الیکشن 2013ء اور کراچی
قانون نافذ کرنے والے ادارے اور اہلکار بھی ہیں لیکن ان سنگین حالات کو قابو کرنے میں سبھی ناکام دکھائی دے رہے ہیں۔
یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ شہر کراچی نہ صرف صوبہ سندھ کا ایک اہم شہر ہے بلکہ پورے ملک کا ''معاشی حب'' اور ''منی پاکستان'' بھی ہے۔ اس شہر کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے ہر خاص و عام کا فرض ہے کہ اس شہر کی اہمیت کی بنا پر امن و امان اور عوام کے مال و جان کا تحفظ فراہم کرنے کے لیے اپنی اپنی استطاعت کے مطابق خدمات انجام دیں۔
گو کہ امن و امان اور جان و مال کی حفاظت کی ذمے داری حکومت پر عائد ہوتی ہے لیکن عوام کا بھی فرض ہے کہ حکومتی اقدامات میں تعاون کریں۔ آج کل اس شہر کے جو حالات ہیں وہ نئے پیدا شدہ نہیں ہیں بلکہ ایسے حالات پچھلے کئی سال سے چلے آ رہے ہیں اور ان میں کمی کے بجائے اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ صرف اضافہ ہی نہیں ہو رہا ہے بلکہ ان حالات میں شد و مد کے ساتھ ظلم و بربریت کا عنصر بھی شامل ہو رہا ہے۔
خصوصاً جمہوری حکومت کے دور میں اس میں اس حد تک اضافہ ہوا کہ ان پانچ سال میں بھی وفاقی و صوبائی حکومت حالات کو قابو کرنے میں ناکام رہی۔ عوام و خواص سب ہی یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ آخر ایسے حالات کیسے پیدا ہوئے اور اس کا مقصد کیا ہے اور کون ان حالات کو تسلسل دے رہا ہے۔ یہ صورت حال اتفاق نہیں کہی جا سکتی۔
یہ تو صاف ظاہر ہے کہ یہ باقاعدہ پلاننگ (منصوبہ بندی) اور اپنے مفادات حاصل کرنے کے لیے جاری رکھی جا رہی ہے۔ حکومت بھی ہے۔ انتظامیہ بھی ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے اور اہلکار بھی ہیں لیکن ان سنگین حالات کو قابو کرنے میں سبھی ناکام دکھائی دے رہے ہیں۔ جرائم پیشہ افراد اور دہشت گرد آزادانہ طور پر اپنی پرتشدد کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
کوئی دن ایسا نہیں جاتا کہ 10-8 افراد قتل کر دیے جاتے ہیں اور یہ روز کا معمول بن گیا ہے۔ عوام کی حالت ذہنی طور پر اس سطح پر پہنچ گئی ہے کہ وہ اخبارات اور ٹی وی پر اسی خبر پر نظر جمائے رکھتے ہیں کہ آج کتنے مارے گئے، یا کوئی دن خالی گیا ہو۔ مگر حقیقی صورت حال کچھ یوں ہے کہ مارے جانے والوں یا شہید کر دیے جانے والوں کے لواحقین اور ورثاء اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھاتے اٹھاتے دلبرداشتہ ہو گئے ہیں۔ اور کر بھی کیا سکتے ہیں سوائے اس کے کہ ان کے غم میں ماتم کریں اور دعائے مغفرت کریں۔
اس حد سے آگے بڑھنے کی کوشش کریں گے تو اور کسی ناگہانی بلاؤں، آفتوں میں پھنس جائیں گے، ماشاء اللہ سے ہمارے ملک کے قانون نافذ کرنے والے اور تفتیشی ادارے اتنے قابل ہیں کہ دہشت گردوں اور چوروں کو پکڑنے کے بجائے دادرسی کو آنے والوں کے اطراف ہی گھیرا تنگ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ شکایت کنندہ یا دادرسی کو آنے والا ہی اصل ملزم نہیں بلکہ مجرم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام دکھ، درد، تکلیف، جانی و مالی نقصانات برداشت کر لیتے ہیں لیکن تھانے، کچہریوں سے دور رہنے میں ہی اپنی عاطفت سمجھتے ہیں۔
قانون نافذ کرنے والوں اور اہلکاروں کے اسی رویے کی وجہ سے عوام میں ان کی طرف سے بزدلی پیدا ہو گئی ہے۔ ایسا نہیں کہ سب کے سب ہی جاہل اور ناکارہ ہیں۔ ہو سکتا ہے کچھ اچھے قابل اور بااعتماد افراد بھی ہوں گے لیکن وہ بھی آٹے میں نمک کے برابر کے مترادف ہیں۔ مشکل تو یہی ہے کہ عوام ان کے ساتھ تعاون کریں تو مشکل اور نہ کریں تو اس سے زیادہ مشکل۔ بس صبر پر ہی اکتفا کرنا ہوتا ہے اور باقی اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دینا ہے۔ وہی جزا و سزا کا مالک ہے۔
ہمارے شہر کے عوام جرائم پیشہ افراد، ٹارگٹ کلرز، اور دہشت گردوں کے رحم و کرم پر جی رہے ہیں۔ اپنی حفاظت خود کرو اور اپنی مدد آپ کے تحت اپنے تحفظ کے اقدامات کر رہے ہیں۔ اب جب کہ انتخابات کا دور شروع ہو کر اختتام پذیر ہونے والا ہے۔ چند دن کی مسافت کے بعد پولنگ ڈے آ ہی جائے گا۔ لیکن امن و امان کی صورت بھی اسی تیزی سے بگڑ رہی ہے۔ اب انتخابی امیدواران اور سیاسی جماعتوں کے لیڈران اور کارکنان بھی دہشت گردوں کی زد میں آ گئے ہیں۔
انتخابی مہم کا تو کہیں نام نشان نظر نہیں آ رہا ہے۔ نہ جلسے کر سکتے ہیں نہ جلوس و ریلیاں نکال سکتے ہیں۔ کبھی خودکش حملوں کی تو کبھی بمبار حملوں کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔ معلوم نہیں کہ دہشت گرد آخر کتنے طاقتور ہو گئے ہیں کہ ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے اور اہلکار بھی ان دہشت گردوں کے آگے بے بس نظر آ رہے ہیں بلکہ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ ''بے بس ہو گئے ہیں''۔ اب ان کی خود کی جانوں کے لالے پڑ گئے ہیں۔ آخر ایسا کیوں ہے؟ معلوم نہیں کس کے پاس اس سوال کا جواب ہو گا یا کون جواب دے سکتا ہے۔
ابھی تک تو سب اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں۔ قیاس آرائیوں پر اندازے لگائے جا رہے ہیں۔ پھر اس پر تماشہ یہ کہ ایسی صورت حال صرف صوبہ سندھ (کراچی شہر) اور صوبہ پختونخوا میں دکھائی دے رہی ہے۔ بس یہی کہا جا سکتا ہے کہ موجودہ صورت حال معمولی نہیں ہے بلکہ ایک منظم سازش کے تحت ان کارروائیوں کو فروغ دیا جا رہا ہے تا کہ انتخابی عمل کو سبوتاژ کیا جائے اور انتخابات ملتوی کرا دیے جائیں۔
اب جب کہ دس دن کے بعد انتخابات کا انعقاد ہونے جا رہا ہے تب ہی وفاقی، صوبائی حکومتوں یا قانون نافذ کرنے والے حساس ادارے بھی نہ دہشت گردی پر قابو پا رہے ہیں اور نہ ہی دہشت گردوں کو گرفتار کر کے سزائیں دلوا رہے ہیں۔ اسی لیے عوام اور مختلف طبقات کی جانب سے خدشات و شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ کیا اس خوفناک صورت حال میں انتخابات ہوں گے بھی یا نہیں۔ الیکشن کمیشن نے بھی صاف صاف کہہ دیا ہے کہ ہمارا کام انتخابات کروانا ہے نہ کہ امن و امان و دہشت گردی سے نمٹنا۔ یہ تو وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ذمے داری ہے کہ الیکشن سے پہلے امن و امان کا قیام ممکن بنائیں اور کسی صورت انتخابات کے عمل کو روکا نہ جائے۔ اس ضمن میں جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا ہے یہ ذمے داری کلی طور پر قانون نافذ کرنے والوں کی ہے ورنہ موجودہ صورت حال جس میں قتل و غارت گری ہو رہی ہے۔
مزید بگڑ جائے گی اور انتخابات پر اثرانداز ہو گی۔ یہی وجہ ہے کہ انتخابات ہونے میں اتنا کم وقت رہ گیا پھر بھی امیدوار نہ جلسے جلوس کر پا رہے ہیں اور نہ محلوں اور گلیوں میں کوئی رونق نظر آ رہی ہے۔ بس ایک خوفزدہ ماحول بن گیا ہے۔ خدا کرے کہ 11 مئی سے پہلے حالات پرامن ہو جائیں تا کہ انتخابات پر امن ماحول میں ہوں اور ووٹرز بھی سکون اطمینان اور بغیر کسی رکاوٹ کے اپنا ووٹ استعمال کر سکیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو ۔