جنگ کھیڈ نیں ہوندی زنانیاں دی

میری کئی مشہور گلوکاراؤں سے بڑی بے تکلفی رہی ہے اور ان سب نے میرے گیت گائے ہیں

hamdam.younus@gmail.com

ستمبر 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں جن تین قومی نغموں نے ہماری فوج کے حوصلوں کو توانائی اور ہمارے صف شکنوں کے دلوں میں عزم و ہمت کی شمعیں روشن کی تھیں، ان نغمات میں ایک جمیل الدین عالی کا لکھا ہوا نغمہ تھا:

اے وطن کے سجیلے جوانو!

میرے نغمے تمہارے لیے ہیں

جسے ملکہ ترنم نور جہاں نے اپنے سُروں سے سجایاتھا۔دوسرا نغمہ مسرور انور کا لکھا ہوا تھا جس کے بول تھے:

اپنی جان نذر کروں اپنی وفا پیش کروں

قوم کے مرد مجاہد تجھے کیا پیش کروں

اس نغمے کو لیجنڈ غزل سنگر مہدی حسن کی جادو بھری آواز نے لازوال بنا دیا تھا اور اس کے بعد تیسرا نغمہ جو ڈاکٹر رشید انور کا پنجابی میں لکھا ہوا تھا جس نے بڑی دھوم مچائی تھی اور اس کے بول تھے:

اج ہندیاں جنگ دی گل چھیڑی

اکھ ہوئی حیران حرانیاں دی

مہاراج ایہہ کھیڈ تلوار دی اے

جنگ کھیڈ نیں ہوندی زنانیاں دی

اس نغمے نے تلوار کی دھار کا کام کیا تھا اور اس نغمے کو ریڈیو پاکستان کراچی کے نوجوان گلوکار تاج ملتانی نے بڑی گھن گرج کے ساتھ گایا تھا۔ اس قومی نغمے کے بعد تاج ملتانی کا شمار بھی صف اول کے گلوکاروں میں ہوگیا تھا۔ تاج ملتانی سے میری بے شمار ملاقاتیں رہی تھیں، میری اس سے دوستی کے ساتھ بڑی بے تکلفی بھی تھی۔ کبھی کبھی ہنسی مذاق کے دوران وہ اپنے ارد گرد کے لوگوں کی کچھ باتیں بتاکر لطیفوں کے انداز میں سناتا تھا، پھر وہ یہ بھی کہتا تھا یار ہمدم آپ اخبار والے بھی ہو، آپ سے باتیں کرتے ہوئے کبھی کبھی ڈر بھی لگتا ہے۔ تو میں کہتا تھا تاج میںپہلے تمہارا دوست ہوں پھر صحافی، تم بے جھجھک مجھ سے ہر بات کر سکتے ہو، تمہاری یہ باتیں بس لطیفوں کی حد تک ہوتی ہیں۔


میں یہاں ایک بات اور بتاتا چلوں کہ میری نظر میں تاج ملتانی ایک سیدھا، سچا اور صاف دل انسان تھااور موسیقی کے شعبوں میں ایسے لوگ ذرا کم کم ہی ہوتے ہیں، ورنہ اس شعبے میں زیادہ تر لوگ منہ پرتعریف اور پیٹھ پیچھے دُر فٹے منہ کہنے سے باز نہیں آتے تھے۔ تاج ملتانی کا تعلق تو ملتان سے تھا، مگرگائیکی کا آغاز اس نے راولپنڈی ریڈیو اسٹیشن سے کیا تھا۔ پھر یہ کراچی آیا تو کراچی ریڈیو اسٹیشن سے وابستہ ہوگیا تھا اور پھر زندگی کے آخری دنوں تک کراچی ریڈیو ہی کا فنکار کہلایا۔ میں نے پہلی بار تاج ملتانی کی آواز میں ریڈیو سے خواجہ فریدؒ کی کافیاں اور بابا بلھے شاہؒ کا کلام سنا تھا اور صوفیانہ کلام اس کی آوازمیں بڑا بھلا لگتا تھا۔ اس نے ریڈیو سے پنجابی کے گیت بھی گائے مگر اس کی شہرت کافیوں کے بعدعلامہ اقبال کی مشہور نظموں کی گائیکی سے بھی ہوئی تھی، ان نظموں میں:

یا رب دلِ مسلم کو وہ زندہ تمنا دے

جو قلب کو گرمادے جو روح کو تڑپادے

یا پھر علامہ اقبال کی یہ شہرۂ آفاق نظم تاج ملتانی کی آواز میں بڑی پسند کی گئی تھی:

یہ غازی یہ تیری پر اسرار بندے

جنھیں تو نے بخشا ہے ذوق خدائی

تاج ملتانی کو میں نے پہلی بار کراچی ریڈیو کے کینٹین میں دیکھا تھا، ایک میز کے گرد خان صاحب مہدی حسن، ان کے بڑے بھائی پنڈت غلام قادر، مشہور کلاسیکل سنگر استاد امراؤ بندو خان ، موسیقار نہال عبداﷲ، موسیقار ظفر خورشید اور مشہور طبلہ نواز استاد اﷲ دتہ، اس میں چند راگوں پر بحث و مباحثہ کررہے تھے اور ان کے قریب تاج ملتانی بھی اس طرح بیٹھا تھا، جیسے کوئی طالب علم اپنے ٹیچرز کے درمیان چپ چاپ بیٹھا ہو۔ تاج ملتانی کی یہ بھی ایک خوبی تھی کہ یہ اپنے بزرگوں اور اپنے سینئرز کی بہت عزت کرتا تھا اور سب ہی سے جھک کر ملتا تھا۔ تاج ملتانی نے اپنے آپ کو منوانے میں ایک طویل جدوجہد کی تھی، اس نے ریڈیو کے علاوہ ٹیلی ویژن پر بھی بہت سے گیت اور قومی نغمے گائے تھے بلکہ یہ کہا جائے تو بہتر رہے گا کہ تاج ملتانی نے سب سے زیادہ قومی نغمات گانے کا اعزاز حاصل کیا تھا اور بعض نغموں نے بڑی ہی دھوم مچائی تھی اور آج بھی ان نغموں کو بڑی توجہ اور محبت سے سنا جاتا ہے۔

تاج ملتانی سے ایک دن ریڈیو پر میری بڑی دیر تک ملاقات رہی، اس کی ریکارڈنگ میں ابھی کچھ دیر تھی اور وہ وقت گزارنے کے لیے کینٹین میں بیٹھا تھا، میں نے تاج ملتانی سے مذاق ہی مذاق میں پوچھ لیا، یار تاج ملتانی سنا ہے تم نگہت سیما سے شادی کررہے ہو۔ میرے سوال پر پہلے تو وہ سوچ میں پڑ گیا پھر مسکراتے ہوئے کہنے لگا، یار ہمدم ہونے والے میاں بیوی تو راضی ہیں مگر قاضی صاحب یعنی ان کے اباجی راضی نہیں ہیں۔ یہاں میں ایک بات اور بتاتا چلوں کی اکثر فی میل گلوکاراؤں کے والدین اپنی کماؤ بیٹیوں کی شادی کے بارے میں سن کر فوراً چراغ پا ہوجاتے تھے اور اپنی بیٹیوں کی شادیوں کے بارے میں سوچنا ان کے لیے کسی قیامت سے کم نہ ہوتا تھا۔

میری کئی مشہور گلوکاراؤں سے بڑی بے تکلفی رہی ہے اور ان سب نے میرے گیت گائے ہیں، فلموں کے لیے بھی اور کمرشل بھی، سب ہی نے مجھ سے دبے دبے لفظوں میں اپنے سخت گیر والدین کے ظالمانہ رویوں کا اظہار کیا تھا۔ تاج ملتانی کی بات میں صداقت جھلکتی تھی، میں بھی نگہت سیما کے والد بٹ صاحب (اسی نام سے مشہور تھے) سے واقف تھا، وہ جن دنوں ایسٹرن اسٹوڈیو میں بطور واچ مین ملازم تھے ان کی نگہت سیما پر ہر وقت بڑی کڑی نظر رہتی تھی، وہ اندر سے انتہائی سخت گیر قسم کے انسان تھے۔ تاج ملتانی، نگہت سیما اور اس کے والد کے درمیان کافی عرصہ تک رسہ کشی رہی، پھر یوں ہوا کہ تاج ملتانی کی محبت جیت گئی اور نگہت سیما ایک دن دلہن بن کر اس کے گھر آگئی۔

ان دونوں کی شخصیت میں بڑا نکھار آگیا تھا، یہ دونوں اکثر ایک ساتھ فنکشنز میں بھی پرفارم کرتے ہوئے نظر آتے تھے۔ نگہت سیما بھی ایک باصلاحیت گلوکارہ تھی، ریڈیو ہی سے اس نے بھی اپنی گائیکی کو پروان چڑھایا تھا۔ نگہت سیما ایک اچھی گلوکارہ ہونے کے ساتھ ایک بہت ہی نفیس دل کی مالک تھی۔ سادگی اور سچائی اس میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، نگہت سیما نے کئی فلموں کے لیے گیت بھی گائے تھے جن میں چھوٹی بہن، جلے نہ کیوں پروانہ، رشتہ ہے پیار کا، اور آزادی کے موضوع پر بننے والی مصنف و ہدایت کار اقبال رضوی کی فلم 'آزادی یا موت' بھی تھی، جس میں اس کا گایا ہوا ایک قومی گیت بڑا مقبول ہوا تھا، جس کے بول تھے۔

میرا چن ماہی کپتان

اب اس کا چن ماہی ملتان سے متعلق تاج ملتانی تھا اور اب وہی اس کے سر کا تاج تھا۔ نگہت سیما کو پہلی بار موسیقار لال محمد اقبال نے فلم ''چھوٹی بہن'' میں گوایا تھا، پھر یہ ریڈیو کے لیے باقاعدہ اردو اور پنجابی کے گیت تسلسل سے گاتی رہی۔ بڑے مرحلوں کے بعد تاج ملتانی سے اس کی شادی ہوئی، ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام احسن علی تاج رکھا گیا۔ ابھی وہ کمسن ہی تھا کہ 14 اپریل 2006ء میں نگہت سیما تاج ملتانی کو داغ مفارقت دے کر اس دنیا سے رخصت ہو گئی۔ نگہت سیما کے بعد تاج ملتانی بھی اندر سے ٹوٹ پھوٹ گیا تھا اور پھر نگہت سیما کی حسین یادیں اسے بے چین کیے رکھتی تھیں۔ پھر یہ بیمار رہنے لگا اور اسی بیماری کے دوران 22 جون 2018ء کو یہ بھی اس دنیا کو چھوڑ گیا۔ اس کے انتقال کی خبر جب میں نے ٹی وی پر سنی تو میرا دل بھی غم کے دریا میں ڈوب گیا تھا۔ اﷲ تاج ملتانی کی مغفرت فرمائے، آمین۔
Load Next Story