شرم و حیا

شرم و حیا کا یہ وصف ہر انسان میں فطری طور پر موجود ہوتا ہے۔


شرم و حیا کا یہ وصف ہر انسان میں فطری طور پر موجود ہوتا ہے۔ فوٹو: فائل

شرم و حیا، انسان کا وہ فطرتی وصف ہے جس سے اُس کی بہت سی اخلاقی خوبیوں کی پرورش ہوتی ہے۔ اسی کی بہ دولت انسان کو عفت و عصمت، پاک بازی و پارسائی اور پاک دامنی حاصل ہوتی ہے اور اسی کے سبب وہ دوسروں کے ساتھ مروت و لحاظ اور چشم پوشی کا معاملہ کرتا ہے۔ بل کہ اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو اسی ایک فطری وصف کی برکت سے انسان بہت سے گناہوں سے محفوظ رہتا ہے۔

شرم و حیا کا یہ وصف ہر انسان میں فطری طور پر موجود ہوتا ہے اور اگر اِس کی ابتدا ہی سے نگہداشت اور حفاظت کی جائے تو انسان کے بڑھنے کے ساتھ یہ وصف بھی خوب نشو و نما پاتا ہے اور پھر جب انسان اور یہ وصف آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ خوب گھل مل جاتے ہیں تو پھر یہ انسان کی عادت بن جاتا ہے اور اُس کی پوری زندگی کو سنوار دیتا ہے۔ لیکن اگر اِس کی بروقت صحیح حفاظت اور مناسب تربیت نہ کی جائے اور اسے یوں ہی آزاد اور بے مہار چھوڑ دیا جائے تو پھر یہ وصف انسان کی زندگی کا ایک بدنما داغ بن کر اُبھرتا ہے اور اِس کی وجہ سے انسان کی مکمل زندگی داغ دار بن جاتی ہے۔

اسلام نے اپنی روشن اور مبارک تعلیمات کے ذریعے انسان کو زندگی کے تمام مواقع پر شرم و حیا کی صحیح نگہداشت اور مناسب تربیت کرنے کا حکم دیا ہے۔ وضع قطع ہو یا بود و باش، چال چلن ہو یا نشست و برخاست، اجتماعی زندگی ہو یا انفرادی زندگی غرض ہر موقع پر اسلام نے انسان کو شرم و حیا کا پابند اور اُس کا مکلف بنایا ہے۔ خود رسول اکرم ﷺ اور آپؐ کے جاں نثار صحابہ کرامؓ کی زندگی شرم و حیا سے عبارت تھیں۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں شرم و حیا کا مادہ اِس قدر غالب تھا کہ آپؐ پردہ نشین کنواری لڑکی سے بھی زیادہ شرمیلے محسوس ہوتے تھے۔ چناں چہ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : '' کنواری لڑکی اپنے پردے میں جتنی شرم و حیا والی ہوتی ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اِس سے بھی زیادہ شرم و حیا والے تھے۔''

حضرت سعید بن العاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : '' ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی چادر اُوڑھے ہوئے اپنے بستر پر لیٹے ہوئے تھے کہ اتنے میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اندر آنے کی اجازت مانگی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دے دی اور آپؐ اُسی طرح لیٹے رہے، وہ اپنی بات کرکے چلے گئے۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اندر آنے کی اجازت مانگی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں بھی اجازت دے دی اور آپؐ اُسی طرح لیٹے رہے، وہ بھی اپنی ضرورت کی بات کرکے چلے گئے۔

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : '' پھر میں نے اجازت مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ اُٹھ کر بیٹھ گئے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا : '' تم بھی اپنے کپڑے ٹھیک کرلو (پھر مجھے اجازت دی) میں بھی اپنی ضرورت کی بات کرکے چلا گیا۔ تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: '' یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)! کیا بات ہے آپ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے آنے پر جتنا اہتمام کیا اتنا حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے آنے پر نہیں کیا؟'' حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''عثمان رضی اللہ عنہ بہت ہی حیا والے آدمی ہیں تو مجھے ڈر ہوا کہ اگر میں اُنہیں اسی حالت میں اجازت دے دوں گا تو وہ اپنی ضرورت کی بات کہہ نہ سکیں گے۔'' اس حدیث کے بہت سے راوی یہ بھی روایت کرتے ہیں : '' حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا : '' کیا میں اُس سے حیا نہ کروں جس سے فرشتے حیا کرتے ہیں۔''

حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بہت زیادہ باحیاء ہونے کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا: ''بعض دفعہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ گھر میں ہوتے اور دروازہ بھی بند ہوتا لیکن پھر بھی غسل کے لیے اپنے کپڑے نہ اُتار سکتے اور وہ اتنے شرمیلے تھے کہ (غسل کے بعد) جب تک وہ کپڑے سے ستر نہ چھپا لیتے کمر سیدھی نہ کرسکتے یعنی سیدھے کھڑے نہیں ہوسکتے تھے۔''

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : '' تم لوگ اللہ سے حیا کیا کرو! کیوں کہ میں بیت الخلاء میں جاتا ہوں تو اللہ سے شرما کر اپنے ستر کو ڈھک لیتا ہوں۔'' حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ (اللہ تعالیٰ سے شرم و حیا کی وجہ سے) جب کسی تاریک کمرے میں غسل کرلیتے تو سیدھے کھڑے نہ ہوتے بل کہ کمر جھکا کر کبڑے بن کر چلتے اور کپڑے لے کر پہن لیتے (اور پھر سیدھے ہوتے) حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے کچھ لوگوں کو دیکھا کہ لنگی باندھے بغیر پانی میں کھڑے ہیں تو آپؓ نے فرمایا: ''میں مر جاؤں پھر مجھے زندہ کیا جائے، پھر مر جاؤں پھر مجھے زندہ کیا جائے، پھر مرجاؤں پھر مجھے زندہ کیا جائے یہ مجھے اِس سے زیادہ پسند ہے کہ میں اِن کی طرح کروں۔''

حضرت اشج عبدالقیس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''تمہارے اندر دو خصلتیں ایسی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ پسند فرماتے ہیں'' میں نے پوچھا وہ دو خصلتیں کون سی ہیں؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''برد باری اور حیا۔'' میں نے پوچھا: '' یہ پہلے سے میرے اندر تھیں یا اب پیدا ہوئی ہیں؟'' حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''نہیں! پہلے سے تھیں۔'' میں نے کہا: ''تمام تعریفیں اُس اللہ کے لیے ہیں جس نے مجھے ایسی دو خصلتوں پر پیدا فرمایا جو اُسے پسند ہیں۔'' حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: ''حیا تو سارے کی ساری خیر ہی ہے۔''

مگر افسوس کہ آج کل کے معاشرے میں فحاشی و عریانی کو جو عروج بخشا جارہا ہے۔ بے شرمی و بے حیائی کو جو فروغ دیا جارہا ہے۔ اُسے جس طرح روشن خیالی اور جدت پسندی قراردیا جارہا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اُسے جس آزادی و بہادری اور جرأت و دلیری کے ساتھ سرانجام دینے کی کوششیں کی جا رہی ہیں اُنہیں دیکھ کر آج کل کے دور میں بڑی ہی مشکل سے یہ باور ہوتا ہے کہ اسلام کی درخشاں تاریخ میں ہمارے آباؤاجداد اور ہماری مائیں بہنیں اور بیٹیاں بھی ایسی گزری ہیں کہ جن کی عفت و عصمت، پاک بازی و پاک دامنی اور اُن کی بے داغ جوانی پر تاریخ بجا طور پر فخر کرتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں