حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بے مِثل سخن ہائے گراں مایہ
آپؓ کے سارے فرامینِ حمیدہ اور اقوالِ زریں یقیناً نہایت جامع، بہترین، نایاب اور لاجواب ہیں۔
بابِ مدینۃ العلم حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کی تمام تر نورانی تعلیمات، خطبات، مکتوبات اور کلمات قصار (مختصر جملوں، بہترین حکمتوں) سے معاشرے کے تمام تر افراد کو خلوصِ دل سے اور مستقل استفادے کی ضرورت ہے۔
آپؓ کے سارے فرامینِ حمیدہ اور اقوالِ زریں یقیناً نہایت جامع، بہترین، نایاب اور لاجواب ہیں۔ انھیں پڑھ کر اور دِل کی گہرائیوں سے محسوس کرکے ایسا لگتا ہے جیسے گویا سخت ترین گرمی اور لُو کے موسم میں اچانک کھل کربرسات برسنے لگے۔ ہر قول بے مثال ہے ہر بات لاجواب۔
اگر ہمیں اپنے معاشرے سے ظلم و ستم ختم کرنا ہے، پیار، محبت، خلوص، بے لوثی، انسانیت، توکّل، صبر و شکر، فرائضِ منصبی کا احساس، اعلیٰ انسانی اقدار پر عمل کرکے اپنے سماج کو گُل و گُل زار بنانا ہے تو حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کے افکار کو عملی طور پر اپنانا ہوگا۔
ایک شخص نے حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہٗ سے پند و نصیحت کی درخواست کی، تو آپؓ نے فرمایا: ''تم کو اُن لوگوں میں سے نہیں ہونا چاہیے کہ جو عمل کے بغیر حُسنِ انجام کی اُمید رکھتے ہیں اور اُمیدیں بڑھا کر توبہ کو تاخیر میں ڈال دیتے ہیں۔
جو دُنیا کے بارے میں زاہدوں کی سی باتیں کرتے ہیں مگر ان کے اعمال دُنیا طلبوں کے سے ہوتے ہیں۔ اگر دُنیا انھیں ملے تو وہ سیر نہیں ہوتے اور اگر نہ ملے تو قناعت نہیں کرتے، جو انھیں ملا ہے اُس پر شُکر سے قاصر رہتے ہیں اور جو بچ رہا اُس کے اضافے کے خواہش مند رہتے ہیں۔ دوسروں کو منع کرتے ہیں اور خود باز نہیں آتے اور دوسروں کو حُکم دیتے ہیں ایسی باتوں کا جنھیں خود بجا نہیں لاتے۔ نیکوں کو دوست رکھتے ہیں، مگر اُن کے سے اعمال نہیں کرتے اور گناہ گاروں سے نفرت و عناد رکھتے ہیں، حالاں کہ وہ خود انہی میں داخل ہیں۔ اپنے گناہوں کی کثرت کے باعث موت کو بُرا سمجھتے ہیں مگر جن گناہوں کی وجہ سے موت کو ناپسند کرتے ہیں، انہی پر قایم ہیں۔ اگر بیمار پڑتے ہیں تو پشیمان ہوتے ہیں اور تن درست ہوتے ہیں تو مطمین ہوکر کھیل کُود میں پڑ جاتے ہیں۔ جب بیماری سے چھٹکارا پاتے ہیں تو اِترانے لگتے ہیں، اور مبتلا ہوجاتے ہیں تو ان پر مایوسی چھا جاتی ہے۔
جب کسی سختی و ابتلا میں پڑتے ہیں تو لاچار و بے بس ہوکر دُعائیں مانگتے ہیں اور جب فراغ دستی نصیب ہوتی ہے تو فریب میں مبتلا ہوکر منہ پھیر لیتے ہیں۔ اُن کا نفس خیالی باتوں پر انہیں قابو میں لے آتا ہے اور وہ یقینی باتوں پر اُسے نہیں دبا لیتے۔ دوسروں کے لیے اُن کے گناہ سے زیادہ خطرہ محسوس کرتے ہیں اور اپنے لیے اپنے اعمال سے زیادہ جزا کے متوقع رہتے ہیں۔
اگر مال دار ہوجاتے ہیں تو تو اِترانے لگتے ہیں اور فتنہ و گم راہی میں پڑجاتے ہیں اور اگر فقیر ہوجاتے ہیں تو نااُمید ہوجاتے ہیں اور سُستی کرنے لگتے ہیں اور جب مانگنے پر آتے ہیں تو اصرار میں حد سے بڑھ جاتے ہیں۔ اگر ان پر خواہشِ نفسانی کا غلبہ ہوتا ہے تو گناہ جلد سے جلد کرتے ہیں اور توبہ کو تعویق (تاخیر) میں ڈالتے رہتے ہیں۔ اگر کوئی مصیبت لاحق ہوتی ہے تو اسلامی جماعت کے خصوصی امتیازات سے الگ ہوجاتے ہیں۔ عبرت کے واقعات بیان کرتے ہیں مگر خود عبرت حاصل نہیں کرتے اور وعظ و نصیحت میں زور باندھتے ہیں مگر خود اُس نصیحت کا اثر نہیں لیتے، چناں چہ وہ بات کرنے میں تو اُونچے رہتے ہیں مگر عمل میں کم ہی کم رہتے ہیں۔ فانی چیزوں میں نفسی نفسی کرتے ہیں اور باقی رہنے والی چیزوں میں سہل انگاری سے کام لیتے ہیں۔ وہ نفع کو نقصان اور نقصان کو نفع خیال کرتے ہیں۔
موت سے ڈرتے ہیں مگر فرصت کا موقع نکل جانے سے پہلے اعمال میں جلدی نہیں کرتے۔ دوسروں کے ایسے گناہ کو بہت بُرا سمجھتے ہیں جس سے بڑے گناہ کو خود اپنے لیے چھوٹا خیال کرتے ہیں اور اپنی ایسی اطاعت کو زیادہ سمجھتے ہیں، جسے دوسرے سے کم سمجھتے ہیں، لہٰذا وہ لوگوں پر معترض ہوتے ہیں اور اپنے نفس کی چکنی چپڑی باتوں سے تعریف کرتے ہیں۔ دولت مندوں کے ساتھ طرب و نشاط میں مشغول رہنا انہیں غریبوں کے ساتھ محفلِ ذکر میں شرکت سے زیادہ پسند ہے۔ اپنے حق میں دوسروں کے خلاف حکم لگاتے ہیں، لیکن کبھی یہ نہیں کرتے کہ دوسروں کے حق میں اپنے خلاف حکم لگائیں ۔ اوروں کو ہدایت کرتے ہیں اور اپنے کو گم راہی کی راہ پر لگاتے ہیں ۔ وہ اطاعت لیتے ہیں اور خود نافرمانی کرتے ہیں اور حق پورا پورا وصول کرلیتے ہیں مگر خود ادا نہیں کرتے۔ وہ اپنے پروردگار کو نظر انداز کرکے مخلوق سے خوف کھاتے ہیں اور مخلوقات کے بارے میں اپنے پروردگار سے نہیں ڈرتے۔'' (نہج البلاغہ۔ کلماتِ قصار۔ حکمت150)
''نہج البلاغہ'' کے مدوّن علّامہ سیّد رضیؒ فرماتے ہیں کہ اگر اِس کتاب میں صرف ایک یہی کلام ہوتا تو کام یاب موعظہ اور مؤثر حکمت اور چشمِ بینا رکھنے والے کے لیے بصیرت اور نظر و فکر کرنے والے کے لیے عبرت کے اعتبار سے بہت کافی تھا۔
آپؓ سے عرض کیا گیا: '' عقل مند کے اوصاف بیان فرمائیے ۔'' آپؓ نے فرمایا: ''عقل مند وہ ہے جو ہر چیز کو اُس کے موقع و محل پر رکھے۔'' پھر آپؓ سے کہا گیا کہ ''جاہل کا وصف بتائیے۔'' تو فرمایا: '' میں بیان کرچکا۔'' (کلماتِ قصار۔ حکمت235)
علّامہ سیّد رضی کہتے ہیں کہ مقصد یہ ہے کہ جاہل وہ ہے جو کسی چیز کو اُس کے موقع و محل پر نہ رکھے۔ گویا حضرت ؓ کا اسے نہ بیان کرنا ہی بیان کرنا ہے، کیوں کہ اس کے اوصاف عقل مند کے اوصاف کے برعکس ہیں۔
''سخاوت، عزت و آبرو کی پاسبان ہے۔ بُردباری احمق کے منہ کا تسمہ ہے، درگزر کرنا کام یابی کی زکوٰۃ ہے، جو غداری کرے اُسے بھول جانا اُس کا بدل ہے۔ مشورہ لینا خود صحیح راستہ پاجانا ہے۔ جو شخص اپنی رائے پر اعتماد کرکے بے نیاز ہوجاتا ہے وہ اپنے کو خطرے میں ڈالتا ہے۔ صبر، مصائب و حوادث کا مقابلہ کرتا ہے۔ بے تابی و بے قراری زمانے کے مددگاروں میں سے ہے۔ بہترین دولت مندی آرزوؤں سے ہاتھ اُٹھا لینا ہے۔ بہت سی غلام عقلیں امیروں کی ہوا و ہوس کے بار میں دبی ہوئی ہیں۔ تجربہ و آزمائش کی نگہداشت حُسنِ توفیق کا نتیجہ ہے۔ دوستی و محبت اِکتسابی قرابت ہے۔ جو تم سے رنجیدہ و دل تنگ ہو، اُس پر اطمینان و اعتماد نہ کرو۔''
( کلماتِ قصار۔ موعظہ211)
'' ہم (اہلِ بیت) ہی وہ نقطۂ اعتدال ہیں کہ پیچھے رہ جانے والے کو اُس سے آکر ملنا ہے اور آگے بڑھ جانے والے کو اُس کی طرف پلٹ کر آنا ہے۔'' (کلماتِ قصار)
''دنیا میں انسان موت کی تیر اندازی کا ہدف اور مصیبت و ابتلا کی کی غارت گری کی جولان گاہ ہے، جہاں ہر گھونٹ کے ساتھ اُچھو اور ہر لقمے میں گلوگیر پھندا ہے اور جہاں بندہ ایک نعمت اُس وقت تک نہیں پاتا جب تک دوسری نعمت جدا نہ ہوجائے اور اُس کی عمر کا ایک دن آتا نہیں جب تک کہ ایک دن اُس کی عمر سے کم نہ ہوجائے۔ ہم موت کے مدد گار ہیں اور ہماری جانیں ہلاکت کی زد پر ہیں، تو اس صورت میں ہم کہاں سے بقا کی اُمید کرسکتے ہیں۔ جب کہ شب و روز کسی عمارت کو بلند نہیں کرتے مگر یہ کہ حملہ آور ہوکر جو بنایا ہے اُسے گراتے اور جو یک جا کیا ہے اُسے بکھیرتے ہوتے ہیں۔''
( کلماتِ قصار۔ حکمت191)
''جو شخص احکامِ فقہ کے جانے بغیر تجارت کرے گا، وہ ربا (سود) میں مبتلا ہوجائے گا۔''
(کلماتِ قصار۔ حکمت 448)
'' اللہ کی عظمت کا احساس تمہاری نظروں میں کائنات کو حقیر و پست کردے گا۔''
(کلماتِ قصار۔ حکمت 129)
''اِس اُمّت کے بہترین شخص کے بارے میں بھی اللہ کے عذاب سے بالکل مطمین نہ ہوجاؤ، کیوں کہ اللہ سبحانہٗ کا ارشاد ہے: '' گھاٹا اُٹھانے والے لوگ ہی اللہ کے عذاب سے مطمین ہو بیٹھتے ہیں۔'' اور اِس اُمّت کے بدترین آدمی کے بارے میں بھی اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوجاؤ، کیوں کہ ارشادِ الٰہی ہے: ''اللہ کی رحمت سے کافروں کے علاوہ کوئی اور نااُمید نہیں ہوتا۔''
( کلماتِ قصار۔ حکمت377)
آپؓ کے سارے فرامینِ حمیدہ اور اقوالِ زریں یقیناً نہایت جامع، بہترین، نایاب اور لاجواب ہیں۔ انھیں پڑھ کر اور دِل کی گہرائیوں سے محسوس کرکے ایسا لگتا ہے جیسے گویا سخت ترین گرمی اور لُو کے موسم میں اچانک کھل کربرسات برسنے لگے۔ ہر قول بے مثال ہے ہر بات لاجواب۔
اگر ہمیں اپنے معاشرے سے ظلم و ستم ختم کرنا ہے، پیار، محبت، خلوص، بے لوثی، انسانیت، توکّل، صبر و شکر، فرائضِ منصبی کا احساس، اعلیٰ انسانی اقدار پر عمل کرکے اپنے سماج کو گُل و گُل زار بنانا ہے تو حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کے افکار کو عملی طور پر اپنانا ہوگا۔
ایک شخص نے حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہٗ سے پند و نصیحت کی درخواست کی، تو آپؓ نے فرمایا: ''تم کو اُن لوگوں میں سے نہیں ہونا چاہیے کہ جو عمل کے بغیر حُسنِ انجام کی اُمید رکھتے ہیں اور اُمیدیں بڑھا کر توبہ کو تاخیر میں ڈال دیتے ہیں۔
جو دُنیا کے بارے میں زاہدوں کی سی باتیں کرتے ہیں مگر ان کے اعمال دُنیا طلبوں کے سے ہوتے ہیں۔ اگر دُنیا انھیں ملے تو وہ سیر نہیں ہوتے اور اگر نہ ملے تو قناعت نہیں کرتے، جو انھیں ملا ہے اُس پر شُکر سے قاصر رہتے ہیں اور جو بچ رہا اُس کے اضافے کے خواہش مند رہتے ہیں۔ دوسروں کو منع کرتے ہیں اور خود باز نہیں آتے اور دوسروں کو حُکم دیتے ہیں ایسی باتوں کا جنھیں خود بجا نہیں لاتے۔ نیکوں کو دوست رکھتے ہیں، مگر اُن کے سے اعمال نہیں کرتے اور گناہ گاروں سے نفرت و عناد رکھتے ہیں، حالاں کہ وہ خود انہی میں داخل ہیں۔ اپنے گناہوں کی کثرت کے باعث موت کو بُرا سمجھتے ہیں مگر جن گناہوں کی وجہ سے موت کو ناپسند کرتے ہیں، انہی پر قایم ہیں۔ اگر بیمار پڑتے ہیں تو پشیمان ہوتے ہیں اور تن درست ہوتے ہیں تو مطمین ہوکر کھیل کُود میں پڑ جاتے ہیں۔ جب بیماری سے چھٹکارا پاتے ہیں تو اِترانے لگتے ہیں، اور مبتلا ہوجاتے ہیں تو ان پر مایوسی چھا جاتی ہے۔
جب کسی سختی و ابتلا میں پڑتے ہیں تو لاچار و بے بس ہوکر دُعائیں مانگتے ہیں اور جب فراغ دستی نصیب ہوتی ہے تو فریب میں مبتلا ہوکر منہ پھیر لیتے ہیں۔ اُن کا نفس خیالی باتوں پر انہیں قابو میں لے آتا ہے اور وہ یقینی باتوں پر اُسے نہیں دبا لیتے۔ دوسروں کے لیے اُن کے گناہ سے زیادہ خطرہ محسوس کرتے ہیں اور اپنے لیے اپنے اعمال سے زیادہ جزا کے متوقع رہتے ہیں۔
اگر مال دار ہوجاتے ہیں تو تو اِترانے لگتے ہیں اور فتنہ و گم راہی میں پڑجاتے ہیں اور اگر فقیر ہوجاتے ہیں تو نااُمید ہوجاتے ہیں اور سُستی کرنے لگتے ہیں اور جب مانگنے پر آتے ہیں تو اصرار میں حد سے بڑھ جاتے ہیں۔ اگر ان پر خواہشِ نفسانی کا غلبہ ہوتا ہے تو گناہ جلد سے جلد کرتے ہیں اور توبہ کو تعویق (تاخیر) میں ڈالتے رہتے ہیں۔ اگر کوئی مصیبت لاحق ہوتی ہے تو اسلامی جماعت کے خصوصی امتیازات سے الگ ہوجاتے ہیں۔ عبرت کے واقعات بیان کرتے ہیں مگر خود عبرت حاصل نہیں کرتے اور وعظ و نصیحت میں زور باندھتے ہیں مگر خود اُس نصیحت کا اثر نہیں لیتے، چناں چہ وہ بات کرنے میں تو اُونچے رہتے ہیں مگر عمل میں کم ہی کم رہتے ہیں۔ فانی چیزوں میں نفسی نفسی کرتے ہیں اور باقی رہنے والی چیزوں میں سہل انگاری سے کام لیتے ہیں۔ وہ نفع کو نقصان اور نقصان کو نفع خیال کرتے ہیں۔
موت سے ڈرتے ہیں مگر فرصت کا موقع نکل جانے سے پہلے اعمال میں جلدی نہیں کرتے۔ دوسروں کے ایسے گناہ کو بہت بُرا سمجھتے ہیں جس سے بڑے گناہ کو خود اپنے لیے چھوٹا خیال کرتے ہیں اور اپنی ایسی اطاعت کو زیادہ سمجھتے ہیں، جسے دوسرے سے کم سمجھتے ہیں، لہٰذا وہ لوگوں پر معترض ہوتے ہیں اور اپنے نفس کی چکنی چپڑی باتوں سے تعریف کرتے ہیں۔ دولت مندوں کے ساتھ طرب و نشاط میں مشغول رہنا انہیں غریبوں کے ساتھ محفلِ ذکر میں شرکت سے زیادہ پسند ہے۔ اپنے حق میں دوسروں کے خلاف حکم لگاتے ہیں، لیکن کبھی یہ نہیں کرتے کہ دوسروں کے حق میں اپنے خلاف حکم لگائیں ۔ اوروں کو ہدایت کرتے ہیں اور اپنے کو گم راہی کی راہ پر لگاتے ہیں ۔ وہ اطاعت لیتے ہیں اور خود نافرمانی کرتے ہیں اور حق پورا پورا وصول کرلیتے ہیں مگر خود ادا نہیں کرتے۔ وہ اپنے پروردگار کو نظر انداز کرکے مخلوق سے خوف کھاتے ہیں اور مخلوقات کے بارے میں اپنے پروردگار سے نہیں ڈرتے۔'' (نہج البلاغہ۔ کلماتِ قصار۔ حکمت150)
''نہج البلاغہ'' کے مدوّن علّامہ سیّد رضیؒ فرماتے ہیں کہ اگر اِس کتاب میں صرف ایک یہی کلام ہوتا تو کام یاب موعظہ اور مؤثر حکمت اور چشمِ بینا رکھنے والے کے لیے بصیرت اور نظر و فکر کرنے والے کے لیے عبرت کے اعتبار سے بہت کافی تھا۔
آپؓ سے عرض کیا گیا: '' عقل مند کے اوصاف بیان فرمائیے ۔'' آپؓ نے فرمایا: ''عقل مند وہ ہے جو ہر چیز کو اُس کے موقع و محل پر رکھے۔'' پھر آپؓ سے کہا گیا کہ ''جاہل کا وصف بتائیے۔'' تو فرمایا: '' میں بیان کرچکا۔'' (کلماتِ قصار۔ حکمت235)
علّامہ سیّد رضی کہتے ہیں کہ مقصد یہ ہے کہ جاہل وہ ہے جو کسی چیز کو اُس کے موقع و محل پر نہ رکھے۔ گویا حضرت ؓ کا اسے نہ بیان کرنا ہی بیان کرنا ہے، کیوں کہ اس کے اوصاف عقل مند کے اوصاف کے برعکس ہیں۔
''سخاوت، عزت و آبرو کی پاسبان ہے۔ بُردباری احمق کے منہ کا تسمہ ہے، درگزر کرنا کام یابی کی زکوٰۃ ہے، جو غداری کرے اُسے بھول جانا اُس کا بدل ہے۔ مشورہ لینا خود صحیح راستہ پاجانا ہے۔ جو شخص اپنی رائے پر اعتماد کرکے بے نیاز ہوجاتا ہے وہ اپنے کو خطرے میں ڈالتا ہے۔ صبر، مصائب و حوادث کا مقابلہ کرتا ہے۔ بے تابی و بے قراری زمانے کے مددگاروں میں سے ہے۔ بہترین دولت مندی آرزوؤں سے ہاتھ اُٹھا لینا ہے۔ بہت سی غلام عقلیں امیروں کی ہوا و ہوس کے بار میں دبی ہوئی ہیں۔ تجربہ و آزمائش کی نگہداشت حُسنِ توفیق کا نتیجہ ہے۔ دوستی و محبت اِکتسابی قرابت ہے۔ جو تم سے رنجیدہ و دل تنگ ہو، اُس پر اطمینان و اعتماد نہ کرو۔''
( کلماتِ قصار۔ موعظہ211)
'' ہم (اہلِ بیت) ہی وہ نقطۂ اعتدال ہیں کہ پیچھے رہ جانے والے کو اُس سے آکر ملنا ہے اور آگے بڑھ جانے والے کو اُس کی طرف پلٹ کر آنا ہے۔'' (کلماتِ قصار)
''دنیا میں انسان موت کی تیر اندازی کا ہدف اور مصیبت و ابتلا کی کی غارت گری کی جولان گاہ ہے، جہاں ہر گھونٹ کے ساتھ اُچھو اور ہر لقمے میں گلوگیر پھندا ہے اور جہاں بندہ ایک نعمت اُس وقت تک نہیں پاتا جب تک دوسری نعمت جدا نہ ہوجائے اور اُس کی عمر کا ایک دن آتا نہیں جب تک کہ ایک دن اُس کی عمر سے کم نہ ہوجائے۔ ہم موت کے مدد گار ہیں اور ہماری جانیں ہلاکت کی زد پر ہیں، تو اس صورت میں ہم کہاں سے بقا کی اُمید کرسکتے ہیں۔ جب کہ شب و روز کسی عمارت کو بلند نہیں کرتے مگر یہ کہ حملہ آور ہوکر جو بنایا ہے اُسے گراتے اور جو یک جا کیا ہے اُسے بکھیرتے ہوتے ہیں۔''
( کلماتِ قصار۔ حکمت191)
''جو شخص احکامِ فقہ کے جانے بغیر تجارت کرے گا، وہ ربا (سود) میں مبتلا ہوجائے گا۔''
(کلماتِ قصار۔ حکمت 448)
'' اللہ کی عظمت کا احساس تمہاری نظروں میں کائنات کو حقیر و پست کردے گا۔''
(کلماتِ قصار۔ حکمت 129)
''اِس اُمّت کے بہترین شخص کے بارے میں بھی اللہ کے عذاب سے بالکل مطمین نہ ہوجاؤ، کیوں کہ اللہ سبحانہٗ کا ارشاد ہے: '' گھاٹا اُٹھانے والے لوگ ہی اللہ کے عذاب سے مطمین ہو بیٹھتے ہیں۔'' اور اِس اُمّت کے بدترین آدمی کے بارے میں بھی اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوجاؤ، کیوں کہ ارشادِ الٰہی ہے: ''اللہ کی رحمت سے کافروں کے علاوہ کوئی اور نااُمید نہیں ہوتا۔''
( کلماتِ قصار۔ حکمت377)