بیوی کے حقوق

عورتیں جانور یا جائیداد نہیں کہ مال موروثہ کی طرح ان پر مردوں کو تصرف کا حق حاصل ہو۔


ہمارے معاشرے میں بعضمرد عورتوں پر ظلم کی نئی تاریخ رقم کررہے ہیں۔ فوٹو : فائل

اللہ تعالیٰ کے ارشاد گرامی کا مفہوم ہے : ''جس طرح مردوں کا حق عورتوں پر ہے اسی طرح عورتوں کا حق بھی مردوں پر ہے۔'' گویا دنیا کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ یہ مت سمجھو کہ بس مردوں کے حقوق عورتوں پر اور شوہروں ہی کے حقوق بیویوں پر ہوتے ہیں۔ نہیں بل کہ اسی طرح عورتوں کے بھی حقوق مردوں پر اور بیویوں کے حقوق بھی شوہروں پر ہوتے ہیں۔

عورتیں جانور یا جائیدار نہیں کہ مال موروثہ کی طرح ان پر مردوں کو تصرف کا حق حاصل ہو۔ تو شوہر کہیں اس خام خیالی میں نہ پڑ جائیں کہ ان کے صرف حقوق ہی حقوق ہیں اور فرض و ذمے داری کچھ نہیں۔ فرائض ان پر بھی اسی طرح عاید ہوتے ہیں جس طرح ان کے ان کی بیویوں پر۔ اسی طرح بیویاں بھی کہیں اس روشن خیالی میں مبتلا نہ ہوجائیں کہ خدمت کرنا ہمارا کام نہیں۔ یہ کام مردوں کا ہے ہمارا کام خدمت لینا ہے۔ لیکن ان حقوق کا معیار وہ نہیں جو ہوائے نفس کے ماتحت کسی دستور سے لیا جائے اور اس کا نام ضابطۂ حقوق نسواں رکھ دیا جائے ۔ بل کہ ان حقوق کی ساری باتیں اور تفصیلات شریعت مطہرہ کے احکام اور عقل سلیم کے ماتحت ہونی چاہییں۔

شوہروں کو یہ بات خوب ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ وہ عورتوں کے مالک نہیں ان کی بیویاں ان کی کنیزیں نہیں۔ بہ لحاظ حقوق دونوں ایک سطح پر ہیں۔ ہاں جسمانی ساخت اور دماغی قوت کے باعث مرد کو ایک طرح کی فضیلت حاصل ہے۔ قرآن کریم کے ارشاد گرامی کا مفہوم اور اس آیت کریمہ کا ماحاصل یہ ہے کہ مردوں کو عورتوں کے ساتھ خوش اسلوبی سے گزر بسر کرنا چاہیے۔ خواہ وہ سہاگن ہوں یا بیوہ۔ آیت کریمہ نے تہمت، عیب جوئی، بدگمانی اور غیبت و بدگوئی کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند کردیے۔

مرد بعض اوقات اظہار خفگی کے وقت عورت کی برائیاں گنانا شروع کر دیتا، اور اسے اپنا حق سمجھتا ہے۔ قرآن کریم نے فرمایا کہ جو عورت تمہارے دامن سے وابستہ ہے مانا کہ اس میں کچھ برائیاں اور کوتاہیاں ہیں۔ لیکن ان برائیوں کے ساتھ کچھ خوبیاں بھی تو پائی جا سکتی ہیں۔ اگر وہ بد زبان یا بے پروا ہے تو ساتھ ہی مثلاً تمہاری وفادار اور عصمت شعار بھی تو ہے تو اس کی ان خوبیوں کو بھی تو نظر میں رکھو، کبھی ان کا بھی خیال کر لیا کرو۔ '' وہ تمہاری پوشاک ہیں اور تم ان کی پوشاک ہو۔''

مرد عورت دونوں ایک دوسرے کے لیے مخلص اور وفادار رہیں بل کہ یک جان و دو قالب ہوں۔ ایک دوسرے کے پردہ پوش، ایک دوسرے کی زینت اور ایک دوسرے کی تکمیل کا ذریعہ ہوں اور ایک دوسرے کی معاشی اور معاشرتی کمی میں کمال کا وسیلہ بن کر رہیں۔ اکثر عورتوں میں ضد، ہٹ دھرمی ہوتی ہے۔ مرد کو چاہیے کہ اس کی ضد کے مقابلے میں سختی اور درشتی سے کام نہ لے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :

٭ عورتوں کے ساتھ نیکی کا برتاؤ کرو کہ ان کی پیدائش ٹیڑھی پسلی سے ہوئی ہے۔ وہ تیرے لیے کبھی سیدھی نہیں ہوسکتی۔ اگر تُو اسے برتنا چاہے تو اسی حالت میں برت سکتا ہے، اور سیدھا کرنا چاہے گا تو توڑ دے گا اور توڑنا طلاق دینا ہے۔ (مسلم)

٭ مسلمان مرد، اپنی مسلمان بیوی سے بغض نہ رکھے۔ اگر اس کی ایک عادت بُری معلوم ہے۔ دوسری پسند ہوگی۔ (مسلم )

یعنی عورت کی ساری ہی عادتیں خراب نہیں ہوں گی۔ جب کہ اچھی بری عادتیں اور ہر قسم کی باتیں ہوں گی تو مرد کو یہ نہیں کرنا چاہیے کہ خراب عادت کو ہی دیکھتا رہے۔ بل کہ بری عادت سے چشم پوشی کرے اور اس کی اچھی عادتوں پر نظر رکھے۔(مسلم )

مردوں کو بیویوں کے معاملے میں خوش، قانع اور راضی رہنے کا کیسا عمدہ نسخہ حکیم انسانیت ﷺ نے تعلیم فرما دیا :

٭ تم میں اچھے وہ لوگ ہیں جو عورتوں سے اچھی طرح پیش آئیں۔ ( ترمذی)

انسان کے بہتر خوش اخلاق اور صالح ہونے کی یہ ایک ایسی پہچان بتا دی گئی ہے کہ اس آئینے میں ہر شخص اپنا چہرہ دیکھ سکتا ہے جو اپنوں کے ساتھ احسان اور انصاف نہیں کر سکتا، اس سے کیا توقع کہ وہ دوسروں سے اچھا سلوک کرے گا۔

حسن معاملہ اور نیکی گھر سے شروع ہونی چاہیے ۔ حجۃ الوداع کے مشہور خطبہ میں حضور اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:

٭ اے لوگو! میں تمہیں عورتوں کے بارے میں نیکی اور بھلائی کرنے کی وصیت فرماتا ہوں، تم میری اس وصیت کو قبول کرو۔ بے شک عورتوں کا تمہارے اوپر حق ہے تم ان کے پہنانے اور کھلانے میں نیکی اختیار کرو۔ (ابن ماجہ)

٭ ایک موقع پر ایک شخص نے حضور اکرم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوکر دریافت کیا کہ یا رسول اللہ! (ﷺ) بیوی کا حق شوہر پر کیا ہے ؟ آپؐ نے فرمایا: جب خود کھائے تو اس کو کھلائے۔ جب اور جیسا خود پہنے اس کو پہنائے، نہ اس کے منہ پر تھپڑ مارے نہ اس کو برا بھلا کہے اور نہ گھر کے علاوہ اس کی سزا کے لیے اس کو علیحدہ کردے۔ (ابن ماجہ)

اسلامی خاندان میں میاں بیوی کو ایک دوسرے کا بہی خواہ، ایک دوسرے کا ہم درد اور ایک دوسرے کا پردہ پوش رہنا چاہیے۔ باہمی رواداری سے کام لینا چاہیے۔ دونوں میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ وہ اس کے لیے اوڑھنا بچھونا ہے یہ اُس کے لیے اوڑھنا بچھونا جس طرح لباس جسم کے عیبوں کو چھپاتا ہے اور اس کے حسن و خوبی کو ابھارتا ہے۔ اسی طرح شوہر اور بیوی کا اخلاقی کمال یہ ہے کہ ایک دوسرے کی کم زوری کو چھپائیں اس پر صبر کریں اور ایک دوسرے کی خوبیوں کو نگاہ میں رکھیں اور بہتر سے بہتر صورت میں اپنے باہمی تعلقات کو ظاہر کریں۔

حضور اکرم ﷺ سے کسی بیوی کو حسنِ سلوک کے حوالے سے کوئی شکایت نہ تھی۔ ہم بہ حیثیت مسلمان اپنے نبی ﷺ کے اسوۂ حسنہ کو مشعل راہ بنا کر بیویوں کے حقوق کی ادائی کریں تو عورت کبھی سڑکوں پر نکل کر احتجاج نہیں کر ے گی۔ موجودہ معاشرے میں بعض مرد عورتوں پر ظلم کی نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں۔ کبھی بیوی کا چہرہ تیزاب سے جلا دیا جاتا ہے اور کبھی جہیز کے مسئلے پر بیوی کو زندہ جلا دیا جاتا ہے۔ بلاوجہ طلاق دے کر اپنی بیوی کو معاشرے کے بے رحم رسم و رواج کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے۔ ہمیں آج اصلاحِ احوال کی سخت ضرورت ہے تاکہ بیوی اپنے شوہر کے گھر کو اپنی جنّت تصور کرے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن و سنت پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں