ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات
دو سال قبل سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف امریکا سے شروع ہونے والا بین الاقوامی احتجاج دنیا کے سو ملکوں میں پھیل گیا تھا۔
KARACHI:
گزشتہ روز مجھ جیسے کروڑوں افراد محنت کشوں کے نام پر تعطیل منارہے تھے، ایئرکنڈیشن کمروں میں بیٹھ کر کام کرنے والے، فیکٹریوں کے مالکان، سیاست دان، ججز، بیوروکریٹس، فوجی و سول افسران اپنی فیملی کے ساتھ دن گزار رہے تھے جب کہ کچھ مسیحا پروگراموں میں مزدوروں کے دکھوں کا رونا روتے انھیں اپنے مسیحا ہونے کا احساس دلارہے تھے لیکن کروڑوں محنت کش اس دن بے خبر بے نیاز محنت و مشقت میں مصروف رہے، انھیں کیا خبر کہ یوم مئی کیا ہے۔
سترہویں صدی میں برطانیہ، فرانس اور امریکا میں محنت کش جانوروں سے بدتر زندگی گزار رہے تھے۔ نامساعد حالات، غیر انسانی برتائو، معاوضوں کی ادائیگی کا کوئی قاعدہ قانون نہیں تھا، اوقات کار 18 گھنٹے تک تھے، بچوں سے مشقت کا کام لیا جاتا تھا، مشقت کے دوران مرجانے والے بچوں کی لاشوں کو چونے کے گڑھوں میں ڈال دیا جاتا تھا۔ نتیجے میں 1886 یکم مئی سے مزدور تحریک کا آغاز ہوا اور 3 مئی کو مزدور رہنمائوں کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا، جس کے بعد 1890 سے اس دن کو ان کی یاد میں منانا شروع کیا گیا۔
پھر بتدریج محنت کشوں اور ان کے حقوق سے متعلق ادارے اور قوانین وجود میں آتے گئے، جن میں مزدور حقوق سے متعلق سب سے بڑا بین الاقوامی ادارہ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) ہے جو دنیا بھر میں مزدور مفادات کی نگرانی کرتا ہے، سفارشات مرتب کرتا ہے، ممبر ممالک سے ان سفارشات کی توثیق کرانے اور اس کے بعد عمل درآمد کرانے کی کوششوں میں مصروف رہتا ہے، جہاں آئی ایل او جیسے ادارے نے مزدور حقوق کے تحفظ کے لیے دنیا بھر میں محنت کشوں کی تحریکوں کو منظم، مربوط اور متحرک کرکے انھیں اپنے حقوق و فرائض اور ان کے تحفظ کا شعور دے کر ان کی زندگیوں اور حالات کار میں مثبت تبدیلیاں کیں وہیں ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے اداروں کی پالیسیوں اور جاگیردار اور سرمایہ داروں کی مزدور دشمن پالیسیوں اور سازشوں سے مزدور مفادات کو براہ راست بہت نقصان پہنچایا گیا ہے۔
نجکاری، رائٹ سائزنگ، ڈائون سائزنگ، ٹھیکیداری سسٹم، تھرڈ پارٹی، ایمپلائمنٹ سسٹم نے محنت کشوں کے قانونی طور پر استحصال کی صورتیں فراہم کردیں۔ سرمایہ داروں، جاگیرداروں، لیبر ڈیپارٹمنٹ، لیبر کورٹس، پاکٹ اور سیاسی جماعتوں سے وابستہ مزدور یونینز کے لیڈروں کے باہم اشتراک اور ریشہ دوانیوں سے خاص طورپر پاکستان میں تو محنت کشوں کی حالت دگرگوں ہے۔
اس اشتراک کی خباثت کا حالیہ مظاہرہ کراچی کی بلدیہ فیکٹری میں تین سو کے قریب محنت کشوں کی ہلاکت کی صورت میں دیکھنے میں آیا، یہ فیکٹری ISO سمیت تمام اداروں کو کیسے نظر انداز کرتی رہی، اس پر ملکی قوانین کا اطلاق کیوں نہیں تھا؟ بڑے عوامی رد عمل، بڑے بڑے سیاسی و سماجی رہنمائوں کے نمائشی دوروں، فوٹو سیشن، بڑھکوں اور سینیٹ تک میں بحث و تمحیص کے باوجود نہ تو ذمے داروں کے خلاف کارروائی دیکھنے میں آئی نہ ہی متاثرین و مرحومین کے ورثاء کو انصاف ملا، بلکہ بعض لاشیں بھی لاوارث یا ناقابل شناخت قرار دے کر امانتاً دفن کردی گئیں۔
غریبوں، مزدوروں، ہاریوں کے حقوق کا نعرہ بلند کرنے والے سیاست دان ان افراد کو اپنی انتخابی مہم میں ایندھن کے طورپر استعمال کرتے ہیں، جلسے جلوسوں اور انتخابی مہمات کے دوران ان افراد کو خوشنما نعروں اور مبالغہ آرائی سے آپس میں دست و گریباں کراکے اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے کے بعد ان کو حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے، پھر ان سیاسی رہنمائوں کا رابطہ صرف کرپٹ اور سیاسی وابستگی رکھنے والے مزدور رہنمائوں سے ہوتا ہے جو اداروں میں لوٹ مار میں حکمرانوں کے دست و بازو بن کر ذاتی و سیاسی مفادات کے حصول میں حکمرانوں کی معاونت اور رہنمائی اور مزدوروں کا استحصال کرتے ہیں۔
ہمارے تمام سیاسی رہنما، جاگیرداروں، سرمایہ داروں، سرداروں، پیروں کے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جو ایک آدھ اس طبقے سے تعلق نہیں رکھتے اور انقلاب کا نعرہ لے کر کوچہ سیاست میں ملکی سطح تک پہنچتے ہیں ان کا ماضی اور حال بھی یہ بتاتا ہے کہ وہ کسی سرمایہ دار، جاگیردار کے در پر جبہ سائی کرکے اس کی معاونت سے ہی سیاست کے قومی افق پر پہنچنے میں کامیاب ہوئے ہیں، جو جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے ساتھ شکار کھیل کر اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کرتے ہیں ان کی سیاسی پرواز بھی انہی سرمایہ داروں کے عطا کردہ طیاروں کی مرہون منت ہوتی ہے، جس سے سیاست کے ان شاہین بچوں میں اقبال کے بال و پر پیدا ہونے کی توقع کرنا حماقت و خود فریبی کے سوا کچھ نہیں ہوسکتی۔
جن انقلابی سیاسی لیڈروں کی جماعت میں جاگیردار، وڈیرے، روحانی پیر قابض ہوئے ہوں، جن کی انتخابی مہم بھی سرمایہ داروں کی اعانت کی مرہون منت ہو انھوں نے اقتدار میں آنے کے بعد اسی سسٹم کا حصہ بننا ہے اور وہ اسی 'اسٹیٹس کو' کو برقرار رکھنے میں اپنی توانائیاں خرچ کریں گے جس کے تحت بلدیہ فیکٹری جیسے سانحات کے مرتکب افراد، ہاریوں کے ناک کان کاٹنے، ان پر کتے چھوڑنے، انھیں نجی جیلوں میں قید رکھنے والے تو بدستور قانون کی دسترس سے آزاد ہوں گے، مگر اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے کے نتیجے میں محنت کش انسداد دہشت گردی کے قوانین کے تحت مقدمات اور سزائوں کا سامنا کرتے رہیں گے اور ان کے دکھوں کا مداوار کرنے کے دعویدار سیاست دان اور حکمران ان کے خلاف قانون سازی کرکے ان کے حقوق سلب کرتے رہیں گے۔
رضا ربانی جیسے طوطی کی آواز نقار خانے میں کوئی نہیں سنے گا، محنت کشوں کا جتنا استحصال فوجی آمروں کے دور میں کیا گیا جمہوری دور میں بھی ایسا کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی گئی، بلکہ ان کے لیے قانون سازی کے ذریعے قانونی اور اخلاقی جواز فراہم کیا گیا، جس کی وجہ سے محنت کشوں کا قانونی حق داد رسی متاثر ہوا، ملازمتوں کا تحفظ، اجرتوں کا تعین، سماجی تحفظ ختم ہوا، اوقات کار میں اضافے اور خواتین سے شفٹوں میں کام کی اجازت، تقرر نامہ نہ دینے، ٹھیکیداری سسٹم اور تھرڈ پارٹی ایمپلائمنٹ سسٹم، بیروزگاری کے سیلاب نے محنت کشوں کی زندگیوں کو اجیرن بنادیا ہے، کبھی چائلڈ لیبر نام پر پابندیاں، کبھی عدم معیار کی بنیاد پر ایکسپورٹ پر پابندیاں، کبھی Do or Do not کی عالمی فرمائشیں ان تمام عوامل سے براہ راست متاثر ہونے والا طبقہ محنت کشوں کا ہی ہے جس کے لیے حکومت کو فوری حقیقت پسندانہ، عصری ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے متحرک اور جامع پالیسی وضع کرنی چاہیے تھی لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا، اس وقت عالمی معاشی بحران نے اٹلی، اسپین، یونان، امریکا اور ایشیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے، دو سال قبل سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف امریکا سے شروع ہونے والا بین الاقوامی احتجاج دنیا کے سو ملکوں میں پھیل گیا تھا۔
جس میں معاشی ناہمواریوں، عدم مساوات اور جنگ و جدل کے خلاف آواز بلند کرکے ''دنیا میں تبدیلی'' کے نعرہ کا علم بلند کیا گیا تھا، جس کا مرکز سرمایہ دارانہ نظام کی علامت نیویارک کی وال اسٹریٹ تھی، جس کی ابتدا بیروزگاری، عدم مساوات اور غربت کا شکار افراد نے ''وال اسٹریٹ پر قبضہ کرو'' کے نام سے کی تھی اور مصر کی تحریک سے متاثر ہوکر اس علاقے کو تحریر اسکوائر کا نام دیا تھا، روم میں تو مظاہرین نے وزارت دفاع کی عمارت، بینکوں اور املاک کے علاوہ گاڑیوں کو بھی نذرآتش کردیا تھا۔ پاکستان کے محنت کشوں کے حالات تو اس سے کہیں زیادہ دگرگوں ہیں، یہاں سے بھی کسی ایسی تحریک کا آغاز بعید از قیاس نہیں۔