ہجرت کا موسم اور امریکا کی بے حسی

دنیا کے جس خطے میں بھی تنازعات جنم لیں، مزے تو بس اسرائیل کے ہی آتے ہیں

چہرے خوف سے پیلے پڑ ے ہیں۔ دن رات کا سکون، نیند، بھوک، پیاس حتیٰ کہ روزگار سمیت سب کچھ ختم ہوچکا ہے۔ اب زندگی کی رمق یہاں ڈھونڈے سے نہیں ملتی۔ راج ہے تو بس گینگز کا، جو کبھی آپس میں تو کبھی ریاست سے اپنا آپ منوانے کے لیے برسرپیکار رہتے ہیں۔ ان کے باہمی معرکوں کی وجہ سے یہ علاقے کبھی ہالی وڈ کی ایکشن مووی کا منظر پیش کرتے ہیں تو کبھی بولی وڈ کی۔ ایم ایس تیرہ گینگ، اٹھارہ اسٹریٹ گینگ اور بیریو اٹھارہ، وہ نامی گرامی گینگ ہیں جنھوں نے ہنستی کھیلتی انسانی آبادی کو ویرانے میں بدل ڈالا۔ یہ مخالفین کو زیر کرنے کے سارے حربے بلاجھجک آزماتے ہیں، ظلم اور تشدد کی انتہا کرکے اپنی دھاک بٹھاتے ہیں۔ ان کی آپس کی لڑائیوں کی وجہ سے ''ہنڈوراس'' خانہ جنگی کا گڑھ بن چکا ہے۔

جی ہاں، وہی ہنڈوراس جو وسطی امریکا کا ایک اہم ملک ہے۔ قدرتی وسائل سے مالامال ہنڈوراس سے دکھوں کے ماروں کی ایک بڑی تعداد پناہ گزینوں کے روپ میں میکسیکو اور امریکا کی سرحد پر آ پڑی ہے، جہاں ان کی ذلت اور رسوائی کے نت نئے تماشے دنیا اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے۔ ٹرمپ حکومت کی Zero Toleranceپالیسی اور پناہ گزینوں کے خلاف ہونے والے سخت ترین اقدامات بھی پناہ گزینوں کی بڑھتی تعداد کم نہیں کر پا رہے۔ یہ جان کر بھی ان کے قدم نہیں رک رہے کہ ان کی مصیبتیں بجائے کم ہونے کے مزید بڑھنے والی ہیں۔ افسوس! ان مصیبت کے ماروں کے پاس زندہ رہنے کا کوئی متبادل راستہ بچا ہی نہیں۔

زندگی کے بجھتے ہوئے چراغ اور چند سلگتی امیدوں کو سنبھالے، امریکا اور میکسیکو کی سرحدوں پر ذلیل و خوار ہوتی ہوئی ان جانوں کا تعلق صرف ہنڈوراس سے نہیں بلکہ ان میں ایل سلواڈور اور گوئٹے مالا کے بھی باشندے شامل ہیں۔ یہ سب نہ تو امریکا کی رنگارنگ دنیا کو قریب سے دیکھنے کی خواہش میں بے وطن ہوئے اور نہ ہی وسیع معاشی مواقع کے حصول کی لالچ نے ان کے دلوں میں ڈیرا ڈالا ہوا ہے، بلکہ یہ اپنے اپنے ممالک میں ہونے والے بدترین تشدد اور خانہ جنگی کی وجہ سے جان جیسی پیاری چیز بچا کر امریکا کی سرحد تک لے آئے ہیں۔

ان تینوں ملکوں میں، قتل عام اور تشدد کی سب سے زیادہ شرح ہنڈوراس میں ہے جو دنیا کے کسی بھی جنگی خطے کے تقریباً برابر ہے۔ ہنڈوراس کا دارالحکومت جرائم اور قتل عام کے حوالے سے پوری دنیا کا کیپیٹل سٹی بن چکا ہے۔ سال2013ء وہ بدترین سال تھا جب یہاں ہونے والے قتل عام کی شرح عراق سے بھی زیادہ تھی، اور آج بھی سکون نامی شے یہاں ناپید ہے۔

ہنڈوراس میں کام کرنے والے اسپین کے ایک صحافی کا کہنا ہے کہ یہاں کی گلیوں اور بازاروں میں انسانی خون کی بو واضح محسوس کی جا سکتی ہے۔ بغیر کسی اعلانیہ جنگ کے، جنگ سے بدتر صورت حال کا حامل ملک بدقسمت ہنڈوراس ہی تو ہے۔

ہنڈوراس میں ظلم کی اب کوئی انتہا نہیں رہی۔ یہاں موجود گینگ کے درمیان لڑائیوں نے عام شہریوں کا بھی جینا دوبھر کردیا ہے۔ یہ ایک دوسرے پر منظم حملے کرتے ہیں، جن کے درمیان آنے والا ہر عام شہری بنا تردد مار دیا جاتا ہے۔ یہاں گروہی روایات کے تحت سب گینگ اپنا اپنا علاقہ بانٹ چکے ہیں۔ غلطی سے بھی مخالف علاقے میں قدم رکھ دینے کی کم سے کم سزا موت ہے اور زیادہ سے زیادہ بھی۔ ہنڈوراس کے اندر ان گروہوں کی قائم کردہ من مانی حکومتیں ریاست کے لیے بہت بڑا چیلینج ہیں۔ ریپ اور اغوا تو ان گروہوں کی معمولی کارروائیاں ہیں۔


کم عمر بچوں کو اغوا کرکے زبردستی گینگ میں شامل کیا جاتا ہے اور نافرمانی پر اگلا سانس بھرنے کے قابل بھی نہیں چھوڑا جاتا۔ یہ گینگ لوگوں کو علاقہ چھوڑنے کا ہدایت نامہ جاری کردیتے ہیں، جس پر عمل کرنے کے سوا ان کے پاس کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ اپنی طاقت کے اظہار کے لیے بدترین تشدد ان گروہوں کا اہم ہتھیار ہے۔ ہنڈوراس کی اپنی ثقافت تو عرصہ پہلے ملیامیٹ ہوچکی ہے، اب یہاں صرف گینگ کلچر کا راج ہے۔ ایل سلواڈور اور گوئٹے مالا کی زمین بھی، اتنی نہیں تو اس سے شاید ذرا سی کم، ظلم کی داستانوں سے ہی بھری ہوئی ہے۔ وسطی امریکا کے یہ تین ممالک اپنے باشندوں کو مہاجر بناکر سرحد سے باہر دھکیل چکے ہیں اور بدنصیبی ان غم کے ماروں کو امریکا کی سرحد تک لے آئی ہے۔ امریکا کی مشہور زمانہ بے حسی اب ہجرت کے عذاب اور بڑھا رہی ہے۔

دنیا کے جس خطے میں بھی تنازعات جنم لیں، مزے تو بس اسرائیل کے ہی آتے ہیں۔ اس کو اسلحے کی فروخت کے لیے نت نئی منڈیاں جو میسر آجاتی ہیں۔ ہنڈوراس بھی گزشتہ کئی سال سے اسرائیلی اسلحے کی فروخت کا ایک بڑا مرکز بنا ہوا ہے۔ حال ہی میں اسرائیل نے ہنڈوراس سے 209 ملین ڈالر کے ہتھیاروں کی فروخت کا معاہدہ کیا ہے۔ اسرائیل کی اسلحہ نوازی ہی کا اعجاز ہے کہ امریکا سے تمام تر اختلافات رکھنے والا ہنڈوراس بس ایک معاملے میں امریکا کا حلیف بنا، اور وہ تھا امریکی سفارت خانے کی یروشلم منتقلی کا۔ ہنڈوراس کی حکومت اپنے داخلی عدم استحکام سے یکسر بے نیاز اسرائیل کی محبت میں گوڈے گوڈے ڈوب چکی ہے۔

اسی لیے یہ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ امریکا کے بعد دوسرا ملک جو اپنا سفارت خانہ یروشلم منتقل کرے گا وہ ہنڈوراس ہوگا۔ ان فیصلوں سے صرف ہنڈوراس کی اسرائیل سے محبت ہی عیاں نہیں ہورہی بلکہ ان حکومتی ترجیحات کا بھی پول کھل رہا ہے جن میں دور دور تک ملک کے اندر امن وامان قائم کرنے کی کوئی سوچ اور ارادہ ہی موجود نہیں ہے۔ ہنڈوراس کی اسرائیل نواز حکومت جانے کیوں اس حقیقت کو فراموش کر بیٹھی ہے کہ اسرائیل کبھی کسی کا دوست ہو ہی نہیں سکتا۔ جب تک ایک بھی رومن کیتھولک زندہ ہے اسرائیل اس سے ہٹلر کا بدلہ چکاتا رہے گا۔

اس تلخ حقیقت کو فراموش کرکے ہنڈوراس، اسرائیل سے اسلحہ خرید خرید کر اپنی ہی مٹی کو لہو سے رنگ رہا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان اسلحے کی خریدوفروخت کے معاہدے ہوتے رہیں گے اور ہنڈوراس کے عام شہری اپنا گھر بار اور سکون سب گینگسٹرز کے حوالے کر کے امریکا کی غلامی اختیار کرنے پر مجبور بنائے جاتے رہیں گے۔

میکسیکو میں پناہ گزینوں کے لیے مختص کیے گئے ہوسٹل انسانی سروں سے بھرے ہونے کے باوجود ایک ہیبت ناک سناٹے کی لپیٹ میں ہیں۔ خوف سینوں میں گھر کر لے تو زبان گنگ ہوجایا کرتی ہے۔ ان میں سے کتنی ہی مائیں تو بیٹوں کی قربانی دے کر یہاں تک آئی ہیں۔ اب تو سب کا مستقبل غیریقینی ہے۔ آیا ان کو امریکا میں داخلے کی اجازت ملے گی یا وہ واپس دھکیل دیے جائیں گے؟ میکسیکو ان پناہ گزینوں کا بوجھ زیادہ عرصے برداشت نہیں کرسکتا کیوں کہ اس کے اپنے حالات بھی وسطی امریکا کے ان تینوں ممالک سے کچھ مختلف نہیں۔ اب امریکا سرکار چاہے ان پناہ گزینوں کو حراستی مراکز میں قید کرے یا ان کے بچوں کو پنجروں میں! ان کے آنسوؤں کا سونامی ہی کیوں نہ آجائے، امریکا کی بے حسی پر کوئی آنچ نہیں آئے گی۔

انٹرنیشنل رفیوجی کنونشن بھی ایسے لوگوں کی پناہ کی حمایت کرتا ہے جو اکثریتی گروہ کی طرف سے جان کے خطرات کا شکار ہوں۔ لیکن کسی کی پروا کیے بغیر امریکا نے پناہ گزینوں کی 88 فیصد درخواستیں مسترد کردیں۔ ان میں سب سے زیادہ درخواستیں ہنڈوراس کے باشندوں کی تھیں۔ بے بسی کا مقام تو یہ ہے کہ ٹرمپ کے پہلے فیصلے کے تحت جب بچے ماؤں سے الگ کیے جارہے تھے اس وقت بھی مائیں بچوں کے ساتھ سفر میں تھیں اور ان کا کہنا تھا کہ بچے یہاں مارے جارہے ہیں اور وہاں چھن رہے ہیں، دنیا بتائے ہم کریں تو آخر کیا؟ کچھ نہ کریں۔ کر بھی کیا سکتے ہیں۔ ہم آپ کے حق میں دعا کریں۔
Load Next Story