اور اب آج کے شعلہ بیان
ٹی وی کے اشتہارات میں خطیبانہ ولولے کے بجائے گانا بجانا چالو ہے اور رو رو کے ووٹ مانگے جا رہے ہیں۔
آج کے کالم کو آپ گزشتہ جمعرات کے کالم کا تسلسل سمجھ لیجیے۔ اس میں، میں نے حالیہ سیاسی سرگرمیوں کے حوالے سے شعلہ بیان مقرروں کا ذکر کیا تھا اور ماضی کے کچھ چنیدہ رہنماؤں کی بات کی تھی۔ یہ بات عطاء اللہ شاہ بخاری سے لے کر نواب بہادر یار جنگ اور بھٹو سے ہوتی ہوئی رفیق باجوہ میں جا کے ڈوب گئی تھی۔ آئیے اب آج کی بات کرتے ہیں۔
سچ یہ ہے کہ آج ہمارے ہاں شعلہ بیانوں کی خاصی کمی ہے۔ ایسا اس لیے نہیں ہے کہ یہ دھرتی ٹھنڈی ہو گئی ہے۔ یہاں تو گرمی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ اور مزاج کی گرمی کا کیا کہیے۔۔۔۔ دن میں جب تک دو چار سے لڑ بھڑ کے غبار نہ نکلے رات کو نیند نہیں آتی۔
ان معنوں میں ہر شخص شعلہ بیان ہے کہ طیش اور چڑچڑاہٹ کے مارے پھنکارتا پھرتا ہے۔ خود میرا اپنا یہ حال ہے کہ اگر میں اپنے سلگتے ہوئے جذبات چلم بند کر دوں تو آپ کو یہاں الفاظ نہیں انگارے دکھائی دیں۔ اخبار کا یہ صفحہ جل جائے اور آپ کے بارہ روپے ضایع ہو جائیں۔ ایسے میں شعلہ بیانوں، خطابت سے جذبوں میں آگ لگا دینے والوں کی بھلا کیا ضرورت ہے۔ وہ معدوم ہوئے۔ جس پروڈکٹ کی ڈیمانڈ نہیں ہوتی اس کی پروڈکشن جاری نہیں رہ سکتی، بند ہو جایا کرتی ہے۔
ہمارا طالب علمی کا دور ضیاء الحق کا کوڑا لہرائے جانے سے پہلے کا دور تھا۔ ان دنوں چونکہ طلبہ سیاست جاری تھی اس لیے بہت کمال کے مقرر پیدا ہوئے۔ یہ کم و بیش ایک ہی دور تھا جب لاہور میں جاوید ہاشمی، پنڈی میں راجہ انور اور کراچی میں ظہور الحسن بھوپالی اور دوست محمد فیضی کا طوطی بولتا تھا۔ خوش بخت عالیہ کو بھی انھی میں سمجھ لیں۔ ان میں سے جاوید ہاشمی اپنا دور گزار چکے۔ راجہ انور کا سنہری زمانہ ملک بدری میں بیت گیا، ظہور الحسن بھوپالی کا مرڈر ہو گیا اور دوست محمد فیضی کاروبار کی نذر ہو گئے۔ خوش بخت کا سنہری دور بھی ٹی وی پر گزرا۔
اس صف کے آخری خطیبوں میں شفیع نقی جامعی تھا۔ شفیع ایک شعلہ جوالہ تھا۔ اس کی اٹھان ایسی تھی اور اس میں وہ تمام شخصی اچھائیاں اور ناگزیر برائیاں بدرجہ اتم موجود تھیں جو اسے صف اول کا سیاسی لیڈر بنا سکتی تھیں۔ پاٹ دار آواز، توانا جثہ، خیالات کی روانی اور دلیرانہ گھن گرج۔ سچی بات یہ ہے کہ میں سمجھتا تھا وہ ایک روز ملکی سیاست کا بڑا جاندار کردار ہو گا۔ سیاست میں آیا ہوتا تو وہ یقینا کھٹراگ کرنے والوں کے اول درجے میں شمار ہوتا۔ لیکن اس نے موقع ملتے ہی بی بی سی جوائن کر لی اور ہمیشہ کے لیے اس کی نذر ہو گیا۔ یہ ایسا ہی تھا جیسے کسی کو فلور مل لگانے کا موقع مل رہا ہو اور وہ گول گپوں کی ریڑھی لگا لے۔
اب آئیے آج کے شعلہ بیانوں کی طرف۔ یعنی ان کی طرف جو لوگوں کے جذبات سے مکمل طور پر کھیل جائیں۔ خطابت کا جوہر دکھا کے انھیں کٹھ پتلیاں بنا دیں اور الفاظ کے سحر میں جکڑ کر انھیں اشاروں پر نچوا دیں۔ یہ کام علامہ طاہر القادری کر کے دکھا چکے ہیں۔
ان کا کردار، طریقہ کار اور خیالات بھی جتنے بھی مشکوک اور قابل اعتراض ہوں لیکن ان کی اس خوبی سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ وہ ایک اعلیٰ پایے کے خطیب ہیں۔ انھیں زبان، بیان اور خیال ہر چیز پر عبور حاصل ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ وہ اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں پرفارم کر سکتے ہیں۔ اس معیار کا مقرر اس دور میں دور دور تک دکھائی نہیں دیتا۔ انھیں سنتے رہنا انتہائی روح پرور اور پرلطف ہو سکتا تھا لیکن صد افسوس کہ انھوں نے ایک غیر ملکی حلف کی محبت میں اپنی سیاست قربان کر دی۔
ادھر سیاست میں ایک نیا عنصر در آیا ہے۔ ٹی وی کے اشتہارات میں خطیبانہ ولولے کے بجائے گانا بجانا چالو ہے اور رو رو کے ووٹ مانگے جا رہے ہیں۔ عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی اور راحت فتح علی خان بہت بڑے فنکار ہیں لیکن درد بھری فریادوں کا انتخابی مہم میں کیا کام؟ کیا ووٹ بھی انھیں زکوٰۃ اور بھیک میں چاہئیں؟ رونے دھونے کی اس قدر افراط ہے کہ گھروں میں سات بجے شام سے رات بارہ بجے تک ٹشو پیپرز کا استعمال چار گنا بڑھ گیا ہے۔ ہاں، اس کیٹیگری میں اگر کوئی ڈھنگ کی چیز ہے تو وہ اللہ سلامت رکھے۔۔۔۔ہمارے گروپ ایڈیٹر جناب عباس اطہر کی لکھی ہوئی دل کو چھو لینے والی نظم ''بھٹو کی بیٹی آئی تھی'' ہے جسے بہت سریلا کمپوز کیا گیا ہے۔
ان نغموں کی طرف میں اس لیے نکل گیا ہوں کہ آج کے بیشتر رہنماؤں کی شعلہ بیانی کے بارے میں کہنے کو میرے پاس کچھ زیادہ نہیں ہے۔ یہ سب کے سب مایہ ناز مقرر ہیں۔ کبھی چالیس فٹ کی بلندی سے کبھی بغیر تار والے مائک سے اور کبھی گولی کو روک دینے والے شیشے کے پیچھے سے جھانک کے اپنا درشنی خطاب پیش فرماتے ہیں۔ لیکن اتنی حفاظتوں کے باوجود کسی کی شعلہ بیانی ہکلاہٹ کی شکار ہے، کسی کی بوکھلاہٹ کا، کسی کی ممیاہٹ کا، کسی کی کرلاہٹ کا اور کسی کی ٹراہٹ کا۔ آپ سربراہان جماعت پر غور کرتے جائیں اور یہ بھی غور کرتے جائیں کہ جب ان کا ولولہ ٹاپ گیئر میں ہوتا ہے تو آپ کی ہنسی کیوں چھوٹ جاتی ہے۔ ایسے میں وہ آگ لگا دینے کا حکم دیں گے تو آپ آئس کریم کھانے چل دیں گے۔ وہ کاخ امراء کے در و دیوار ہلا دینے کو بولیں گے تو آپ سی این جی بھروانے والوں کی لمبی قطار میں جا کے کھڑے ہو جائیں گے۔
ہاں ان میں ایک استثنا ہے اور وہ ہیں مولانا فضل الرحمٰن۔ ان کی گفتگو جتنی دلکش اور رواں ہوتی ہے ان کی خطابت بھی اتنی ہی خوشگوار ہوتی ہے۔ وہ جب چاہیں شعلہ بیانی کی معراج کو چھو سکتے ہیں۔ خطابت پر ایسا کمال کہ برف میں لگی ہوئی بوتلوں جیسے مجمعے کو چند لمحوں میں پٹرول بم میں تبدیل کر دیں۔ جاوید ہاشمی کا ذکر میں پہلے کر چکا ہوں۔ وہ شعلہ بیانی کی ایک طویل تاریخ کے مالک ہیں لیکن اب یہ صلاحیت قصہ پارینہ ہوئی۔ باقی جو رہنما سرگرم ہیں ان میں اس انتخابی مہم کی سب سے بھڑکدار تقاریر شہباز شریف کر رہے ہیں۔ انھیں بھڑکنا بھی آتا ہے، پھڑکنا بھی اور سر سے سر ملانا بھی۔ شلہ بیانی چونکہ انتخابی مہمات کا حسن ہوتی ہے لہٰذا وہ اس مہم کو حسین بنانے میں اپنا حصہ بخوبی ڈال رہے ہیں۔
دیگروں میں وہ لوگ شامل ہیں جنھیں ٹی وی کے مباحثوں میں سن سن کر عام تاثر یہ ہے کہ شاید وہ عوامی اجتماعات میں بھی اپنے جوہر اسی طرح دکھا سکتے ہیں۔ ان میں فیصل رضا عابدی، سعد رفیق، احسن اقبال، زید حامد، جنرل حمید گل، چوہدری نثار اور اعتزاز احسن شامل ہیں۔ یہ سب اچھا بولنے والے ہیں لیکن شعلہ بیانی کے اعلیٰ معیار پر پورا نہیں اترتے۔ ایک شخص جس کا مستقبل اس میدان میں مجھے بے حد روشن دکھائی دیتا تھا وہ شیخ وقاص اکرم ہیں۔ ڈگری کی وجہ سے وہ پہلے نااہل ہوئے اور پھر اہل لیکن اب وہ انتخابی دوڑ سے باہر ہیں۔ لیکن میری پیش گوئی ہے کہ وہ لوٹ کے جب بھی سیاست میں آئے، وہ اپنے دور کے بہترین شعلہ بیانوں میں سے ایک ہوں گے۔
آپ نے دیکھا ہمارا سیاسی افق خطابت کے میدان میں کچھ زیادہ روشن نہیں ہے۔ ملک کی تقدیر پانچ برس کے لیے داؤ پر لگی ہے اور ہمارے جذبوں میں آگ بھڑکانے والے شعلہ بیان ناپید ہیں۔ ویسے ایک بات بتائیں گولی، بم اور جیکٹ کی لگائی ہوئی آگ تو ہم گھر کی کھڑکی سے گردن باہر نکال کے روز ہی دیکھتے ہیں۔ پھر شعلہ بیانوں کا انتظار کیوں؟