یکم مئی‘ محنت کشوں کا عالمی دن
نیٹو میں اس وقت امریکا کے بعد سب سے زیادہ فوج ترکی کی ہے۔
وویسے تو محنت کش اپنے حقوق کے لیے صدیوں نہیں بلکہ ہزاروں سال سے لڑتے اور جدوجہد کرتے آ رہے ہیں۔ لیکن ''یکم مئی'' محنت کشوں کا عالمی دن کے طور پر کیوں منایا جانے لگا؟ اس لیے کہ یہ وہ زمانہ تھا جب محنت کشوں نے اپنی طبقاتی جدوجہد کے ساتھ ساتھ اپنے فلسفے پر عملی اقدامات کرنا شروع کر دیے تھے۔
1789ء میں انقلاب فرانس، 1836ء میں امریکا میں بیکری کے مزدوروں، گھریلو کام کرنے والے مزدوروں اور پارچہ بافی کے مزدوروں کی بڑی جدوجہد شروع ہو چکی تھی۔ 1847ء میں کمیونسٹ لیگ کے اجلاس میں کمیونسٹ مینی فیسٹو لکھنے کا فیصلہ ہوا۔ اس وقت کے حالات کی روشنی میں یہ اجلاس خفیہ طور پر منعقد ہوا تھا۔ 1848ء میں پریس میں پہلی بار سرمایہ داروں کے خلاف مزدوروں کی ناکام بغاوت ہوئی، 1871ء میں پیرس کمیون قائم ہوئی۔
ان حالات کی روشنی میں مزدوروں کی حوصلہ افزائی ہوتی رہی اور شعور میں اضافہ بھی۔ پھر 1886ء میں 14 مزدور فیڈریشینوں نے مل کر اپنے مطالبات پیش کیے اور ان کے حق میں یکم مئی 1886ء سے جدوجہد کا آغاز کیا۔ ان کے مطالبات میں 8 گھنٹے کام، 8 گھنٹے سونا اور 8 گھنٹے تفریح، خواتین مزدوروں کے حقوق، مرد مزدوروں کے مساوی کرنا، زائد کام کا اوور ٹائم، علاج معالجے کی سہولت، 14 سال سے کم عمر کے بچوں سے کام نہ لینا، کام کرنے کی جگہ کو معقول ماحول مہیا کرنا، وغیرہ وغیرہ۔ یہ جدوجہد پر امن طور پر ہو رہی تھی پھر 4 مئی کو جے مارکیٹ، شکاگو میں جلسے کا اختتام ہونے والا تھا۔
کامریڈ فیلڈن نے اپنی اختتامی تقریر میں جلسے کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے پر امن طور پر منتشر ہونے کی بات جوں ہی کی ایک پولیس والا سادے پوشاک میں مجمعے میں داخل ہوا اور پولیس پر بم پھینکا، جس کے نتیجے میں ایک پولیس افسر ہلاک ہو گیا۔ پھر اسے بہانہ بنا کر پولیس نے مزدوروں پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی اور بے شمار مزدور جان سے جاتے رہے۔ اسی دوران فیلڈن، اسپائزر اور سیموئل سمیت کل 6 مزدور رہنماؤں کو گرفتار کر لیا گیا۔ انھیں 7 ماہ بعد یعنی نومبر 1886ء میں پھانسی دے دی گئی۔ بعد میں شکاگو کے گورنر نے اس عدالتی فیصلے کو نا انصافی پر مبنی یکطرفہ فیصلہ قرار دیا تھا۔
واضح رہے کہ یہ 6 مزدور رہنما سب کے سب انارکسٹ تھے۔ ان کا کسی پارٹی سے تعلق تھا اور نہ کسی تنظیم کے عہدیدار تھے۔ پھانسی کے وقت رسی کو چومتے ہوئے مزدوروں کے مفاد میں اسے قبول کیا اور دنیا کے مزدروں کے حقوق کے لیے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ ہمیں نہیں معلوم ان کا مذہب کیا تھا۔ شاید کوئی نہ ہو مگر ان کی اس عظیم قربانی کی وجہ سے دنیا بھر کے مزدوروں کو قانونی طور پر 8 گھنٹے کی ڈیوٹی نصیب ہوئی۔ مگر یہ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ پاکستان میں اب بھی 10، 12 اور 14 گھنٹے مزدور کام کرنے پر مجبور ہیں۔ صرف چند سرکاری اداروں میں 8 گھنٹے کی ڈیوٹی ہوتی ہے۔
ان 6 پھانسی پانے والے عظیم رہنماؤں میں سے 2 جرمن، ایک انگلش، ایک آئیرش اور دو امریکی تھے۔ یہ بین الاقوامیت کی بہترین مثال ہے۔ عظیم دانشور اور خاتون مزدور رہنما کامریڈ ایما گولڈمان جو کہ روس میں پیدا ہوئیں اور 15 سال کی عمر سے لے کر مرنے سے قبل تک امریکا میں مزدوروں اور خواتین کے لیے جدوجہد کرتی رہیں۔ 1917ء کے بالشویک انقلاب کے بعد روس واپس آئیں اور ان کی وصیت کے مطابق انھیں شکاگو جے مارکیٹ میں ان مزدوروں کے قبرستان میں دفنایا گیا جو 4 مئی 1886ء میں جدوجہد کرتے ہوئے اور بعدازاں 6 مزدور رہنما جنھیں نومبر 1886ء میں جہاں دفنایا گیا تھا۔
بعد میں اقوام متحدہ نے بھی کام کے اوقات کار کو 8 گھنٹے قانوناً تسلیم کیا جب کہ پاکستان میں 90 فیصد مزدور 10 اور 12 گھنٹے کام کرنے پر مجبور ہیں۔ اسمبلی میں ایک بھی مزدور نہیں ہے، اگر ہے بھی تو مزدوروں کے نام پر صاحب جائیداد فرد ہے۔ حالیہ ہونے والے انتخابات میں پیداوار کرنے والی قوتیں انتخابی عمل میں رہنمائی سے کوسوں دور ہیں صرف ووٹ ڈالنے کی حد تک۔ ان کا ووٹ کی جنس کی طرح خرید و فروخت ہوتی ہے۔
یہ انتخابات بھی ایسے شفاف، ایماندار اور منصفانہ ہونے جا رہے ہیں جس کے نمونے لمحہ بہ لمحہ ٹی وی چینلز پر نظر آتے ہیں۔ گزشتہ دنوں مسلم لیگ (ن) کے ایک ترجمان نے کہا کہ ہم نے گزشتہ دنوں نواب شاہ میں بلا سیکیورٹی کے جلسہ کیا، اسی دن اخبارات میں خبر تھی کہ عمران خان کی سیکیورٹی مزید سخت کر دی گئی۔ اس سے قبل طالبان (جس کی پشت پناہی کا ایک ادارے پر الزام ہے) نے اعلان کیا کہ پی پی پی، اے این پی اور ایم کیو ایم کے جلسوں میں عوام نہ جائیں اور پھر ہم دیکھ رہے ہیں کہ ان کے جلسوں اور دفاتر میں کتنے لوگ مارے جا رہے ہیں۔
اب تک جماعت اسلامی، تحریک انصاف، مسلم لیگ (ن) اور جمعیت علماء اسلام یعنی دائیں بازو کی پارٹیوں کے جلسوں میں کوئی دھماکہ نہیں ہوا۔ صرف دائیں بازو کی جماعتوں کے جلسوں میں دھماکے ہوئے۔ شاید یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ پی پی پی، ایم کیو ایم اور اے این پی امریکی نواز اور سامراجی پالیسیوں پر عمل پیرا ہیں، اس لیے انھیں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ تو پھر انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں جے یو آئی، جماعت، پی ٹی آئی، ایم ایل این، تحریک طالبان اور القاعدہ سمیت کسی کے منشور میں یہ درج نہیں ہے کہ سامراجی سرمایہ یعنی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قرضہ جات کو بحق سرکار ضبط کر لیا جائے گا اور سامراجیوں سے رشتے ناتے ختم کر لیے جائیں گے۔
ترکی، مصر اور تیونس کے عوام نے بھی اپنے نئے اسلامی حکمرانوں سے یہی توقعات وابستہ رکھی تھیں مگر اقتدار میں آتے ہی واشنگٹن کا دورہ کیا، اسی طرح سے واشنگٹن نے اسامہ کو افغانستان بھیجا تھا۔ ابھی چند دن ہوئے مصر اور تیونس نے آئی ایم ایف سے قرضے لیے۔ نیٹو میں اس وقت امریکا کے بعد سب سے زیادہ فوج ترکی کی ہے۔
ترکی میں جرمنی فوجی اڈہ اور مصر میں امریکی فوجی اڈہ موجود ہے۔ جب کہ امریکا سے صرف 100 کلومیٹر کے فاصلے پر موجود وینزویلا، بلیویا، اکیواڈور، پیر اگوئے، السلوا ڈور، کیوبا، مالائے گوٹے اور لاطینی امریکا کے دیگر ممالک آئی ایم ایف سی ناتے توڑ چکے ہیں اور شمالی کوریا کا بھی آئی ایم ایف سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مصر اور تیونس نے آئی ایم ایف سے جس طرح قرضہ لیا اور واشنگٹن سے وفاداری کا عہد کیا، جیتنے کے بعد مسلم لیگ (ن)، پی ٹی آئی بھی یہی کرے گی۔ ان میں صرف طریقہ واردات میں فرق ہو گا۔
ایک مشہور کہاوت ہے کہ ''بکرے کو رام رام کر کے کاٹیں یا کلمہ پڑھ کر کٹنا بکرے کو ہی ہے''۔ یعنی بکرے عوام ہیں اور چھری سامراج ہے۔ گزشتہ ہفتے سرمایہ داروں کے معتبر جریدہ اکنانومسٹ نے لکھا ہے کہ پیپلز پارٹی اپنی مقبولیت کھو چکی ہے اور صرف قومی اسمبلی کی 60 نشستیں وہ بھی زیادہ تر سندھ سے حاصل کرے گی اور عمران خان 30 نشستیں حاصل کریں گے۔ ان اعداد و شمار کے ذریعے، طالبان کے دھماکوں کے ذریعے اور مخصوص رہنماؤں کو بلٹ پروف اسٹیج اور گاڑیاں فراہم کر کے جتوانے کے لیے پہلے سے انتظام کر لیا گیا ہے۔
بہرحال یہ سارے کھیل حکمران طبقات کی حکمرانی کی ناکامی، معیشت کی انحطاط پذیری اور وسائل کی لوٹ مار کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ عالمی سرمایہ دارانہ معاشی نظام اندھی کھائی میں گر رہا ہے۔ حکمرانوں کے یہ تمام دعوے، غلط اور ایک سراب ثابت ہوں گے۔ خواہ پی پی پی ہو، نواز شریف ہوں یا عمران، ان کے پاس اس سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے پیوند کاریوں کے ذریعے مسائل کا کوئی حل اب ممکن نہیں۔
اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان کے عالمی شہری اور محنت کش پیدا واری وسائل کو انقلاب کے ذریعے اپنے ہاتھوں میں لے لیں اور امداد باہمی کا عوامی راج قائم کریں۔ ساری دولت سارے لوگوں کی ہو۔ ہر ایک سب کے لیے اور سب ہر ایک کے لیے کام کرے۔ یہی مسئلے کا واحد حل ہے۔