انتخابات کا بروقت انعقاد ‘سنہری موقع

الیکشن11مئی کو ہوں گے، کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے، آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی


Editorial May 01, 2013
الیکشن11مئی کو ہوں گے، کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے، آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی. فوٹو: فائل

چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویزکیانی نے کہاہے کہ الیکشن11مئی کو ہوں گے، کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے، جمہوریت اور آمریت کے درمیان اعصاب شکن کھیل جزا وسزا سے ختم نہیں ہو گا، یہ کھیل عوام کی بھرپور شمولیت سے ہی ختم ہوسکتا ہے، دہشت گردی کے خلاف جنگ ہماری اپنی جنگ ہے، اسے صرف فوج کی جنگ سمجھنا ہمیں انتشارکی طرف لے جائے گا، پاکستان مزید کسی انتشار کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ راولپنڈی میں یوم شہداء کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف نے کہا کہ ملک میں انتخابات کا انعقاد انشاء اللہ11مئی کو ہو گا۔ ہمیں اس میں کوئی شک نہیں ہوناچاہیے۔

یہ ایک سنہری موقع ہے جس سے جمہوریت کی اعلیٰ روایات کے ایک نئے دور کا آغاز ہوسکتا ہے۔اگر ہم اپنے لسانی، سماجی اور فرقہ وارانہ تعصبات سے بلند ہوکر صرف اہلیت، ایمانداری اور نیک نیتی کی بنیادوں پر ووٹ کا استعمال کرسکے تو پھر نہ تو آمریت کا بلاوجہ خوف ہو گا اور نہ جمہوری نظام کی خامیوں کا شکوہ۔

انھوں نے کہا کہ حکومت کا صحیح معنوں میں عوام کے صحیح نمایندوں کی امانت بن جانا ہی وہ واحد راستہ ہے جس میں ہمارے تمام مسائل کا حل مو جود ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہر پاکستانی کی طرح ہم نے بھی 5 سال جمہوری نظام کو مضبوط کرنے کی اپنی سی کوشش کی، اس امید کے ساتھ کہ آیندہ انتخابات ہمیں بہتری کی جانب لے جائیں۔ اب جب کہ یہ منزل قریب ہے، ہم سب کو اپنی انتخابی ذمے داریوں سے کوتاہی نہیں برتنی چاہیے۔ جمہوریت کی کامیابی عوام کی خوش حالی سے منسلک ہے۔ ہمیں کئی سوالات کے جوابات ڈھونڈنا ہوں گے۔ ان میں ایک اہم سوال دہشت گردی کے خلاف جنگ ہے۔

جنرل پرویز کیانی کا خطاب بلاشبہ چشم کشا ہے جو ملکی سیاست کے ماضی ،حال اور مستقبل کے منظرنامے، سویلین اور عسکری مائنڈ سیٹ میں ناگزیر تبدیلی ، پیدا شدہ زمینی صورتحال ، ملک و عوام کو درپیش مسائل اور آیندہ انتخابات کے حوالہ سے متعلق ایک فصیح و بلیغ انتباہ کا درجہ رکھتا ہے جس میں جمہوریت سے کمٹمنٹ اور پاک افواج کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کو پاکستان کی سالمیت کی جنگ سے تعبیر کرتے ہوئے انھوں نے اس باب میں انتشار ،ابہام اور تشکیک کا ہر باب بند کردیا۔

یہ خطاب فی الحقیقت پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام سے براہ راست مکالمہ تھا۔ پاکستان بھر میں جنرل پرویزکیانی کے اس خطاب کو خصوصاً اس لیے بھی دلچسپی اور توجہ سے سنا گیا کہ یہ اردو زبان میں تھا اور تقریب میں غیر ملکی سفیروں تک بھی اس پیغام کی قومی زبان میں ترسیل ایک جہان معنی رکھتی ہے۔اسلام کو پاکستان کے قیام کی بنیاد قرار دینے کے حوالہ سے ان کا بیان پہلے ہی آچکا ہے جب کہ داخلی بد امنی کی اندوہ ناکی پر فوج کے ڈاکٹرائن کی تشکیل نو بھی قوم کے ذہنوں میں تازہ ہے۔

اس لیے جنرل پرویزکیانی کے خطاب نے ان زبانوں کو مستقل طور پر بند کردیا ہے جو اپنے مخصوص اہداف کے حصول کی کوشش میں مسلسل یہ پروپیگنڈہ کر رہی تھیں کہ عام انتخابات کا ڈول نہیں ڈالا جاسکے گا جب کہ ایک بار پھر واضح ہوگیا ہے کہ جنرل پرویزکیانی گزشتہ پانچ برسوں کی طرح ایک بار پھر جمہوری روایات اور جمہوریت کے پاسبان ثابت ہوئے ہیں۔ یہ خوش آیند امر ہے کہ الیکشن کے انعقاد کی یقین دہانی صدر آصف زرداری اور چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے بھی کی ہے ۔

صدر مملکت نے کہا کہ حکومت دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پرعزم ہے، معاشرے کے ہر طبقے کو متحد ہو کر مقابلہ کرنا ہوگا۔ آیندہ انتخابات مقررہ وقت پر ہونگے ۔چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ الیکشن ضرور ہوں گے مگر حالات پر قابو نہ پایا گیا تو ووٹ ڈالنا مشکل ہوجائے گا، دریں اثنا چیف الیکشن کمشنر جناب فخرالدین جی ابراہیم کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی ادارے اپنی ناکامی تسلیم کریں الیکشن کمیشن کو ذمے دار نہ ٹھہرائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردی کے باعث انتخابی مہم جمود اور خوف کا شکار ہے، انتخابی جلسوں اور دفاتر پر چن چن کر حملے ہو رہے ہیں، سیکیورٹی اہلکاروں اور پولیس و رینجرز کی تعیناتی کے باوجود دہشت گرد ہٹ لسٹ پر آنے والی سیاسی جماعتوں کو نشانہ بنانے میں کوئی رعایت نہیں دے رہے۔

چنانچہ پیپلز پارٹی ، ایم کیو ایم اور اے این پی نے الزام لگایا ہے کہ انتخابات کے خلاف سازش ہو رہی ہے، اس سازش میں پاکستانی اور عالمی اسٹبلشمنٹ ملوث ہے ، الطاف حسین نے جنرل کیانی کے خطاب کی تعریف کی ہے جب کہ نگراں حکومت سندھ کے زیر اہتمام آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) میں شریک 17جماعتوں نے کراچی میں الیکشن کے روز ہر پولنگ اسٹیشن اور پولنگ بوتھ پر فوج تعینات کرنے کا مطالبہ کیا ہے ۔

متحدہ قومی موومنٹ اور پیپلز پارٹی نے اس کی مخالفت کی ہے، اے این پی نے پہلے مطالبے کی تائید کی پھر مخالفت کر دی ، ڈائریکٹر جنرل سندھ رینجرز میجر جنرل رضوان اختر نے کراچی میں فوج بلانے کے مطالبے کی مخالفت کی ہے ۔ سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ کراچی آتش فشاں بن چکا ہے، جہاں منگل کو 14 افراد قتل ہوئے مگر قاتلوں کی گرفتاری ایک مسئلہ بنی ہوئی ہے۔اس لیے فوج کی تعیناتی کے حوالے سے تذبذب نہیں ہونا چاہیے بلکہ جلد ایکشن لیا جائے۔ورنہ وہی ہوگا جس کا اندیشہ چیف جسٹس اور الیکشن کمشنر ظاہر کرچکے ہیں۔

ادھر محکمہ داخلہ وقبائلی امور خیبرپختونخوا نے آیندہ عام انتخابات 2013کے لیے فاٹا سے الیکشن میں حصہ لینے والے امیدواروں کے جلسے اور پارٹی میٹنگ بندوبستی علاقوں میں کرانے پر پابندی عائدکردی ہے ۔ نگراں حکومت سندھ کے زیر اہتمام آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) میں شریک 17جماعتوں نے کراچی میں الیکشن کے روز ہر پولنگ اسٹیشن اور پولنگ بوتھ پر فوج تعینات کرنے کا مطالبہ کیا ہے جب کہ متحدہ قومی موومنٹ اور پیپلز پارٹی نے اس کی مخالفت کی ہے، اے این پی نے پہلے مطالبے کی تائید کی پھر مخالفت کر دی ۔بلوچستان کے ضلع جھل مگسی میں فائرنگ کے ایک واقعہ میں صوبائی اسمبلی کی نشست سے آزاد امیدوار عبدالفتح مگسی 2ساتھیوں سمیت ہلاک جب کہ ان کے 2 ساتھی زخمی ہوگئے ۔

الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ امیدوار کی ہلاکت کے باعث پی بی 32 پرانتخابات ملتوی کردیے گئے ہیں۔ ہوم سیکریٹری اکبرخان درانی نے بتایا کہ عبدالفتح مگسی اوران کے ساتھی فورسزکی فائرنگ سے ہلاک ہوئے ،اہلکاروں نے مقتولین کی ایک گاڑی سے 2 راکٹ بھی برآمدکیے جس کے بعد ان کے قافلے میں شامل 5 افرادکو گرفتارکر لیا گیا، عبدالفتاح مگسی کے قتل کے بعد قبائلی تصادم شروع ہوگیا جس میں مزید5 افراد مارے گئے ۔

پاکستان پیپلزپارٹی کی حلقہ پی ایس 86 سجاول سے امیدوار پروین لغاری مخالفین کے حملے سے بال بال بچ گئیں تاہم ایک درجن سے زائد کارکن زخمی ہوگئے ، کندھ کوٹ میں منگل کو ٹھل انڈس ہائی وے سے نگراں وزیراعظم میرہزارخان کھوسو کے کزن رحیم بخش کھوسوکو اغواء کرلیا گیا، ادھرکالعدم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی نے انتخابی امیدوارآصف مینگل کے گھر پر دستی بم سے حملہ کی ذمے داری قبول کرلی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ لاقانونیت کے بھوت کو قابو کیا جائے ، غیرملکی میڈیا بھی تشویش کا اظہار کررہا ہے جب کہ یورپی یونین کے اسلام آباد میں سفیر لارس بونار وائج مارک کاکہنا ہے کہ پاکستان میں کچھ طاقتیں جمہوریت پسند لوگوں اور اداروں کو خاموش کرانا چاہتی ہیں ، پاکستان میں مختلف خیالات کے حامل لوگ بستے ہیں اس لیے کسی ایک مکتب فکر کی سوچ کو نافذ نہیں کیا جا سکتا۔ ارباب اختیار کو صورتحال کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جانا چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں