سیاسی امیدواروں کی مشکل ترین انتخابی مہم…
ہمارا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ جو طبقہ اشرافیہ ہم پر مسلط ہے
کیا اس بار انتخابات کے نتائج 2013ء کے نتائج سے مختلف ہوں گے؟ کیا عوامی امنگوں کی ترجمان پارلیمنٹ وجود میں آجائے گی؟ کیا اس بار بھی وہی منتخب لوگ دوبارہ کامیاب ہوکر ایوان میں پہنچیں گے جو2013ء میں منتخب ہوئے تھے اور اب کسی اور پارٹی میں الیکٹیبلز کے نام سے شامل ہوچکے ہیں؟ کیا عوام پچھلی پارلیمان کے منتخب نمایندوں سے اپنے گلی کوچوں میں ترقیاتی کاموں، روزگار، تعلیم اور صحت و علاج کے حوالے سے سوال نہیں کریں گے؟... یہ وہ سوال ہیں جو ہر پاکستانی کے دل اور دماغ میں الیکشن مہم کے دوران امڈرہے ہیں لیکن وہ سوال کس سے کریں جب مسلسل5 سال تک منتخب نمایندہ ہی انھیں نظر نہیں آتا اور شومئی قسمت ووٹ لینے کے لیے اب وہ سابقہ منتخب نمایندہ دوبارہ سے منتخب ہونے کے لیے اسی حقیر ووٹر کی دہلیز پر آنے کے لیے مجبور ہے۔
اس بار الیکشن بہت مختلف ہیںکیونکہ سیاسی جماعتوں کے ٹکٹ ہولڈرز کو عوام کے غیظ و غضب کا براہ راست سامنا کرنا پڑ رہا ہے، سوشل میڈیا کے طفیل ہر سیاسی جماعت کا امیدوار پریشان ہے کہ وہ اپنے حلقہ انتخاب میں جائے کیسے؟ اور اگر چلا بھی جائے تو جھوٹے وعدوں اور دلاسوں سے ووٹ مانگے کیسے؟ عوام خونخوار نظروں سے اس کی 5 اور 10 سالہ سیاسی کارکردگی کو دیکھ رہے ہیں جو ان منتخب نمایندوں نے عوام کے نام پر ایوانوں میں جاری رکھی لیکن عوامی مسائل جوں کے توں رہے، شاید یہ 2018ء کے انتخابات سیاستدانوں کی زندگی کے مشکل ترین انتخابات ہیں جہاں سوشل میڈیا بطور خاص فیس بک پر انھیں الیکشن کی مہم چلانی ہے اور ہر پارٹی کے ٹکٹ ہولڈر کو حلقے میں آنے پر حلقے کے عوام ان سے موبائل فونز کے کیمرے آن کرکے تنزوتیز لہجے میں سوالات کررہے ہیں، 5 سال کی کارکردگی کا حساب مانگ رہے ہیں جو ان سابقہ وزرا اور اراکین اسمبلی اور مستقبل کے امیدواروں کی نازک طبیعت پربہت گراں گزررہے ہیں۔
ان سابقہ منتخب نمایندوں سے اب عوامی سوالات کے جواب بھی نہیں بن پارہے کیونکہ 10 سال تو وہ سرکاری لگژری گاڑیوں اور ٹھنڈے سرکاری دفاتر اور ٹھنڈے ایوان بالا، زیریں اور صوبائی اسمبلیوں کے مزے لیتے رہے، ترقیاتی فنڈز کے نام پراقربا پروری کی انھوں نے کسی کو خبر نہیں ہونے دی، ترقیاتی فنڈز حلقے کے منصوبوں میں لگائے بھی یا نہیں یا اعلان کردہ منصوبوں کا صرف اعلان ہی ہوا اس سے آگے کچھ ہوا ہی نہیں اور سارے فنڈز اپنے ہی متوالوں اور ٹھیکیداروں میں بانٹ دیے کہ اگلے الیکشن میں انھوں نے ہی تو اسے پھر جتوانا بھی تو ہے، 5 سال تک وہ اپنی ہی دنیا میں مگن تھے جہاں مہینوں میں ایوان کے کسی اجلاس میں جانا پڑتا تھا اور وہاں بھی جاکر ٹھنڈے ایوانوں میں اونگتے رہتے تھے اب اتنی جلدی یہ 5 سال پورے کیسے ہوگئے؟
2018ء کا الیکشن سر پر آگیا اور ان کا خواب اچانک ٹوٹ گیا جیسے کسی کی پکی نیند ٹوٹتی ہے اور پھر وہ ہڑبھڑاکر اٹھ جاتا ہے گزشتہ 10 دنوں کے دوران سوشل میڈیا پر چلنے والی سابقہ منتخب وزرا اور اراکین اسمبلی کی اپنے حلقوں میں عوام کے ہاتھوں تذلیل اور بے عزتی کی وڈیوز ٹاپ ٹرینڈ رہی ہیں کس طرح اپنے سابقہ وزرا اور اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کو عوام نے حلقوں میں آڑے ہاتھوں لیا اور غرور اور گھمنڈ سے سرشار ان سابقہ وزرا اور اراکین اسمبلی کو عوام کی طرف سے کیے گئے تندو تیز سوالات اور کارکردگی پر استفسار انتہائی ناگوار گزرا وہ تو بھلا ہو ان اسمارٹ موبائل فونز کے کیمروں کا جن کی ریکارڈنگ کی بدولت یہ ''عوامی نمایندے'' سابقہ منتخب وزرا اور اراکین اسمبلی اور ووٹ کے دوبارہ امیدوار کچھ کر نہ سکے اور بے بسی کے عالم میں اپنی لگژری گاڑیوں میں غریب عوام کی دھتکار سننے پر مجبور تھے۔
کئی سیاسی امیدواروں سے مشتعل عوام کے سوالات کے جواب نہ بن پڑے تو ان ہی کو کوسنا شروع کردیا اور بیشتر نے تو اپنی ٹھنڈی لگژری گاڑیوں میں واپس بیٹھ کر حلقوں سے واپسی میں ہی عافیت جانی، ہمارے مین اسٹریم نیوز چینلز نے بھی مجبوراً ان وڈیوز کو اپنی خبروں میں کوریج دی۔لیکن اب سب کچھ عوام کے سامنے ہے اور کسی کو بھی پردوں میں چھپنے کی سہولت میسر نہیں اب جو بھی ہوگا اسمارٹ فون موبائل کیمرے کے سامنے ہوگا اب نہ کوئی ٹھپے لگاسکے گا اور نہ ہی پولنگ کا وقت ختم ہونے کے بعد انتخابی عملے اور سیاسی پارٹیوں کے ایجنٹوں کو پولنگ بوتھ سے باہر نکال کر چمتکار دکھاسکے گا۔
میرے خیال میں ملک کے اداروں، سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں کے لیے یہ ملک کے سب سے سخت اور مشکل ترین انتخابات ثابت ہونے والے ہیں جہاں کسی کو بھی پتہ نہیں چل رہا کہ الیکشن والے دن کیا نتیجہ آنے والا ہے، عوام طویل لوڈشیڈنگ، پانی کی قلت، تباہ حال سڑکوں، شعبہ تعلیم اور اسکولوں کی خستہ حالی،گلیوں میں صفائی نہ ہونے گندگی اور غلاظت ، صحت اور علاج کی سہولتیں نہ ملنے، نوجوانوںکو روزگار نہ ملنے سے شدید پریشانی اور اذیت سے دوچار ہیں اور اس پریشانی کا بدلہ لینے کا وقت 25 جولائی کو آرہا ہے دیکھنے کی بات یہ ہے کہ عوام اس بار جھوٹے وعدوں، قوم پرستی کا لبادہ اوڑے ان ضمیر فروشوں اور عوام کے حقوق غصب کرنے والے روٹی کپڑا اور مکان کی دہائی دینے والے کرپٹ امیدواروں اور تبدیلی کے نام پر اپنی تبدیلی کے لیے ووٹ مانگنے والوں کو دوبارہ ووٹ دیتے ہیں یا کسی باضمیر نمایندے کو منتخب کرتے ہیں جو ان کے مسائل کو حل نہ کرے لیکن کم سے کم ان کے لیے ان ایوانوں میں آواز تو اٹھائے، ہمارا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ جو طبقہ اشرافیہ ہم پر مسلط ہے۔
ان کی اصلیت تو آپ سب کو کاغذات نامزدگی میں اثاثے ظاہر کرنے سے ہی پتہ لگ گئی ہوگی کہ کوئی ایک بھی امیدوار غریب نہیں کسی ایک بھی امیدوار کا بینک بیلنس، پراپرٹی اور املاک کروڑوں سے کم نہیں اور کئی امیدواروں کی تو خانگی زندگی کے کئی راز بھی اس بار کاغذات نامزدگی میں سب پر عیاں ہوگئے ہیں جس سے ان کی گھریلو زندگی اجیرن ہوتی نظر آرہی ہے کئی کروڑ پتی اور ارب پتی امیدواروں نے خود کو قرض دار بھی ظاہر کیا ہے بتائیے یہ کیسی اشرافیہ ہے جو ایک طرف عوام کا خون چوس کر اتنی امیر ہوگئی کہ اثاثے سنبھالنے کے لیے انھیں منشیوں، اکاؤنٹینٹس اور منیجروں کے مشوروں کی ضرورت پڑتی ہے جو انھیں دولت صحیح جگہ ٹھکانے لگانے اور ٹیکس اور قانونی پکڑ سے بچنے کے مشورے دیتے ہیں بات اب پاکستانی بینکوں میں پڑی دولت سے بہت دور جاچکی ہے اب تو عوام کے نام سے عوام کی لوٹی گئی یہ دولت دبئی اور لندن کی ریئل اسٹیٹ اور پاناما کی شیل کمپنیوں اور سوئٹزرلینڈ کے بے نامی بینک اکاؤنٹس تک پہنچ چکی ہے اس سب کے باوجود سارے سیاسی جماعتوں کے انتخابی امیدوار عوام سے ہمدردی کا دم بھرتے نظر آرہے ہیں اور عوام کے مسائل دور کرنے کے نام پر ہی ووٹ مانگ رہے ہیں یہ عوام کے نام پر مزید اپنی زر کی ہوس مٹانا چاہتے ہیں کیا عوام سمجھتے نہیں کہ ان کی افلاس اور مسائل کا کس بھونڈے طریقے سے مذاق اڑایا جارہا ہے اور غریبی اور بنیادی مسائل کا نام لے کر یہ کرپٹ امیدوار منتخب ہونے کے بعد ان کا دوبارہ 5 سال تک استحصال کرتے رہیں گے اور حلقوں میں انھیں اپنی شکل بھی نہ دکھائیں گے ۔
لہٰذا عوام اپنے منتخب نمایندے کو ووٹ دینے سے قبل اس کی قابلیت جانچ لیں اس کے حسب نسب، اس کے کردار اور تعلیم پر غور کرلیں، حلقے میں اس کے بارے میں عوامی رائے ضرور دیکھ لیں کہیں ایسا نہ ہو کہ ووٹ دینے کے بعد پھر اسی منتخب رکن اسمبلی کو 5 سال تک برا بھلا کہتے گزرجائیں اور پھر کہتے رہیں کہ کیا اسی کام کے لیے اسے منتخب کیا تھا اور پھر آپ گلیوں، ڈھابوں اور چائے خانوں پر بیٹھ کر اس ملک کے نظام کو کوستے رہیں کہ یہ ٹھیک ہونے والا نہیں ٹھیک کیا خاک ہوگا جب آپ کو ووٹ کے ذریعے نظام ٹھیک کرنے کا موقع ملا تو آپ نے حلقے کے عوامی مسائل کے حل کے بجائے، قوم، برادری اور نظریات پر فیصلہ کرکے ووٹ دیا توایسی صورت میں منتخب نمایندہ آپ کے ساتھ جو بھی کرے اس پر آپ کو دل برداشتہ ہونے کی ضرورت نہیں، لہٰذا اس بار خوب سوچ سمجھ کر ووٹ دیں کیونکہ آپ کا منتخب کیا ہوا نمایندہ اب آپ کو 5 سال بعد ہی نظر آئے گا جب اگلا الیکشن لڑنے کے لیے اسے ووٹ کی پھر سے ضرورت ہوگی۔