سعودی عرب اور جدیدیت

مملکت کی آمدنی کا بڑا ذریعہ حج کے لیے آنے والے حاجیوں سے وصول کیا جانے والا محصول تھا

tauceeph@gmail.com

پہلی سعودی شہزادی بنت طلال نے اپنے بچوں کو کار کی پچھلی نشست پر بٹھا کر کار چلائی۔ سعودی عرب کے ار ب پتی شہزادے ابو سعد بن طلال کا کہنا ہے کہ جب ان کی بیٹی نے کار چلائی تو وہ کار کی پچھلی سیٹ پر موجود تھے۔ انھوں نے تالیاں بجا کر اپنی بیٹی کے کار چلانے کی حوصلہ افزائی کی۔ سعودی عرب میں خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت مل گئی۔ پرائیوٹ کار سروس کمپنی نے 100 سعودی خواتین کی خدمات حاصل کی ہیں۔ سعودی عرب کے ایک اخبار میں شایع ہونے والی خبر میں کہا گیا ہے کہ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب میں خواتین سعودی ڈرائیوروں کے اعلان کے ساتھ اپنے کاروبار میں وسعت دیکھ رہے ہیں۔ ابھی ایک ہزار خواتین ڈرائیوروں کی خدمات حاصل کی جارہی ہیں، مستقبل میں یہ تعداد ایک لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔

سعودی عرب میں خواتین کے ملبوسات تیار کرنے والے ڈیزائنرز نے خواتین کے لیے نئے جدید لباس تیار کرانا شروع کر دیے ہیں۔ حکومت نے ڈرائیونگ کے دوران خواتین کی سیلفی بنانے پر پابندی کا حکم نامہ جاری کیا ہے۔ سعودی معاشرے کے بارے میں پیشگوئی کرنے والے ماہرین اس خدشہ کا اظہار کررہے ہیں کہ کار ڈرائیو کرنے والی خواتین کو ہراساں کرنے کے خاصے امکانات ہیں اور خدشہ ہے کہ ان حملوں کی نوعیت جنسی طور پر ہراساں کرنے کی بھی ہوسکتی ہے۔

اگرچہ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے سعودی عرب کو جدید دور میں داخل کرنے کے لیے مختصر مدت میں کئی اقدامات کیے ہیں۔ ان میں جدید کیسینو اور سینما ہاؤس کا قیام وغیرہ شامل ہیں۔ پھر انھوں نے امریکا کے ساتھ اسرائیل سے تعلقات استوار کرنے کے لیے خاموش ڈپلومیسی کا سہارا لیا ہوا ہے، مگر سعودی خواتین نے کار چلانے اور آزاد طور پر سفر کرنے کے لیے تاریخی جدوجہد کی ہے۔ ابھی 1990 سے پہلے کی بات ہے کہ خواتین نے سعودی شہروں میں سڑکوں پر تنہا کار ڈرائیو کرنے کی کوشش کی تھی تو انھیں گرفتار کرلیا گیا تھا۔ شاہ محمد کے ان اقدامات پر قدامت پسندوں کو خاصی تشویش ہے۔

سعودی عرب میں تو بعض علماء اور ان کے مریدوں کا ایک بڑا گروہ موجود ہے جو شہزادہ محمد کے جدیدیت کے اقدامات کا مخالف ہے۔ پاکستان میں سعودی عرب سے وابستگی رکھنے والے علماء اور دانشور نجی محفلوں میں ان اقدامات پر تنقید کرتے ہیں مگر سعودی حکومت سے تعلقات بگڑنے کے خوف سے وہ ذرایع ابلاغ پر اس موضوع پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ مگر سعودی عرب اور اسلامی ممالک میں بہت سے عناصر ضرور متحرک ہیں جنھوں نے شہزادہ محمد کی ہلاکت کی خبریں پھیلائیں اور سوشل میڈیا پر تو ایک جعلی وڈیو تک وائرل کردی گئی۔ اس وڈیو میں شاہ سلمان ایک جنازہ کو کندھا دیتے ہوئے نظر آئے تھے اور یہ تاثر تھا کہ یہ جنازہ ولی عہد کا تھا مگر شہزادہ محمد نے روس میں فٹبال کے عالمی مقابلوں کی افتتاحی تقریب میں شرکت کرکے اس طرح کی تمام افواہوں کو غلط ثابت کردیا تھا۔

سعودی عرب امارات گزشتہ صدی کے ابتدائی عشرے میں اس وقت وجود میں آئی جب قسطنطینیہ میں قائم ترکی خلافت ختم ہوگئی تھی اور سلفی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے شاہ سعود نے سعودی عرب کی بنیاد رکھی، یوں مسلمانوں کے مقدس مقامات مکہ اور مدینہ اس امارات کی نگرانی میں آگئے۔ اس زمانے میں سعودی عرب ایک پسماندہ ترین ملک تھا۔ آبادی کا بیشتر حصہ بدوؤں پر مشتمل تھا، جو ریگستانوں میں رہتے اور غلہ بانی سے زندگی گزارتے۔ اس علاقے میں سخت گرمی اور پانی وافر مقدار میں نہ ہونے کی بنا پر زراعت محدود تھی۔

مملکت کی آمدنی کا بڑا ذریعہ حج کے لیے آنے والے حاجیوں سے وصول کیا جانے والا محصول تھا۔ سعودی عرب، برطانیہ اور فرانس کے اتحادیوں میں شامل ہوا۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد امریکا نے برطانیہ اور فرانس کی جگہ لے لی تو سعودی عرب میں تیل نکل آیا۔ پھر امریکا کی ملٹی نیشنل کمپنی 'ارم کو' کا دور شروع ہوا۔ سعودی حکومت نے تیل نکالنے اور فروخت کرنے کے حقوق 'ارم کو' کے سپرد کیے۔ دوسری طرف سعودی عرب کے شہزادہ کے وارے نیارے ہوگئے۔


شاہ فیصل نے اس حقیقت کو محسوس کیا کہ سعودی عرب کو جدید نظام کی طرف آنا چاہیے اور تیل کی دولت سے حاصل ہونے والے فائدے نچلی سطح تک منتقل ہونے چاہئیں۔ شاہ فیصل کی پالیسی کی بنا پر ٹیلیفون کا جدید نظام آیا، مساجد میں لاؤڈ اسپیکر استعمال ہونے لگے، تعلیم اور صحت کے جدید نظام کی طرف پیش رفت ہونے لگی، پہلے امریکا نے پٹرولیم یونیورسٹی قائم کی، پھر 60 کی دہائی میں مدینہ یونیورسٹی قائم ہوئی، جس میں مردوں کے ساتھ خواتین کو تعلیم حاصل کرنے کا حق ملا۔ شاہ فیصل کی اصلاحات کی رجعت پسند علما نے سخت مزاحمت کی۔ وہ لاؤڈ اسپیکر کے استعمال اور ٹیلی وژن سے آنے والی تصاویر کو جائز نہیں سمجھتے تھے ۔ جب 1973 میں عرب اسرائیل جنگ کے بعد تیل پیدا کرنے والے ممالک نے اوپیک بنائی اور تیل کی اپنی مرضی سے قیمتوں کے تعین کے لیے ایک لڑائی شروع کی تو ایک جدوجہد کے بعد امریکا اور یورپی ممالک اور اوپیک کے اراکین ممالک ایک نئے نظام پر متفق ہوئے۔ یوں سعودی عرب کی آمدنی میں خاطرخواہ اضافہ ہوا۔

شاہ فیصل کے جانشینوں نے بڑھتی ہوئی آمدنی میں سے کچھ حصہ شہروں کی ترقی، تعلیم عام کرنے کے لیے اسکول، کالج اور یونیورسٹیوں کے قیام اور صحت کی سہولتیں گاؤں کی سطح تک پہنچانے کے لیے بہت سے منصوبے شروع کیے۔ پاکستان اور بھارت سے اساتذہ اور ڈاکٹروں، انجنیئروں کو اس نئے جدید نظام کو چلانے کے لیے بلایا گیا۔ سعودی عرب سے عربی اور انگریزی میں اخبارات شایع ہونے لگے۔ امریکا اور یورپی ممالک کے ماہرین ہر پروجیکٹ میں کلیدی عہدوں پر تعینات کیے گئے، یوں مردوں کے ساتھ خواتین میں تعلیم حاصل کرنے کی شرح بڑھ گئی۔ افغان جنگ میں سعودی عرب نے امریکا اور پاکستان کی بھرپور مدد کی۔ اسامہ بن لادن جیسے ہزاروں سعودی شہریوں نے افغان جنگ میں حصہ لیا۔ ان جہادیوں میں سوویت یونین کے خاتمے کے بعد یہ خیال عود آیا کہ اب پوری دنیا میں سلفی امارات قائم کی جاسکتی ہے۔بعض پاکستانی بھی اس نظریہ کے حامی تھے۔

جب سعودی عرب نے پہلی عراق جنگ میں امریکا اور اتحادیوں کی حمایت کی تو ان عناصر نے سعودی عرب میں تخریبی کارروائیاں شروع کردیں۔ ان ہی عناصر نے نائن الیون کی دہشت گردی کو منظم کیا۔ اس وقت ماہرین کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کو جدید نظام کی طرف گامزن ہونا چاہیے۔ اس وقت یہ تصور پیش کیا گیا تھا کہ پہلے بلدیاتی ادارے قائم کرنے چاہئیں۔ ان اداروں کا نظام منتخب نمایندوں کے سپرد ہونا چاہیے۔ ذرایع ابلاغ کو آزادی سے فرائض انجام دینے اور دوسری آزادیوں کے لیے اقدامات ہونے چاہئیں۔ پھر امریکا میں پٹرول کے متبادل مایع پر ہونے والی تحقیق کے مثبت نتائج سامنے آگئے۔ اب یہ واضح ہوگیا کہ امریکا اور یورپی ممالک کی معیشتوں کا مکمل انحصار پٹرول پر نہیں رہے گا۔ سعودی عرب میں پہلی دفعہ اقتصادی بحران اور بجٹ کے خسارے کا ذکر ہونے لگا۔

سعودی عرب میں ایک صدی کے دوران ہونے والی اصلاحات کے نتیجے میں مردوں کے ساتھ خواتین میں تعلیم کا اضافہ ہوا۔ بعض سعودی خواتین نے یورپ اور امریکا کی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کی۔ ان خواتین کو ملک کی معیشت میں کردار ادا کرنا تھا مگر سعودی خواتین کو روزگار کے حق، اپنی مرضی سے آنے اور جانے کی اجازت نہیں دیتے تھے، یوں ملک کی بگڑتی ہوئی اقتصادی صورتحال کے باوجود اتنی بڑی افرادی قوت گھروں میں قید ہونے پر مجبور تھی۔ اب خواتین نے سوشل میڈیا پر اپنے جذبات کا اظہار کرنا شروع کردیا تھا۔

بعض خواتین کے خیالات کو باغیانہ قرار دیا گیا۔ جب خواتین نے آزادانہ طور پر ڈرائیونگ کی کوشش کی تو انھیں گرفتار کیا گیا۔ ولی عہد شہزادہ محمد نے اپنا منصب سنبھالتے ہی بین الاقوامی صورتحال اور ملک کی گرتی ہوئی معیشت کا ادراک کیا۔ پہلی دفعہ 10 کے قریب شہزادوں کو اربوں ڈالر کی ناجائز آمدن رکھنے پر حراست میں لیا گیا اور جن شہزادوں نے غیر ملکی بینکوں میں موجود دولت واپس لانے پر آمادگی ظاہر کی، انھیں رہا کردیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی سعودی عرب میں کام کرنے والے غیر ملکیوں پر ٹیکس بڑھا دیا گیا اور سب سے اہم فیصلہ یہ ہوا کہ سعودی عرب کو جدیدیت کی طرف راغب کیا جائے، یوں سینما ہاؤس کھلے، کئی کیسینو کھولے گئے اور خواتین کو کام کرنے کی آزادی ملی۔ پہلے انھیں کسی محرم کے ساتھ ہی گھر سے نکلنے کی اجازت تھی، یوں وہ آزادی سے کام نہیں کرسکتی تھیں، مگر اب اس پابندی کو ختم کردیا گیا۔

مگر ترقیات کے ماہرین کہتے ہیں کہ ابھی شہزادہ محمد کو اور زیادہ بنیادی اصلاحات کرنی ہوں گی۔ اس جدیدیت کے ساتھ جمہوریت کی طرف جانا چاہیے۔ سعودی عوام کو اپنے رہنما منتخب کرنے کا حق ملنا چاہیے اور جمہوری فکر کے ساتھ اختیارات نچلی سطح پر منتقل ہونے چاہئیں۔ خواتین پر عائد پابندیوں کے خاتمے پر سعودی معیشت پر مثبت اثرات ہوں گے اور ترقی کا عمل تیز ہوگا۔ طالبان کی سوچ رکھنے والے دانشوروں کو انسانی معاشرے کے ارتقا کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ ترقی کے لیے جدیدیت اور جمہوریت ضروری ہے۔ شہزادہ محمد کے یہ اقدامات جدید تقاضوں کے مطابق ہیں۔ اب جمہوریت کا دروازہ بھی کھل جانا چاہیے۔
Load Next Story