خدمت میں ہی عظمت ہے
اسٹیبلشمنٹ کا بھی یہی ہے کہ جو بچے اس کی خدمت کرتے ہیں اور اس کے مشوروں پر چلتے ہیں وہ سکھی رہتے ہیں
KARACHI:
بچے جتنے بھی بڑے ہو جائیں ، قد کاٹھ نکال لیں ، پڑھ لکھ جائیں ، ایک سے ایک کارنامہ کر لیں مگر والدین کے لیے تو بچے ہی رہتے ہیں اور انھیں زندگی بھر کچھ اس طرح کی سرپرستانہ سی گفتگو سننا پڑتی ہے۔
بڑوں جیسی باتیں کرنے لگ گیا ہے ، قد نکالنے سے بچہ میچور نہیں ہو جاتا ، ذرا سا پڑھ لکھ کیا گیا ہے ہمیں جاہل اور خود کو افلاطون سمجھنے لگا ہے ، بھول گیا انگلی پکڑ کے چلنا کس نے سکھایا تھا ، آج ہمیں کہتا ہے آپ کا لہجہ ٹھیک نہیں زبان ٹھیک نہیں ، کل تک تتلاتا تھا ، ایک ایک لفظ کے معنی دس دس بار پوچھتا تھا ، ایک ہی شے کے بارے میں کیا ہے کیوں ہیں کیسے ہے کر کر کے دماغ کی دہی بنا دیتا تھا اور آج ہمیں سمجھاتا ہے کہ کیا بولنا ہے کیسے بولنا ہے ، ہمارا پہناوا بھی اچھا نہیں لگتا ؟ بھول گیا جب چڈی سنبھالنے کی بھی ہوش نہیں تھی تجھے، ٹائی کی ناٹ کیسے بندھتی ہے کس نے باندھنا سکھایا تھا ، نوکری کے لیے جب پہلا انٹرویو دینے گیا تو کس کا سوٹ پہن کر گیا تھا ، آج بتاتا ہے ہمارے کپڑے اوٹنگے ہیں۔ چند روپلی مہینے کے آخر میں ماں کے ہاتھ پر ایسے رکھتا ہے گویا حاتم طائی کی قبر پے لات مار رہا ہو۔
نہیں نہیں میرے بچے تو لاکھوں میں ایک ہیں، تمہیں معلوم ہے ان سب بہن بھائیوں نے ہمیشہ کلاس میں ٹاپ کیا اور پھر جہاں جہاں بھی گئے اپنا نقش چھوڑا ، ہمارا سینہ فخر سے چوڑا کیا ، لوگ ایسے ہی تو دیوانے نہیں ہیں ان کے ، ہم نے بھی ان بچوں کو اس مقام تک دیکھنے کے لیے کیا کیا پاپڑ نہیں بیلے ، کھلی چھوٹ دی مگر حدود و قیود کا بھی شعور دیا مگر یہ کوئی احسان نہیں ، ہر ماں باپ اولاد کے لیے اچھے سے اچھا ہی سوچتے ہیں۔ماشاللہ سب بچے بچیاں سعادت مند ہیں ، کبھی ہم سے آواز اونچی کر کے بات نہیں کرتے ، جتنا ممکن ہو رابطے میں رہتے ہیں، ہر مسئلے میں مشورہ کرتے ہیں اور عمل بھی کرتے ہیں۔
مجھے لگتا ہے جیسے والدین اپنے بچوں کے بارے میں سوچتے ہیں اسی طرح اسٹیبلشمنٹ بھی والدین کی طرح ہمارے بارے میں سوچتی ہے۔وہ ہر کام ہماری بہتری کے لیے کرتی ہے۔جس طرح ناسمجھ بچے کو والدین کا بات بات پر ٹوکنا بہت برا لگتا ہے اور سمجھ دار ہونے کے بعد اسے احساس ہوتا ہے کہ یہ روک ٹوک اس کی شخصیت کی تعمیر کے لیے کتنی ضروری تھی ، اسی طرح ہمیں اسٹیبلشمنٹ کی روک ٹوک اور ضروری پابندیاں بہت کھلتی ہیں۔ مگر ماں باپ کی طرح اسٹیبلشمنٹ بھی اپنے ناسمجھ بچوں کے ناک بھوں چڑھانے کا برا مان کر تعلیم و تربیت اور ڈسپلن میں لانے کا کام نہیں چھوڑتی۔
ماں باپ کی طرح اسٹیبلشمنٹ بھی یہی چاہتی ہے کہ بچے اگر آگے بڑھیں تو طے شدہ اخلاقی ، سماجی و سیاسی اقدار کے سانچے میں رہتے ہوئے ہی کامیابی پائیں اور بے لگام ہو کر اپنے بڑوں کے لیے شرمندگی کا سامان پیدا نہ کریں۔ ترقی سے کوئی نہیں روکتا مگر ترقی بھی قواعد و ضوابط کے تحت ہی ممکن ہے۔سوچنے سے نہ والدین روکتے ہیں نہ اسٹیبلشمنٹ مگر سوچ بے لگام ہو جائے تو بے راہروی میں بدل جاتی ہے۔اس کی روک تھام کے لیے اگر بعض اوقات والدین کی طرح اسٹیبلشمنٹ کو بھی طاقت استعمال کرنا پڑ جائے اور اپنے بارے میں کلی طور پر درست فیصلے کرنے سے عاری بچوں کو دوبارہ ایک طے شدہ منزل کی جانب ہنکالنے کے لیے کچھ سخت گیری اختیار کرنا پڑ جائے تو اس میں برا ماننے کی کیا بات ؟
ہمارے اردگرد بیسیوں مثالیں ہیں کہ والدین کی دی گئی تربیت میں بظاہر کوئی نقص نہیں ہوتا۔ان کی نگاہ میں اولاد برابر ہوتی ہے ، پھر بھی پانچ میں سے کوئی ایک بچہ جب شعور کے مدارج طے کر لیتا ہے تو خود کو بالا سمجھتے ہوئے نافرمانی و بدتمیزی اور بعض اوقات تشدد پر اتر آتا ہے۔اس لیے والدین کو نہ چاہتے ہوئے بھی ایسے بچے کو عاق کرنا پڑ جاتا ہے۔
بالکل یہی مرحلہ اسٹیبلشمنٹ کو بھی درپیش ہو سکتا ہے۔سب کو ایک آنکھ سے دیکھنے ، ایک جیسی تربیت کرنے کے باوجود جب کوئی بچہ آنکھیں دکھانے لگے تو پھر باقی کنبے کو بچانے کے لیے دل پر پتھر رکھ کے ایسے بچے کو عاق کرنا پڑ ہی جاتا ہے۔کچھ بچے نادم ہو کر معافی مانگ لیتے ہیں اور کچھ ٹھوکریں کھانے کے باوجود پلٹنے کے بجائے راندہِ درگاہ قرار پاتے ہیں۔خدا کا شکر ہے ہمارے سعادت مند قومی کنبے میں ایسے ہاتھ سے نکلے بچوں کی تعداد بہت زیادہ نہیں۔حسین شہید سہروردی ، فاطمہ جناح ، شیخ محیب الرحمان، ذوالفقار علی بھٹو ، الطاف حسین ، اکبر بگٹی ، حسین حقانی ، نواز شریف وغیرہ وغیرہ۔
آپ نے فلم باغبان تو دیکھی ہو گی۔اس میں امیتابھ بچن اور ہیما مالنی ایک ڈسپلن کے تحت اپنے بچوں کی کیسی شاندار تربیت کرتے ہیں۔مگر جب یہ بچے اپنی اپنی زندگی میں خود مختار ہو جاتے ہیں تو جن والدین کے گھر میں وہ بڑے ہوئے تھے انھی والدین کے لیے ان بچوں کے گھروں میں کوئی جگہ نہیں بچتی۔اس کتھا کو امیتابھ بچن ایک کتاب میں بیان کرتے ہیں مگر اس کتاب کی رائلٹی وہ اپنے کسی سگے نافرمان بچے کے نام کرنے کے بجائے ایک منہ بولے سعادت مند بیٹے کے نام کر جاتے ہیں اور حقیقی بچے منہ تکتے رہ جاتے ہیں۔یہ بچے اپنے کیے پر نادم بھی ہوتے ہیں مگر تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔
اسٹیبلشمنٹ کا بھی یہی ہے۔جو بچے اس کی خدمت کرتے ہیں اور اس کے مشوروں پر چلتے ہیں وہ سکھی رہتے ہیں۔لیکن نافرمان نہ صرف عاق ہوتے ہیں بلکہ انھیں سبق سکھانے کے لیے بعض اوقات کہیں راہ میں ملنے والے بچوں کو اٹھا کر یا پھر کسی سے گود لے کر ان کی نظریاتی و سیاسی تربیت کرنا پڑتی ہے اور پھر یہی منہ بولے سعادت مند بچے اسٹیبلشمنٹ کے بڑھاپے کا سہارا بنتے ہیں۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر عزت کمانی ہے تو جیسے والدین کا آشیر واد ، دعائیں اور خوشی اہم ہے ویسے ہی اسٹیبلشمنٹ کو بھی ماتا پتا کا سمان دینے والے ہی خوش رہ سکتے ہیں۔
والدین ہوں کہ اسٹیبلشمنٹ دونوں کی آہ سے بچنا چاہیے۔