سب سے بڑا انتخابی میدان پنجاب میں لگے گا
مسلم لیگ ن ، تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی میدان مارنے کے لئے پورا زور لگا رہی ہیں...
SUKKUR:
11مئی کو ملک بھر میں قومی اسمبلی کی 272عام نشستوں پر الیکشن ہورہا ہے جن میں سے پنجاب کی 148نشستیں ہیں اور اگر وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی 2 نشستوں کو بھی شامل کرلیا جائے تو یہ 150 نشستیں ہو جاتی ہیں۔
قومی اسمبلی کی نصف سے زائد نشستیں یہاں ہونے کی بنا پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ وفاق میں آئندہ حکومت سازی کا فیصلہ پنجاب کے انتخابی نتائج کریں گے جبکہ پنجاب میں بھی اصل معرکہ آرائی اٹک سے ساہیوال تک وسطی پنجاب کی 104 نشستوں پر ہوگی۔ وسطی پنجاب مسلم لیگ(ن) کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے اور اسی علاقے سے الیکشن میں ن لیگ کو تحریک انصاف کا چیلنج درپیش ہے۔ مسلم لیگ(ق) بھی اسی پٹی پر اپنی سیاسی بقاء کی جنگ لڑ رہی ہے۔ پاکستان کی طاقتور کاروباری برادری کی اکثریت کا تعلق یہیں سے ہے۔ اس علاقے میں لوگ بڑے خوشحال بھی ہیں۔ مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف کی قیادت انتخابی مہم میں سارا زور اسی علاقے میں لگارہی ہے اور زیادہ جلسوں کا مرکز بھی یہاں ہی ہے یہ وہ سارے عوامل ہیں جو الیکشن 2013 کے بعد حکومت سازی پر اثر انداز ہوں گے۔
الیکشن کمیشن کے اعدادو شمار کے مطابق پنجاب میں قومی اسمبلی کی 148 نشستوں کیلئے 3569 امیدواروں کے کاغذات منظور ہوئے جن میں سے 1202 امیدواروں نے کاغذات واپس لے لئے، اس وقت 2367امیدوار میدان میں ہیں جبکہ پنجاب میں صوبائی اسمبلی کیلئے 8610 امیدواروں کے کاغذات منظور ہوئے، 2852نے کاغذات واپس لئے اور 5758امیدوار میدان میں ہیں۔ مخصوص نشستوں پر خواتین کی قومی اسمبلی کی نشستوں کیلئے 123امیدوار اور صوبائی اسمبلی کیلئے 231امیدوار جبکہ اقلیتی نشستوں پر ملک بھر سے 71امیدواراور پنجاب اسمبلی کیلئے 55امیدوار میدان میں ہیں۔ اسلام آباد سے قومی اسمبلی کے دو حلقوں میں 128امیدواروں کے کاغذات نامزدگی منظور ہوئے جن میں سے 51امیدواروں نے اپنے کاغذات واپس لے لئے اس طرح 77امیدوار میدان میں ہیں۔
ضلع اٹک کے حلقہ این اے 57سے تحریک انصاف کے ملک امین اسلم مسلم لیگ(ن) کے شیخ آفتاب احمد اور پیپلزپارٹی کے حاجی گلزار اعوان کے درمیان مقابلہ ہوگا جبکہ این اے 58میں بھی اصل مقابلہ تحریک انصاف کے ملک سہیل خان اور مسلم لیگ کے ملک اعتبار خان اور میجر (ر) طاہر صادق میں ہوگا۔ وہ بطور آزاد امیدوار الیکشن لڑرہے ہیں۔ میجر طاہر صادق نے ضلع بھر میں میجر گروپ کے نام سے آزاد امیدوار کھڑے کئے ہیں۔ 2008ء میں اس حلقے سے پیپلزپارٹی نے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے تحت امیدوار نہیں دیا تھا اور سابق نائب وزیراعظم چوہدری پرویز الٰہی الیکشن جیتے تھے۔ ضلع جہلم میں دلچسپ صورتحال ہے، قصہ کچھ یوں ہے کہ مسلم لیگ(ن) نے 2008ء کے انتخابات میں چھ نشستیںجیتیں۔
1985ء سے نواز شریف کے قریب سمجھے جانے والے راجہ محمد افضل کے دونوں بیٹے سابق وفاقی وزیر اور سابق گورنر چودھری الطاف حسین کے بھائی چوہدری شہباز حسین کو شکست دے کر اسمبلی پہنچے لیکن موجودہ انتخابات سے صرف چند ماہ قبل جہلم میں ڈرامائی سیاسی تبدیلیاں آئیں راجہ افضل پیپلزپارٹی میں شامل ہوگئے اور ان کے نیچے ایم پی اے چوہدری ثقلین تحریک انصاف میں چلے گئے۔ دوسری طرف راجہ افضل کو پیپلزپارٹی میں شامل کرنے پر تعمیر جہلم گروپ نے فواد چودھری کو نوابزادہ اقبال مہدی کے مقابلے کے لیے این اے 63میں اتارا۔ اس فیصلے کا سب سے برا اثر راجہ افضل پر پڑا جو این اے 62اور 63سے پیپلزپارٹی کے ٹکٹ لے آئے لیکن نہ ہی مسلم لیگ(ن) میں ان کے دھڑے اور نہ ہی مقامی سطح پر پیپلزپارٹی نے کھل کر ان کو قبول کیا۔ جہلم میں پیپلزپارٹی کے بیشتر عہدیدار فواد چودھری کے ساتھ چلے گئے اور (ن) لیگ میں راجہ افضل کے کئی ساتھی اقبال مہدی کے ساتھ چلے گئے چنانچہ 85ء سے ضلع جہلم کی سیاست میں اہم کردار ادا کرنے والے راجہ افضل کو مشکلات کا سامنا ہے ۔
این اے 63 جہلم سے چوہدری فواد حسین نوابزادہ اقبال مہدی کے مد مقابل ہیں اور این اے 62 سے چودھری فرخ الطاف مسلم لیگ(ن) کے چودھری خادم حسین کے مقابل ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ فرخ الطاف گروپ میں زیادہ توڑ پھوڑ نظر نہیں آتی جبکہ مسلم لیگ(ن) اس وقت تین دھڑوں میں تقسیم ہے۔ این اے 67 سرگودھا سے مسلم لیگ(ق) کے چودھری انور علی چیمہ ، مسلم لیگ(ن) ڈاکٹر ذوالفقار بھٹی ، تحریک انصاف کے سردار احسن رضا اور شمس نوید چیمہ سمیت 12 امیدوار میدان میں ہیں ۔ قومی اسمبلی میں سابق اپوزیشن لیڈر چوھدری نثار علی خاں اور چودھری انور علی چیمہ دو ایسی شخصیات ہیں جو 85ء سے مسلسل سات بار قومی اسمبلی کا الیکشن جیت چکے ہیں۔ چودھری انور علی چیمہ کے صاحبزادے عامر سلطان چیمہ بھی صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑ رہے ہیں اور سر گودھا کے حلقہ این اے 68 میں بھی ان کا حمایت یافتہ پینل الیکشن لڑ رہا ہے ۔ ان کی بہو تنزیلہ عامر چیمہ تیسری بار مخصوص نشست پر قومی اسمبلی کی رکنیت کیلئے امیدوار ہیں۔ مسلم لیگ(ق) کی قومی اسمبلی کیلئے مخصوص نشستوں پر ان کا پہلا نمبر ہے۔
چوہدری انور علی چیمہ 1979ء اور 1983ء کے بلدیاتی انتخابات میں ڈسٹرکٹ کونسل سرگودھا کے چیئرمین منتخب ہوئے چوہدری انور علی چیمہ مسلم لیگ میں رہے۔ 1985ء میں چوہدری انور علی چیمہ نے معروف قانون دان خالد رانجھا کو شکست دی تھی۔ چودھری انور علی چیمہ پیپلز پارٹی اور ق لیگ کی اتحادی حکومت میں وفاقی وزیر صحت اور وزیر پیداوار بھی رہے جبکہ عامر سلطان چیمہ سابق صوبائی وزیر لائیوسٹاک اور وزیر آبپاشی رہ چکے ہیں ۔
لاہور ہائیکورٹ نے بھکر کے نوانی برادران رشید اکبر نوانی، سعید اکبر نوانی اور حمید اکبر نوانی کو نااہل قرار دیا ہے جس سے بھکر کی سیاسی صورتحال اچانک تبدیل ہوگئی ہے۔ اب این اے 74 اور پی پی 49 سے رشید اکبر نوانی کے داماد اور حمید نوانی کے بیٹے احمد نواز خاں امیدوار ہوں گے جبکہ پی پی 48 سے راؤ احمد قریشی نوانی گروپ کے امیدوار ہوں گے ان کے مقابلے میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خاں کے کزن نجیب اللہ خاں نیازی بطور آزاد امیدوار الیکشن لڑر ہے ہیں ۔ این اے 74 بھکر سے عوامی خدمت محاذ گروپ کے ڈاکٹر افضل ڈھانڈلہ اور پی پی 49 سے غضنفر عباس چھینہ امیدوار ہیں ۔ غضنفر عباس چھینہ نے 2008ء کے الیکشن میں سعید اکبر نوانی کے مقابلے میں بطور آزاد امیدوار 46 ہزار ووٹ حاصل کئے تھے جبکہ سعید اکبر نوانی 53 ہزار ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے تھے۔
این اے 74حسنین اعجاز خان شاہانی پیپلزپارٹی، نوید ظفر شاہ جماعت اسلامی اور رفیق احمد خان نیازی تحریک انصاف کے امیدوار ہیں تاہم اصل مقابلہ ڈاکٹر افضال خان ڈھانڈلہ اور نوانی گروپ کے احمد نواز خان کے درمیان متوقع ہے۔ پی پی 50سے سابق ایم پی اے ملک عادل حسین اتراء مسلم لیگ(ن) کے امیدوار تھے مگر اب وہ اپنے ماموں آزاد امیدوار ملک ظہیر احمد اتراء کے حق میں دستبردار ہوگئے ہیں۔ پی پی 50سے عامر عنایت شاہانی عوامی خدمت محاذ کے امیدوار ہوں گے۔ این اے 73ء سے عبدالمجید خان مسلم لیگ(ن) کے امیدوار ہیں جبکہ ان کے مقابلے میں ثناء اﷲ مستی خیل بطور آزاد امیدوار قومی اسمبلی کا الیکشن لڑ رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پی پی 47سے ثناء اﷲ مستی خیل مسلم لیگ(ن) کے ٹکٹ پر الیکشن لڑرہے ہیں۔ ثناء اﷲ مستی خیل نے 2008ء کے الیکشن میں 82740ووٹ حاصل کئے تھے اور وہ چند سو ووٹوں سے الیکشن ہار گئے تھے اب پھر اس حلقے میں کانٹے دار مقابلہ ہوگا۔
این اے 75 فیصل آباد سے مسلم لیگ(ن) کے کرنل(ر) غلام رسول ساہی ، پیپلزپارٹی کے طارق مصطفیٰ باجوہ ، تحریک انصاف کے فواد غنی چیمہ اور جماعت اسلامی کے فاروق احمد چٹھہ سمیت دیگر امیدوار ہیں ۔ کرنل (ر) غلام رسول ساہی 2002 ء میں بھی اس حلقے سے رکن قومی اسمبلی رہ چکے ہیں ۔ پی پی 52 فیصل آباد سے سابق سپیکر پنجاب اسمبلی افضل ساہی مسلم لیگ(ن) کے ٹکٹ پر الیکشن لڑرہے ہیں۔ 2008ء کے الیکشن میں اس حلقے سے ان کے بھتیجے ذوالقرنین ساہی الیکشن جیتے تھے۔ پیپلزپارٹی کے چوہدری منظور احمد، تحریک انصاف کے ڈاکٹر توقیر انوار سمیت 23امیدوار میدان میں ہیں۔ چودھری محمد افضل ساہی 1988ء سے 2002ء تک مسلسل پانچ دفعہ ایم پی اے منتخب ہوئے وہ پانچ سال تک پنجاب اسمبلی کے سپیکر بھی رہے۔ چودھری افضل ساہی نے اپنے مختلف ادوار میں چک جھمرہ میں ترقیاتی کاموں کا جال بچھایا ۔
80 سے زائد دیہاتوں کو سوئی گیس دلوائی، اپنے علاقے میں انڈسٹریل اسٹیٹ بنوائی۔ فیصل آباد کے حلقہ پی پی 62 میں بھی بڑی دلچسپ صورتحال ہے اس حلقے میں پیپلزپارٹی کے اعجاز چودھری ، مسلم لیگ(ق) کے علی اختر خاں ، مسلم لیگ(ن) کے رضا نصراللہ گھمن ، تحریک انصاف کے محمد عمران وینس اور جماعت اسلامی کے رانا محمد عدنان خاں سمیت 21 امیدوار میدان میں ہیں اس سیٹ پر مسلم لیگ(ق) اور پیپلزپارٹی کے درمیان سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہیں ہوسکی جس پر اس صوبائی حلقے کو اوپن قراردیا گیا ہے ۔ پیپلزپارٹی کے اعجاز چودھری صدرزرداری کی ہمشیرہ فریال تالپور کے معتمد خاص چودھری ریاض کے بھائی ہیں چودھری ریاض کا وسیع حلقہ احباب ہے ۔ اس حلقے سے امیدوار صوبائی اسمبلی چوہدری علی اختر خان مسلم لیگ(ق) کے صوبائی جنرل سیکرٹری چودھری ظہیر الدین کے بھائی ہیں۔
چوہدری اعجاز کی انتخابی مہم مؤثر انداز میں چلائی جارہی ہے انہیں ممتاز روحانی شخصیت صوفی بزرگ سلطان العارفین حضرت سلطان باہو کے سجادہ نشین صاحبزادہ محمد منیب سلطان کی حمایت بھی حاصل ہے اور گزشتہ دنوں انہوں نے خصوصی طور پر چوہدری اعجاز کے ڈیرہ پر جاکر ان کی کامیابی کی دعا کروائی۔ سندر شریف کے سجادہ نشین سید محمد حبیب عرفانی نے بھی چوہدری اعجاز کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ رضا نصراﷲ گھمن اور علی اختر خان کے اچھے خاندانی مراسم ہیںاور وہ اکٹھے الیکشن لڑنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں مگر دونوں ایک دوسرے کے سامنے آگئے ہیں اس سے ان کا ووٹ بینک تقسیم ہوگا اور اس صورتحال کافائدہ چوہدری اعجاز اٹھا سکتے ہیں۔
ضلع گوجوانوالہ میں سات اہم جماعتوں پیپلزپارٹی، مسلم لیگ(ن) ، تحریک انصاف ، مسلم لیگ (ق) ، مسلم لیگ(ج) ، جماعت اسلامی اور جے یو آئی کے امیدوار میدان میں ہیں۔ این اے 97ء سے سابق سپیکر پنجاب اسمبلی انور بھنڈر پیپلزپارٹی کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ میں مسلم لیگ(ق) کے امیدوار ہیں۔ ان کے ساتھ دو صوبائی حلقوں میں پیپلزپارٹی کے امیدوار ہیں۔ 2002ء میں اس حلقے سے سابق وزیر مملکت شاہد اکرم بھنڈر کامیاب ہوئے مگر اب وہ مسلم لیگ(ن) میں شامل ہوگئے ہیں۔ اس حلقے سے پیپلزپارٹی نے 42سال سے پارٹی سے وابستہ سینیئر کارکن رہنماء ڈاکٹر ظفراﷲ کو نظر انداز کیا ہے ، وہ 2008ء کے الیکشن میں بہت تھوڑے مارجن سے الیکشن ہارے تھے۔ ڈاکٹر ظفراﷲ کی پارٹی سے اس قدر گہری وابستگی ہے کہ انہوں نے آج تک پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی نہیں کی۔ اس وقت گوجرانوالہ میں پیپلزپارٹی کا تنظیمی ڈھانچہ نامکمل ہے۔ پیپلزپارٹی کے ضلعی صدر عبداﷲ ملک پارٹی چھوڑ چکے ہیں مگران کی جگہ کوئی نیا صدر نامزد نہیں کیا گیا۔ این اے 98 میں کانٹے دار مقابلہ متوقع ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے میاں طارق محمود پیپلزپارٹی کے سابق صوبائی صدر امتیاز صفدر وڑائچ، پی ٹی آئی کے رانا شاہد حفیظ اور جماعت اسلامی کے بلال قدرت اﷲ بٹ امیدوار ہیں۔ این اے 100 سے آزاد امیدوار چوہدری بلال اعجاز ، پیپلزپارٹی کے چوہدری تصدق مسعود اور مسلم لیگ(ن) کے اظہر قیوم ناہرہ امیدوار ہیں۔ عابد جاوید ورک پی ٹی آئی کے امیدوار ہیں۔ این اے 101جسٹس افتخار احمد چیمہ مسلم لیگ(ق) کے چوہدری ساجد حسین چٹھہ پی ٹی آئی کے شاہنواز چیمہ اور جونیجو لیگ کے محمد احمد چٹھہ امیدوار ہیں ۔ محمد احمد چٹھہ مسلم لیگ(ج) کے سر براہ حامد ناصر چٹھہ کے صاحبزادے ہیں ۔ پنجاب میں ایک اہم انتخابی معرکہ این اے105 گجرات میں ہوگا جہاں پر سابق وزیراعلی پنجاب اور مسلم لیگ ق کے مرکزی رہنما چودھری پرویزالہی امیدوار ہیں ان کے مقابلے میں سابق وفاقی وزیر اور پیپلزپارٹی کے سینئیر رہنما چودھری احمد مختار ،مسلم لیگ (ن )کے چودھری مبشر حسین ، تحریک انصاف کے الحاج افضل گوندل اور جماعت اسلامی کے انصر ایڈووکیٹ ہیں۔
اس حلقہ میں اصل مقابلہ چودھری پرویزالہی اور چودھری احمد مختار کے درمیان ہی ہوگا۔ اس حلقے میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ق) کے درمیاں سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہیں ہوسکی تھی اور اس حلقے کو اوپن قرار دیا گیا ہے ۔ مسلم لیگ ق یہاں سے جیتنے کیلئے پورا زور لگا رہی ہے جبکہ باقی پارٹیاں بھی اپنی انتخابی مہم بھرپور طریقے سے چلا رہی ہیں۔ ن لیگ کے امیدوار چودھری مبشر تحریک انصاف سے ن لیگ میں شامل ہوئے ہیں اور وہ چودھری پرویزالہی کے کزن بھی ہیں۔ مسلم لیگ(ن) اس حلقے سے چودھری احمد مختار کے بھائی چودھری احمد سعید کو الیکشن لڑانا چاہتی تھی مگر چودھری احمد سعید نے اپنے بھائی کے مقابلے میں الیکشن لڑنے سے معذرت کر لی تھی۔ این اے 116 نارووال میں بڑی دلچسپ صورتحال ہے اور اس حلقے میں سابق چیئرمین تعمیر نو بیورو دانیال عزیز اور سابق وزیر مملکت طارق انیس کے درمیان کانٹے دار مقابلہ ہے۔
طارق انیس کا کریڈٹ یہ ہے کہ انہوں نے نارووال کو سوئی گیس اور پاسپورٹ آفس دئیے اور دوسری طرف شکر گڑھ کے بابائے سیاست چودھری انور عزیز کے جوڑ توڑ کے باعث کئی بااثر دھڑے دانیال عزیز کی حمایت کر رہے ہیں تاہم اصل صورتحال یہ ہے کہ دونوں امیدوار ہم پلہ دکھائی دے رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کا گراف اوپر جانے سے تحریک انصاف کی امیدوار وجیہہ اکرام کے ووٹ بھی بڑھ رہے ہیں تاہم تحریک انصاف کے سر براہ عمران خان کے نارووال کے دورے کے بعد صورتحال واضح ہوگی ۔ این اے 117نارووال اس حلقے میں مسلم لیگ(ن) کے ایڈیشنل سیکرٹری جنرل احسن اقبال تحریک انصاف کے ابرارالحق اور پیپلزپارٹی کے چوہدری انوارالحق کے درمیان مقابلہ ہے تاہم اس حلقے میں اصل مقابلہ احسن اقبال اور ابرارالحق کے درمیان متوقع ہے۔ سابق ضلع ناظم کرنل(ر) جاوید کاہلوں بھی اپنے عزیز ابرارالحق کی حمایت پر آمادہ ہوگئے ہیں ۔
ضلع سیالکوٹ میں قومی اسمبلی کے پانچ حلقے ہیں۔ این اے 111سیالکوٹ میں پیپلزپارٹی کے امیدوار ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان، مسلم لیگ (ن) کے امیدوار ارمغان سبحانی اور پی ٹی آئی کے اجمل چیمہ میں مقابلہ ہوگا۔ سابق سپیکر قومی اسمبلی چوہدری امیر حسین بھی اس حلقے سے پی ٹی آئی کے ٹکٹ کیلے امیدوار تھے مگر انہیںٹکٹ نہ مل سکا، اب ان کا بیٹا آصف امیر حسین پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑ رہا ہے۔ 1993ء میں چوہدری اختر وریو نے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ج) کے مشترکہ امیدوار کی حیثیت سے چوہدری امیر حسین کو شکست دی تھی۔ اس حلقے میں وریو خاندان کا بڑا اثرو رسوخ رہا ہے جس کی وجہ سے ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کو الیکشن میں مشکلات کا سامنا ہے۔ حلقہ این اے 112 میں مسلم لیگ(ن) کے رانا شمیم احمد، پیپلزپارٹی کے اعجاز احمد چیمہ اور تحریک انصاف کے سلمان سیف چیمہ کے درمیان مقابلہ ہوگا۔
یہاں سمبڑیال کی صوبائی اسمبلی کی نشست پی پی 131پر مسلم لیگ(ق) اور پیپلزپارٹی کے مشترکہ امیدوار چوہدری عظیم نوری گھمن، مسلم لیگ(ن) کے امیدوار ارشد وڑائچ ، تحریک انصاف کے ہارون ضیاء گھمن، جماعت اسلامی کے فرخ اعجاز گھمن اور ایم کیو ایم کے محمد طاہر، امجد چیمہ اور چوہدری لیاقت علی گھمن سمیت 17امیدوار میدان میں ہیں۔ عظیم نوری گھمن 97ء اور 2002ء میں بھی اس حلقے سے ایم پی اے رہ چکے ہیں۔ سابق ایم پی اے چوہدری لیاقت علی گھمن کو ٹکٹ نہیں دیا گیا جس کے باعث وہ آزاد حیثیت سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ پی پی 129سے مسلم لیگ(ن) کے محسن اشرف ، مسلم لیگ(ق) کے اسد حفیظ اور پیپلزپارٹی کے حافظ شہباز حسین وریاہ کے درمیان مقابلہ ہوگا۔ محسن اشرف نے ضمنی الیکشن میں 56ہزار ووٹ حاصل کئے تھے اور ان کے مد مقابل مسلم لیگ(ق) کے عنصر بریار نے 31 ہزار ووٹ حاصل کئے تھے۔ این اے 114 سیالکوٹ میں مسلم لیگ(ن) کے زاہد حامد، مسلم لیگ(ق) کے چوہدی مقصود پی ٹی آئی کے اختر حسین رضوی اور پیپلزپارٹی کے چوہدری غلام عباس آزاد حیثیت سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ چوہدری غلام عباس نے 2008ء کے الیکشن میں 56ہزار سے زائد ووٹ حاصل کئے۔
لاہور کے بڑے انتخابی معرکوں میں سے ایک حلقہ این اے122 میں ہو رہا ہے جہاں پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان کے مقابلے میں مسلم لیگ(ن) نے سابق ایم این اے سردار ایاز صادق کو میدان میں اتارا ہے۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے بیرسٹر عامر جبکہ جماعت اسلامی کی جانب سے امیر العظیم بھی یہاں سے امیدوار ہیں لیکن حقیقی مقابلہ پی ٹی آئی اور ن لیگ میں ہے۔ عمران خان کی یہاں پوزیشن بہت مستحکم ہے اور پی ٹی آئی کے کارکنوں میں غیر معمولی جوش وخروش پایا جاتا ہے۔ عمران خان کے قومی حلقے کے نیچے صوبائی حلقہ پی پی 147 میں شعیب صدیقی اور پی پی148 میں میاں اسلم اقبال تحریک انصاف کے امیدوار ہیں۔ یہ دونوں اپنے حلقوں میں بہت مضبوط گرفت رکھتے ہیں جس کی وجہ سے یہاں تحریک انصاف کی کامیابی کے امکانات بڑھ رہے ہیں،لاہور میں مسلم لیگ(ن) نے تین سابق ارکان قومی اسمبلی نصیر احمد بھٹہ، عمر سہیل ضیاء بٹ اور میاں مرغوب احمد کو پارٹی ٹکٹ نہیں دیئے۔ خواجہ احمد حسان کو این اے 126اور وحید عالم خان کو این اے 127سے ٹکٹ دیئے گئے ہیں۔ دونوں امیدوار اس علاقے کے رہائشی نہیں ہیں اس فیصلے سے مقامی تنظیمیں بھی خوش نہیں ہیں۔
مقامی سطح پر کئی عہدیداروں نے استعفے بھی دیئے ہیں اور دونوں سابق ارکان قومی اسمبلی کو آؤٹ کرنے پر پارٹی میں نچلی سطح پر ردعمل ہے۔ این اے 127 سے پیپلزپارٹی کے خرم لطیف کھوسہ ، مسلم لیگ(ن) کے وحید عالم اور تحریک انصاف کے نصراللہ مغل سمیت دیگر امیدوار میدان میں ہیں۔ یہاں پی پی 154میں بڑی دلچسپ صورتحال ہے، اس حلقے میں پیپلزپارٹی کے فیصل میر، مسلم لیگ(ن) کے زعیم قادری، جماعت اسلامی کے احسان اﷲ وقاص، تحریک انصاف کے ساجد جوئیہ اور مسلم لیگ(ق) کے سروش طاہر سمیت دیگر بھی امیدوار ہیں۔ یہاں دائیں بازو کی جماعتوں کے چار امیدوار ہیں جس سے ان کاووٹ تقسیم ہورہا ہے۔ پی پی 154میں 2008ء میں زعیم قادری 8211ووٹ لے کر الیکشن جیتے جبکہ پیپلزپارٹی کے امیدوار اسلم گڑا ان کے حق میں دستبردار بھی ہوگئے تھے۔ ان سے مقامی سطح پر لوگوں کو شکایات ہیں وہ ابھی تک کوئی بڑا جلسہ نہیں کرسکے، وہ صرف نواز شریف کے ووٹ پر انحصار کررہے ہیں۔ مقامی سطح پر پارٹی کارکن بھی ان سے ناراض ہیں، یہاں دلچسپ صورتحال ہے اور ووٹ چار حصوں میں تقسیم ہورہا ہے۔
اس حلقہ سے پیپلزپارٹی کے امیدوار فیصل میر لبرل خیالات رکھتے ہیںاور صنعتکار بھی ہیں، ان کی رہائش اور فیکٹری بھی اسی علاقے میں ہے۔ وہ دو اڑھائی ماہ سے منظم طریقے سے ڈور ٹو ڈور مہم چلارہے ہیں۔ یہاں پیپلزپارٹی کا بڑا ووٹ بینک ہے اور وہ علاقے کے مسائل جانتے ہیں۔ لاہورکا حلقہ این اے 130 دیہی حلقہ ہونے کے باعث انتخابات میں ذات برادری کا کردار اہم ہوتا ہے اور پارٹی کی نسبت ذات برادری کے اہمیت دی جاتی ہے۔ یہاں کی بڑی برادریوں میں ارائیں، راجپوت، اعوان، کشمیری، میو، ڈوگر اور کمبوہ ہیں۔ اس حلقے میں پیپلزپارٹی لاہور کی صدر ثمینہ خالد گھرکی پیپلزپارٹی کی امیدوار ہیں جبکہ ان کے مقابلے میں مسلم لیگ(ن) کی طرف سے سہیل شوکت بٹ امیدوار ہیں۔ حلقے کے اہم رہنماء اعجاز ڈیال مسلم لیگ(ن) کی طرف سے ٹکٹ نہ ملنے کے باعث پیپلزپارٹی کا ساتھ دے رہے ہیں ۔ انہوں نے اپنے بھتیجے نوید عاشق ڈیال کے لئے صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ حاصل کیا ہے۔ حلقے میں اس وقت چوہدری شوکت ڈوگراکی اہمیت بڑھ گئی ہے ۔ جماعت اسلامی کے امیدوار چوہدری منظور بھی بھرپور طریقے سے مہم چلارہے ہیں تاہم ثمینہ خالد گھرکی کی پوزیشن مستحکم نظر آتی ہے۔
مسلم لیگ (ن )کے سینئر رہنما رانا تنویر حسین مسلسل آٹھویں مرتبہ قومی اسمبلی کا الیکشن لڑ رہے ہیں۔ وہ وفاقی وزیر اور پارلیمانی سیکرٹری بھی رہ چکے ہیں۔ رانا تنویر کے والد چوہدری انور 1970ء میں ایم پی اے منتخب ہوئے تھے۔ رانا تنویر حسین نے سیاسی کیرئیر 85سے ہونے والے غیر جماعتی الیکشن سے شروع کیا اور سابق چئیرمین بلدیہ شیخ محمد جمیل کو شکست دے کر قومی اسمبلی کے رکن بنے۔ وہ 1990ء، اور97ء میں بھی رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ 2008ء میں قومی اسمبلی کے دو حلقوں این اے131اور132 میں ن لیگ کی طرف سے کامیاب ہوئے۔ انہوں نے این اے 131کی سیٹ چھوڑ دی جہاں سے ضمنی الیکشن میں ان کے بھائی رانا افضال حسین منتخب ہوئے۔ موجودہ الیکشن میں رانا تنویر این اے 132 سے مسلم لیگ ن کے امیدوار ہیں ان کے مقابلے میں پیپلزپارٹی کے سید غیور بخاری، تحریک انصاف کے ملک ایاز سرفراز، جماعت اسلامی کے ریاض احمد بھلہ ایڈووکیٹ اور مسلم لیگ مشرف کے ملک اقبال الیکشن لڑ رہے ہیں جبکہ این اے 131سے ان کے بھائی رانا افضال حسین الیکشن لڑ رہے ہیں ان کے مقابلہ میں ق لیگ کی آمنہ ذوالفقار ڈھلوں،تحریک انصاف کے بریگیڈئیر راحت امان اللہ اور اتحاد گروپ کے عمر آفتاب ڈھلوں امیدوار ہیں۔
قصور کے حلقہ این اے 140میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ق) کے مشترکہ امیدوار ڈاکٹر عظیم الدین زاہد لکھوی کا مقابلہ مسلم لیگ(ن) کے ملک رشید، تحریک انصاف کے میاں خورشید محمود قصوری اور آزاد امیدوار سردار آصف احمد علی کے ساتھ ہے۔ عظیم الدین زاہد لکھوی نے گزشتہ انتخابات میں سردار آصف احمد علی کی خالی کی گئی نشست پر ضمنی الیکشن میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے حصہ لیا جس میں انہیں ملک رشید کے مقابلے میں 89ووٹوں سے عین آخری وقت میں ڈرامائی انداز میں ہرادیا گیا تھا۔ ڈاکٹر عظیم الدین لکھوی کے بقول ان کے ساتھ زیادتی کی گئی کیونکہ وہ جیت رہے تھے اور ابتدائی نتائج میں ان کی کامیابی کا اعلان بھی کردیا گیا تھا لیکن بعد ازاں نتائج میں تبدیلی کرتے ہوئے انہیں ناکام قرار دے دیا گیا۔ اس مرتبہ یہ دونوں امیدوار پھر سے آمنے سامنے ہیں تاہم مقابلہ عظیم الدین زاہد، تحریک انصاف کے امیدوار خورشید محمدو قصوری اور مسلم لیگ(ن) کے امیدوارملک رشید کے درمیان متوقع ہے۔
چیچہ وطنی کے حلقہ این اے 162 میں تحریک انصاف کے رائے حسن نواز ، ن لیگ کے چودھری زاہد اقبال اور پیپلزپارٹی کے شفقت رسول گھمن کے درمیان مقابلہ ہے۔ اس حلقہ میں اس وجہ سے دلچسپ صورتحال پیدا ہوگئی ہے کہ مسلم لیگ ن کے ا میدوار چودھری زاہد اقبال کو 15ماہ قید کی سزا ہوگئی ہے اور وہ جیل میں ہیں۔ سزا کے خلاف انہوں نے ملتان ہائیکورٹ میںاپیل کررکھی ہے جس کا فیصلہ 6مئی کو متوقع ہے ۔اگر ان کی سزا ختم نہیں ہوتی تو اس کافائدہ تحریک انصاف کے رائے حسن نواز کو ہو سکتا ہے کیونکہ اصل مقابلہ رائے حسن نوازاور چودھری زاہد اقبال کے درمیان ہی ہے۔ مظفر گڑھ کے حلقہ این اے 177میں سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کے والد ملک نور ربانی کھر پیپلزپارٹی کے امیدوار ہیں۔
اس حلقے سے خالد گورمانی مسلم لیگ(ن) کے امیدوارہیں ، پیپلزپارٹی کے سابق رکن قومی اسمبلی جمشید دستی بھی اس حلقے سے بطور آزاد امیدوارالیکشن لڑر ہے ہیں۔ اس حلقے میں بھی دلچسپ مقابلہ متوقع ہے جبکہ جمشید دستی این اے 178سے بھی آزاد حیثیت میں الیکشن لڑ رہے ہیں جہاں سے وہ ایم این اے رہ چکے ہیں۔اس طرح پنجاب میں بظاہر مسلم لیگ ن کی پوزیشن بہتر نظر آرہی ہے اور پیپلزپارٹی شاید ساوتھ پنجا ب میں کچھ اچھے نتائج حاصل کرسکے ۔تاہم پچھلے کچھ روز سے پی ٹی آئی کی پوزیشن بہتر ہوئی ہے لیکن اس کافائدہ ابھی تک صرف ان کے مضبوط امیدواروں کو پہنچتا دکھائی دے رہا ہے بہرحال الیکشن 2013ء میں پی ٹی آئی کی کارکردگی انتخابی نئائج کا تعین کرے گی ۔کیونکہ تحریک انصاف کی کارکردگی کا صرف الیکشن میں ہی پتہ چل سکے گا۔
قومی اسمبلی کے 44 مضبوط آزاد امیدوار میدان میں ہیں
پنجاب میں 44 کے قریب ایسے آزاد امیدوار بھی الیکشن لڑ رہے ہیں جنہیں مقامی سطح پر مضبوط دھڑوں کی حمایت حاصل ہے اور آزاد حیثیت میں منتخب ہونے والے یہ ارکان قومی اسمبلی بھی حکومت سازی میں اہم کردار ادا کریں گے۔ آزاد امیدواروں کا تعلق پیپلزپارٹی ، مسلم لیگ(ن) اور مسلم لیگ(ق) سمیت دیگر جماعتوں سے بھی ہے جنہیں ان کی پارٹی کی طرف سے ٹکٹ نہیں مل سکا جبکہ کچھ آزاد امیدواروں کی فی الحال کوئی سیاسی وابستگی نہیں ہے۔ قومی اسمبلی کے مختلف حلقوں سے اہم آزاد امیدواروں کے ناموں کی تفصیلات اس طرح ہیں ۔
اٹک این اے 57 اور این اے 58میجر (ر) طاہر صادق ، این اے 59محمد زین الہی ، این اے 70سردار شجاع بلوچ، این اے 72 میانوالی انعام اﷲ خان نیازی ، این اے 73بھکر ثناء اﷲ مستی خیل، این اے 74بھکر ڈاکٹر افضل خان ڈھانڈلہ، این اے 86چنیوٹ شیخ قیصر محمود ، این اے 88 جھنگ سید فیصل صالح حیات ،این اے 90 جھنگ صاحبزادہ نذیر سلطان، این اے 94 ٹوبہ ٹیک سنگھ اسامہ حمزہ ، این اے 100گوجرانوالہ بلال اعجاز ، این اے 102 حافظ آباد چوہدری شوکت علی بھٹی، این اے 103 حافظ آباد لیاقت عباس بھٹی ، این اے 104گجرات نوابزادہ غضنفر گل، این اے 106 گجرات سیدنورالحسن، این اے 114سیالکوٹ غلام عباس ، این اے 131شیخوپورہ عمر آفتاب ڈھلوں ، این اے 132 شیخوپورہ رانا انوارالحق، این اے 135 ننکانہ رائے اعجاز احمد خان ، این اے 136 ننکانہ عابد حسین چٹھہ ، این اے 137 ننکانہ اعجاز احمد شاہ اور مہر سعید احمد ظفر ، این اے 138قصور سردار طفیل احمد خان، چوہدری حاکم علی اور سعدیہ بانو زوجہ راؤ مظہر حیات ، این اے 140قصور سردار آصف احمد علی ، این اے 141قصور سردار آصف نکئی، این اے 155 لودھراں عبدالرحمٰن خان کانجو، این اے 156خانیوال رضا حیات ہراج، این اے 160 ساہیوال رانا عامر شہزاد، این اے 161 ساہیوال رانا طارق جاوید ، این اے 165پاکپتن دیوان عظمت سعید چشتی، این ے 166پاکپتن اصغر علی جٹ، این اے 167 وہاڑی عائشہ نذیر جٹ، این اے 167 وہاڑی عارفہ نذیر جٹ، این اے 169 وہاڑی طاہر اقبال چوہدری، عابدہ نذیر جٹ، این اے 172 ڈیرہ غازی خاں سردار جمال خان لغاری ، این اے 173ڈیرہ غازی خاں سردار اویس لغاری ، این اے 174 راجن پور سردار نصراﷲ دریشک، این اے 175 راجن پور میر دوست محمد مزاری ، این اے 177اور 178 مظفر گڑھ جمشید دستی ، این اے 188بہاولنگر سید اصغر شاہ ، این اے 194اور 195رحیم یار خان سے مخدوم خسرو بختیار کھڑے ہیں۔
11مئی کو ملک بھر میں قومی اسمبلی کی 272عام نشستوں پر الیکشن ہورہا ہے جن میں سے پنجاب کی 148نشستیں ہیں اور اگر وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی 2 نشستوں کو بھی شامل کرلیا جائے تو یہ 150 نشستیں ہو جاتی ہیں۔
قومی اسمبلی کی نصف سے زائد نشستیں یہاں ہونے کی بنا پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ وفاق میں آئندہ حکومت سازی کا فیصلہ پنجاب کے انتخابی نتائج کریں گے جبکہ پنجاب میں بھی اصل معرکہ آرائی اٹک سے ساہیوال تک وسطی پنجاب کی 104 نشستوں پر ہوگی۔ وسطی پنجاب مسلم لیگ(ن) کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے اور اسی علاقے سے الیکشن میں ن لیگ کو تحریک انصاف کا چیلنج درپیش ہے۔ مسلم لیگ(ق) بھی اسی پٹی پر اپنی سیاسی بقاء کی جنگ لڑ رہی ہے۔ پاکستان کی طاقتور کاروباری برادری کی اکثریت کا تعلق یہیں سے ہے۔ اس علاقے میں لوگ بڑے خوشحال بھی ہیں۔ مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف کی قیادت انتخابی مہم میں سارا زور اسی علاقے میں لگارہی ہے اور زیادہ جلسوں کا مرکز بھی یہاں ہی ہے یہ وہ سارے عوامل ہیں جو الیکشن 2013 کے بعد حکومت سازی پر اثر انداز ہوں گے۔
الیکشن کمیشن کے اعدادو شمار کے مطابق پنجاب میں قومی اسمبلی کی 148 نشستوں کیلئے 3569 امیدواروں کے کاغذات منظور ہوئے جن میں سے 1202 امیدواروں نے کاغذات واپس لے لئے، اس وقت 2367امیدوار میدان میں ہیں جبکہ پنجاب میں صوبائی اسمبلی کیلئے 8610 امیدواروں کے کاغذات منظور ہوئے، 2852نے کاغذات واپس لئے اور 5758امیدوار میدان میں ہیں۔ مخصوص نشستوں پر خواتین کی قومی اسمبلی کی نشستوں کیلئے 123امیدوار اور صوبائی اسمبلی کیلئے 231امیدوار جبکہ اقلیتی نشستوں پر ملک بھر سے 71امیدواراور پنجاب اسمبلی کیلئے 55امیدوار میدان میں ہیں۔ اسلام آباد سے قومی اسمبلی کے دو حلقوں میں 128امیدواروں کے کاغذات نامزدگی منظور ہوئے جن میں سے 51امیدواروں نے اپنے کاغذات واپس لے لئے اس طرح 77امیدوار میدان میں ہیں۔
ضلع اٹک کے حلقہ این اے 57سے تحریک انصاف کے ملک امین اسلم مسلم لیگ(ن) کے شیخ آفتاب احمد اور پیپلزپارٹی کے حاجی گلزار اعوان کے درمیان مقابلہ ہوگا جبکہ این اے 58میں بھی اصل مقابلہ تحریک انصاف کے ملک سہیل خان اور مسلم لیگ کے ملک اعتبار خان اور میجر (ر) طاہر صادق میں ہوگا۔ وہ بطور آزاد امیدوار الیکشن لڑرہے ہیں۔ میجر طاہر صادق نے ضلع بھر میں میجر گروپ کے نام سے آزاد امیدوار کھڑے کئے ہیں۔ 2008ء میں اس حلقے سے پیپلزپارٹی نے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے تحت امیدوار نہیں دیا تھا اور سابق نائب وزیراعظم چوہدری پرویز الٰہی الیکشن جیتے تھے۔ ضلع جہلم میں دلچسپ صورتحال ہے، قصہ کچھ یوں ہے کہ مسلم لیگ(ن) نے 2008ء کے انتخابات میں چھ نشستیںجیتیں۔
1985ء سے نواز شریف کے قریب سمجھے جانے والے راجہ محمد افضل کے دونوں بیٹے سابق وفاقی وزیر اور سابق گورنر چودھری الطاف حسین کے بھائی چوہدری شہباز حسین کو شکست دے کر اسمبلی پہنچے لیکن موجودہ انتخابات سے صرف چند ماہ قبل جہلم میں ڈرامائی سیاسی تبدیلیاں آئیں راجہ افضل پیپلزپارٹی میں شامل ہوگئے اور ان کے نیچے ایم پی اے چوہدری ثقلین تحریک انصاف میں چلے گئے۔ دوسری طرف راجہ افضل کو پیپلزپارٹی میں شامل کرنے پر تعمیر جہلم گروپ نے فواد چودھری کو نوابزادہ اقبال مہدی کے مقابلے کے لیے این اے 63میں اتارا۔ اس فیصلے کا سب سے برا اثر راجہ افضل پر پڑا جو این اے 62اور 63سے پیپلزپارٹی کے ٹکٹ لے آئے لیکن نہ ہی مسلم لیگ(ن) میں ان کے دھڑے اور نہ ہی مقامی سطح پر پیپلزپارٹی نے کھل کر ان کو قبول کیا۔ جہلم میں پیپلزپارٹی کے بیشتر عہدیدار فواد چودھری کے ساتھ چلے گئے اور (ن) لیگ میں راجہ افضل کے کئی ساتھی اقبال مہدی کے ساتھ چلے گئے چنانچہ 85ء سے ضلع جہلم کی سیاست میں اہم کردار ادا کرنے والے راجہ افضل کو مشکلات کا سامنا ہے ۔
این اے 63 جہلم سے چوہدری فواد حسین نوابزادہ اقبال مہدی کے مد مقابل ہیں اور این اے 62 سے چودھری فرخ الطاف مسلم لیگ(ن) کے چودھری خادم حسین کے مقابل ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ فرخ الطاف گروپ میں زیادہ توڑ پھوڑ نظر نہیں آتی جبکہ مسلم لیگ(ن) اس وقت تین دھڑوں میں تقسیم ہے۔ این اے 67 سرگودھا سے مسلم لیگ(ق) کے چودھری انور علی چیمہ ، مسلم لیگ(ن) ڈاکٹر ذوالفقار بھٹی ، تحریک انصاف کے سردار احسن رضا اور شمس نوید چیمہ سمیت 12 امیدوار میدان میں ہیں ۔ قومی اسمبلی میں سابق اپوزیشن لیڈر چوھدری نثار علی خاں اور چودھری انور علی چیمہ دو ایسی شخصیات ہیں جو 85ء سے مسلسل سات بار قومی اسمبلی کا الیکشن جیت چکے ہیں۔ چودھری انور علی چیمہ کے صاحبزادے عامر سلطان چیمہ بھی صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑ رہے ہیں اور سر گودھا کے حلقہ این اے 68 میں بھی ان کا حمایت یافتہ پینل الیکشن لڑ رہا ہے ۔ ان کی بہو تنزیلہ عامر چیمہ تیسری بار مخصوص نشست پر قومی اسمبلی کی رکنیت کیلئے امیدوار ہیں۔ مسلم لیگ(ق) کی قومی اسمبلی کیلئے مخصوص نشستوں پر ان کا پہلا نمبر ہے۔
چوہدری انور علی چیمہ 1979ء اور 1983ء کے بلدیاتی انتخابات میں ڈسٹرکٹ کونسل سرگودھا کے چیئرمین منتخب ہوئے چوہدری انور علی چیمہ مسلم لیگ میں رہے۔ 1985ء میں چوہدری انور علی چیمہ نے معروف قانون دان خالد رانجھا کو شکست دی تھی۔ چودھری انور علی چیمہ پیپلز پارٹی اور ق لیگ کی اتحادی حکومت میں وفاقی وزیر صحت اور وزیر پیداوار بھی رہے جبکہ عامر سلطان چیمہ سابق صوبائی وزیر لائیوسٹاک اور وزیر آبپاشی رہ چکے ہیں ۔
لاہور ہائیکورٹ نے بھکر کے نوانی برادران رشید اکبر نوانی، سعید اکبر نوانی اور حمید اکبر نوانی کو نااہل قرار دیا ہے جس سے بھکر کی سیاسی صورتحال اچانک تبدیل ہوگئی ہے۔ اب این اے 74 اور پی پی 49 سے رشید اکبر نوانی کے داماد اور حمید نوانی کے بیٹے احمد نواز خاں امیدوار ہوں گے جبکہ پی پی 48 سے راؤ احمد قریشی نوانی گروپ کے امیدوار ہوں گے ان کے مقابلے میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خاں کے کزن نجیب اللہ خاں نیازی بطور آزاد امیدوار الیکشن لڑر ہے ہیں ۔ این اے 74 بھکر سے عوامی خدمت محاذ گروپ کے ڈاکٹر افضل ڈھانڈلہ اور پی پی 49 سے غضنفر عباس چھینہ امیدوار ہیں ۔ غضنفر عباس چھینہ نے 2008ء کے الیکشن میں سعید اکبر نوانی کے مقابلے میں بطور آزاد امیدوار 46 ہزار ووٹ حاصل کئے تھے جبکہ سعید اکبر نوانی 53 ہزار ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے تھے۔
این اے 74حسنین اعجاز خان شاہانی پیپلزپارٹی، نوید ظفر شاہ جماعت اسلامی اور رفیق احمد خان نیازی تحریک انصاف کے امیدوار ہیں تاہم اصل مقابلہ ڈاکٹر افضال خان ڈھانڈلہ اور نوانی گروپ کے احمد نواز خان کے درمیان متوقع ہے۔ پی پی 50سے سابق ایم پی اے ملک عادل حسین اتراء مسلم لیگ(ن) کے امیدوار تھے مگر اب وہ اپنے ماموں آزاد امیدوار ملک ظہیر احمد اتراء کے حق میں دستبردار ہوگئے ہیں۔ پی پی 50سے عامر عنایت شاہانی عوامی خدمت محاذ کے امیدوار ہوں گے۔ این اے 73ء سے عبدالمجید خان مسلم لیگ(ن) کے امیدوار ہیں جبکہ ان کے مقابلے میں ثناء اﷲ مستی خیل بطور آزاد امیدوار قومی اسمبلی کا الیکشن لڑ رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پی پی 47سے ثناء اﷲ مستی خیل مسلم لیگ(ن) کے ٹکٹ پر الیکشن لڑرہے ہیں۔ ثناء اﷲ مستی خیل نے 2008ء کے الیکشن میں 82740ووٹ حاصل کئے تھے اور وہ چند سو ووٹوں سے الیکشن ہار گئے تھے اب پھر اس حلقے میں کانٹے دار مقابلہ ہوگا۔
این اے 75 فیصل آباد سے مسلم لیگ(ن) کے کرنل(ر) غلام رسول ساہی ، پیپلزپارٹی کے طارق مصطفیٰ باجوہ ، تحریک انصاف کے فواد غنی چیمہ اور جماعت اسلامی کے فاروق احمد چٹھہ سمیت دیگر امیدوار ہیں ۔ کرنل (ر) غلام رسول ساہی 2002 ء میں بھی اس حلقے سے رکن قومی اسمبلی رہ چکے ہیں ۔ پی پی 52 فیصل آباد سے سابق سپیکر پنجاب اسمبلی افضل ساہی مسلم لیگ(ن) کے ٹکٹ پر الیکشن لڑرہے ہیں۔ 2008ء کے الیکشن میں اس حلقے سے ان کے بھتیجے ذوالقرنین ساہی الیکشن جیتے تھے۔ پیپلزپارٹی کے چوہدری منظور احمد، تحریک انصاف کے ڈاکٹر توقیر انوار سمیت 23امیدوار میدان میں ہیں۔ چودھری محمد افضل ساہی 1988ء سے 2002ء تک مسلسل پانچ دفعہ ایم پی اے منتخب ہوئے وہ پانچ سال تک پنجاب اسمبلی کے سپیکر بھی رہے۔ چودھری افضل ساہی نے اپنے مختلف ادوار میں چک جھمرہ میں ترقیاتی کاموں کا جال بچھایا ۔
80 سے زائد دیہاتوں کو سوئی گیس دلوائی، اپنے علاقے میں انڈسٹریل اسٹیٹ بنوائی۔ فیصل آباد کے حلقہ پی پی 62 میں بھی بڑی دلچسپ صورتحال ہے اس حلقے میں پیپلزپارٹی کے اعجاز چودھری ، مسلم لیگ(ق) کے علی اختر خاں ، مسلم لیگ(ن) کے رضا نصراللہ گھمن ، تحریک انصاف کے محمد عمران وینس اور جماعت اسلامی کے رانا محمد عدنان خاں سمیت 21 امیدوار میدان میں ہیں اس سیٹ پر مسلم لیگ(ق) اور پیپلزپارٹی کے درمیان سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہیں ہوسکی جس پر اس صوبائی حلقے کو اوپن قراردیا گیا ہے ۔ پیپلزپارٹی کے اعجاز چودھری صدرزرداری کی ہمشیرہ فریال تالپور کے معتمد خاص چودھری ریاض کے بھائی ہیں چودھری ریاض کا وسیع حلقہ احباب ہے ۔ اس حلقے سے امیدوار صوبائی اسمبلی چوہدری علی اختر خان مسلم لیگ(ق) کے صوبائی جنرل سیکرٹری چودھری ظہیر الدین کے بھائی ہیں۔
چوہدری اعجاز کی انتخابی مہم مؤثر انداز میں چلائی جارہی ہے انہیں ممتاز روحانی شخصیت صوفی بزرگ سلطان العارفین حضرت سلطان باہو کے سجادہ نشین صاحبزادہ محمد منیب سلطان کی حمایت بھی حاصل ہے اور گزشتہ دنوں انہوں نے خصوصی طور پر چوہدری اعجاز کے ڈیرہ پر جاکر ان کی کامیابی کی دعا کروائی۔ سندر شریف کے سجادہ نشین سید محمد حبیب عرفانی نے بھی چوہدری اعجاز کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ رضا نصراﷲ گھمن اور علی اختر خان کے اچھے خاندانی مراسم ہیںاور وہ اکٹھے الیکشن لڑنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں مگر دونوں ایک دوسرے کے سامنے آگئے ہیں اس سے ان کا ووٹ بینک تقسیم ہوگا اور اس صورتحال کافائدہ چوہدری اعجاز اٹھا سکتے ہیں۔
ضلع گوجوانوالہ میں سات اہم جماعتوں پیپلزپارٹی، مسلم لیگ(ن) ، تحریک انصاف ، مسلم لیگ (ق) ، مسلم لیگ(ج) ، جماعت اسلامی اور جے یو آئی کے امیدوار میدان میں ہیں۔ این اے 97ء سے سابق سپیکر پنجاب اسمبلی انور بھنڈر پیپلزپارٹی کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ میں مسلم لیگ(ق) کے امیدوار ہیں۔ ان کے ساتھ دو صوبائی حلقوں میں پیپلزپارٹی کے امیدوار ہیں۔ 2002ء میں اس حلقے سے سابق وزیر مملکت شاہد اکرم بھنڈر کامیاب ہوئے مگر اب وہ مسلم لیگ(ن) میں شامل ہوگئے ہیں۔ اس حلقے سے پیپلزپارٹی نے 42سال سے پارٹی سے وابستہ سینیئر کارکن رہنماء ڈاکٹر ظفراﷲ کو نظر انداز کیا ہے ، وہ 2008ء کے الیکشن میں بہت تھوڑے مارجن سے الیکشن ہارے تھے۔ ڈاکٹر ظفراﷲ کی پارٹی سے اس قدر گہری وابستگی ہے کہ انہوں نے آج تک پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی نہیں کی۔ اس وقت گوجرانوالہ میں پیپلزپارٹی کا تنظیمی ڈھانچہ نامکمل ہے۔ پیپلزپارٹی کے ضلعی صدر عبداﷲ ملک پارٹی چھوڑ چکے ہیں مگران کی جگہ کوئی نیا صدر نامزد نہیں کیا گیا۔ این اے 98 میں کانٹے دار مقابلہ متوقع ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے میاں طارق محمود پیپلزپارٹی کے سابق صوبائی صدر امتیاز صفدر وڑائچ، پی ٹی آئی کے رانا شاہد حفیظ اور جماعت اسلامی کے بلال قدرت اﷲ بٹ امیدوار ہیں۔ این اے 100 سے آزاد امیدوار چوہدری بلال اعجاز ، پیپلزپارٹی کے چوہدری تصدق مسعود اور مسلم لیگ(ن) کے اظہر قیوم ناہرہ امیدوار ہیں۔ عابد جاوید ورک پی ٹی آئی کے امیدوار ہیں۔ این اے 101جسٹس افتخار احمد چیمہ مسلم لیگ(ق) کے چوہدری ساجد حسین چٹھہ پی ٹی آئی کے شاہنواز چیمہ اور جونیجو لیگ کے محمد احمد چٹھہ امیدوار ہیں ۔ محمد احمد چٹھہ مسلم لیگ(ج) کے سر براہ حامد ناصر چٹھہ کے صاحبزادے ہیں ۔ پنجاب میں ایک اہم انتخابی معرکہ این اے105 گجرات میں ہوگا جہاں پر سابق وزیراعلی پنجاب اور مسلم لیگ ق کے مرکزی رہنما چودھری پرویزالہی امیدوار ہیں ان کے مقابلے میں سابق وفاقی وزیر اور پیپلزپارٹی کے سینئیر رہنما چودھری احمد مختار ،مسلم لیگ (ن )کے چودھری مبشر حسین ، تحریک انصاف کے الحاج افضل گوندل اور جماعت اسلامی کے انصر ایڈووکیٹ ہیں۔
اس حلقہ میں اصل مقابلہ چودھری پرویزالہی اور چودھری احمد مختار کے درمیان ہی ہوگا۔ اس حلقے میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ق) کے درمیاں سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہیں ہوسکی تھی اور اس حلقے کو اوپن قرار دیا گیا ہے ۔ مسلم لیگ ق یہاں سے جیتنے کیلئے پورا زور لگا رہی ہے جبکہ باقی پارٹیاں بھی اپنی انتخابی مہم بھرپور طریقے سے چلا رہی ہیں۔ ن لیگ کے امیدوار چودھری مبشر تحریک انصاف سے ن لیگ میں شامل ہوئے ہیں اور وہ چودھری پرویزالہی کے کزن بھی ہیں۔ مسلم لیگ(ن) اس حلقے سے چودھری احمد مختار کے بھائی چودھری احمد سعید کو الیکشن لڑانا چاہتی تھی مگر چودھری احمد سعید نے اپنے بھائی کے مقابلے میں الیکشن لڑنے سے معذرت کر لی تھی۔ این اے 116 نارووال میں بڑی دلچسپ صورتحال ہے اور اس حلقے میں سابق چیئرمین تعمیر نو بیورو دانیال عزیز اور سابق وزیر مملکت طارق انیس کے درمیان کانٹے دار مقابلہ ہے۔
طارق انیس کا کریڈٹ یہ ہے کہ انہوں نے نارووال کو سوئی گیس اور پاسپورٹ آفس دئیے اور دوسری طرف شکر گڑھ کے بابائے سیاست چودھری انور عزیز کے جوڑ توڑ کے باعث کئی بااثر دھڑے دانیال عزیز کی حمایت کر رہے ہیں تاہم اصل صورتحال یہ ہے کہ دونوں امیدوار ہم پلہ دکھائی دے رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کا گراف اوپر جانے سے تحریک انصاف کی امیدوار وجیہہ اکرام کے ووٹ بھی بڑھ رہے ہیں تاہم تحریک انصاف کے سر براہ عمران خان کے نارووال کے دورے کے بعد صورتحال واضح ہوگی ۔ این اے 117نارووال اس حلقے میں مسلم لیگ(ن) کے ایڈیشنل سیکرٹری جنرل احسن اقبال تحریک انصاف کے ابرارالحق اور پیپلزپارٹی کے چوہدری انوارالحق کے درمیان مقابلہ ہے تاہم اس حلقے میں اصل مقابلہ احسن اقبال اور ابرارالحق کے درمیان متوقع ہے۔ سابق ضلع ناظم کرنل(ر) جاوید کاہلوں بھی اپنے عزیز ابرارالحق کی حمایت پر آمادہ ہوگئے ہیں ۔
ضلع سیالکوٹ میں قومی اسمبلی کے پانچ حلقے ہیں۔ این اے 111سیالکوٹ میں پیپلزپارٹی کے امیدوار ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان، مسلم لیگ (ن) کے امیدوار ارمغان سبحانی اور پی ٹی آئی کے اجمل چیمہ میں مقابلہ ہوگا۔ سابق سپیکر قومی اسمبلی چوہدری امیر حسین بھی اس حلقے سے پی ٹی آئی کے ٹکٹ کیلے امیدوار تھے مگر انہیںٹکٹ نہ مل سکا، اب ان کا بیٹا آصف امیر حسین پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑ رہا ہے۔ 1993ء میں چوہدری اختر وریو نے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ج) کے مشترکہ امیدوار کی حیثیت سے چوہدری امیر حسین کو شکست دی تھی۔ اس حلقے میں وریو خاندان کا بڑا اثرو رسوخ رہا ہے جس کی وجہ سے ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کو الیکشن میں مشکلات کا سامنا ہے۔ حلقہ این اے 112 میں مسلم لیگ(ن) کے رانا شمیم احمد، پیپلزپارٹی کے اعجاز احمد چیمہ اور تحریک انصاف کے سلمان سیف چیمہ کے درمیان مقابلہ ہوگا۔
یہاں سمبڑیال کی صوبائی اسمبلی کی نشست پی پی 131پر مسلم لیگ(ق) اور پیپلزپارٹی کے مشترکہ امیدوار چوہدری عظیم نوری گھمن، مسلم لیگ(ن) کے امیدوار ارشد وڑائچ ، تحریک انصاف کے ہارون ضیاء گھمن، جماعت اسلامی کے فرخ اعجاز گھمن اور ایم کیو ایم کے محمد طاہر، امجد چیمہ اور چوہدری لیاقت علی گھمن سمیت 17امیدوار میدان میں ہیں۔ عظیم نوری گھمن 97ء اور 2002ء میں بھی اس حلقے سے ایم پی اے رہ چکے ہیں۔ سابق ایم پی اے چوہدری لیاقت علی گھمن کو ٹکٹ نہیں دیا گیا جس کے باعث وہ آزاد حیثیت سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ پی پی 129سے مسلم لیگ(ن) کے محسن اشرف ، مسلم لیگ(ق) کے اسد حفیظ اور پیپلزپارٹی کے حافظ شہباز حسین وریاہ کے درمیان مقابلہ ہوگا۔ محسن اشرف نے ضمنی الیکشن میں 56ہزار ووٹ حاصل کئے تھے اور ان کے مد مقابل مسلم لیگ(ق) کے عنصر بریار نے 31 ہزار ووٹ حاصل کئے تھے۔ این اے 114 سیالکوٹ میں مسلم لیگ(ن) کے زاہد حامد، مسلم لیگ(ق) کے چوہدی مقصود پی ٹی آئی کے اختر حسین رضوی اور پیپلزپارٹی کے چوہدری غلام عباس آزاد حیثیت سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ چوہدری غلام عباس نے 2008ء کے الیکشن میں 56ہزار سے زائد ووٹ حاصل کئے۔
لاہور کے بڑے انتخابی معرکوں میں سے ایک حلقہ این اے122 میں ہو رہا ہے جہاں پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان کے مقابلے میں مسلم لیگ(ن) نے سابق ایم این اے سردار ایاز صادق کو میدان میں اتارا ہے۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے بیرسٹر عامر جبکہ جماعت اسلامی کی جانب سے امیر العظیم بھی یہاں سے امیدوار ہیں لیکن حقیقی مقابلہ پی ٹی آئی اور ن لیگ میں ہے۔ عمران خان کی یہاں پوزیشن بہت مستحکم ہے اور پی ٹی آئی کے کارکنوں میں غیر معمولی جوش وخروش پایا جاتا ہے۔ عمران خان کے قومی حلقے کے نیچے صوبائی حلقہ پی پی 147 میں شعیب صدیقی اور پی پی148 میں میاں اسلم اقبال تحریک انصاف کے امیدوار ہیں۔ یہ دونوں اپنے حلقوں میں بہت مضبوط گرفت رکھتے ہیں جس کی وجہ سے یہاں تحریک انصاف کی کامیابی کے امکانات بڑھ رہے ہیں،لاہور میں مسلم لیگ(ن) نے تین سابق ارکان قومی اسمبلی نصیر احمد بھٹہ، عمر سہیل ضیاء بٹ اور میاں مرغوب احمد کو پارٹی ٹکٹ نہیں دیئے۔ خواجہ احمد حسان کو این اے 126اور وحید عالم خان کو این اے 127سے ٹکٹ دیئے گئے ہیں۔ دونوں امیدوار اس علاقے کے رہائشی نہیں ہیں اس فیصلے سے مقامی تنظیمیں بھی خوش نہیں ہیں۔
مقامی سطح پر کئی عہدیداروں نے استعفے بھی دیئے ہیں اور دونوں سابق ارکان قومی اسمبلی کو آؤٹ کرنے پر پارٹی میں نچلی سطح پر ردعمل ہے۔ این اے 127 سے پیپلزپارٹی کے خرم لطیف کھوسہ ، مسلم لیگ(ن) کے وحید عالم اور تحریک انصاف کے نصراللہ مغل سمیت دیگر امیدوار میدان میں ہیں۔ یہاں پی پی 154میں بڑی دلچسپ صورتحال ہے، اس حلقے میں پیپلزپارٹی کے فیصل میر، مسلم لیگ(ن) کے زعیم قادری، جماعت اسلامی کے احسان اﷲ وقاص، تحریک انصاف کے ساجد جوئیہ اور مسلم لیگ(ق) کے سروش طاہر سمیت دیگر بھی امیدوار ہیں۔ یہاں دائیں بازو کی جماعتوں کے چار امیدوار ہیں جس سے ان کاووٹ تقسیم ہورہا ہے۔ پی پی 154میں 2008ء میں زعیم قادری 8211ووٹ لے کر الیکشن جیتے جبکہ پیپلزپارٹی کے امیدوار اسلم گڑا ان کے حق میں دستبردار بھی ہوگئے تھے۔ ان سے مقامی سطح پر لوگوں کو شکایات ہیں وہ ابھی تک کوئی بڑا جلسہ نہیں کرسکے، وہ صرف نواز شریف کے ووٹ پر انحصار کررہے ہیں۔ مقامی سطح پر پارٹی کارکن بھی ان سے ناراض ہیں، یہاں دلچسپ صورتحال ہے اور ووٹ چار حصوں میں تقسیم ہورہا ہے۔
اس حلقہ سے پیپلزپارٹی کے امیدوار فیصل میر لبرل خیالات رکھتے ہیںاور صنعتکار بھی ہیں، ان کی رہائش اور فیکٹری بھی اسی علاقے میں ہے۔ وہ دو اڑھائی ماہ سے منظم طریقے سے ڈور ٹو ڈور مہم چلارہے ہیں۔ یہاں پیپلزپارٹی کا بڑا ووٹ بینک ہے اور وہ علاقے کے مسائل جانتے ہیں۔ لاہورکا حلقہ این اے 130 دیہی حلقہ ہونے کے باعث انتخابات میں ذات برادری کا کردار اہم ہوتا ہے اور پارٹی کی نسبت ذات برادری کے اہمیت دی جاتی ہے۔ یہاں کی بڑی برادریوں میں ارائیں، راجپوت، اعوان، کشمیری، میو، ڈوگر اور کمبوہ ہیں۔ اس حلقے میں پیپلزپارٹی لاہور کی صدر ثمینہ خالد گھرکی پیپلزپارٹی کی امیدوار ہیں جبکہ ان کے مقابلے میں مسلم لیگ(ن) کی طرف سے سہیل شوکت بٹ امیدوار ہیں۔ حلقے کے اہم رہنماء اعجاز ڈیال مسلم لیگ(ن) کی طرف سے ٹکٹ نہ ملنے کے باعث پیپلزپارٹی کا ساتھ دے رہے ہیں ۔ انہوں نے اپنے بھتیجے نوید عاشق ڈیال کے لئے صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ حاصل کیا ہے۔ حلقے میں اس وقت چوہدری شوکت ڈوگراکی اہمیت بڑھ گئی ہے ۔ جماعت اسلامی کے امیدوار چوہدری منظور بھی بھرپور طریقے سے مہم چلارہے ہیں تاہم ثمینہ خالد گھرکی کی پوزیشن مستحکم نظر آتی ہے۔
مسلم لیگ (ن )کے سینئر رہنما رانا تنویر حسین مسلسل آٹھویں مرتبہ قومی اسمبلی کا الیکشن لڑ رہے ہیں۔ وہ وفاقی وزیر اور پارلیمانی سیکرٹری بھی رہ چکے ہیں۔ رانا تنویر کے والد چوہدری انور 1970ء میں ایم پی اے منتخب ہوئے تھے۔ رانا تنویر حسین نے سیاسی کیرئیر 85سے ہونے والے غیر جماعتی الیکشن سے شروع کیا اور سابق چئیرمین بلدیہ شیخ محمد جمیل کو شکست دے کر قومی اسمبلی کے رکن بنے۔ وہ 1990ء، اور97ء میں بھی رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ 2008ء میں قومی اسمبلی کے دو حلقوں این اے131اور132 میں ن لیگ کی طرف سے کامیاب ہوئے۔ انہوں نے این اے 131کی سیٹ چھوڑ دی جہاں سے ضمنی الیکشن میں ان کے بھائی رانا افضال حسین منتخب ہوئے۔ موجودہ الیکشن میں رانا تنویر این اے 132 سے مسلم لیگ ن کے امیدوار ہیں ان کے مقابلے میں پیپلزپارٹی کے سید غیور بخاری، تحریک انصاف کے ملک ایاز سرفراز، جماعت اسلامی کے ریاض احمد بھلہ ایڈووکیٹ اور مسلم لیگ مشرف کے ملک اقبال الیکشن لڑ رہے ہیں جبکہ این اے 131سے ان کے بھائی رانا افضال حسین الیکشن لڑ رہے ہیں ان کے مقابلہ میں ق لیگ کی آمنہ ذوالفقار ڈھلوں،تحریک انصاف کے بریگیڈئیر راحت امان اللہ اور اتحاد گروپ کے عمر آفتاب ڈھلوں امیدوار ہیں۔
قصور کے حلقہ این اے 140میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ق) کے مشترکہ امیدوار ڈاکٹر عظیم الدین زاہد لکھوی کا مقابلہ مسلم لیگ(ن) کے ملک رشید، تحریک انصاف کے میاں خورشید محمود قصوری اور آزاد امیدوار سردار آصف احمد علی کے ساتھ ہے۔ عظیم الدین زاہد لکھوی نے گزشتہ انتخابات میں سردار آصف احمد علی کی خالی کی گئی نشست پر ضمنی الیکشن میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے حصہ لیا جس میں انہیں ملک رشید کے مقابلے میں 89ووٹوں سے عین آخری وقت میں ڈرامائی انداز میں ہرادیا گیا تھا۔ ڈاکٹر عظیم الدین لکھوی کے بقول ان کے ساتھ زیادتی کی گئی کیونکہ وہ جیت رہے تھے اور ابتدائی نتائج میں ان کی کامیابی کا اعلان بھی کردیا گیا تھا لیکن بعد ازاں نتائج میں تبدیلی کرتے ہوئے انہیں ناکام قرار دے دیا گیا۔ اس مرتبہ یہ دونوں امیدوار پھر سے آمنے سامنے ہیں تاہم مقابلہ عظیم الدین زاہد، تحریک انصاف کے امیدوار خورشید محمدو قصوری اور مسلم لیگ(ن) کے امیدوارملک رشید کے درمیان متوقع ہے۔
چیچہ وطنی کے حلقہ این اے 162 میں تحریک انصاف کے رائے حسن نواز ، ن لیگ کے چودھری زاہد اقبال اور پیپلزپارٹی کے شفقت رسول گھمن کے درمیان مقابلہ ہے۔ اس حلقہ میں اس وجہ سے دلچسپ صورتحال پیدا ہوگئی ہے کہ مسلم لیگ ن کے ا میدوار چودھری زاہد اقبال کو 15ماہ قید کی سزا ہوگئی ہے اور وہ جیل میں ہیں۔ سزا کے خلاف انہوں نے ملتان ہائیکورٹ میںاپیل کررکھی ہے جس کا فیصلہ 6مئی کو متوقع ہے ۔اگر ان کی سزا ختم نہیں ہوتی تو اس کافائدہ تحریک انصاف کے رائے حسن نواز کو ہو سکتا ہے کیونکہ اصل مقابلہ رائے حسن نوازاور چودھری زاہد اقبال کے درمیان ہی ہے۔ مظفر گڑھ کے حلقہ این اے 177میں سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کے والد ملک نور ربانی کھر پیپلزپارٹی کے امیدوار ہیں۔
اس حلقے سے خالد گورمانی مسلم لیگ(ن) کے امیدوارہیں ، پیپلزپارٹی کے سابق رکن قومی اسمبلی جمشید دستی بھی اس حلقے سے بطور آزاد امیدوارالیکشن لڑر ہے ہیں۔ اس حلقے میں بھی دلچسپ مقابلہ متوقع ہے جبکہ جمشید دستی این اے 178سے بھی آزاد حیثیت میں الیکشن لڑ رہے ہیں جہاں سے وہ ایم این اے رہ چکے ہیں۔اس طرح پنجاب میں بظاہر مسلم لیگ ن کی پوزیشن بہتر نظر آرہی ہے اور پیپلزپارٹی شاید ساوتھ پنجا ب میں کچھ اچھے نتائج حاصل کرسکے ۔تاہم پچھلے کچھ روز سے پی ٹی آئی کی پوزیشن بہتر ہوئی ہے لیکن اس کافائدہ ابھی تک صرف ان کے مضبوط امیدواروں کو پہنچتا دکھائی دے رہا ہے بہرحال الیکشن 2013ء میں پی ٹی آئی کی کارکردگی انتخابی نئائج کا تعین کرے گی ۔کیونکہ تحریک انصاف کی کارکردگی کا صرف الیکشن میں ہی پتہ چل سکے گا۔
قومی اسمبلی کے 44 مضبوط آزاد امیدوار میدان میں ہیں
پنجاب میں 44 کے قریب ایسے آزاد امیدوار بھی الیکشن لڑ رہے ہیں جنہیں مقامی سطح پر مضبوط دھڑوں کی حمایت حاصل ہے اور آزاد حیثیت میں منتخب ہونے والے یہ ارکان قومی اسمبلی بھی حکومت سازی میں اہم کردار ادا کریں گے۔ آزاد امیدواروں کا تعلق پیپلزپارٹی ، مسلم لیگ(ن) اور مسلم لیگ(ق) سمیت دیگر جماعتوں سے بھی ہے جنہیں ان کی پارٹی کی طرف سے ٹکٹ نہیں مل سکا جبکہ کچھ آزاد امیدواروں کی فی الحال کوئی سیاسی وابستگی نہیں ہے۔ قومی اسمبلی کے مختلف حلقوں سے اہم آزاد امیدواروں کے ناموں کی تفصیلات اس طرح ہیں ۔
اٹک این اے 57 اور این اے 58میجر (ر) طاہر صادق ، این اے 59محمد زین الہی ، این اے 70سردار شجاع بلوچ، این اے 72 میانوالی انعام اﷲ خان نیازی ، این اے 73بھکر ثناء اﷲ مستی خیل، این اے 74بھکر ڈاکٹر افضل خان ڈھانڈلہ، این اے 86چنیوٹ شیخ قیصر محمود ، این اے 88 جھنگ سید فیصل صالح حیات ،این اے 90 جھنگ صاحبزادہ نذیر سلطان، این اے 94 ٹوبہ ٹیک سنگھ اسامہ حمزہ ، این اے 100گوجرانوالہ بلال اعجاز ، این اے 102 حافظ آباد چوہدری شوکت علی بھٹی، این اے 103 حافظ آباد لیاقت عباس بھٹی ، این اے 104گجرات نوابزادہ غضنفر گل، این اے 106 گجرات سیدنورالحسن، این اے 114سیالکوٹ غلام عباس ، این اے 131شیخوپورہ عمر آفتاب ڈھلوں ، این اے 132 شیخوپورہ رانا انوارالحق، این اے 135 ننکانہ رائے اعجاز احمد خان ، این اے 136 ننکانہ عابد حسین چٹھہ ، این اے 137 ننکانہ اعجاز احمد شاہ اور مہر سعید احمد ظفر ، این اے 138قصور سردار طفیل احمد خان، چوہدری حاکم علی اور سعدیہ بانو زوجہ راؤ مظہر حیات ، این اے 140قصور سردار آصف احمد علی ، این اے 141قصور سردار آصف نکئی، این اے 155 لودھراں عبدالرحمٰن خان کانجو، این اے 156خانیوال رضا حیات ہراج، این اے 160 ساہیوال رانا عامر شہزاد، این اے 161 ساہیوال رانا طارق جاوید ، این اے 165پاکپتن دیوان عظمت سعید چشتی، این ے 166پاکپتن اصغر علی جٹ، این اے 167 وہاڑی عائشہ نذیر جٹ، این اے 167 وہاڑی عارفہ نذیر جٹ، این اے 169 وہاڑی طاہر اقبال چوہدری، عابدہ نذیر جٹ، این اے 172 ڈیرہ غازی خاں سردار جمال خان لغاری ، این اے 173ڈیرہ غازی خاں سردار اویس لغاری ، این اے 174 راجن پور سردار نصراﷲ دریشک، این اے 175 راجن پور میر دوست محمد مزاری ، این اے 177اور 178 مظفر گڑھ جمشید دستی ، این اے 188بہاولنگر سید اصغر شاہ ، این اے 194اور 195رحیم یار خان سے مخدوم خسرو بختیار کھڑے ہیں۔