اعمال میں توازن
چھوٹا چونکہ ابھی زیر تعلیم ہے اس لیے گھر چلانے کا سارا بوجھ اکیلے بڑے بیٹے پر ہے
اس روز میں کافی عرصہ بعد اپنے دوست سے ملنے اس کے گھر گیا تھا۔ کاش نہ گیا ہوتا تاکہ آج یہ کالم پڑھ کر آپ کو میری طرح دکھی نہ ہونا پڑتا۔ اس کے تینوں بیٹے والدین کے ساتھ انھی کے گھر میں رہتے ہیں۔ بڑا کسی دکان پر بطور سیلزمین کام کرتا ہے، جب کہ منجھلا تبلیغی جماعت سے وابستہ ہونے کی وجہ سے کوئی کام نہیں کرتا اور اکثر گھر سے باہر رہتا ہے۔
چھوٹا چونکہ ابھی زیر تعلیم ہے اس لیے گھر چلانے کا سارا بوجھ اکیلے بڑے بیٹے پر ہے، باپ کی پنشن کے علاوہ اچھے وقتوں میں اس کی خریدی ہوئی دکان کا کرایہ ملا کر بھی اخراجات بمشکل پورے ہوپاتے ہیں، تاہم جیسے تیسے گزارا ہورہا ہے اور سب اپنے حال میں مگن ہیں۔ میں ان کے گھریلو حالات کے بارے میں بس اتنا ہی جانتا تھا۔ اس روز گیا تو پتہ چلا منجھلا بیٹا بھی آٹھ دس دن سے آیا ہوا ہے، میرے لیے شربت کا گلاس لے کر وہی بیٹھک میں آیا تھا۔ رسمی علیک سلیک کے بعد وہ پھر اندر زنان خانے میں چلا گیا اور ہم دونوں دوست ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگے۔ اچانک گھر کے اندر سے شور بلند ہوا، مہمان بن کر گھر آیا ہوا بیٹا کسی بات پر اپنی والدہ سے الجھ رہا تھا اور چھوٹا بھائی اسے خاموش کرانے کی کوشش کر رہا تھا۔
ایک بار میں نے اسے بھائی سے کہتے ہوئے سنا کہ خدا کے لیے چپ ہو جائیں، بیٹھک میں ابو کے دوست آئے بیٹھے ہیں، وہ ہمارے بارے میں کیا سوچیں گے۔ لیکن اس پر کسی بات کا کوئی اثر نہیں ہو رہا تھا۔ وہ مسلسل چیخے جا رہا تھا، منہ سے پھول جھڑ رہے تھے، ساری شرم و حیا ایک طرف رکھ کر وہ ماں سے کہہ رہا تھا ''سارے فساد کی جڑ آپ ہیں، مجھے دین کی خدمت سے باز رکھنے کے لیے بھائیوں کو میرے خلاف اکساتی ہیں، خدا کو کیا جواب دیں گی، اچھا بھلا گھر چل رہا ہے لیکن آپ کا پیٹ ہی نہیں بھرتا، تین مہینے بعد آیا ہوں، مجھے دینے کے لیے آپ کے پاس پانچ ہزار روپے نہیں ہیں، آیندہ کبھی آپ کو شکل نہیں دکھاؤں گا، وغیرہ وغیرہ''۔
مجھ میں مزید کچھ سننے کی تاب نہیں تھی، سو جانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا، دوست کی طرف اجازت چاہنے کے لیے دیکھا تو بات کرنے کی ہمت نہ ہوئی، بیچارا شرم سے زمین میں گڑا جارہا تھا۔ گلے ملے اور مصافحہ کیے بغیر سلام کرکے باہر نکل آیا اور چوک کی طرف چل پڑا تاکہ رکشہ پکڑ کر گھر پہنچوں۔ کئی دنوں تک اس واقعے کے زیر اثر پریشان رہا اور آج کئی ماہ بعد جب اسے نوک قلم پر لا رہا ہوں تو میرے مخاطب تبلیغی جماعت کے وہ منتظمین ہیں جو اندرون اور بیرون ملک جانے والی جماعتیں تشکیل دینے کے ذمے دار ہیں۔
میں اشاعت دین کے لیے ان کے کام کا دل سے معترف ہوں، تاہم میری ان سے درخواست ہے کہ وہ صرف فضائل و اعمال جیسی کتابیں تھماکر نوجوانوں کو تبلیغی مشن پر روانہ کرنے سے پہلے ان کی تربیت کا معقول انتظام کریں اور ہوسکے تو اپنے طور ان کے گھریلو حالات جاننے کی بھی کوشش کریں۔ مجھے یقین ہے کہ ایسا کرنے سے تبلیغ کا کام زیادہ بہتر طریقے سے انجام پاسکے گا اور میرے دوست کے بیٹے جیسے کئی جذباتی نوجوان اپنی آخرت خراب کرنے سے بچ جائیں گے۔ سب جانتے ہیں کہ ہمارا دین حقوق اللہ کے بعد سب سے زیادہ زور والدین کے ساتھ حسن سلوک پر دیتا ہے۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات میں تو والدین کی خدمت کو جہاد پر بھی فضیلت دی گئی ہے، ان کے مقام و مرتبے کا اندازہ اس حدیث پاک سے کیجیے جس کے مطابق اولاد کو والدین کی طرف صرف پیار سے مسکرا کر دیکھنے پر حج اور عمرے کے برابر ثواب کی خوشخبری دی گئی ہے۔
بہت پہلے زمانہ طالب علمی میں پڑھا ہوا ایک واقعہ ابھی تک میرے ذہن میں تازہ ہے۔ ہندوستان کی کسی ریاست کے نواب کے جی میں جانے کیا آیا کہ نوابی چھوڑ کر جنگلوں اور ویرانوں میں نکل گئے، وہاں بھی سکون نہ ملا تو خانقاہوں کا رخ کیا اور اللہ والوں کے قریب ہونے کی کوشش کرنے لگے۔ کسی بزرگ نے ان کے ارادے بھانپ کر رہنمائی کی اور بتایا کہ تمہاری منزل ملتان ہے جو تمہیں بلا رہی ہے۔
یہ وہاں پہنچے اور حضرت بہاء الدین ذکریا کی خدمت میں حاضر ہوکر ان سے بیعت ہونے کی خواہش ظاہر کی۔ آپ نے فرمایا اس کے لیے تمہیں پہلے خود کو اہل ثابت کرنا پڑے گا، پھر انھیں ہر امتحان کے لیے تیار پاکر حکم دیا کہ آج سے تم خانقاہ کے بیرونی دروازے پر زائرین کی جوتیاں سیدھی کرنے کی ڈیوٹی دیا کرو گے۔ انھوں نے حکم کی تعمیل کی اور کئی سال تک یہ خدمت انجام دیتے رہے، جب نوابی کے سارے کس بل نکل گئے اور یہ عاجزی و انکساری کا پیکر بن گئے تو حضرت کے مرید خاص کے رتبے پر ترقی پاکر خود بھی اللہ والوں کی صف میں شامل ہوگئے۔ گویا کوئی بڑا کام کرنے سے پہلے اس کی تربیت اور رہنمائی لینی پڑتی ہے۔ اس کے بغیر سب محض دکھاوا ہے، ہم جو کہتے ہیں اس پر خود عمل نہیں کرتے، لوگوں پر خاک اثر ہوگا۔
القامہ رضی اللہ عنہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرب صحابہ میں سے تھے، انھیں حضورؐ کے ساتھ کئی غزوات میں حصہ لینے کا اعزاز بھی حاصل تھا۔ آخری وقت آیا تو کئی دن حالتِ نزع میں پڑے رہے، روح تھی کہ قفس عنصری سے پرواز کرنے پر آمادہ ہی نہ ہوتی تھی۔ حضورؐ کو خبر کی گئی تو آپؐ بنفس نفیس ان کے گھر تشریف لے گئے، ان کی حالت دیکھ کر دریافت فرمایا ان کے والدین کہا ں ہیں۔
بتایا گیا کہ والد تو کب کے وفات پاچکے ہیں البتہ والدہ حیات ہیں اور بیٹے سے الگ اپنے گھر میں اکیلی رہتی ہیں۔ آپؐ نے انھیں بلانے کا حکم دیا، آئیں تو فرمایا القامہ کو معاف کردو تاکہ ان کی روح جسم کی قید سے رہائی پاسکے۔ وہ بولیں میں اسے ہرگز معاف نہیں کروں گی، اس نے میرا بہت دل دکھایا ہے، ہمیشہ بیوی کی طرفداری میں مجھ سے الجھا کرتا تھا۔ ان کی بات سن کر آپؐ نے القامہ کو جلانے کے لیے لکڑیاں جمع کرنے کا حکم دیا، ان کی والدہ پریشان ہوکر بولیں میں اس کو جلانے نہیں دوں گی۔
آپؐ نے فرمایا تو پھر اسے معاف کردو۔ ماں نے بے ساختہ کہا میں نے القامہ کو معاف کردیا۔ ان کے اتنا کہنے کی دیر تھی کہ بیٹے کی روح اپنے پھونکنے والے کے پاس جا پہنچی۔ اویس قرنیؒ بہت بڑے عاشق رسول تھے، یمن کے رہنے والے تھے، جب سے آپؐ کی بعثت کا سنا تھا، خدمت اقدس میں حاضری کے لیے بے چین رہتے تھے۔ انھوں نے حضورؐ کو خط لکھا کہ شرف دیدار حاصل کرنا چاہتا ہوں لیکن والدہ کی خدمت کرنے والا میرے سوا کوئی اور نہیں۔ آپؐ نے جواب بھجوایا کہ آنے کی ضرورت نہیں، وہیں رہ کر ماں کی خدمت کرو۔ تعمیل ارشاد کی وجہ سے حضورؐ کے دیدار سے محروم رہے لیکن جس مقام و مرتبے پر فائز ہوئے اس کا اندازہ اس سے کیجیے کہ آپؐ نے فرمایا میرے بعد یمن سے اویس قرنی فریضہ حج کی ادائیگی کے لیے مکہ آئیں گے، انھیں تلاش کرکے اپنے حق میں دعا کروانا کہ وہ مستجاب الدعواۃ ہیں۔
اس کا موقع بعد میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں آیا، حج کے موقع پر خلیفۃ المسلمین نے خود میدانِ عرفات میں تلاش کرکے ان سے ملاقات کی اور فرمان رسولؐ کی تعمیل میں اپنے لیے دعا کروائی۔ تبلیغِ دین کے مشن پر نکلے ہوئے غیر تربیت یافتہ نوجوانوں کو بالخصوص یہ بتانے کی اشد ضرورت ہے کہ والدین کی عزت و احترام اور ان کی خدمت جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد گرامی کے مطابق دین کے بنیادی رکن جہاد پر بھی مقدم ہے تو یقیناً تبلیغ کا کام اس کے مقابلے میں ثانوی درجے کا ہے۔ اعمال میں توازن ان کی قبولیت کی پہلی شرط ہے، جب کہ عدم توازن سارے کیے دھرے پر پانی پھیر دیتا ہے۔
چھوٹا چونکہ ابھی زیر تعلیم ہے اس لیے گھر چلانے کا سارا بوجھ اکیلے بڑے بیٹے پر ہے، باپ کی پنشن کے علاوہ اچھے وقتوں میں اس کی خریدی ہوئی دکان کا کرایہ ملا کر بھی اخراجات بمشکل پورے ہوپاتے ہیں، تاہم جیسے تیسے گزارا ہورہا ہے اور سب اپنے حال میں مگن ہیں۔ میں ان کے گھریلو حالات کے بارے میں بس اتنا ہی جانتا تھا۔ اس روز گیا تو پتہ چلا منجھلا بیٹا بھی آٹھ دس دن سے آیا ہوا ہے، میرے لیے شربت کا گلاس لے کر وہی بیٹھک میں آیا تھا۔ رسمی علیک سلیک کے بعد وہ پھر اندر زنان خانے میں چلا گیا اور ہم دونوں دوست ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگے۔ اچانک گھر کے اندر سے شور بلند ہوا، مہمان بن کر گھر آیا ہوا بیٹا کسی بات پر اپنی والدہ سے الجھ رہا تھا اور چھوٹا بھائی اسے خاموش کرانے کی کوشش کر رہا تھا۔
ایک بار میں نے اسے بھائی سے کہتے ہوئے سنا کہ خدا کے لیے چپ ہو جائیں، بیٹھک میں ابو کے دوست آئے بیٹھے ہیں، وہ ہمارے بارے میں کیا سوچیں گے۔ لیکن اس پر کسی بات کا کوئی اثر نہیں ہو رہا تھا۔ وہ مسلسل چیخے جا رہا تھا، منہ سے پھول جھڑ رہے تھے، ساری شرم و حیا ایک طرف رکھ کر وہ ماں سے کہہ رہا تھا ''سارے فساد کی جڑ آپ ہیں، مجھے دین کی خدمت سے باز رکھنے کے لیے بھائیوں کو میرے خلاف اکساتی ہیں، خدا کو کیا جواب دیں گی، اچھا بھلا گھر چل رہا ہے لیکن آپ کا پیٹ ہی نہیں بھرتا، تین مہینے بعد آیا ہوں، مجھے دینے کے لیے آپ کے پاس پانچ ہزار روپے نہیں ہیں، آیندہ کبھی آپ کو شکل نہیں دکھاؤں گا، وغیرہ وغیرہ''۔
مجھ میں مزید کچھ سننے کی تاب نہیں تھی، سو جانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا، دوست کی طرف اجازت چاہنے کے لیے دیکھا تو بات کرنے کی ہمت نہ ہوئی، بیچارا شرم سے زمین میں گڑا جارہا تھا۔ گلے ملے اور مصافحہ کیے بغیر سلام کرکے باہر نکل آیا اور چوک کی طرف چل پڑا تاکہ رکشہ پکڑ کر گھر پہنچوں۔ کئی دنوں تک اس واقعے کے زیر اثر پریشان رہا اور آج کئی ماہ بعد جب اسے نوک قلم پر لا رہا ہوں تو میرے مخاطب تبلیغی جماعت کے وہ منتظمین ہیں جو اندرون اور بیرون ملک جانے والی جماعتیں تشکیل دینے کے ذمے دار ہیں۔
میں اشاعت دین کے لیے ان کے کام کا دل سے معترف ہوں، تاہم میری ان سے درخواست ہے کہ وہ صرف فضائل و اعمال جیسی کتابیں تھماکر نوجوانوں کو تبلیغی مشن پر روانہ کرنے سے پہلے ان کی تربیت کا معقول انتظام کریں اور ہوسکے تو اپنے طور ان کے گھریلو حالات جاننے کی بھی کوشش کریں۔ مجھے یقین ہے کہ ایسا کرنے سے تبلیغ کا کام زیادہ بہتر طریقے سے انجام پاسکے گا اور میرے دوست کے بیٹے جیسے کئی جذباتی نوجوان اپنی آخرت خراب کرنے سے بچ جائیں گے۔ سب جانتے ہیں کہ ہمارا دین حقوق اللہ کے بعد سب سے زیادہ زور والدین کے ساتھ حسن سلوک پر دیتا ہے۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات میں تو والدین کی خدمت کو جہاد پر بھی فضیلت دی گئی ہے، ان کے مقام و مرتبے کا اندازہ اس حدیث پاک سے کیجیے جس کے مطابق اولاد کو والدین کی طرف صرف پیار سے مسکرا کر دیکھنے پر حج اور عمرے کے برابر ثواب کی خوشخبری دی گئی ہے۔
بہت پہلے زمانہ طالب علمی میں پڑھا ہوا ایک واقعہ ابھی تک میرے ذہن میں تازہ ہے۔ ہندوستان کی کسی ریاست کے نواب کے جی میں جانے کیا آیا کہ نوابی چھوڑ کر جنگلوں اور ویرانوں میں نکل گئے، وہاں بھی سکون نہ ملا تو خانقاہوں کا رخ کیا اور اللہ والوں کے قریب ہونے کی کوشش کرنے لگے۔ کسی بزرگ نے ان کے ارادے بھانپ کر رہنمائی کی اور بتایا کہ تمہاری منزل ملتان ہے جو تمہیں بلا رہی ہے۔
یہ وہاں پہنچے اور حضرت بہاء الدین ذکریا کی خدمت میں حاضر ہوکر ان سے بیعت ہونے کی خواہش ظاہر کی۔ آپ نے فرمایا اس کے لیے تمہیں پہلے خود کو اہل ثابت کرنا پڑے گا، پھر انھیں ہر امتحان کے لیے تیار پاکر حکم دیا کہ آج سے تم خانقاہ کے بیرونی دروازے پر زائرین کی جوتیاں سیدھی کرنے کی ڈیوٹی دیا کرو گے۔ انھوں نے حکم کی تعمیل کی اور کئی سال تک یہ خدمت انجام دیتے رہے، جب نوابی کے سارے کس بل نکل گئے اور یہ عاجزی و انکساری کا پیکر بن گئے تو حضرت کے مرید خاص کے رتبے پر ترقی پاکر خود بھی اللہ والوں کی صف میں شامل ہوگئے۔ گویا کوئی بڑا کام کرنے سے پہلے اس کی تربیت اور رہنمائی لینی پڑتی ہے۔ اس کے بغیر سب محض دکھاوا ہے، ہم جو کہتے ہیں اس پر خود عمل نہیں کرتے، لوگوں پر خاک اثر ہوگا۔
القامہ رضی اللہ عنہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرب صحابہ میں سے تھے، انھیں حضورؐ کے ساتھ کئی غزوات میں حصہ لینے کا اعزاز بھی حاصل تھا۔ آخری وقت آیا تو کئی دن حالتِ نزع میں پڑے رہے، روح تھی کہ قفس عنصری سے پرواز کرنے پر آمادہ ہی نہ ہوتی تھی۔ حضورؐ کو خبر کی گئی تو آپؐ بنفس نفیس ان کے گھر تشریف لے گئے، ان کی حالت دیکھ کر دریافت فرمایا ان کے والدین کہا ں ہیں۔
بتایا گیا کہ والد تو کب کے وفات پاچکے ہیں البتہ والدہ حیات ہیں اور بیٹے سے الگ اپنے گھر میں اکیلی رہتی ہیں۔ آپؐ نے انھیں بلانے کا حکم دیا، آئیں تو فرمایا القامہ کو معاف کردو تاکہ ان کی روح جسم کی قید سے رہائی پاسکے۔ وہ بولیں میں اسے ہرگز معاف نہیں کروں گی، اس نے میرا بہت دل دکھایا ہے، ہمیشہ بیوی کی طرفداری میں مجھ سے الجھا کرتا تھا۔ ان کی بات سن کر آپؐ نے القامہ کو جلانے کے لیے لکڑیاں جمع کرنے کا حکم دیا، ان کی والدہ پریشان ہوکر بولیں میں اس کو جلانے نہیں دوں گی۔
آپؐ نے فرمایا تو پھر اسے معاف کردو۔ ماں نے بے ساختہ کہا میں نے القامہ کو معاف کردیا۔ ان کے اتنا کہنے کی دیر تھی کہ بیٹے کی روح اپنے پھونکنے والے کے پاس جا پہنچی۔ اویس قرنیؒ بہت بڑے عاشق رسول تھے، یمن کے رہنے والے تھے، جب سے آپؐ کی بعثت کا سنا تھا، خدمت اقدس میں حاضری کے لیے بے چین رہتے تھے۔ انھوں نے حضورؐ کو خط لکھا کہ شرف دیدار حاصل کرنا چاہتا ہوں لیکن والدہ کی خدمت کرنے والا میرے سوا کوئی اور نہیں۔ آپؐ نے جواب بھجوایا کہ آنے کی ضرورت نہیں، وہیں رہ کر ماں کی خدمت کرو۔ تعمیل ارشاد کی وجہ سے حضورؐ کے دیدار سے محروم رہے لیکن جس مقام و مرتبے پر فائز ہوئے اس کا اندازہ اس سے کیجیے کہ آپؐ نے فرمایا میرے بعد یمن سے اویس قرنی فریضہ حج کی ادائیگی کے لیے مکہ آئیں گے، انھیں تلاش کرکے اپنے حق میں دعا کروانا کہ وہ مستجاب الدعواۃ ہیں۔
اس کا موقع بعد میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں آیا، حج کے موقع پر خلیفۃ المسلمین نے خود میدانِ عرفات میں تلاش کرکے ان سے ملاقات کی اور فرمان رسولؐ کی تعمیل میں اپنے لیے دعا کروائی۔ تبلیغِ دین کے مشن پر نکلے ہوئے غیر تربیت یافتہ نوجوانوں کو بالخصوص یہ بتانے کی اشد ضرورت ہے کہ والدین کی عزت و احترام اور ان کی خدمت جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد گرامی کے مطابق دین کے بنیادی رکن جہاد پر بھی مقدم ہے تو یقیناً تبلیغ کا کام اس کے مقابلے میں ثانوی درجے کا ہے۔ اعمال میں توازن ان کی قبولیت کی پہلی شرط ہے، جب کہ عدم توازن سارے کیے دھرے پر پانی پھیر دیتا ہے۔