پہلے اچھے انسان پیدا کرو
اچھا ملاح کون ہے، اچھا بڑھئی کون ہے، اچھا کمہار کون ہے، اچھا سنگتراش کون ہے
بچپن میں عید کا چاند سب لوگ اپنے اپنے گھر کی چھت پر چڑھ کر مل کر ڈھونڈتے تھے، لیکن چاند تھا کہ اکثر مل کر ہی نہ دیتا تھا، کبھی ایک طرف سے آواز آتی تھی کہ وہ دیکھو چاند نظر آ رہا ہے، سب کے سب لوگ پھر اسی سمت دیکھ کر چاند کو ڈھونڈنے لگ جاتے تھے، پھر اسی دوران اچانک دوسری سمت سے آواز بلند ہوتی تھی کہ دیکھو دیکھو بادلوں کی آڑ میں چھپتا چاند نظر آ رہا ہے تو سب کے سب پھر اسی سمت اسے ڈھونڈنے نکل پڑتے تھے۔ پھر جب رات کی سیاہی آسمان کو اپنی گرفت میں لے لیتی تھی تو سب مایوس ہو کر اپنی چھتوں سے اتر کر ریڈیو کے گرد بیٹھ جاتے تھے۔
ہر عید کی رات یہ ہی تماشا ہوتا تھا۔ اصل میں ہم بہت ہی دلچسپ قوم ہیں، ہماری فطرت ہی کچھ ایسی واقع ہوئی ہے کہ جب کسی نے کوئی بھی آواز بلند کی ہم سب نے باجماعت اسی سمت دیکھنا شروع کر دیا، بغیر سوچے سمجھے۔ کبھی ملک میں آواز لگی کہ اگر ہمیں ذہین سیاست دان مل جائے تو ہم ترقی یافتہ ملک بن سکتے ہیں اور ہمیں درپیش تمام مسائل حل ہو سکتے ہیں، تو ہم سب نے ذہین سیاست دان ڈھونڈنا شروع کر دیا، پھر آواز بلند ہوئی کہ اگر ہمیں ماہر معاشیات میسر ہو جائے تو ملک میں پیسوں کا سیلاب آ جائے گا، تو پھر ہم نے ایک منٹ لگائے بغیر ماہر معاشیات کو ڈھونڈنا شروع کر دیا۔
اسی دوران اچانک کہیں سے آواز آئی کہ خدارا ماہر امور خارجہ کو تلاش کرو کیونکہ جب ہمارے دنیا بھر سے تعلقات اچھے ہو جائیں گے تو ہمارے تمام مسائل خودبخود حل ہو جائیںگے۔ تو ہم نے ماہر امورخارجہ کی تلاش شروع کر دی۔ نتیجے میں آج دنیا بھر کے وہ تمام مسائل جو دنیا بھر میں ناپید ہو چکے ہیں، ہمارے ملک میں دندناتے پھرتے ہیں۔ اصل میں ہم نے اپنے اصل مسئلے کی طرف کبھی نہیں سوچا اور نہ ہی کبھی دھیان دیا اور نہ ہی کبھی اس کے لیے کہیں سے کوئی آواز بلند ہوئی۔ آئیں ہم اپنے اصل مسئلے پر بات کرتے ہیں کہ جس کی وجہ سے ہمارے تمام کے تمام مسائل پیدا ہوئے۔
یونانی فلسفے کی تاریخ و ارتقا میں تین ادوار آئے ہیں، چھٹی صدی قبل مسیح میں جب یونانی فلسفے کا آغاز ہوا تو ڈیڑھ سو برس یونانی ابتدائی فلسفیوں، جس میں تھالیس، اناکسی منیڈر، ہیرا قلیطس، انکساگورس، دیما قریطس شامل تھے انھوں نے اپنی ذہنی توانائیاں کائنات کی حقیقت معلوم کرنے میں صرف کیں۔ دوسرے دور میں خود کو Sophists کہلانے والے فلسفیوں پروٹاگورس، تھراسی میکس، گارجیاس، پولس، کیلی کلس نے موضوع بحث و فکر کو کائنات سے انسان کی طرف موڑ دیا، جب کہ تیسرے دور جس کا آغاز سقراط سے ہوا، انھوں نے فکر و بحث کو نیکی بدی، بھلائی اور انصاف کے حتمی معنی کی طرف اور ''اچھے'' انسان اور ''اچھے'' ترین نظام حکومت اور اخلاقی اوصاف کی طرف موڑ دیا اور ان سوالات سے بڑھ کر کہ اچھا حکیم کون ہے۔
اچھا ملاح کون ہے، اچھا بڑھئی کون ہے، اچھا کمہار کون ہے، اچھا سنگتراش کون ہے، اچھا نائی کون ہے، اچھا منتظم کون ہے، اچھا سیاست دان کون ہے، کے بجائے اس سوال پر زور دینے لگے کہ اچھا انسان کون ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں جس انسان میں احساس فرض، ہمدردی، ایثار، خلوص، بے لوثی، انصاف اور ذاتی مفاد پر اجتماعی مفاد کو فوقیت دینے کا جذبہ نہ ہو، وہ فرد چاہے جتنا بڑا عالم، سائنس دان، ماہر اقتصادیات، ماہر امور خارجہ، منتظم، سیاست دان، ادیب، ہنرمند، فنکار ہو، اپنی برادری کے لیے بیکار ہے، بلکہ صفر ہے۔
روسو کہتا ہے کہ ''ہمارے پاس اچھے سائنس دان، اچھے ڈاکٹر، اچھے ہنرمند، اچھے منتظمین تو ہیں، مگر اچھے شہری اور اچھے انسان نہیں ہیں، اس لیے ہمارے پاس کچھ نہیں ہے، اگر ہم اچھے شہری اور اچھے انسان پیدا کر سکیں تو پھر ہمارے پاس سب کچھ ہو گا''۔ وہ دعویٰ کرتا ہے کہ دنیا بھر کے سماجوں میں سماجی برائیاں سائنس، علم، تجربے، ہنر اور فن کی کمی کی وجہ سے نہیں بلکہ اخلاقی اوصاف کی کمی کی وجہ سے ہیں۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ اگر کوئی ریاست خوشحال، کامیاب اور ترقی یافتہ ہے تو اس ریاست میں اچھے شہریوں اور اچھے انسانوں کی اکثریت ہے اور اگر کوئی ریاست تباہ اور برباد ہے اور اس میں دنیا بھر کی تمام غلاظتیں موجود ہیں تو اس ریاست میں برے شہریوں اور برے انسانوں کی اکثریت ہے۔ ذہن میں رہے ایک اچھا شہری لازماً ایک اچھا انسان بھی ہوتا ہے اور برا شہری لازماً برا انسان ہوتا ہے۔
پوری دنیا اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ کسی بھی ریاست کا اصل مسئلہ اخلاقی ہوتا ہے، یعنی اگر کوئی ریاست اچھے شہری اور اچھے انسان پیدا کر رہی ہے تو وہ خوشحال اور کامیاب ہے، دوسری طرف اگر کوئی ریاست برے شہری اور برے انسان پیدا کر رہی ہے تو اس کا حال پاکستان جیسا ہو گا۔ اس لیے ہمیں اچھے سیاست دان، اچھے ماہر اقتصادایات، ماہر امور خارجہ کی نہیں بلکہ اچھے انسانوں اور اچھے شہریوں کی ضرورت ہے، جب ہمیں اچھے شہری اور اچھے انسان وافر مقدار میں مہیا ہو جائیں گے تو ہمیں خودبخود اچھے سیاست دان، اچھے ماہر اقتصادیات اور ماہر امور خارجہ مل جائیں گے اور ساتھ ہی ساتھ ہمیں دنیا بھر کی غلاظتوں سے بھی نجات مل جائے گی۔ اس لیے آئیں ہم اپنے ملک میں اچھے انسان پیدا کرنا شروع کر دیں۔ اس کا آغاز آج ہی سے ہو جانا چاہیے۔