انتخابات اور معیشت
لیل و نہار نے کروٹیں بدلیں اور جاتے ہوئے جاڑے کے موسم نے فروری2008ء کے انتخابات دیکھے۔
اقوام متحدہ کی طرف سے 1960ء کی دہائی میں جب یہ کہا گیا تھا کہ GNP میں سالانہ6 فیصد اضافہ ہونا چاہیے، بہت سے ترقی پذیر ممالک اس ہدف کو حاصل کرنے میں لگ گئے، پاکستان نے بعض اوقات 6 فیصد سے بھی زائد کا ہدف حاصل کیا لیکن پھر بھی دولت کی تقسیم میں ناہمواری بڑھتی رہی، بیروزگاری میں اضافہ ہوتا رہا اور غربت حد توڑتی رہی اور دیگر بہت سے مسائل پھلتے پھولتے رہے۔
لیکن جلد ہی معیشت دانوں کو خیال آ گیا اور انھوں نے کہنا شروع کر دیا کہ GNP کا خیال کرنے کے بجائے غربت پر نظر رکھی جائے، لہٰذا معاشی ترقی کے لیے ضروری قرار پایا کہ غربت کم ہو، معاشی ناہمواریوں میں کمی واقع ہو، دولت کی تقسیم میں ناہمواری کا خاتمہ ہو وغیرہ وغیرہ۔
اب اس کے لیے تو ضروری تھا کہ بیروزگاروں کو روزگار میسر آئے، ان کی جیب میں پیسے آئیں لیکن نائن الیون کے بعد پاکستان میں بیروزگاروں کی تعداد بڑھتی چلی گئی اور غربت کی شرح51 فیصد تک چلی گئی ہے، ایسے میں حالیہ انتخابات اگر پر امن اور شفاف ہوں تو معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے،1970ء کے بعد سے پاکستانی عوام کو انتخابات کا ایک طویل تجربہ ہو چکا ہے، دسمبر1970ء کے بعد مارچ1977ء کے انتخابات پھر مارچ1985ء کے غیر جماعتی انتخابات، نومبر1988ء کے انتخابات کے بعد اکتوبر1990ء کے انتخابات اور پھر اسی مہینے1993ء کے انتخابات ہوئے، فروری کے سرد موسم میں جب انتخابات ہو رہے تھے تو 1997ء کا تھا۔
ایک دفعہ پھر ماہ اکتوبر کو 2002ء کے انتخابات کے لیے چنا گیا، لیل و نہار نے کروٹیں بدلیں اور جاتے ہوئے جاڑے کے موسم نے فروری2008ء کے انتخابات دیکھے، اب سخت گرم موسم کے موقعے پر انشاء اﷲ 11مئی 2013ء کے انتخابات ہو رہے ہوں گے اور ساڑھے آٹھ کروڑ سے زائد ووٹرز ایک ہزار کے لگ بھگ قومی و صوبائی اسمبلیوں کے نمایندے چنیں گے۔
قومی و صوبائی اسمبلی کے لیے امیدواروں کی تعداد 16ہزار ہے جن میں سے بیشتر امیدوار میدان میں اتر چکے ہیں، جس میں سے قومی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کی تعداد4 ہزار671 ہے اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات لڑنے کے لیے امیدواروں کی تعداد10ہزار 9 سو 58 ہے، اگرچہ الیکشن کمیشن نے امیدواروں کے لیے اخراجات کی حد مقرر کر رکھی ہے، انتخابات کے موقعے پر بہت سے شعبے ایسے ہیں جہاں امیدواروں کی طرف سے بے تحاشا اخراجات کیے جائیں گے۔
ان میں اشتہاری صنعت، کیٹرنگ، ڈیکوریشن، ٹرانسپورٹ، میڈیا، پرنٹنگ کے علاوہ اور دیگر کئی شعبے ہیں جن کی کاروباری سرگرمیوں میں بڑی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، اس کے علاوہ انتخابی دفاتر کا کرایہ مالکان وصول کرتے ہیں، بہت سے حلوائی برسرروزگار ہو جاتے ہیں، انتخابی مہم میں تیزی لانے کے لیے ملک بھر کے ہزاروں امیدواروں کو جب ڈرائیوروں کی ضرورت ہوتی ہے تو ظاہر ہے کہ ہزاروں افراد کچھ عرصے کے لیے اس شعبے میں برسر روزگار ہو جاتے ہیں، امیدواروں کے علاوہ ان کے دوستوں، سپورٹروں، عزیز و اقارب کی جانب سے بھی انتخابی مہم میں رقوم خرچ کی جاتی ہیں، پارٹی کے جلسوں پر کروڑوں کا خرچہ آتا ہے، ایک دن میں کئی کئی کارنر میٹنگز کی جاتی ہیں، جن پر اخراجات آتے ہیں۔
اجرت پر کارکن بھی رکھے جاتے ہیں، بہت سے امور انجام دینے کے لیے ملازم رکھے جاتے ہیں، اس طرح بیروزگاروں کی ایک بڑی فوج کچھ عرصے کے لیے برسر روزگار ہو جاتی ہے، ان کی آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے اور غریبوں کی جیب میں پیسے آنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ فوراً ہی اس رقم کو اشیائے ضروریہ خریدنے میں صرف کر دیتے ہیں۔ اس کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ تھوڑے عرصے میں اربوں کھربوں روپے معیشت میں سرائیت کر جاتاہے اور بالآخر نتیجے کے طور پر پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے، مصنوعات اور اشیائے ضروریہ کی پیداوار میں اضافے کی خاطر کارخانوں کی چمنیاں دھواں اگلنا شروع کر دیتی ہیں جس سے بہت سے لوگوں کے لیے روزگار کے مواقعے پیدا ہوتے ہیں۔ ایسے موقعے پر جب پاکستان میں کارخانوں کو تالے لگ رہے تھے۔
بجلی کی قلت کے باعث لوگوں کا روزگار چھنتا چلا جا رہا تھا، ملک میں کساد بازاری کی زور آوری تھی، لوگوں کی قوت خرید میں کمزوری واقع ہو رہی تھی، ایسے میں انتخابی سرگرمیوں کا عروج معیشت کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہو رہا ہے لیکن اس انتخابی فضاء کو کہیں کہیں باد صر صر نے بھی گھیر رکھا ہے، انتخابات کو غیر یقینی بنانے، انتخابی سرگرمیوں کو گولہ و بارود کی گھن گرج میں متعفن کیا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے انتخابی سرگرمیاں بہت سے علاقوں میں محدود ہونے کے باعث غریب عوام کا زیادہ بھلا نہ ہو گا۔
گزشتہ دنوں ایک عالمی رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان نے انسانی معیار زندگی یعنی ہیومن ڈویلپمنٹ انڈکس کے اعتبار سے دنیا میں اپنا ایک سو چھیالیسواں درجہ برقرار رکھا ہوا ہے اور پاکستان کے لیے بڑا چیلنج عوام کو غربت سے نکالنا ہے، جس کے لیے ایسے شعبوں میں سرمایہ کاری کی جائے جس سے غریب عوام کا زیادہ بھلا ہو، اگرچہ سرمایہ کاری کی تعریف کو مد نظر رکھتے ہوئے الیکشن میں کیے جانے والے بھاری اخراجات کو سرمایہ کاری تو نہیں قرار دیا جا سکتا لیکن ان اخراجات سے بالآخر غریب عوام کا ہی زیادہ بھلا ہوتا ہے، البتہ امیدواران اخراجات کو سرمایہ کاری سمجھ کر کرتے ہیں کیونکہ الیکشن جیتنے کے بعد لگائی گئی رقم کا کئی گنا مختلف طریقوں سے وصول کر لیتے ہیں۔
اس وقت پاکستان کے معاشی جائزے سے یہ بات اخذ کی جاسکتی ہے کہ امن و امان کی خراب صورتحال کے باعث سیاسی کشیدگی میں اضافے کے منفی ا ثرات معیشت پر مرتب ہوں گے، اس سے قبل بھی سیاسی کشیدگی کے باعث موڈیز کی جانب سے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ منفی کر دی گئی تھی جس کے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوئے، اگرچہ نگراں حکومت کی جانب سے امن و امان کے قیام اور انتخابات کی فضاء کو سازگار بنانے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں، اس وقت پاکستان کی ریاست کے لیے دو مسائل وبال جان بن چکے ہیں، ایک سیکیورٹی کا مسئلہ، دوسرا روٹی کا مسئلہ، یعنی غربت بڑھتی چلی جا رہی ہے، لوگوں کے پاس روزگار نہیں ہے۔
یا جو روزگار تھا اس سے محروم ہو رہے ہیں، قوت خرید نہ ہونے کے باعث روٹی خریدنے کی سکت نہیں ہے، اگر اس وقت سیکیورٹی کا مسئلہ حل کر کے پر امن فضاء میں انتخابات منعقد کر لیے جاتے ہیں تو ایسی صورت میں آنے والی حکومت روٹی کا مسئلہ حل کر سکتی ہے، یعنی غربت میں کمی لا سکتی ہے، ان کو روزگار کے مواقعے میسر آئیں، ان کی غربت کم کرنے کے لیے معاشی منصوبہ بندی کی جائے، کیونکہ معیشت دانوں نے بہت پہلے یہ کہا تھا کہ معاشی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ غربت پر نظر رکھی جائے، اس وقت پاکستان میں کساد بازاری اور بیروزگاری کے ماحول میں انتخابی سرگرمیوں کے ذریعے بہت سے لوگوں کے لیے روزگار کے مواقعے پیدا ہو رہے تھے، ترقی پذیر معیشتوں میں یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ انتخابی سرگرمیوں میں اضافے کے باعث کساد بازاری کے منفی اثرات کو کم کیا جاتا ہے۔
ہیومن ڈویلپمنٹ انڈکس کی تیاری میں کئی چیزیں شامل کی جاتی ہیں، مثلاً بیروزگاری ختم ہو، پینے کے صاف پانی کی فراہمی، دولت کی تقسیم میں ناہمواری کو کم سے کم کرنا، تعلیم و صحت کی سہولیات اور غربت میں کمی کے علاوہ دیگر چیزیں بھی شامل ہیں، یقیناً ان مسائل کے حل کے لیے منتخب نمایندے اور حکومت مل کر کام کرتی ہے، تا کہ لوگوں کا معیار زندگی بلند ہو، اگرچہ پاکستان میں اس بات کا رواج ہے کہ بہت سے منتخب نمایندے پہلے اپنے معیار زندگی کو بہت زیادہ بلند کرنے کی طرف بہت زیادہ توجہ دیتے ہیں، ملک کی معاشی ترقی کے لیے یہ بھی ایک ضروری عنصر ہے کہ سیاسی اور معاشی معاملات میں لوگوں کی شراکت زیادہ سے زیادہ ہو جائے، لہٰذا نگراں حکومت کو چاہیے کہ الیکشن میں عوام کی بھرپور شراکت کے لیے ملک میں امن و امان کی ایسی فضاء پیدا کرے جس سے انتخابی سرگرمیاں زور و شور سے جاری رہیں، ان میں عوام کی بھرپور شراکت ہو، تا کہ انتخابات کے معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں۔
لیکن جلد ہی معیشت دانوں کو خیال آ گیا اور انھوں نے کہنا شروع کر دیا کہ GNP کا خیال کرنے کے بجائے غربت پر نظر رکھی جائے، لہٰذا معاشی ترقی کے لیے ضروری قرار پایا کہ غربت کم ہو، معاشی ناہمواریوں میں کمی واقع ہو، دولت کی تقسیم میں ناہمواری کا خاتمہ ہو وغیرہ وغیرہ۔
اب اس کے لیے تو ضروری تھا کہ بیروزگاروں کو روزگار میسر آئے، ان کی جیب میں پیسے آئیں لیکن نائن الیون کے بعد پاکستان میں بیروزگاروں کی تعداد بڑھتی چلی گئی اور غربت کی شرح51 فیصد تک چلی گئی ہے، ایسے میں حالیہ انتخابات اگر پر امن اور شفاف ہوں تو معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے،1970ء کے بعد سے پاکستانی عوام کو انتخابات کا ایک طویل تجربہ ہو چکا ہے، دسمبر1970ء کے بعد مارچ1977ء کے انتخابات پھر مارچ1985ء کے غیر جماعتی انتخابات، نومبر1988ء کے انتخابات کے بعد اکتوبر1990ء کے انتخابات اور پھر اسی مہینے1993ء کے انتخابات ہوئے، فروری کے سرد موسم میں جب انتخابات ہو رہے تھے تو 1997ء کا تھا۔
ایک دفعہ پھر ماہ اکتوبر کو 2002ء کے انتخابات کے لیے چنا گیا، لیل و نہار نے کروٹیں بدلیں اور جاتے ہوئے جاڑے کے موسم نے فروری2008ء کے انتخابات دیکھے، اب سخت گرم موسم کے موقعے پر انشاء اﷲ 11مئی 2013ء کے انتخابات ہو رہے ہوں گے اور ساڑھے آٹھ کروڑ سے زائد ووٹرز ایک ہزار کے لگ بھگ قومی و صوبائی اسمبلیوں کے نمایندے چنیں گے۔
قومی و صوبائی اسمبلی کے لیے امیدواروں کی تعداد 16ہزار ہے جن میں سے بیشتر امیدوار میدان میں اتر چکے ہیں، جس میں سے قومی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کی تعداد4 ہزار671 ہے اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات لڑنے کے لیے امیدواروں کی تعداد10ہزار 9 سو 58 ہے، اگرچہ الیکشن کمیشن نے امیدواروں کے لیے اخراجات کی حد مقرر کر رکھی ہے، انتخابات کے موقعے پر بہت سے شعبے ایسے ہیں جہاں امیدواروں کی طرف سے بے تحاشا اخراجات کیے جائیں گے۔
ان میں اشتہاری صنعت، کیٹرنگ، ڈیکوریشن، ٹرانسپورٹ، میڈیا، پرنٹنگ کے علاوہ اور دیگر کئی شعبے ہیں جن کی کاروباری سرگرمیوں میں بڑی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، اس کے علاوہ انتخابی دفاتر کا کرایہ مالکان وصول کرتے ہیں، بہت سے حلوائی برسرروزگار ہو جاتے ہیں، انتخابی مہم میں تیزی لانے کے لیے ملک بھر کے ہزاروں امیدواروں کو جب ڈرائیوروں کی ضرورت ہوتی ہے تو ظاہر ہے کہ ہزاروں افراد کچھ عرصے کے لیے اس شعبے میں برسر روزگار ہو جاتے ہیں، امیدواروں کے علاوہ ان کے دوستوں، سپورٹروں، عزیز و اقارب کی جانب سے بھی انتخابی مہم میں رقوم خرچ کی جاتی ہیں، پارٹی کے جلسوں پر کروڑوں کا خرچہ آتا ہے، ایک دن میں کئی کئی کارنر میٹنگز کی جاتی ہیں، جن پر اخراجات آتے ہیں۔
اجرت پر کارکن بھی رکھے جاتے ہیں، بہت سے امور انجام دینے کے لیے ملازم رکھے جاتے ہیں، اس طرح بیروزگاروں کی ایک بڑی فوج کچھ عرصے کے لیے برسر روزگار ہو جاتی ہے، ان کی آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے اور غریبوں کی جیب میں پیسے آنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ فوراً ہی اس رقم کو اشیائے ضروریہ خریدنے میں صرف کر دیتے ہیں۔ اس کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ تھوڑے عرصے میں اربوں کھربوں روپے معیشت میں سرائیت کر جاتاہے اور بالآخر نتیجے کے طور پر پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے، مصنوعات اور اشیائے ضروریہ کی پیداوار میں اضافے کی خاطر کارخانوں کی چمنیاں دھواں اگلنا شروع کر دیتی ہیں جس سے بہت سے لوگوں کے لیے روزگار کے مواقعے پیدا ہوتے ہیں۔ ایسے موقعے پر جب پاکستان میں کارخانوں کو تالے لگ رہے تھے۔
بجلی کی قلت کے باعث لوگوں کا روزگار چھنتا چلا جا رہا تھا، ملک میں کساد بازاری کی زور آوری تھی، لوگوں کی قوت خرید میں کمزوری واقع ہو رہی تھی، ایسے میں انتخابی سرگرمیوں کا عروج معیشت کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہو رہا ہے لیکن اس انتخابی فضاء کو کہیں کہیں باد صر صر نے بھی گھیر رکھا ہے، انتخابات کو غیر یقینی بنانے، انتخابی سرگرمیوں کو گولہ و بارود کی گھن گرج میں متعفن کیا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے انتخابی سرگرمیاں بہت سے علاقوں میں محدود ہونے کے باعث غریب عوام کا زیادہ بھلا نہ ہو گا۔
گزشتہ دنوں ایک عالمی رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان نے انسانی معیار زندگی یعنی ہیومن ڈویلپمنٹ انڈکس کے اعتبار سے دنیا میں اپنا ایک سو چھیالیسواں درجہ برقرار رکھا ہوا ہے اور پاکستان کے لیے بڑا چیلنج عوام کو غربت سے نکالنا ہے، جس کے لیے ایسے شعبوں میں سرمایہ کاری کی جائے جس سے غریب عوام کا زیادہ بھلا ہو، اگرچہ سرمایہ کاری کی تعریف کو مد نظر رکھتے ہوئے الیکشن میں کیے جانے والے بھاری اخراجات کو سرمایہ کاری تو نہیں قرار دیا جا سکتا لیکن ان اخراجات سے بالآخر غریب عوام کا ہی زیادہ بھلا ہوتا ہے، البتہ امیدواران اخراجات کو سرمایہ کاری سمجھ کر کرتے ہیں کیونکہ الیکشن جیتنے کے بعد لگائی گئی رقم کا کئی گنا مختلف طریقوں سے وصول کر لیتے ہیں۔
اس وقت پاکستان کے معاشی جائزے سے یہ بات اخذ کی جاسکتی ہے کہ امن و امان کی خراب صورتحال کے باعث سیاسی کشیدگی میں اضافے کے منفی ا ثرات معیشت پر مرتب ہوں گے، اس سے قبل بھی سیاسی کشیدگی کے باعث موڈیز کی جانب سے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ منفی کر دی گئی تھی جس کے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوئے، اگرچہ نگراں حکومت کی جانب سے امن و امان کے قیام اور انتخابات کی فضاء کو سازگار بنانے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں، اس وقت پاکستان کی ریاست کے لیے دو مسائل وبال جان بن چکے ہیں، ایک سیکیورٹی کا مسئلہ، دوسرا روٹی کا مسئلہ، یعنی غربت بڑھتی چلی جا رہی ہے، لوگوں کے پاس روزگار نہیں ہے۔
یا جو روزگار تھا اس سے محروم ہو رہے ہیں، قوت خرید نہ ہونے کے باعث روٹی خریدنے کی سکت نہیں ہے، اگر اس وقت سیکیورٹی کا مسئلہ حل کر کے پر امن فضاء میں انتخابات منعقد کر لیے جاتے ہیں تو ایسی صورت میں آنے والی حکومت روٹی کا مسئلہ حل کر سکتی ہے، یعنی غربت میں کمی لا سکتی ہے، ان کو روزگار کے مواقعے میسر آئیں، ان کی غربت کم کرنے کے لیے معاشی منصوبہ بندی کی جائے، کیونکہ معیشت دانوں نے بہت پہلے یہ کہا تھا کہ معاشی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ غربت پر نظر رکھی جائے، اس وقت پاکستان میں کساد بازاری اور بیروزگاری کے ماحول میں انتخابی سرگرمیوں کے ذریعے بہت سے لوگوں کے لیے روزگار کے مواقعے پیدا ہو رہے تھے، ترقی پذیر معیشتوں میں یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ انتخابی سرگرمیوں میں اضافے کے باعث کساد بازاری کے منفی اثرات کو کم کیا جاتا ہے۔
ہیومن ڈویلپمنٹ انڈکس کی تیاری میں کئی چیزیں شامل کی جاتی ہیں، مثلاً بیروزگاری ختم ہو، پینے کے صاف پانی کی فراہمی، دولت کی تقسیم میں ناہمواری کو کم سے کم کرنا، تعلیم و صحت کی سہولیات اور غربت میں کمی کے علاوہ دیگر چیزیں بھی شامل ہیں، یقیناً ان مسائل کے حل کے لیے منتخب نمایندے اور حکومت مل کر کام کرتی ہے، تا کہ لوگوں کا معیار زندگی بلند ہو، اگرچہ پاکستان میں اس بات کا رواج ہے کہ بہت سے منتخب نمایندے پہلے اپنے معیار زندگی کو بہت زیادہ بلند کرنے کی طرف بہت زیادہ توجہ دیتے ہیں، ملک کی معاشی ترقی کے لیے یہ بھی ایک ضروری عنصر ہے کہ سیاسی اور معاشی معاملات میں لوگوں کی شراکت زیادہ سے زیادہ ہو جائے، لہٰذا نگراں حکومت کو چاہیے کہ الیکشن میں عوام کی بھرپور شراکت کے لیے ملک میں امن و امان کی ایسی فضاء پیدا کرے جس سے انتخابی سرگرمیاں زور و شور سے جاری رہیں، ان میں عوام کی بھرپور شراکت ہو، تا کہ انتخابات کے معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں۔