جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
دنیائے ابلاغ کے ان کرتا دھرتاؤں کے ہٹلر بدلتے رہتے ہیں؛ کبھی سیاستدان، کبھی سرمایہ دار تو کبھی شمشیر بردار
FAISALABAD:
مرحوم مشتاق احمد یوسفی صاحب کے ایک قول میں ترمیم کا دل چاہ رہا ہے کہ ''نناوے فیصد صحافیوں کی وجہ سے باقی کے ایک فیصد بھی بدنام ہیں۔'' بیسویں صدی کے اوائل میں ایک طرف جنگ عظیم اول نے دنیا کے بخیے ادھیڑ دیئے تھے تو دوسری طرف ابلاغیات کی دنیا میں بھی ریڈیو اور ٹیلی ویژن انقلاب برپا کرنے کےلیے پر تول رہے تھے۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ اگلے بیس سال میں جنگ اور ریڈیو نے مل کر کشتوں کے پشتے لگا دیئے۔ ایک جادوئی باکس سے ابھرنے والی انسانی آواز نے میدان جنگ کی ہولناکیوں کے سامنے ڈٹے عزموں کو توڑنا شروع کیا، کہیں حوصلے ٹوٹتے گئے تو کہیں ہمتیں بڑھتی گئیں۔
ان سب کے پیچھے ایک شخص کا نام شدومد سے ابھرتا گیا: گوئبلز، جس کو پروپیگنڈے کا بانی کہا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا ذہین شخص تھا جس نے چند سال میں ہٹلر کے مخالفین کو نفسیاتی طور پر ریڈیو، پریس اور تھیٹر کے ذریعے توڑ کر رکھ دیا۔ جنگ عظیم دوم اختتام کو پہنچی تو دنیا دو دھڑوں میں بٹ گئی: مشرق و مغرب۔ ایک طرف فولادی پردے (آئرن کرٹن) میں سوویت یونین تھا جبکہ دوسری طرف سرمایہ دار یورپ۔ اس دورانیے کو سرد جنگ کا زمانہ کہا گیا۔
جنگ اب میدان سے ماوراء ہوائی لہروں پر ہونے لگی تھی۔ دونوں دھڑوں نے تیسری دنیا کے ممالک میں ریڈیو اسٹیشنز کے قیام کی دوڑ شروع کردی۔ مقامی زبانوں میں نشریات ہونے لگیں جن میں اپنی بڑائی، دوسرے کی برائی اور اپنی ثقافت کا پرچار ہونے لگا۔ معلومات کے بہاؤ کے بہانے تیسری دنیا کے ذہنوں میں جادوئی گولیاں ماری جانے لگیں۔
بات اب صرف کانوں تک محدود نہیں رہی بلکہ آنکھوں کو بھی مناظر دکھائے جانے لگے۔ ٹیلی ویژن آیا اور چھا گیا۔ جادوئی بکسا اب کسی باکس کی نظر ہوگیا کیونکہ اب جادوئی کھڑکی کھل چکی تھی جس سے خواب گاہ میں بھی باہر کی دنیا نظر آنے لگی تھی... اور پھر ابلاغیات کی دنیا کو پر لگ گئے۔ کیبل اور سٹیلائٹ سے اس کو نمو ملی اور کچھ عرصے میں انٹرنیٹ نے دنیا کو گلوبل ولیج بنا ڈالا۔ اب حال یہ ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں الیکٹرونک، پرنٹ اور سوشل میڈیا نے لوگوں کو ابلاغ کے سمندر میں ڈبو دیا ہے۔
لیکن اس سب کہانی میں مرکزی کردار کون ادا کر رہا ہے؟ جی ہاں! ابلاغیات کی اس دنیا کو چلانے والے، جنہیں عرف عام میں ہم صحافی کہتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر کسی ہٹلر کو اپنی خدمات سونپ چکے ہوتے ہیں اور گوئبلز کی طرح عوام کو جادوئی گولیاں کھلا رہے ہوتے ہیں۔
لیکن ان کے ہٹلر بدلتے رہتے ہیں؛ کبھی سیاستدان، کبھی سرمایہ دار تو کبھی شمشیر بردار۔ یہ معاشرے کو آئینہ دکھانا چھوڑ چکے ہیں، اب ان کے ہاتھ میں سرچ لائٹ ہوتی ہے اور یہ اس روشنی کو اپنے مطلوبہ زاویئے سے ڈال کر نہ صرف باقی چیزوں کو آپ کی نظر سے اوجھل کردیتے ہیں بلکہ اس روشن کردہ چیز کی تفصیلات میں بھی آپ کو الجھا کر رکھ دیتے ہیں۔ یہ آپ کو بتائیں گے کہ کیا سوچنا ہے، کس طرح سوچنا ہے اور کسے سوچنا ہے؛ اور مزے کی بات کہ آپ میں سے بیشتر وہ سوچنا بھی شروع کردیتے ہیں۔
اس سب کا مقصد کیا ہے؟ طاقت کا حصول، جو انسان کی ابدی خواہش رہی ہے۔ پاکستان میں بھی ان دنوں اقتدار کی رسہ کشی جاری ہے جسے الیکٹرونک، پرنٹ اور سوشل میڈیا پر بھرپور پذیرائی مل رہی ہے۔ الیکٹرونک اور پرنٹ میں تو گوئبلز کے جانشین ہی چھائے ہیں جبکہ سوشل میڈیا پر عوام بھی اس گھمسان کے رن میں شریک ہیں۔ تینوں میڈیا میں پروپیگنڈا زوروں پر ہے۔
پرانے زمانے میں کہاوت تھی کہ جب تک آنکھوں سے کسی چیز کو دیکھ نہ لو اس پر یقین نہ کرو، لیکن اس زمانے میں آنکھوں دیکھی چیزوں پر بھی یقین کرنے سے انسان لٹ سکتا ہے۔
شش جہات کی دنیا میں ایک رخ دیکھنے کے عادی عوام میں عقل و شعور کا استعمال کرکے کسی معاملے میں تمام جہات کو دیکھنے والے بہت کم لوگ ہیں؛ اس لیے سیاستدانوں اور صحافیوں سے درخواست ہے کہ لگے رہیں، عوام اب بھی چھوٹی ہی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
مرحوم مشتاق احمد یوسفی صاحب کے ایک قول میں ترمیم کا دل چاہ رہا ہے کہ ''نناوے فیصد صحافیوں کی وجہ سے باقی کے ایک فیصد بھی بدنام ہیں۔'' بیسویں صدی کے اوائل میں ایک طرف جنگ عظیم اول نے دنیا کے بخیے ادھیڑ دیئے تھے تو دوسری طرف ابلاغیات کی دنیا میں بھی ریڈیو اور ٹیلی ویژن انقلاب برپا کرنے کےلیے پر تول رہے تھے۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ اگلے بیس سال میں جنگ اور ریڈیو نے مل کر کشتوں کے پشتے لگا دیئے۔ ایک جادوئی باکس سے ابھرنے والی انسانی آواز نے میدان جنگ کی ہولناکیوں کے سامنے ڈٹے عزموں کو توڑنا شروع کیا، کہیں حوصلے ٹوٹتے گئے تو کہیں ہمتیں بڑھتی گئیں۔
ان سب کے پیچھے ایک شخص کا نام شدومد سے ابھرتا گیا: گوئبلز، جس کو پروپیگنڈے کا بانی کہا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا ذہین شخص تھا جس نے چند سال میں ہٹلر کے مخالفین کو نفسیاتی طور پر ریڈیو، پریس اور تھیٹر کے ذریعے توڑ کر رکھ دیا۔ جنگ عظیم دوم اختتام کو پہنچی تو دنیا دو دھڑوں میں بٹ گئی: مشرق و مغرب۔ ایک طرف فولادی پردے (آئرن کرٹن) میں سوویت یونین تھا جبکہ دوسری طرف سرمایہ دار یورپ۔ اس دورانیے کو سرد جنگ کا زمانہ کہا گیا۔
جنگ اب میدان سے ماوراء ہوائی لہروں پر ہونے لگی تھی۔ دونوں دھڑوں نے تیسری دنیا کے ممالک میں ریڈیو اسٹیشنز کے قیام کی دوڑ شروع کردی۔ مقامی زبانوں میں نشریات ہونے لگیں جن میں اپنی بڑائی، دوسرے کی برائی اور اپنی ثقافت کا پرچار ہونے لگا۔ معلومات کے بہاؤ کے بہانے تیسری دنیا کے ذہنوں میں جادوئی گولیاں ماری جانے لگیں۔
بات اب صرف کانوں تک محدود نہیں رہی بلکہ آنکھوں کو بھی مناظر دکھائے جانے لگے۔ ٹیلی ویژن آیا اور چھا گیا۔ جادوئی بکسا اب کسی باکس کی نظر ہوگیا کیونکہ اب جادوئی کھڑکی کھل چکی تھی جس سے خواب گاہ میں بھی باہر کی دنیا نظر آنے لگی تھی... اور پھر ابلاغیات کی دنیا کو پر لگ گئے۔ کیبل اور سٹیلائٹ سے اس کو نمو ملی اور کچھ عرصے میں انٹرنیٹ نے دنیا کو گلوبل ولیج بنا ڈالا۔ اب حال یہ ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں الیکٹرونک، پرنٹ اور سوشل میڈیا نے لوگوں کو ابلاغ کے سمندر میں ڈبو دیا ہے۔
لیکن اس سب کہانی میں مرکزی کردار کون ادا کر رہا ہے؟ جی ہاں! ابلاغیات کی اس دنیا کو چلانے والے، جنہیں عرف عام میں ہم صحافی کہتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر کسی ہٹلر کو اپنی خدمات سونپ چکے ہوتے ہیں اور گوئبلز کی طرح عوام کو جادوئی گولیاں کھلا رہے ہوتے ہیں۔
لیکن ان کے ہٹلر بدلتے رہتے ہیں؛ کبھی سیاستدان، کبھی سرمایہ دار تو کبھی شمشیر بردار۔ یہ معاشرے کو آئینہ دکھانا چھوڑ چکے ہیں، اب ان کے ہاتھ میں سرچ لائٹ ہوتی ہے اور یہ اس روشنی کو اپنے مطلوبہ زاویئے سے ڈال کر نہ صرف باقی چیزوں کو آپ کی نظر سے اوجھل کردیتے ہیں بلکہ اس روشن کردہ چیز کی تفصیلات میں بھی آپ کو الجھا کر رکھ دیتے ہیں۔ یہ آپ کو بتائیں گے کہ کیا سوچنا ہے، کس طرح سوچنا ہے اور کسے سوچنا ہے؛ اور مزے کی بات کہ آپ میں سے بیشتر وہ سوچنا بھی شروع کردیتے ہیں۔
اس سب کا مقصد کیا ہے؟ طاقت کا حصول، جو انسان کی ابدی خواہش رہی ہے۔ پاکستان میں بھی ان دنوں اقتدار کی رسہ کشی جاری ہے جسے الیکٹرونک، پرنٹ اور سوشل میڈیا پر بھرپور پذیرائی مل رہی ہے۔ الیکٹرونک اور پرنٹ میں تو گوئبلز کے جانشین ہی چھائے ہیں جبکہ سوشل میڈیا پر عوام بھی اس گھمسان کے رن میں شریک ہیں۔ تینوں میڈیا میں پروپیگنڈا زوروں پر ہے۔
پرانے زمانے میں کہاوت تھی کہ جب تک آنکھوں سے کسی چیز کو دیکھ نہ لو اس پر یقین نہ کرو، لیکن اس زمانے میں آنکھوں دیکھی چیزوں پر بھی یقین کرنے سے انسان لٹ سکتا ہے۔
شش جہات کی دنیا میں ایک رخ دیکھنے کے عادی عوام میں عقل و شعور کا استعمال کرکے کسی معاملے میں تمام جہات کو دیکھنے والے بہت کم لوگ ہیں؛ اس لیے سیاستدانوں اور صحافیوں سے درخواست ہے کہ لگے رہیں، عوام اب بھی چھوٹی ہی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔