے، لیکن اکثر سپراسٹورز میں کام کرنے والے ملازمین کو کم تن خواہیں دے کر ان کا معاشی استحصال کیا جا رہا ہے۔
حکومت کی طرف سے کم از کم تن خواہ 15 ہزار روپے مقرر کی گئی ہے، لیکن یہاں کام کرنے والے اکثر پڑھے لکھے افراد کی تن خواہ بھی صرف 12 سے 14 ہزار روپے ہے جب کہ ڈیوٹی کے اوقات 10 سے 12 گھنٹے ہیں۔ اس ملازم کی سواری بھی اپنی ہوتی ہے اور اسے کوئی اوور ٹائم بھی نہیں ملتا۔ زیادہ تر سیلزمین کی تن خواہ بھی 10 ہزار روپے ہے۔ اور قابل افسوس امر یہ ہے کہ ہمارا لیبر ڈیپارٹمنٹ اپنا کمیشن وصول کرنے کے بعد اس ضمن میں کسی قسم کی کارروائی کرنے سے قاصر ہے۔
ان سپر اسٹورز پر ہمیں خواتین کی کثیر تعداد کام کرتے نظر آتی ہے، لیکن مجبوریوں کی بیڑیاں پہنے ان خواتین کا معاشی استحصال بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ عام شہریوں کے لیے فائدہ مند ان سپر اسٹورز کی وجہ سے پیدا ہونے والی معاشی و معاشرتی خرافات پر قابو پایا جائے۔
کچھ دہائی قبل تک پاکستان میں سپر مارکیٹ یا سپراسٹور کا تصور اتنا عام نہیں تھا، اس وقت تک کچھ پوش علاقوں میں اکا دکا سپراسٹور قایم تھے، جن تک رسائی عام آدمی کے لیے ایک خواب ہی تھا۔ شہری اشیائے خورونوش اور روزمرہ کی زندگی میں استعمال ہونے والی اشیاء کی خریداری کے لیے گلی محلوں میں قایم بازاروں کا رخ کرتے تھے۔ لیکن ذرایع ابلاغ، ٹی وی چینلز اور انٹرنیٹ تک رسائی نے لوگوں میں سپر مارکیٹ سے منسلک تصور کو تبدیل کیا۔
دو دہائی قبل پاکستان میں سرمایہ کاروں نے بڑے بڑے شاپنگ مالز بنانے شروع کیے۔ اس رجحان نے متوسط طبقے کے صارفین کو کئی ملکی اور غیرملکی برانڈ ناموں سے روشناس کرایا۔ ایک دہائی قبل شہر کے متوسط علاقوں میں ملکی اور غیرملکی اداروں کی جانب سے سپراسٹورز کے قیام کا سلسلہ شروع ہوا اور آج شہر قائد کے پس ماندہ ترین علاقوں کے رہائشی بھی خریداری کے لیے ان سپر مارکیٹس کا رخ کر رہے ہیں۔
سپراسٹورز میں دست یاب اشیاء کی قیمتوں اور معیار کو ایک طرف رکھ کر دیکھا جائے تو اس کلچر کا فروغ گلی محلوں میں بیٹھے چھوٹے دکان داروں کا معاشی قتل کررہا ہے۔ شہرِقائد کے بہت سے مڈل کلاس علاقوں میں کریانہ فروش، سبزی فروش اپنی سیل میں کمی کا رونا روتے نظر آتے ہیں، کیوں کہ وہ اپنی قوت خرید کے حساب سے تھوک میں مال خریدتے ہیں، جب کہ سپر مارکیٹ براہ راست کمپنیوں سے خریداری کرتی ہیں جس کی وجہ سے ان کی اور ایک عام خوردہ فروش کی قیمت میں واضح فرق نظر آتا ہے۔ لیکن ہر جگہ ایسا نہیں ہے کچھ دکانوں پر دست یاب اشیا کی قیمتیں سپر اسٹورز میں ملنے والی اشیاء سے کم بھی ہوتی ہیں، لیکن زیادہ تر لوگوں کے ذہنوں میں سپر اسٹورز کے حوالے سے موجود سستا اور معیاری کا تصور انہیں محلے کے کریانہ فروشوں سے دور کر رہا ہے۔
سپر اسٹورز کے بارے میں شہریوں کی مختلف آرا ہیں، کچھ کے نزدیک یہ سہولت ہے تو کچھ کے نزدیک سپر اسٹور بے جا اصراف کا سبب بھی بن رہے ہیں۔ چھوٹے دکان داروں کا اس بابت کہنا ہے کہ کراچی میں جس رفتار سے سپراسٹور کا قیام عمل میں آرہا ہے تو وہ وقت دور نہیں کہ ہمیں دکان داری بند کرکے کوئی دوسرا کام شروع کرنا پڑے گا۔ جہاں تک ہماری اور سپر مارکیٹ کی قیمتوں میں فرق کا تعلق ہے تو یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے، کیوں کہ ہم کسی حال میں اس قیمت پر وہ پراڈکٹ فروخت نہیں کر سکتے، کیوں کہ زیادہ تر سپراسٹور میں موجود اشیاء کی قیمتیں ہماری تھوک قیمت سے بھی کم ہیں، تو اب ایسا تو نہیں ہوسکتا کہ ہم دس روپے میں کوئی چیز خرید کر اسے ایک روپے نقصان میں نو روپے میں فروخت کریں۔ جہاں تک معیار کی بات ہے تو ہم دکان دار بھی اسی کمپنی کا مال فروخت کر رہے ہیں جس کمپنی کا مال سپراسٹور پر مل رہا ہے۔
بڑے بڑے سرمایہ دار ہم لوگوں کی روزی روٹی پر لات مار رہے ہیں اور اگر یہ سلسلہ ایسا ہی چلتا رہا تو پھر چھوٹے دکان داروں کو دو وقت کے کھانے کے لالے پڑجائیں گے، جب کہ اگر تصویر کا دوسرا رخ دیکھا جائے تو سپراسٹورز کی وجہ سے مارکیٹ میں مسابقت کی فضا پیدا ہوئی ہے جس کا بلاواسطہ اور بلواسطہ فائدہ صارف کو ہی ہوا ہے۔ کیوں اس سے پہلے بہت سے صارفین کمپنی کی جانب سے دی گئی پروموشن، رعایت سے مستفید نہیں ہوپاتے تھے، لیکن سپراسٹورز کی بدولت ہر صارف کمپنی کی جانب سے دی گئی پیش کش، رعایت سے مستفید ہورہا ہے۔ دوسری طرف سپراسٹور کی وجہ سے نوجوانوں کو باعزت روزگار بھی میسر آیا ہے اور یہ صنعت ٹیکس کی مد میں ملک کو کروڑوں روپے ادا کر رہی ہے، جب کہ بہت سے چھوٹے دکان دار ٹیکس نیٹ میں شامل ہی نہیں ہیں۔
دنیا بھر میں ریٹیل مارکیٹ کے اعدادوشمار اور اس سیکٹر کی مستقبل کی پیش گوئی کرنے والی فرم پلانیٹ ریٹیل کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ریٹیل مارکیٹ کا حجم دس فی صد اضافے کے ساتھ بڑھ کر ایک سو ساٹھ بلین ڈالر سالانہ تک پہنچ چکا ہے اور اس میں ہر گزرتے وقت کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق اگرچہ پاکستان میں ریٹیل سیکٹر تیزی سے بڑھ رہا ہے، لیکن اس کے باوجود اس کا پھیلاؤ صرف بڑے شہروں تک محدود ہے اور ابھی پاکستان میں اس حوالے سے کافی خلا موجود ہے۔ اگر صوبوں کے لحاظ سے دیکھا جائے تو ریٹیل سیکٹر میں سندھ اور خیبر پختون خوا کی نسبت وسطی پنجاب میں سپراسٹور کے رجحان میں زیادہ تیزی آرہی ہے۔
پاکستان میں سپراسٹورز کے کلچر کے فروغ کے کئی اسباب ہیں لیکن اس میں سب سے اہم یہ ہے کہ پچھلے چند سالوں میں شہری علاقوں میں متوسط طبقے کی معاشی بڑھوتری میں بہتری آئی ہے، دویم یہ کہ ذرایع ابلاغ نوجوان گھرانوں کے لیے شاپنگ کوتفریح اور گلیمر کے روپ میں پیش کررہا ہے، جہاں آپ خریداری کے ساتھ ساتھ کھانے پینے اور یہاں تک کہ موویز تک سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں، اور تیسری سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ ٹیکنالوجی کے میدان میں ہونے والی تیزرفتار ترقی اور اسمارٹ فونز تک ہر ایک کی رسائی نے بھی سپراسٹور کلچر کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ کچھ عرصے قبل تک اشیائے خورونوش بیچنے والے کو کریانہ فروش، جوتے بیچنے والے کو موچی کہا جاتا تھا لیکن سپراسٹور کلچر نے ان سب کو یکجا کرکے ایک نیا نام دے دیا ہے جسے انٹر پرینیور شپ کا نام دیا جاتا ہے۔
سپر اسٹورز میں معیار کے نام پر منہگی چیزیں فروخت کی جاتی ہیں صدر کنزیومر رائٹس فورم پاکستان حنیف گورائیہ
صدر کنزیومر رائٹس فورم پاکستان حنیف گورائیہ نے ''ایکسپریس'' سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا،''سپراسٹورز کی تعداد میں اضافے کی ایک بڑی وجہ تو تیزی سے بڑھتی آبادی ہے، دوسرا آج ہماری مڈل کلاس کے پاس کچھ پیسہ بھی آ گیا ہے۔ لوگوں میں یہ رجحان تقویت پا رہا ہے کہ سپر اسٹورز پر معیاری چیز دست یاب ہوتی ہے، لیکن اس معیاری چیز کے دام حکومت کی طرف سے مقررہ نرخ سے کہیں زیادہ ہوتے ہیں، آپ ان اسٹورز پر اشیائے خورونوش خریدیں یا گارمنٹس، آپ کو یہاں پر عام مارکیٹ سے منہگی چیز ملے گی۔ عام مارکیٹ میں جو چیز دس روپے کی ہے، وہاں بارہ سے پندرہ روپے میں ملے گی۔
اور ظلم تو یہ ہے کہ انہیں سرکاری ادارہ پوچھنے والا بھی نہیں، تو پھر اس صورت میں آپ ہی مجھے بتائیں کہ اوسط درجے کی آمدنی والا عام شہری کس طرح ان سپراسٹورز کا رخ کر سکتا ہے۔ معیار کے نام پر منہگی اشیاء کی خریداری تو صرف ہماری ایلیٹ کلاس ہی کر سکتی ہے، کیوں کہ اس کلاس کی اکثریت کے پاس کرپشن کا پیسہ ہے۔ آپ دیکھیں! ملک کے 40 فی صد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں، ان کے لیے تو دو وقت کی روٹی کھانا ہی مشکل ہے، وہ سپراسٹورز کا رخ کہاں کرتے ہیں۔ سپراسٹورز تو ہماری 10 سے 15 فی صد آبادی کی عیاشی ہے۔
اس تاثر پر کہ سپراسٹورز پر معیاری چیزیں عام مارکیٹ سے بھی کم نرخوں پر دست یاب ہیں، حنیف گورائیہ کا کا کہنا ہے کہ آپ کی بات کسی حد تک درست ہے، لیکن آپ دیکھیں! کہ ایسے سپراسٹورز کے منافع کی شرح بہت زیادہ ہے، یہ بڑے پیسے والے لوگ ہیں، جو ہر چیز خود خرید کر اسے پیک کرتے ہیں یا اتنی زیادہ تعداد میں خریدتے ہیں کہ ان کے منافع کی شرح بڑھ جاتی ہے اور وہ اس کا فائدہ اٹھا کر ایک دو روپے کم نرخ پر زیادہ تعداد میں چیزیں بیچ لیتے ہیں۔ عام دکان دار کے متاثر ہونے کے سوال پر صدر کنزیومر رائٹس فورم پاکستان نے کہا کہ بلاشبہہ ان سپراسٹورز کی مناپلی کی وجہ سے عام دکان دار متاثر ہوا ہے، لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ عام دکان دار بھی غریب عوام کی چمڑی ادھیڑ رہا ہے۔ ہمارے ہاں عمومی طور پر غریب لوگوں کا طریقۂ کار یہ ہے کہ وہ ادھار پر چیزیں لے کر مہینے کے آغاز پر پورا بل چکتا کرتے ہیں اور اسی چیز کا عام دکان دار فائدہ اٹھاتا ہے۔ وہ ادھار کی صورت میں لوگوں کو زائد نرخ پر اشیاء فروخت کرتا ہے۔
٭چودھری افضل حسین
ایک سپراسٹور چین کے منیجنگ ڈائریکٹر
یقیناً ہمارے ہاں سُپراسٹورز کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے، سبب یہ ہے کہ جب آپ ریٹیل شاپ میں جاتے ہیں تو وہاں آپ کو ہر چیز ریٹیل پرائس ہی میں ملتی ہے، اسے خریدتے ہوئے آپ مطمئن نہیں ہوتے، ممکن ہے کہ وہ آپ کی استطاعت میں نہ ہو یا آپ اس کے معیار کو پہچاننے میں مشکل پیش آئے، وہاں آپ دکان دار کے رحم وکرم پر ہوتے ہیں، بہت تنگ ماحول ہوتا ہے۔ اگرآپ کو تیس چیزیں لینا ہوتی ہیں تو چھے دکانوں پر جانا ہوتا ہے، اس لیے چاہے آپ گاڑی میں ہوں یا پیدل، خریداری میں مشکل پیش آتی ہے۔ سپرمارکیٹس میں فیملی انٹرٹینمنٹ ملتی ہے، یہاں ریٹس ہول سیل والے ہوتے ہیں حتیٰ کہ ایک چیز کی قیمت بھی ہول سیل والی ہی وصول کی جاتی ہے۔
پوری فیملی کی شاپنگ ایک ہی چھت تلے ہوجاتی ہے، یہاں کوالٹی بھی ملتی ہے اور ورائٹی بھی، یہ سہولتیں ایک چھوٹی دکان میں نہیں ملتیں۔ سپراسٹورز میں فروخت ہونے والی ہر چیز کی قیمت ہول سیل میں ہوتی ہے۔ آپ ریٹیل شاپ میں دس ہزار روپے کی شاپنگ کرتے ہیں، سپرمارکیٹ میں آنے کی صورت میں وہی سامان ایک ہزار سے پندرہ سو روپے کی بچت کے ساتھ خریدا جاسکتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں سپرمارکیٹوں کے کلچر کے بڑے مثبت اثرات مُرتب ہوئے ہیں، جدید ریٹیلنگ کرنے والے لوگ دبئی اور برطانیہ سے آئے ہیں، وہ اپنے ساتھ ہی یہ جدید سسٹم لے کر آئے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ پاکستانی بزنس اور معیشت میں ترقی کا ایک باب ہے۔
سپراسٹورکلچر کے نتیجے میں حرص اور لالچ پیدا ہونے والی بات درست نہیں ہے۔ ہر فرد کا ایک بجٹ ہوتا ہے، اگر آپ ماہانہ اپنے گھر کی گروسری کے لیے کسی سپرمارکیٹ میں جاتے ہیں، آپ دس ہزار روپے لے کر جاتے ہیں، اس دوران آپ کو کوئی ایسی چیز نظر آتی ہے جو آپ کے ذہن کے کسی کونے میں موجود ہے لیکن فہرست میں شامل نہیں تھی، تو آپ اسے شوق سے خرید لیتے ہیں، ایسا نہیں ہے کہ آپ ایسا کرکے فضول خرچی کررہے ہیں۔ اگر کوئی پانچ ہزار روپے کا سامان لینے آیا تھا لیکن وہ بیس ہزار کا سامان لے کرجارہا ہے، تو وہ اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے ایسا کررہا ہے، یقیناً فضول خرچ لوگ بھی ہوں گے، لیکن ان کی شرح پانچ فی صد تک ہوتی ہے۔
ہماری سپرمارکیٹ ایک برانچ سے شروع ہوئی۔ یہ ایک تغیر ہے، تغیر ہی زندگی ہے، ایک پرانا سسٹم ختم ہوجاتا ہے، پھر اس کی جگہ پر آپ کو ایک نیا سسٹم قائم کرنا پڑتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ سپرمارکیٹوں کے کھلنے سے ہول سیل کی دکانوں پر فرق پڑے گا، لیکن گلی محلے کے ریٹیلرز پر نہیں۔ جس کلچر کی آپ بات کررہے ہیں، یہ کیش اینڈ کیری کلچر ہے۔ آپ کے پاس پیسے ہوں گے تو یہاں آپ آئیں گے اور سامان لے کر جائیں گے، اگر آپ نے گلی محلے کی دکان پر ادھار لگایاہوا ہے، وہاں مہینے بعد ادائیگی کرتے ہیں، تو پھر جو بھی ریٹ ہو آپ کو گلی محلے ہی کے اسٹور سے سامان خریدنا ہے۔ چھوٹی چیزوں بریڈ، دودھ وغیرہ کے لیے تو آپ کو گلی محلے کی دکان پر ہی جانا ہوتا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اگلے دس سے پندرہ برسوں کے دوران میں یہ کیش اینڈ کیری کلچر اس پوزیشن پر آجائے گا کہ وہ عام علاقوں میں بھی چھوٹی ریٹیل شاپس کھول لے گا۔ جس کی دیکھادیکھی آج کی ریٹیل شاپس کی شکل بھی تبدیل ہوجائے گی۔
٭محمد اعجاز تنویر
ایک سپراسٹور چین کے سی ای او
اس وقت پوری دنیا ایک گلوبل ویلج بنی ہوئی ہے، انٹرنیٹ اور موبائل سروس نے دنیا میں لوگوں کو مزید قریب کردیا ہے۔ پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق بارہ کروڑ لوگ انٹرنیٹ کنکشن اور چھے کروڑ لوگ موبائل استعمال کر رہے ہیں۔ اسی طرح سوشل میڈیا بھی لوگوں کو ایک دوسرے کو قریب لانے میں بڑا کردار ادا کرتا ہے۔ وہ دنیا میں نت نئے آئیڈیاز دیکھتے ہیں، 2006ء میں جنرل مشرف کے دور میں پاکستان میں پہلی مرتبہ انٹرنیشنل ریٹیل کا ٹرینڈ سامنے آیا، بڑی بڑی ہائپر مارکیٹس کو پاکستان میں آنے کی دعوت دی گئی۔ دنیا کی ایک بڑی کمپنیجو ہالینڈ کی ہے نے پاکستان میں آ کر بڑے اسٹورز کی بنیاد رکھی۔ اس کے فوراً بعد جرمنی کی ایک کمپنی پاکستان میں آ ئی، اس کے بعد دنیا کی ایک اور بڑی ریٹیل چین بھی آگئی، جو فرانسیسی کمپنی ہے۔ تینوں بڑی کمپنیوں نے روایتی شاپنگ کرنے والے پاکستانی صارفین کو اپنی طرف راغب کیا، اس کے لیے انہوں نے کنزیومر کو انٹرٹینمنٹ بھی دی۔
پاکستان 20 کروڑ آبادی کا ملک ہے اور یہاں نوجوانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ یہ سارے نوجوان مڈل کلاس اور اپر مڈل کلاس میں ہیں اور تعلیم یافتہ بھی ہیں، انہوں نے انٹرنیشنل ریٹیل کے نئے ٹرینڈ کو پسند کیا۔ اسے دیکھتے ہوئے پاکستانی ریٹیلرز نے بھی ہمت پکڑی۔ انھوں نے بعض مقامات پر انٹرنیشنل ماڈرن ٹریڈرز سے زیادہ رزلٹ حاصل کیا۔ اس سے پہلے پاکستان میں ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔ ظاہر ہے کہ دنیا میں نئے ٹرینڈز کے ساتھ چلنا ہوتا ہے۔
پوری دنیا میں نیا ٹرینڈ تھا کہ لوگوں کو ایک ہی چھت کے نیچے شاپنگ کا موقع فراہم کیا جائے، وہاں ہر چیز میسر ہو، یہ ٹرینڈ دنیا کے بہت سے ممالک میں تھا لیکن پاکستان میں نہیں تھا۔ جب یہ پاکستان میں متعارف ہوا تو اس نے بڑی تیزی سے ترقی کی۔ آپ نے اسلام آباد میں 'سینٹورس' میں دیکھا ہوگا جہاں سیکڑوں برانڈز کاروبار کر رہے ہیں، اسی طرح لاہور اور کراچی میں بھی بڑے بڑے مالز ہیں، اس نئے ٹرینڈ نے برینڈنگ کو بہت زیادہ ترقی دی۔
اسی طرح پاکستانی ٹیکسٹائل بہت بڑی انڈسٹری تھی، یہ تقریباً بارہ بلین ڈالر ماہانہ کی ایکسپورٹ کرتی تھی، لیکن ہمارے حکم رانوں کی غلط پالیسیوں، پروڈکشن کاسٹ کے زیادہ ہونے، ڈیموں کے نہ بننے، بجلی کے ناکافی ہونے کی وجہ سے ہماری کاسٹ زیادہ ہو گئی اور پھر بنگلادیش جیسے ممالک ہم سے کہیں زیادہ آگے نکل گئے۔ ان حالات میں بھی ہماری لوکل انڈسٹری نے ہمت نہ ہاری۔ انہوں نے نئے ٹرینڈز کے ساتھ کاروبار کیا۔ اب بڑی تعداد میں برانڈز میدان میں آ گئے ہیں۔ اس پاپولر ٹرینڈ کو لوگوں نے بہت پسند کیا۔ اسی طرح میڈیسن کے میدان میں بھی جدید ریٹیلنگ شروع ہوئی۔ پاکستان جیسے ممالک میں اس کی گنجائش موجود تھی۔ اب بھی اس میں بہت زیادہ تیزی ہے اور آنے والے پانچ برسوں میں مزید تیزی دیکھنے کو ملے گی۔
جہاں تک ریٹیل انڈسٹری پر معاشرے میں حرص پیدا کرنے کا الزام ہے۔ اس بابت میں کہوں گا کہ کچھ لوگ بجٹ بناکر چلتے ہیں۔ وہ اسی انداز میں عام کریانہ اسٹوروں سے بھی خریداری کرتے ہیں، وہ چیزوں کا خود انتخاب کرتے ہیں، ان کا معیار چیک کرتے ہیں۔ اس سے حرص نہیں پیدا ہوتی بلکہ کنزیومرز کو فائدہ ہوتا ہے کہ اسے نئی اور سستی پروڈکٹس ملتی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ سپر اسٹور کے کلچر نے کنزیومر کو شعور دیا ہے۔ اس طرح ملٹی نیشنل کمپنیوں کے برانڈز کا قبضہ ختم ہوا، نئے برانڈز متعارف ہوئے اور کنزیومرز کو ڈسکاؤنٹ اور اسپیشل آفر کا فائدہ ہوتا ہے۔
اگر آپ پوری دنیا کا جائزہ لیں تو محلے کے اسٹور کی اپنی ایک اہمیت ہوتی ہے اور وہ ہمیشہ قائم رہتی ہے۔ مثلاً ایک انٹرنیشنل اسٹور ہے سیون الیون، اس کی بنکاک (تھائی لینڈ) میں تقریباً سات ہزار سے زیادہ دکانیں ہیں، یہ سب چھوٹے چھوٹے نیبرہڈ اسٹورز ہیں، جہاں روزمرہ کی ضرورت کا سامان ملتا ہے۔ وہاں سپینیز، بگ سی بھی، پوری دنیا میں بڑے اور چھوٹے اسٹوروں کی چینز ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ پاکستان میں بھی کراچی کے میں بڑے بڑے اسٹور ہیں۔ ان کی موجودگی میں بھی ہر گلی محلے میں چھوٹے چھوٹے اسٹور کاروبار کررہے ہیں۔ کریانہ اسٹور کی ضرورت ہمیشہ رہے گی۔
لوگ چھوٹی چھوٹی چیزیں خریدنے کے لیے ان کا رخ کرتے ہیں۔ کراچی کی بڑی سُپرمارکیٹس میں سے ایک مارکیٹ نے ایک ایسے چھوٹے اسٹور کا افتتاح کیا ہے جو چوبیس گھنٹے چلے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ بڑی سپرمارکیٹوں کی وجہ سے چھوٹے اسٹوروں کا استحصال نہیں ہوگا۔ جو چھوٹا اسٹور اپنے آپ کو بہتر بنائے گا وہ لوگوں کو بڑے اسٹور سے بھی زیادہ سستی چیزیں دے سکتا ہے۔ پوری دنیا میں نیبرہڈ اسٹور موجود ہیں، اگر محلے کے اسٹور اپنے آپ کو جدید خطوط پر استوار نہ کریں اور وہ بند ہوجائیں تو اس کا الزام سپراسٹورز پر نہیں آسکتا۔
یہ ایک انڈسٹری ہے، دنیا میں سب سے زیادہ مین پاور ریٹیل انڈسٹری میں ہوتی ہے۔ پاکستان کے اندر بھی یہ انڈسٹری وسعت اختیار کررہی ہے۔ اس کی ایک پوری سائنس ہے، ایک فیکٹری دس ہزار اسٹور چلاسکتی ہے۔ آپ سوچیں کہ اس میں کتنے لوگ کام کرتے ہوں گے؟ ممکن ہے 2 سو سے 5 سو تک ہوں، پھر دس ہزار سپر مارکیٹوں میں سے ہر ایک میں اوسطاً دو سو افراد کام کرتے ہیں۔ اس وقت پاکستان میں پانچ لاکھ سے زیادہ دکانیں ہیں۔ اس طرح لاکھوں افراد کا روزگار اس انڈسٹری سے وابستہ ہے۔ لوگوں کو اچھے صاف ستھرے ماحول میں اشیائے صرف مل رہی ہیں۔ اب بھی دکان داروں اور سپراسٹوروں کے لیے بہت بڑی تعداد میں باصلاحیت اور تربیت یافتہ کارکنوں کی ضرورت ہے، اس کے لیے انسٹی ٹیوٹ قائم ہونے چاہیں۔
ہائپر مارکیٹس اور سپراسٹورز کا آئیڈیا بہت شان دار ہے، جہاں لوگ وسیع پیمانے پر خریداری کرتے ہیں۔ اگر ایک ریٹیل چین کی دس برانچیں ہیں تو وہ ایک ہی جگہ سے خریداری کر لیتے ہیں۔ اس طرح فیکٹری والا یا پروڈکشن والا انھیں سستے ریٹ پر مال دے دیتا ہے۔ پھر مقابلے کی فضاء میں یہ مختلف اسکیمیں متعارف کرواتے ہیں، یوں کنزیومر کو نسبتاً زیادہ سستی چیزیں ملنا شروع ہو جاتی ہیں۔
جہاں تک بڑے سپراسٹورز کی وجہ سے پارکنگ جیسے مسائل کے پیدا ہونے کی بات کی جاتی ہے تو اس کا سبب ریٹیل انڈسٹری نہیں بلکہ برا طرزِحکم رانی ہے۔ اچھے طرزحکم رانی سے یہ مسائل حل ہو سکتے ہیں، جہاں بھی ایسا کوئی سپراسٹور کھلے وہاں سب سے پہلے پارکنگ کا ایشو حل کیا جائے۔
سپر اسٹورز کی وجہ سے ہمارا معاشی قتل ہو رہا ہے: دکان دار جمیل احمد
سپر اسٹورز کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ایک دکان دار جمیل احمد کا کہنا ہے کہ یہ رجحان ہمارے لیے بہت نقصان دہ ہے۔ ان سپراسٹورز کی وجہ سے ہمارے جیسے چھوٹے دکان داروں کا معاشی قتل ہورہا ہے۔ یہ اسٹورز والے بڑی بڑی کمپنیوں کے تمام پیکجز اور پرکشش آفرز سمیٹ لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ سپر اسٹورز تھوک میں سامان خریدتے ہیں تو انہیں وہ کچھ سستا بھی پڑتا ہے، جس کے بعد وہ اشیاء کے نرخ کم کرکے انہیں فروخت کرتے ہیں تو لوگوں کی اکثریت انہی کی طرف لپکتی ہے۔
مثال کے طور پر ایک کلو گرام کے واشنگ پاؤڈر کا کمپنی ریٹ 270 روپے ہے، جو عام دکان دار کو 257 روپے میں ملتا ہے، جب کہ یہی واشنگ پاؤڈر سپراسٹور پر 243 روپے میں فی کلو فروخت ہو رہا ہے تو ایسے میں ہم جیسے چھوٹے دکان دار کہاں جائیں؟ واشنگ پاؤڈر ہمیں ملتا ہی 257 میں ہے تو ہم 243 میں کیسے فروخت کر سکتے ہیں؟ سپراسٹور تو چوں کہ تھوک میں خریداری کرتا ہے، اسے تو 243 روپے فی کلو میں سے بھی بچت ہو رہی ہے۔ کوالٹی تو ہر جگہ برابر ہے، کیوں کہ جو کمپنی ہمیں سامان دیتی ہے وہی اس سپراسٹور کو بھی دیتی ہے۔ ایسا نہیں کہ وہاں کوالٹی زیادہ اچھی اور ہمارے پاس ناقص سامان ہوتا ہے۔ بڑی کمپنیاں ہمیں تو جلد سامان بھی نہیں دیتیں اور اگر دیتی بھی ہیں تو اپنے وقت اور ریٹ کے مطابق۔
کم قیمت پر معیاری اشیاء کی فراہمی سے عوام کو تو فائدہ ہو رہا ہے؟ کے جواب میں دکان دار کا کہنا تھا کہ پھر ہم کون ہیں؟ کیا ہم عام شہری نہیں، ہمارے بچے نہیں؟ بات اصل میں یہ ہے کہ پیسہ ہی پیسے کو کھینچ رہا ہے۔ سپراسٹور بنانے والے سرمایہ دار کمائی کر رہے ہیں جب کہ ہم جیسے لاکھوں چھوٹے دکان دار، جنہوں نے 50 ہزار یا ایک لاکھ روپے سے کام شروع کر رکھا ہے، وہ روز بہ روز تباہ ہو رہے ہیں۔ ہمیں ایک چھوٹی سی دکان کے لیے کوئی 20 طرح کے لائسنس لینا پڑتے ہیں، جن کے لیے کبھی دھکے کھانے پڑتے ہیں تو کبھی رشوت دینا پڑتی ہے، جب کہ ان سپراسٹور والوں کے لیے شاید کسی لائسنس کی ضرورت ہی نہیں۔ اور ہوتی بھی ہے تو سب لائسنس خود بخود بن کر چلے آتے ہیں۔ میری حکومت سے استدعا ہے کہ وہ ہمارے بارے میں بھی سوچے! کہ ہمارے بچوں کا پیٹ کیسے پلے گا؟ ایسی پالیسیاں بنائی جائیں جن سے معاشی انصاف ہو۔
سپر اسٹور نے ایک چھت تلے تمام چیزیں مہیا کرکے شہری کو دن بھر مارکیٹکے دھکے کھانے سے نجات دلوا دی: مالک عرفان اقبال شیخ
لاہور کے ایک بڑے سپراسٹور کے مالک عرفان اقبال شیخ نے ''ایکسپریس'' سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ چیز جو بیرون ملک سے منگوانی بہت مشکل تھی، ہم نے اسے اپنے پاکستانیوں کی دہلیز پر پہنچا دیا ہے۔ الحمداللہ آج پاکستان میں دنیا کی ہر چیز دست یاب ہے۔ دنیا بھر میں لوگ خریداری کے لیے سپر اسٹورز کا رخ کرتے ہیں، لیکن پاکستان میں یہ رجحان اب پیدا ہوا ہے، جو ایک بڑی سہولت ہے۔ سپراسٹورز کے ذریعے ایک چھت تلے ہر چیز مہیا کرکے شہریوں کو دن بھر مارکیٹ کے دھکے کھانے سے نجات دلوا دی گئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سپراسٹورز میں کسی چیز کی کوالٹی پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جاتا، جس کا شہریوں کو بھی ادراک ہے۔ اسی لیے وہ بڑی تعداد میں یہاں کا رخ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ سپراسٹورز کی وجہ سے روزگار کے مواقع پیدا ہوئے ہیں، آج ہزاروں خاندان ان اسٹورز کی وجہ سے چل رہے ہیں۔ باہر پیسہ لے جانے کے بجائے ہم سپراسٹورز کے ذریعے اپنے ملک میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں، جس کے ملکی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ پھر یہ سپر اسٹورز ہی ہیں جو ٹیکس ادا کرتے ہیں، چھوٹے اسٹورز یا دکان دار تو ہر وقت ٹیکس چوری کی فکر میں لگے رہتے ہیں۔
سپراسٹورز کی وجہ سے چھوٹے دکان داروں کے کاروبار تباہ ہونے کے سوال پر عرفان اقبال شیخ کا کہنا تھا کہ ایسی کوئی بات نہیں۔ علاقائیت کی وجہ سے چھوٹے اسٹورز یا دکانوں کی ڈیمانڈ کبھی ختم ہوئی ہے نہ ہو گی۔ لوگوں کو ان دکانوں کی ضرورت ہے، جس سے دکان داروں کی ضرورت بھی پوری ہوجاتی ہے۔ سپراسٹورز میں ملازمین خصوصاً خواتین کے معاشی استحصال کے سوال پر ان کا جواب نفی میں تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ اب ایسا کچھ نہیں ہے، کبھی ایسا ہوتا تھا کہ پڑھے لکھے افراد کو بھی کم تن خواہوں پر خاموشی اختیار کرنا پڑتی تھی۔ آج سپراسٹورز میں ملازمین کو پرکشش تن خواہیں ادا کی جا رہی ہیں۔ اور اگر آپ خواتین کی بات کرتے ہیں تو سپراسٹورز تو ان کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں، کیوں کہ یہی تو ہیں وہ جنہوں نے خواتین کے لئے باعزت روزگار کے مواقع میں بے پناہ اضافہ کیا۔
سپر اسٹورز ایک سہولت، امیروں کا چونچلا ہیں: شہریوں کا مِلاجُلا اظہارخیال
سپر اسٹورز کے رجحان میں اضافے کے بارے میں عام شہریوں نے ملے جلے خیالات کا اظہار کیا۔ کسی کے لیے یہ ایک اچھی سہولت ہیں تو کوئی اسے امیروں کا چونچلا قرار دیتا ہے۔ ایک شہری احسن داؤد کا کہنا ہے کہ سپراسٹور ایک مثبت تبدیلی ہے، کیوں کہ یہاں ہمیں نہ صرف معیاری بلکہ کم نرخ پر اشیاء ملتی ہیں۔ میرے طبقے کے افراد کی اکثریت کو مہینے بھر کا راشن ایک ہی بار خریدنا ہوتا ہے، ایسے میں سپراسٹور نے میرے لیے یہ آسانی کردی کہ میں ایک ہی چھت تلے اپنی ضروریات کی تمام چیزیں خرید سکوں، حالاں کہ پہلے مجھے دو، تین اور بعض اوقات چار چار دکانیں پھرنا پڑتی تھیں۔ ذوالنون احمد کے خیال میں سپراسٹور اچھی چیز نہیں، کیوں کہ یہاں پر تھوک میں یعنی بڑی بڑی پیکنگ میں چیزیں ملتی ہیں۔ اب مجھے اگر کم چیز کی ضرورت ہے یا میرے پاس پیسے ہی کم ہیں تو میں کیوں کر سپراسٹور جاؤں۔
مجھے تو عام مارکیٹ میں زیادہ سہولت محسوس ہوتی ہے، جہاں سے میں اپنی مرضی اور ضرورت کے مطابق سامان خریدتا ہوں۔ پھر کچھ سپر اسٹورز ایسے بھی ہیں، جہاں عام مارکیٹ کی نسبت چیزیں منہگی ملتی ہیں، جو ہمارے جیسے لوگوں کے لیے نہیں بلکہ ہمارے ملک کے ایک مخصوص طبقہ کے لیے ہیں۔ فیصل ریحان کا کہنا ہے کہ آپ نے اگر کسی بھی چیز کا ایک پیکٹ لینا ہے تو اس کی قیمت اور معیار ہر سپراسٹور پر ایک جیسا ہوگا، لیکن وہی پیکٹ جب آپ عام مارکیٹ سے لیں گے تو ایک دکان دار کے پاس اس کی قیمت 25 روپے ہوگی، دوسرے کے پاس 28 روپے ہو گی جب کہ تیسرے کے پاس ممکن ہے پیکٹ کی قیمت 30 روپے ہو۔
یوں میرے خیال میں تو سپراسٹورز نے دکان داروں کی ناجائز منافع خوری کو بھی لگام ڈال دی ہے۔ محمد عبدالرحمٰن نے بتایا کہ سپراسٹورز کی تعداد کم ہے۔ مجھے بڑی دقت یہ محسوس ہوتی ہے کہ میں سات چیزیں خرید کر لایا، جن میں سے ایک چیز تبدیلی کی متقاضی ہے تو پھر صرف ایک چیز کے لیے میں دوبارہ سپراسٹور جانے سے کتراؤں گا۔ اس صورت میں، میں قریبی دکان سے ہی چیز خریدنے کو بہتر تصور کرتا ہوں، کیوں کہ کسی بھی چیز کی تبدیلی یا واپسی فوراً ہو جاتی ہے۔ پھر ان اسٹورز کی چمک دمک اور چیزوں کی کثرت صارف کو یوں لبھاتی ہے کہ وہ ایک چیز لینے جائے تو چار چیزیں لینے پر مجبور ہو جاتا ہے، جو ایک غریب یا متوسط طبقے کے فرد پر معاشی بوجھ ہے۔
اشیائے ضروریہ کی خریدوفروخت کے لیے پہلے جو قافلے چلتے تھے، وہ آہستہ آہستہ ایک جگہ پر اکٹھے ہونے لگے۔ یعنی چیزوں کی خریدوفروخت کے لیے مخصوص مقامات بننے لگے، جنہیں بازار کہا جاتا ہے۔ دنیا میں پہلی بار فارس میں چیزوں کی خریدوفروخت کے لیے بازار بنائے گئے، جو بعدازاں دنیا بھر میں پھیل گئے۔ پھر وقت گزرنے کے ساتھ ان بازاروں میں موجود دکانیں پختہ ہونے لگیں، چھوٹے چھوٹے بازاروں سے مارکیٹس بن گئیں اور آج ایک مخصوص جگہ (مارکیٹ) کے بجائے ایسے سپراسٹورز کا رجحان تقویت پا رہا ہے، جہاں ایک ہی چھت تلے ضروریات زندگی کی تمام اشیاء دست یاب ہوں۔
عمومی قومی رویے کے عین مطابق دنیا بھر میں کئی برسوں سے موجود سپر اسٹور کا تصور آج پاکستان میں بھی تیزی سے مقبولیت حاصل کر رہا ہے۔ سپراسٹورز نے نہ صرف متوسط طبقے بلکہ امراء کے لیے بھی سہولت فراہم کی ہے۔ وہ چیزیں جو امراء بیرون ممالک سے خرید کر پاکستان لاتے تھے، آج وہ انہیں اپنے ہی ملک میں دست یاب ہیں۔ سپراسٹورز نے عام شہری کے لیے یہ سہولت فراہم کردی کہ مختلف چیزوں کی فروخت کے لیے دن بھر مارکیٹوں کے دھکے کھانے کے بجائے اسے ایک ہی چھت تلے کھانے پینے سے لے کر پہننے اوڑھنے تک سارا سامان مہیا کر دیا۔ مجموعی طور پر ان سپراسٹورز پر لوگوں کے لیے کم نرخوں پر معیاری چیزیں دست یاب ہیں۔ ملک میں سرمایہ کاری بڑھی تو روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوئے۔ لیکن ان تمام تر فوائد کے ساتھ کچھ نقصانات بھی ہوئے ہیں۔
بلاشبہہ سپراسٹورز کی وجہ سے روزگار کے مواقع بڑھے، لیکن معاشرتی و معاشی ناانصافی کی صورت حال بھی گمبھیر ہوئی۔ سپراسٹورز بنانے والے سرمایہ دار کا پیسہ پیسے کو کھینچ رہا ہے جب کہ چھوٹا دکان دار اس رجحان کی وجہ سے متاثر ہورہا ہے۔ یوں پیسہ چند افراد کے ہاتھوں میں محدود ہو رہا ہے۔ روزگار کے مواقع ضرور پیدا ہوئے، لیکن اکثر سپراسٹورز میں کام کرنے والے ملازمین کو کم تن خواہیں دے کر ان کا معاشی استحصال کیا جا رہا ہے۔
حکومت کی طرف سے کم از کم تن خواہ 15 ہزار روپے مقرر کی گئی ہے، لیکن یہاں کام کرنے والے اکثر پڑھے لکھے افراد کی تن خواہ بھی صرف 12 سے 14 ہزار روپے ہے جب کہ ڈیوٹی کے اوقات 10 سے 12 گھنٹے ہیں۔ اس ملازم کی سواری بھی اپنی ہوتی ہے اور اسے کوئی اوور ٹائم بھی نہیں ملتا۔ زیادہ تر سیلزمین کی تن خواہ بھی 10 ہزار روپے ہے۔ اور قابل افسوس امر یہ ہے کہ ہمارا لیبر ڈیپارٹمنٹ اپنا کمیشن وصول کرنے کے بعد اس ضمن میں کسی قسم کی کارروائی کرنے سے قاصر ہے۔
ان سپر اسٹورز پر ہمیں خواتین کی کثیر تعداد کام کرتے نظر آتی ہے، لیکن مجبوریوں کی بیڑیاں پہنے ان خواتین کا معاشی استحصال بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ عام شہریوں کے لیے فائدہ مند ان سپر اسٹورز کی وجہ سے پیدا ہونے والی معاشی و معاشرتی خرافات پر قابو پایا جائے۔
کچھ دہائی قبل تک پاکستان میں سپر مارکیٹ یا سپراسٹور کا تصور اتنا عام نہیں تھا، اس وقت تک کچھ پوش علاقوں میں اکا دکا سپراسٹور قایم تھے، جن تک رسائی عام آدمی کے لیے ایک خواب ہی تھا۔ شہری اشیائے خورونوش اور روزمرہ کی زندگی میں استعمال ہونے والی اشیاء کی خریداری کے لیے گلی محلوں میں قایم بازاروں کا رخ کرتے تھے۔ لیکن ذرایع ابلاغ، ٹی وی چینلز اور انٹرنیٹ تک رسائی نے لوگوں میں سپر مارکیٹ سے منسلک تصور کو تبدیل کیا۔
دو دہائی قبل پاکستان میں سرمایہ کاروں نے بڑے بڑے شاپنگ مالز بنانے شروع کیے۔ اس رجحان نے متوسط طبقے کے صارفین کو کئی ملکی اور غیرملکی برانڈ ناموں سے روشناس کرایا۔ ایک دہائی قبل شہر کے متوسط علاقوں میں ملکی اور غیرملکی اداروں کی جانب سے سپراسٹورز کے قیام کا سلسلہ شروع ہوا اور آج شہر قائد کے پس ماندہ ترین علاقوں کے رہائشی بھی خریداری کے لیے ان سپر مارکیٹس کا رخ کر رہے ہیں۔
سپراسٹورز میں دست یاب اشیاء کی قیمتوں اور معیار کو ایک طرف رکھ کر دیکھا جائے تو اس کلچر کا فروغ گلی محلوں میں بیٹھے چھوٹے دکان داروں کا معاشی قتل کررہا ہے۔ شہرِقائد کے بہت سے مڈل کلاس علاقوں میں کریانہ فروش، سبزی فروش اپنی سیل میں کمی کا رونا روتے نظر آتے ہیں، کیوں کہ وہ اپنی قوت خرید کے حساب سے تھوک میں مال خریدتے ہیں، جب کہ سپر مارکیٹ براہ راست کمپنیوں سے خریداری کرتی ہیں جس کی وجہ سے ان کی اور ایک عام خوردہ فروش کی قیمت میں واضح فرق نظر آتا ہے۔ لیکن ہر جگہ ایسا نہیں ہے کچھ دکانوں پر دست یاب اشیا کی قیمتیں سپر اسٹورز میں ملنے والی اشیاء سے کم بھی ہوتی ہیں، لیکن زیادہ تر لوگوں کے ذہنوں میں سپر اسٹورز کے حوالے سے موجود سستا اور معیاری کا تصور انہیں محلے کے کریانہ فروشوں سے دور کر رہا ہے۔
سپر اسٹورز کے بارے میں شہریوں کی مختلف آرا ہیں، کچھ کے نزدیک یہ سہولت ہے تو کچھ کے نزدیک سپر اسٹور بے جا اصراف کا سبب بھی بن رہے ہیں۔ چھوٹے دکان داروں کا اس بابت کہنا ہے کہ کراچی میں جس رفتار سے سپراسٹور کا قیام عمل میں آرہا ہے تو وہ وقت دور نہیں کہ ہمیں دکان داری بند کرکے کوئی دوسرا کام شروع کرنا پڑے گا۔ جہاں تک ہماری اور سپر مارکیٹ کی قیمتوں میں فرق کا تعلق ہے تو یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے، کیوں کہ ہم کسی حال میں اس قیمت پر وہ پراڈکٹ فروخت نہیں کر سکتے، کیوں کہ زیادہ تر سپراسٹور میں موجود اشیاء کی قیمتیں ہماری تھوک قیمت سے بھی کم ہیں، تو اب ایسا تو نہیں ہوسکتا کہ ہم دس روپے میں کوئی چیز خرید کر اسے ایک روپے نقصان میں نو روپے میں فروخت کریں۔ جہاں تک معیار کی بات ہے تو ہم دکان دار بھی اسی کمپنی کا مال فروخت کر رہے ہیں جس کمپنی کا مال سپراسٹور پر مل رہا ہے۔
بڑے بڑے سرمایہ دار ہم لوگوں کی روزی روٹی پر لات مار رہے ہیں اور اگر یہ سلسلہ ایسا ہی چلتا رہا تو پھر چھوٹے دکان داروں کو دو وقت کے کھانے کے لالے پڑجائیں گے، جب کہ اگر تصویر کا دوسرا رخ دیکھا جائے تو سپراسٹورز کی وجہ سے مارکیٹ میں مسابقت کی فضا پیدا ہوئی ہے جس کا بلاواسطہ اور بلواسطہ فائدہ صارف کو ہی ہوا ہے۔ کیوں اس سے پہلے بہت سے صارفین کمپنی کی جانب سے دی گئی پروموشن، رعایت سے مستفید نہیں ہوپاتے تھے، لیکن سپراسٹورز کی بدولت ہر صارف کمپنی کی جانب سے دی گئی پیش کش، رعایت سے مستفید ہورہا ہے۔ دوسری طرف سپراسٹور کی وجہ سے نوجوانوں کو باعزت روزگار بھی میسر آیا ہے اور یہ صنعت ٹیکس کی مد میں ملک کو کروڑوں روپے ادا کر رہی ہے، جب کہ بہت سے چھوٹے دکان دار ٹیکس نیٹ میں شامل ہی نہیں ہیں۔
دنیا بھر میں ریٹیل مارکیٹ کے اعدادوشمار اور اس سیکٹر کی مستقبل کی پیش گوئی کرنے والی فرم پلانیٹ ریٹیل کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ریٹیل مارکیٹ کا حجم دس فی صد اضافے کے ساتھ بڑھ کر ایک سو ساٹھ بلین ڈالر سالانہ تک پہنچ چکا ہے اور اس میں ہر گزرتے وقت کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق اگرچہ پاکستان میں ریٹیل سیکٹر تیزی سے بڑھ رہا ہے، لیکن اس کے باوجود اس کا پھیلاؤ صرف بڑے شہروں تک محدود ہے اور ابھی پاکستان میں اس حوالے سے کافی خلا موجود ہے۔ اگر صوبوں کے لحاظ سے دیکھا جائے تو ریٹیل سیکٹر میں سندھ اور خیبر پختون خوا کی نسبت وسطی پنجاب میں سپراسٹور کے رجحان میں زیادہ تیزی آرہی ہے۔
پاکستان میں سپراسٹورز کے کلچر کے فروغ کے کئی اسباب ہیں لیکن اس میں سب سے اہم یہ ہے کہ پچھلے چند سالوں میں شہری علاقوں میں متوسط طبقے کی معاشی بڑھوتری میں بہتری آئی ہے، دویم یہ کہ ذرایع ابلاغ نوجوان گھرانوں کے لیے شاپنگ کوتفریح اور گلیمر کے روپ میں پیش کررہا ہے، جہاں آپ خریداری کے ساتھ ساتھ کھانے پینے اور یہاں تک کہ موویز تک سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں، اور تیسری سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ ٹیکنالوجی کے میدان میں ہونے والی تیزرفتار ترقی اور اسمارٹ فونز تک ہر ایک کی رسائی نے بھی سپراسٹور کلچر کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ کچھ عرصے قبل تک اشیائے خورونوش بیچنے والے کو کریانہ فروش، جوتے بیچنے والے کو موچی کہا جاتا تھا لیکن سپراسٹور کلچر نے ان سب کو یکجا کرکے ایک نیا نام دے دیا ہے جسے انٹر پرینیور شپ کا نام دیا جاتا ہے۔
سپر اسٹورز میں معیار کے نام پر منہگی چیزیں فروخت کی جاتی ہیں صدر کنزیومر رائٹس فورم پاکستان حنیف گورائیہ
صدر کنزیومر رائٹس فورم پاکستان حنیف گورائیہ نے ''ایکسپریس'' سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا،''سپراسٹورز کی تعداد میں اضافے کی ایک بڑی وجہ تو تیزی سے بڑھتی آبادی ہے، دوسرا آج ہماری مڈل کلاس کے پاس کچھ پیسہ بھی آ گیا ہے۔ لوگوں میں یہ رجحان تقویت پا رہا ہے کہ سپر اسٹورز پر معیاری چیز دست یاب ہوتی ہے، لیکن اس معیاری چیز کے دام حکومت کی طرف سے مقررہ نرخ سے کہیں زیادہ ہوتے ہیں، آپ ان اسٹورز پر اشیائے خورونوش خریدیں یا گارمنٹس، آپ کو یہاں پر عام مارکیٹ سے منہگی چیز ملے گی۔ عام مارکیٹ میں جو چیز دس روپے کی ہے، وہاں بارہ سے پندرہ روپے میں ملے گی۔
اور ظلم تو یہ ہے کہ انہیں سرکاری ادارہ پوچھنے والا بھی نہیں، تو پھر اس صورت میں آپ ہی مجھے بتائیں کہ اوسط درجے کی آمدنی والا عام شہری کس طرح ان سپراسٹورز کا رخ کر سکتا ہے۔ معیار کے نام پر منہگی اشیاء کی خریداری تو صرف ہماری ایلیٹ کلاس ہی کر سکتی ہے، کیوں کہ اس کلاس کی اکثریت کے پاس کرپشن کا پیسہ ہے۔ آپ دیکھیں! ملک کے 40 فی صد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں، ان کے لیے تو دو وقت کی روٹی کھانا ہی مشکل ہے، وہ سپراسٹورز کا رخ کہاں کرتے ہیں۔ سپراسٹورز تو ہماری 10 سے 15 فی صد آبادی کی عیاشی ہے۔
اس تاثر پر کہ سپراسٹورز پر معیاری چیزیں عام مارکیٹ سے بھی کم نرخوں پر دست یاب ہیں، حنیف گورائیہ کا کا کہنا ہے کہ آپ کی بات کسی حد تک درست ہے، لیکن آپ دیکھیں! کہ ایسے سپراسٹورز کے منافع کی شرح بہت زیادہ ہے، یہ بڑے پیسے والے لوگ ہیں، جو ہر چیز خود خرید کر اسے پیک کرتے ہیں یا اتنی زیادہ تعداد میں خریدتے ہیں کہ ان کے منافع کی شرح بڑھ جاتی ہے اور وہ اس کا فائدہ اٹھا کر ایک دو روپے کم نرخ پر زیادہ تعداد میں چیزیں بیچ لیتے ہیں۔ عام دکان دار کے متاثر ہونے کے سوال پر صدر کنزیومر رائٹس فورم پاکستان نے کہا کہ بلاشبہہ ان سپراسٹورز کی مناپلی کی وجہ سے عام دکان دار متاثر ہوا ہے، لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ عام دکان دار بھی غریب عوام کی چمڑی ادھیڑ رہا ہے۔ ہمارے ہاں عمومی طور پر غریب لوگوں کا طریقۂ کار یہ ہے کہ وہ ادھار پر چیزیں لے کر مہینے کے آغاز پر پورا بل چکتا کرتے ہیں اور اسی چیز کا عام دکان دار فائدہ اٹھاتا ہے۔ وہ ادھار کی صورت میں لوگوں کو زائد نرخ پر اشیاء فروخت کرتا ہے۔
٭چودھری افضل حسین
ایک سپراسٹور چین کے منیجنگ ڈائریکٹر
یقیناً ہمارے ہاں سُپراسٹورز کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے، سبب یہ ہے کہ جب آپ ریٹیل شاپ میں جاتے ہیں تو وہاں آپ کو ہر چیز ریٹیل پرائس ہی میں ملتی ہے، اسے خریدتے ہوئے آپ مطمئن نہیں ہوتے، ممکن ہے کہ وہ آپ کی استطاعت میں نہ ہو یا آپ اس کے معیار کو پہچاننے میں مشکل پیش آئے، وہاں آپ دکان دار کے رحم وکرم پر ہوتے ہیں، بہت تنگ ماحول ہوتا ہے۔ اگرآپ کو تیس چیزیں لینا ہوتی ہیں تو چھے دکانوں پر جانا ہوتا ہے، اس لیے چاہے آپ گاڑی میں ہوں یا پیدل، خریداری میں مشکل پیش آتی ہے۔ سپرمارکیٹس میں فیملی انٹرٹینمنٹ ملتی ہے، یہاں ریٹس ہول سیل والے ہوتے ہیں حتیٰ کہ ایک چیز کی قیمت بھی ہول سیل والی ہی وصول کی جاتی ہے۔
پوری فیملی کی شاپنگ ایک ہی چھت تلے ہوجاتی ہے، یہاں کوالٹی بھی ملتی ہے اور ورائٹی بھی، یہ سہولتیں ایک چھوٹی دکان میں نہیں ملتیں۔ سپراسٹورز میں فروخت ہونے والی ہر چیز کی قیمت ہول سیل میں ہوتی ہے۔ آپ ریٹیل شاپ میں دس ہزار روپے کی شاپنگ کرتے ہیں، سپرمارکیٹ میں آنے کی صورت میں وہی سامان ایک ہزار سے پندرہ سو روپے کی بچت کے ساتھ خریدا جاسکتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں سپرمارکیٹوں کے کلچر کے بڑے مثبت اثرات مُرتب ہوئے ہیں، جدید ریٹیلنگ کرنے والے لوگ دبئی اور برطانیہ سے آئے ہیں، وہ اپنے ساتھ ہی یہ جدید سسٹم لے کر آئے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ پاکستانی بزنس اور معیشت میں ترقی کا ایک باب ہے۔
سپراسٹورکلچر کے نتیجے میں حرص اور لالچ پیدا ہونے والی بات درست نہیں ہے۔ ہر فرد کا ایک بجٹ ہوتا ہے، اگر آپ ماہانہ اپنے گھر کی گروسری کے لیے کسی سپرمارکیٹ میں جاتے ہیں، آپ دس ہزار روپے لے کر جاتے ہیں، اس دوران آپ کو کوئی ایسی چیز نظر آتی ہے جو آپ کے ذہن کے کسی کونے میں موجود ہے لیکن فہرست میں شامل نہیں تھی، تو آپ اسے شوق سے خرید لیتے ہیں، ایسا نہیں ہے کہ آپ ایسا کرکے فضول خرچی کررہے ہیں۔ اگر کوئی پانچ ہزار روپے کا سامان لینے آیا تھا لیکن وہ بیس ہزار کا سامان لے کرجارہا ہے، تو وہ اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے ایسا کررہا ہے، یقیناً فضول خرچ لوگ بھی ہوں گے، لیکن ان کی شرح پانچ فی صد تک ہوتی ہے۔
ہماری سپرمارکیٹ ایک برانچ سے شروع ہوئی۔ یہ ایک تغیر ہے، تغیر ہی زندگی ہے، ایک پرانا سسٹم ختم ہوجاتا ہے، پھر اس کی جگہ پر آپ کو ایک نیا سسٹم قائم کرنا پڑتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ سپرمارکیٹوں کے کھلنے سے ہول سیل کی دکانوں پر فرق پڑے گا، لیکن گلی محلے کے ریٹیلرز پر نہیں۔ جس کلچر کی آپ بات کررہے ہیں، یہ کیش اینڈ کیری کلچر ہے۔ آپ کے پاس پیسے ہوں گے تو یہاں آپ آئیں گے اور سامان لے کر جائیں گے، اگر آپ نے گلی محلے کی دکان پر ادھار لگایاہوا ہے، وہاں مہینے بعد ادائیگی کرتے ہیں، تو پھر جو بھی ریٹ ہو آپ کو گلی محلے ہی کے اسٹور سے سامان خریدنا ہے۔ چھوٹی چیزوں بریڈ، دودھ وغیرہ کے لیے تو آپ کو گلی محلے کی دکان پر ہی جانا ہوتا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اگلے دس سے پندرہ برسوں کے دوران میں یہ کیش اینڈ کیری کلچر اس پوزیشن پر آجائے گا کہ وہ عام علاقوں میں بھی چھوٹی ریٹیل شاپس کھول لے گا۔ جس کی دیکھادیکھی آج کی ریٹیل شاپس کی شکل بھی تبدیل ہوجائے گی۔
٭محمد اعجاز تنویر
ایک سپراسٹور چین کے سی ای او
اس وقت پوری دنیا ایک گلوبل ویلج بنی ہوئی ہے، انٹرنیٹ اور موبائل سروس نے دنیا میں لوگوں کو مزید قریب کردیا ہے۔ پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق بارہ کروڑ لوگ انٹرنیٹ کنکشن اور چھے کروڑ لوگ موبائل استعمال کر رہے ہیں۔ اسی طرح سوشل میڈیا بھی لوگوں کو ایک دوسرے کو قریب لانے میں بڑا کردار ادا کرتا ہے۔ وہ دنیا میں نت نئے آئیڈیاز دیکھتے ہیں، 2006ء میں جنرل مشرف کے دور میں پاکستان میں پہلی مرتبہ انٹرنیشنل ریٹیل کا ٹرینڈ سامنے آیا، بڑی بڑی ہائپر مارکیٹس کو پاکستان میں آنے کی دعوت دی گئی۔ دنیا کی ایک بڑی کمپنیجو ہالینڈ کی ہے نے پاکستان میں آ کر بڑے اسٹورز کی بنیاد رکھی۔ اس کے فوراً بعد جرمنی کی ایک کمپنی پاکستان میں آ ئی، اس کے بعد دنیا کی ایک اور بڑی ریٹیل چین بھی آگئی، جو فرانسیسی کمپنی ہے۔ تینوں بڑی کمپنیوں نے روایتی شاپنگ کرنے والے پاکستانی صارفین کو اپنی طرف راغب کیا، اس کے لیے انہوں نے کنزیومر کو انٹرٹینمنٹ بھی دی۔
پاکستان 20 کروڑ آبادی کا ملک ہے اور یہاں نوجوانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ یہ سارے نوجوان مڈل کلاس اور اپر مڈل کلاس میں ہیں اور تعلیم یافتہ بھی ہیں، انہوں نے انٹرنیشنل ریٹیل کے نئے ٹرینڈ کو پسند کیا۔ اسے دیکھتے ہوئے پاکستانی ریٹیلرز نے بھی ہمت پکڑی۔ انھوں نے بعض مقامات پر انٹرنیشنل ماڈرن ٹریڈرز سے زیادہ رزلٹ حاصل کیا۔ اس سے پہلے پاکستان میں ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔ ظاہر ہے کہ دنیا میں نئے ٹرینڈز کے ساتھ چلنا ہوتا ہے۔
پوری دنیا میں نیا ٹرینڈ تھا کہ لوگوں کو ایک ہی چھت کے نیچے شاپنگ کا موقع فراہم کیا جائے، وہاں ہر چیز میسر ہو، یہ ٹرینڈ دنیا کے بہت سے ممالک میں تھا لیکن پاکستان میں نہیں تھا۔ جب یہ پاکستان میں متعارف ہوا تو اس نے بڑی تیزی سے ترقی کی۔ آپ نے اسلام آباد میں 'سینٹورس' میں دیکھا ہوگا جہاں سیکڑوں برانڈز کاروبار کر رہے ہیں، اسی طرح لاہور اور کراچی میں بھی بڑے بڑے مالز ہیں، اس نئے ٹرینڈ نے برینڈنگ کو بہت زیادہ ترقی دی۔
اسی طرح پاکستانی ٹیکسٹائل بہت بڑی انڈسٹری تھی، یہ تقریباً بارہ بلین ڈالر ماہانہ کی ایکسپورٹ کرتی تھی، لیکن ہمارے حکم رانوں کی غلط پالیسیوں، پروڈکشن کاسٹ کے زیادہ ہونے، ڈیموں کے نہ بننے، بجلی کے ناکافی ہونے کی وجہ سے ہماری کاسٹ زیادہ ہو گئی اور پھر بنگلادیش جیسے ممالک ہم سے کہیں زیادہ آگے نکل گئے۔ ان حالات میں بھی ہماری لوکل انڈسٹری نے ہمت نہ ہاری۔ انہوں نے نئے ٹرینڈز کے ساتھ کاروبار کیا۔ اب بڑی تعداد میں برانڈز میدان میں آ گئے ہیں۔ اس پاپولر ٹرینڈ کو لوگوں نے بہت پسند کیا۔ اسی طرح میڈیسن کے میدان میں بھی جدید ریٹیلنگ شروع ہوئی۔ پاکستان جیسے ممالک میں اس کی گنجائش موجود تھی۔ اب بھی اس میں بہت زیادہ تیزی ہے اور آنے والے پانچ برسوں میں مزید تیزی دیکھنے کو ملے گی۔
جہاں تک ریٹیل انڈسٹری پر معاشرے میں حرص پیدا کرنے کا الزام ہے۔ اس بابت میں کہوں گا کہ کچھ لوگ بجٹ بناکر چلتے ہیں۔ وہ اسی انداز میں عام کریانہ اسٹوروں سے بھی خریداری کرتے ہیں، وہ چیزوں کا خود انتخاب کرتے ہیں، ان کا معیار چیک کرتے ہیں۔ اس سے حرص نہیں پیدا ہوتی بلکہ کنزیومرز کو فائدہ ہوتا ہے کہ اسے نئی اور سستی پروڈکٹس ملتی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ سپر اسٹور کے کلچر نے کنزیومر کو شعور دیا ہے۔ اس طرح ملٹی نیشنل کمپنیوں کے برانڈز کا قبضہ ختم ہوا، نئے برانڈز متعارف ہوئے اور کنزیومرز کو ڈسکاؤنٹ اور اسپیشل آفر کا فائدہ ہوتا ہے۔
اگر آپ پوری دنیا کا جائزہ لیں تو محلے کے اسٹور کی اپنی ایک اہمیت ہوتی ہے اور وہ ہمیشہ قائم رہتی ہے۔ مثلاً ایک انٹرنیشنل اسٹور ہے سیون الیون، اس کی بنکاک (تھائی لینڈ) میں تقریباً سات ہزار سے زیادہ دکانیں ہیں، یہ سب چھوٹے چھوٹے نیبرہڈ اسٹورز ہیں، جہاں روزمرہ کی ضرورت کا سامان ملتا ہے۔ وہاں سپینیز، بگ سی بھی، پوری دنیا میں بڑے اور چھوٹے اسٹوروں کی چینز ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ پاکستان میں بھی کراچی کے میں بڑے بڑے اسٹور ہیں۔ ان کی موجودگی میں بھی ہر گلی محلے میں چھوٹے چھوٹے اسٹور کاروبار کررہے ہیں۔ کریانہ اسٹور کی ضرورت ہمیشہ رہے گی۔
لوگ چھوٹی چھوٹی چیزیں خریدنے کے لیے ان کا رخ کرتے ہیں۔ کراچی کی بڑی سُپرمارکیٹس میں سے ایک مارکیٹ نے ایک ایسے چھوٹے اسٹور کا افتتاح کیا ہے جو چوبیس گھنٹے چلے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ بڑی سپرمارکیٹوں کی وجہ سے چھوٹے اسٹوروں کا استحصال نہیں ہوگا۔ جو چھوٹا اسٹور اپنے آپ کو بہتر بنائے گا وہ لوگوں کو بڑے اسٹور سے بھی زیادہ سستی چیزیں دے سکتا ہے۔ پوری دنیا میں نیبرہڈ اسٹور موجود ہیں، اگر محلے کے اسٹور اپنے آپ کو جدید خطوط پر استوار نہ کریں اور وہ بند ہوجائیں تو اس کا الزام سپراسٹورز پر نہیں آسکتا۔
یہ ایک انڈسٹری ہے، دنیا میں سب سے زیادہ مین پاور ریٹیل انڈسٹری میں ہوتی ہے۔ پاکستان کے اندر بھی یہ انڈسٹری وسعت اختیار کررہی ہے۔ اس کی ایک پوری سائنس ہے، ایک فیکٹری دس ہزار اسٹور چلاسکتی ہے۔ آپ سوچیں کہ اس میں کتنے لوگ کام کرتے ہوں گے؟ ممکن ہے 2 سو سے 5 سو تک ہوں، پھر دس ہزار سپر مارکیٹوں میں سے ہر ایک میں اوسطاً دو سو افراد کام کرتے ہیں۔ اس وقت پاکستان میں پانچ لاکھ سے زیادہ دکانیں ہیں۔ اس طرح لاکھوں افراد کا روزگار اس انڈسٹری سے وابستہ ہے۔ لوگوں کو اچھے صاف ستھرے ماحول میں اشیائے صرف مل رہی ہیں۔ اب بھی دکان داروں اور سپراسٹوروں کے لیے بہت بڑی تعداد میں باصلاحیت اور تربیت یافتہ کارکنوں کی ضرورت ہے، اس کے لیے انسٹی ٹیوٹ قائم ہونے چاہیں۔
ہائپر مارکیٹس اور سپراسٹورز کا آئیڈیا بہت شان دار ہے، جہاں لوگ وسیع پیمانے پر خریداری کرتے ہیں۔ اگر ایک ریٹیل چین کی دس برانچیں ہیں تو وہ ایک ہی جگہ سے خریداری کر لیتے ہیں۔ اس طرح فیکٹری والا یا پروڈکشن والا انھیں سستے ریٹ پر مال دے دیتا ہے۔ پھر مقابلے کی فضاء میں یہ مختلف اسکیمیں متعارف کرواتے ہیں، یوں کنزیومر کو نسبتاً زیادہ سستی چیزیں ملنا شروع ہو جاتی ہیں۔
جہاں تک بڑے سپراسٹورز کی وجہ سے پارکنگ جیسے مسائل کے پیدا ہونے کی بات کی جاتی ہے تو اس کا سبب ریٹیل انڈسٹری نہیں بلکہ برا طرزِحکم رانی ہے۔ اچھے طرزحکم رانی سے یہ مسائل حل ہو سکتے ہیں، جہاں بھی ایسا کوئی سپراسٹور کھلے وہاں سب سے پہلے پارکنگ کا ایشو حل کیا جائے۔
سپر اسٹورز کی وجہ سے ہمارا معاشی قتل ہو رہا ہے: دکان دار جمیل احمد
سپر اسٹورز کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ایک دکان دار جمیل احمد کا کہنا ہے کہ یہ رجحان ہمارے لیے بہت نقصان دہ ہے۔ ان سپراسٹورز کی وجہ سے ہمارے جیسے چھوٹے دکان داروں کا معاشی قتل ہورہا ہے۔ یہ اسٹورز والے بڑی بڑی کمپنیوں کے تمام پیکجز اور پرکشش آفرز سمیٹ لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ سپر اسٹورز تھوک میں سامان خریدتے ہیں تو انہیں وہ کچھ سستا بھی پڑتا ہے، جس کے بعد وہ اشیاء کے نرخ کم کرکے انہیں فروخت کرتے ہیں تو لوگوں کی اکثریت انہی کی طرف لپکتی ہے۔
مثال کے طور پر ایک کلو گرام کے واشنگ پاؤڈر کا کمپنی ریٹ 270 روپے ہے، جو عام دکان دار کو 257 روپے میں ملتا ہے، جب کہ یہی واشنگ پاؤڈر سپراسٹور پر 243 روپے میں فی کلو فروخت ہو رہا ہے تو ایسے میں ہم جیسے چھوٹے دکان دار کہاں جائیں؟ واشنگ پاؤڈر ہمیں ملتا ہی 257 میں ہے تو ہم 243 میں کیسے فروخت کر سکتے ہیں؟ سپراسٹور تو چوں کہ تھوک میں خریداری کرتا ہے، اسے تو 243 روپے فی کلو میں سے بھی بچت ہو رہی ہے۔ کوالٹی تو ہر جگہ برابر ہے، کیوں کہ جو کمپنی ہمیں سامان دیتی ہے وہی اس سپراسٹور کو بھی دیتی ہے۔ ایسا نہیں کہ وہاں کوالٹی زیادہ اچھی اور ہمارے پاس ناقص سامان ہوتا ہے۔ بڑی کمپنیاں ہمیں تو جلد سامان بھی نہیں دیتیں اور اگر دیتی بھی ہیں تو اپنے وقت اور ریٹ کے مطابق۔
کم قیمت پر معیاری اشیاء کی فراہمی سے عوام کو تو فائدہ ہو رہا ہے؟ کے جواب میں دکان دار کا کہنا تھا کہ پھر ہم کون ہیں؟ کیا ہم عام شہری نہیں، ہمارے بچے نہیں؟ بات اصل میں یہ ہے کہ پیسہ ہی پیسے کو کھینچ رہا ہے۔ سپراسٹور بنانے والے سرمایہ دار کمائی کر رہے ہیں جب کہ ہم جیسے لاکھوں چھوٹے دکان دار، جنہوں نے 50 ہزار یا ایک لاکھ روپے سے کام شروع کر رکھا ہے، وہ روز بہ روز تباہ ہو رہے ہیں۔ ہمیں ایک چھوٹی سی دکان کے لیے کوئی 20 طرح کے لائسنس لینا پڑتے ہیں، جن کے لیے کبھی دھکے کھانے پڑتے ہیں تو کبھی رشوت دینا پڑتی ہے، جب کہ ان سپراسٹور والوں کے لیے شاید کسی لائسنس کی ضرورت ہی نہیں۔ اور ہوتی بھی ہے تو سب لائسنس خود بخود بن کر چلے آتے ہیں۔ میری حکومت سے استدعا ہے کہ وہ ہمارے بارے میں بھی سوچے! کہ ہمارے بچوں کا پیٹ کیسے پلے گا؟ ایسی پالیسیاں بنائی جائیں جن سے معاشی انصاف ہو۔
سپر اسٹور نے ایک چھت تلے تمام چیزیں مہیا کرکے شہری کو دن بھر مارکیٹکے دھکے کھانے سے نجات دلوا دی: مالک عرفان اقبال شیخ
لاہور کے ایک بڑے سپراسٹور کے مالک عرفان اقبال شیخ نے ''ایکسپریس'' سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ چیز جو بیرون ملک سے منگوانی بہت مشکل تھی، ہم نے اسے اپنے پاکستانیوں کی دہلیز پر پہنچا دیا ہے۔ الحمداللہ آج پاکستان میں دنیا کی ہر چیز دست یاب ہے۔ دنیا بھر میں لوگ خریداری کے لیے سپر اسٹورز کا رخ کرتے ہیں، لیکن پاکستان میں یہ رجحان اب پیدا ہوا ہے، جو ایک بڑی سہولت ہے۔ سپراسٹورز کے ذریعے ایک چھت تلے ہر چیز مہیا کرکے شہریوں کو دن بھر مارکیٹ کے دھکے کھانے سے نجات دلوا دی گئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سپراسٹورز میں کسی چیز کی کوالٹی پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جاتا، جس کا شہریوں کو بھی ادراک ہے۔ اسی لیے وہ بڑی تعداد میں یہاں کا رخ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ سپراسٹورز کی وجہ سے روزگار کے مواقع پیدا ہوئے ہیں، آج ہزاروں خاندان ان اسٹورز کی وجہ سے چل رہے ہیں۔ باہر پیسہ لے جانے کے بجائے ہم سپراسٹورز کے ذریعے اپنے ملک میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں، جس کے ملکی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ پھر یہ سپر اسٹورز ہی ہیں جو ٹیکس ادا کرتے ہیں، چھوٹے اسٹورز یا دکان دار تو ہر وقت ٹیکس چوری کی فکر میں لگے رہتے ہیں۔
سپراسٹورز کی وجہ سے چھوٹے دکان داروں کے کاروبار تباہ ہونے کے سوال پر عرفان اقبال شیخ کا کہنا تھا کہ ایسی کوئی بات نہیں۔ علاقائیت کی وجہ سے چھوٹے اسٹورز یا دکانوں کی ڈیمانڈ کبھی ختم ہوئی ہے نہ ہو گی۔ لوگوں کو ان دکانوں کی ضرورت ہے، جس سے دکان داروں کی ضرورت بھی پوری ہوجاتی ہے۔ سپراسٹورز میں ملازمین خصوصاً خواتین کے معاشی استحصال کے سوال پر ان کا جواب نفی میں تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ اب ایسا کچھ نہیں ہے، کبھی ایسا ہوتا تھا کہ پڑھے لکھے افراد کو بھی کم تن خواہوں پر خاموشی اختیار کرنا پڑتی تھی۔ آج سپراسٹورز میں ملازمین کو پرکشش تن خواہیں ادا کی جا رہی ہیں۔ اور اگر آپ خواتین کی بات کرتے ہیں تو سپراسٹورز تو ان کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں، کیوں کہ یہی تو ہیں وہ جنہوں نے خواتین کے لئے باعزت روزگار کے مواقع میں بے پناہ اضافہ کیا۔
سپر اسٹورز ایک سہولت، امیروں کا چونچلا ہیں: شہریوں کا مِلاجُلا اظہارخیال
سپر اسٹورز کے رجحان میں اضافے کے بارے میں عام شہریوں نے ملے جلے خیالات کا اظہار کیا۔ کسی کے لیے یہ ایک اچھی سہولت ہیں تو کوئی اسے امیروں کا چونچلا قرار دیتا ہے۔ ایک شہری احسن داؤد کا کہنا ہے کہ سپراسٹور ایک مثبت تبدیلی ہے، کیوں کہ یہاں ہمیں نہ صرف معیاری بلکہ کم نرخ پر اشیاء ملتی ہیں۔ میرے طبقے کے افراد کی اکثریت کو مہینے بھر کا راشن ایک ہی بار خریدنا ہوتا ہے، ایسے میں سپراسٹور نے میرے لیے یہ آسانی کردی کہ میں ایک ہی چھت تلے اپنی ضروریات کی تمام چیزیں خرید سکوں، حالاں کہ پہلے مجھے دو، تین اور بعض اوقات چار چار دکانیں پھرنا پڑتی تھیں۔ ذوالنون احمد کے خیال میں سپراسٹور اچھی چیز نہیں، کیوں کہ یہاں پر تھوک میں یعنی بڑی بڑی پیکنگ میں چیزیں ملتی ہیں۔ اب مجھے اگر کم چیز کی ضرورت ہے یا میرے پاس پیسے ہی کم ہیں تو میں کیوں کر سپراسٹور جاؤں۔
مجھے تو عام مارکیٹ میں زیادہ سہولت محسوس ہوتی ہے، جہاں سے میں اپنی مرضی اور ضرورت کے مطابق سامان خریدتا ہوں۔ پھر کچھ سپر اسٹورز ایسے بھی ہیں، جہاں عام مارکیٹ کی نسبت چیزیں منہگی ملتی ہیں، جو ہمارے جیسے لوگوں کے لیے نہیں بلکہ ہمارے ملک کے ایک مخصوص طبقہ کے لیے ہیں۔ فیصل ریحان کا کہنا ہے کہ آپ نے اگر کسی بھی چیز کا ایک پیکٹ لینا ہے تو اس کی قیمت اور معیار ہر سپراسٹور پر ایک جیسا ہوگا، لیکن وہی پیکٹ جب آپ عام مارکیٹ سے لیں گے تو ایک دکان دار کے پاس اس کی قیمت 25 روپے ہوگی، دوسرے کے پاس 28 روپے ہو گی جب کہ تیسرے کے پاس ممکن ہے پیکٹ کی قیمت 30 روپے ہو۔
یوں میرے خیال میں تو سپراسٹورز نے دکان داروں کی ناجائز منافع خوری کو بھی لگام ڈال دی ہے۔ محمد عبدالرحمٰن نے بتایا کہ سپراسٹورز کی تعداد کم ہے۔ مجھے بڑی دقت یہ محسوس ہوتی ہے کہ میں سات چیزیں خرید کر لایا، جن میں سے ایک چیز تبدیلی کی متقاضی ہے تو پھر صرف ایک چیز کے لیے میں دوبارہ سپراسٹور جانے سے کتراؤں گا۔ اس صورت میں، میں قریبی دکان سے ہی چیز خریدنے کو بہتر تصور کرتا ہوں، کیوں کہ کسی بھی چیز کی تبدیلی یا واپسی فوراً ہو جاتی ہے۔ پھر ان اسٹورز کی چمک دمک اور چیزوں کی کثرت صارف کو یوں لبھاتی ہے کہ وہ ایک چیز لینے جائے تو چار چیزیں لینے پر مجبور ہو جاتا ہے، جو ایک غریب یا متوسط طبقے کے فرد پر معاشی بوجھ ہے۔