ہر بلاول ہے دیس کا مقروض
حقیقت کی عینک سے دیکھا جائے تو پاکستان آج ہمیں ایک دوراہے پر کھڑا نظر آتا ہے۔
ISLAMABAD:
حال ہی میں بچوں سے جبری مشقت کے خلاف عالمی دن منایا گیا۔ ''چائلڈ لیبر'' کے حوالے سے دنیا میں 21 کروڑ 80 لاکھ بچے جبری محنت مزدوری میں مصروف ہیں، جن میں 15 کروڑ 20 لاکھ اسکول جانے سے قاصر اور بچپن کے ان قیمتی ایام میں غیر محفوظ ماحول میں مشقت کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آئے دن مزدوری کے مقامات پر بچوں کے ساتھ تشدد اور جنسی استحصال کے واقعات منظر عام پر آتے رہتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق اس وقت 7 کروڑ30 لاکھ بچے ایسے ماحول میں کام کر رہے ہیں، اس کے ساتھ یہ امر بھی تشویش ناک ہے کہ دنیا کے کل چائلڈ لیبر کا نصف 5 سے 11 سال کی عمر کے بچوں پر مشتمل ہے۔ وطن عزیز میں بھی محنت کش بچوں کی حالت کسی طور تسلی بخش نہیں کہی جاسکتی۔ کمزور معیشت، بڑھتی ہوئی مہنگائی، غربت اور بیروزگاری کے سبب بچوں کی آبادی کا 40 فیصد سے زائد مزدوری کی چکی میں پس رہا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ ملک میں تین برسوں کے دوران اسٹریٹ چلڈرنز کی تعداد 12 سے 15 لاکھ ہوگئی ہے، یہ بچے مختلف مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے ساتھ ساتھ چائلڈ لیبر کا بھی حصہ ہوتے ہیں۔
یہ ہمارا المیہ ہی ہے کہ سائنس و ترقی کے جدید دور میں بھی بچوں کو اس جبر سے نجات نہ دلائی جاسکی۔ بس ہمارا غریب طبقہ اپنے بچوں کے نام بلاول اور بینظیر رکھ کر ہی خوش ہوجاتا ہے اور انھیں اپنے مستقبل کا نجات دہندہ سمجھنے لگتا ہے، حالانکہ برسوں پہلے اس حوالے سے حبیب جالبؔ نے یہ کہہ کر غریبوں کی خوش فہمی دور کردی تھی کہ:
ہر بلاول ہے دیس کا مقروض
پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے
یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ اس ملک میں موجود دو مضبوط عناصر، جاگیردارانہ نظام اور ناخواندگی کی موجودگی میں بھوک اور افلاس سے چھٹکارہ حاصل کرنا محض خواب و خیال ہی نظر آتا ہے۔ کیونکہ جاگیرداروں کے زیر اثر ہماری پارلیمنٹ تعلیم کو کبھی پروان نہیں چڑھنے دے گی کیونکہ اس سے جاگیردارانہ نظام کے وجود کو شدید خطرہ لاحق ہوسکتا ہے اور جب خواندگی (تعلیم) نہیں ہوگی تو غربت اپنا ڈیرہ جمائے رکھے گی۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں جاگیردارانہ نظام پوری آب و تاب سے پھل پھول رہا ہے، جب کہ دوسرے ممالک دیمک کی طرح ملک کو چاٹ جانے والے اس طبقے سے کب کا چھٹکارہ حاصل کرچکے ہیں۔
بھارت میں جواہر لال نہرو نے تقسیم ہند کے فوراً بعد ہی اس نظام کا خاتمہ زمینی اصلاحات کے نام پر کردیا تھا۔ حتیٰ کہ بنگلہ دیش نے پاکستان سے علیحدگی کے فوراً بعد اس نظام کو ختم کردیا تھا۔ لیکن پاکستان میں ان مضبوط جاگیردار حکمرانوں نے ایسے کسی نظام اور ایسے کسی قانون کو تشکیل ہی نہیں ہونے دیا جس سے ان کے مفادات کو ٹھیس پہنچتی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں آج تک حقیقی جمہوری نظام قائم ہی نہیں ہوسکا۔ یہاں تک کہ انھوں نے مقامی حکومتوں (بلدیاتی انتخابات) سے انکار کردیا تاکہ اختیارات نچلی سطح پر منتقل نہ ہوسکیں۔ (گزشتہ بلدیاتی انتخابات میں منتخب لوگ اختیار سے بے اختیار رہے سبھی کے علم میں ہے)۔
حقیقت کی عینک سے دیکھا جائے تو پاکستان آج ہمیں ایک دوراہے پر کھڑا نظر آتا ہے۔ پارلیمانی نظام جمہوریت سے بھی اس ملک کو نہ فائدہ پہنچا اور نہ فوجی حکومت اس کا حل ہے۔ برآمدات، قومی قرضے، صنعتی ترقی، غربت کی سطح، تعلیم، صحت، توانائی، پانی، بیروزگاری، دہشتگردی جیسے مسائل سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے جو سب کے سب یہ واضح کرتے ہیں کہ اس نظام حکومت سے صرف بدعنوان، بااثر افراد یا حکمرانوں ہی کو ہمیشہ فائدہ پہنچا ہے۔
بلاشبہ ہمارے ملک کے ادارے انتہائی قابل، بین الاقوامی ڈگری یافتہ کھلی آنکھوں والے اور کھلے ذہن والے لوگ چلا رہے ہیں مگر وہ کر وہی رہے ہیں جو گزشتہ 70 سال سے ہو رہا ہے۔ وہی ٹوٹتی بنتی اسمبلیاں، وہی احتساب، وہی بے وفا انتخابی گھوڑے، وہی راندہ درگاہ سیاسی جماعتیں اور وہی لاڈلے۔ حالیہ جانے والی حکومت جاتے جاتے ملک کو مزید 4 ارب ڈالر کا مقروض کر گئی۔ کتنے دکھ، المیے اور حیرت کی بات ہے کہ وطن عزیز پر حکمرانی کرنے والے تو اربوں کھربوں پتی ہیں لیکن ملک اور اس کے عوام مقروض اور کنگال۔
پاناما لیکس سے (ن) لیگ کے اثاثے کس طرح باطن سے ظاہر ہو گئے۔ دوسری طرف ملک کی دوسری بڑی جماعت پیپلز پارٹی کے بلاول بھٹو نے انتخابات کے لیے اپنے اثاثوں کی جو تفصیل دی ہے وہ بڑی ہی دلچسپ اور توجہ طلب ہے جس کے تحت زیادہ تر جائیدادوں کو تو دادا، نانا اور والدین کے تحفوں میں ظاہر کیا گیا اور زیادہ تر جائیدادوں کی ملکیت کوڑیوں کے مول ظاہر کی گئی ہے۔ مثال کے طور پر کلفٹن کراچی میں بلاول ہاؤس کی قیمت 30 لاکھ روپے ظاہر کی گئی ہے۔ (اس سادگی پر کون نہ مر جائے اے خدا)۔ ظاہری اثاثوں کے مطابق بلاول پاکستان اور بیرون ملک 2 درجن سے زائد جائیدادوں کے مالک ہیں۔ ان کے علاوہ 23 غیر منقولہ اثاثے جن میں شیئرز لندن اور دبئی کے بینک اکاؤنٹس شامل ہیں۔
بلاول کے اعلان کے مطابق ان کے پاس کوئی کار نہیں ہے۔ 12 لاکھ روپے مالیت کے ڈیفنس سیونگ سرٹیفکیٹ ہیں۔ 4 کروڑ90 لاکھ روپے نقد اور پانچ مختلف بینکوں میں 98 لاکھ، 39لاکھ، ایک لاکھ دو ہزار 566، ایک ہزار اور 33334 روپے کے اکاؤنٹس پر مشتمل ہیں۔ دبئی میں زیورات کے 10 سیٹ، 9 کف لنکس، 7 گھڑیاں اور لیپ ٹاپ۔ جب کہ پاکستان میں بلاول نے 25 لاکھ روپے مالیت کا فرنیچر اور دیگر ذاتی اشیا ظاہر کی ہیں، اس کے علاوہ 30 لاکھ روپے مالیت کا اسلحہ، 5 لاکھ روپے مالیت کا لیپ ٹاپ اور 17 لاکھ روپے کے موبائل فون اور پونے تین لاکھ روپے مالیت کے زرعی آلات بتائے گئے۔ بلاول بھٹو کے ظاہری اثاثوں کی مجموعی مالیت ڈیڑھ ارب روپے بتائی گئی ہے۔
ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں بالخصوص کراچی جیسے بڑے شہر پر عرصہ دراز سے حکومت کرتی جماعت کے ''بھائی'' کے اثاثوں کی تفصیل تو شاید صحیح طور پر اب کبھی سامنے نہ آسکے لہٰذا اس پر صبر کرتے ہوئے یہی پھر سے کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان سے زیادہ پاکستان کے سیاستدان مضبوط اور مستحکم ہیں۔ پاکستان برسہا برس سے اپنے عوام کے ساتھ قرضوں میں جکڑا دنیا کے سامنے بے بسی کی تصویر کی صورت میں سبھی کو دکھائی دے رہا ہے۔ چشم فلک نے قائد اعظم محمد علی جناح اور لیاقت علی خان و علامہ اقبال کے پاکستان کو اس حال میں دیکھنا تھا۔ واقعی کبھی کبھی منزل سے بہتر راستے لگتے ہیں۔
بانیان پاکستان یعنی ہمارے ملک کے حقیقی قومی ہیروز جنھوں نے اصولوں، ضابطوں اور ملک کے وقار کے راستے پر جیتے جی کسی کو اپنے سامنے کھڑے ہونے نہیں دیا۔ اس میں خدا کے کرم کے علاوہ ان کا اپنا کردار بھی تھا کیونکہ انھوں نے کبھی نہ منفی راستہ اختیار کیا اور نہ خود کو استعمال ہونے دیا، اپنے اور وطن عزیز کے فیصلے خود کیے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ تاریخ مردہ تہذیبوں اور ماضی کے سمندر میں غرق ہو جانے والی قوموں کی کتھا کہانی ہے۔ اس لیے ہمیں ضرورت نہیں کہ اسے اپنے تعلیمی نصاب میں شامل کریں۔ یہ ایک ایسا نکتہ نظر ہے جس نے ہمارے نوجوانوں سے سوچ کی وہ گہرائی چھین لی ہے جو ان پر خیال کے دروازے کھولتی ہے۔