اب کراچی کھلا شہر ہے
کراچی کو ڈر و خوف سے آزاد کرانے اور سب کے لیے ایک کھلا شہر بنانے میں دو تاریخوں کا اہم کردار ہے۔
اس وقت کراچی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بن چکا ہے۔ مقامی سیاسی پارٹیاں تو اپنی انتخابی تیاریوں میں مصروف ہیں ہی، اہم قومی سیاسی پارٹیوں نے بھی یہاں اپنے ڈیرے ڈال دیے ہیں، اب شہباز شریف اور عمران خان جسے پائے کے قومی رہنما بھی کراچی سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔
ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا مگر اب جو ہو رہا ہے اس کی وجہ صاف ہے کہ اب کراچی پہلے والا یرغمالی شہر نہیں رہا ہے۔ یہ اب سب کے لیے کھل چکا ہے، یہاں سے الیکشن میں حصہ لینے میں اب کسی کو کسی قسم کا ڈر نہیں ہے۔ لیکن پہلے ایسا نہیں ہوتا تھا، الیکشن لڑنا تو درکنار کوئی باہر کی پارٹی یہاں اپنا جلسہ بھی ایم کیو ایم کی اجازت کے بغیر نہیں کرسکتی تھی۔
کراچی کو ڈر و خوف سے آزاد کرانے اور سب کے لیے ایک کھلا شہر بنانے میں دو تاریخوں کا اہم کردار ہے، ایک مارچ 2016ء کو تین تاریخ اور پھر اسی سال اگست کی 22 تاریخ کو کبھی بھی نہیں بھلایا جاسکے گا۔ یہ دونوں دن کراچی ہی نہیں پورے سندھ کے لیے ہمیشہ انقلابی حیثیت کے حامل رہیں گے۔
تین مارچ 2016ء کو مصطفیٰ کمال اور انیس قائم خانی دبئی سے کراچی آئے اور یہاں پریس کانفرنس کرکے کراچی کو یرغمال بنانے والوں کو اچانک ہلاکر رکھ دیا۔ گو یہ وہ وقت تھا جب بغاوت کی سزا کم سے کم موت مقرر تھی، مگر وہ نہیں ڈرے اور پھر جو ان کے ساتھ جڑتے گئے وہ بھی نڈر ہوتے گئے اور پھر تو پورا شہر ہی خوف کے ماحول سے بڑی حد تک باہر آگیا، تاہم اب بھی کراچی میں لندن کے حکم کے بغیر پتا بھی نہیں ہل سکتا تھا، پھر ایسے میں 22 اگست کا سورج طلوع ہوا اور لندن سے پاکستان کے خلاف نعرہ کیا بلند ہوا کہ اس نے مہاجروں کو خواب غفلت سے بیدار کردیا، پھر پل بھر میں تیس برس کا سحر ٹوٹ گیا، اس دن مہاجروں پر ان کے خلاف چل رہی ساری سازشی کہانی کھل کر آشکار ہوگئی تھی، وہ روز روز کی ہڑتالوں اور بلاجواز قتل و غارت گری کی تہہ میں چھپی ''را'' کی سازشوں تک پہنچ چکے تھے۔ چنانچہ اب کراچی میں ''را'' سے ناتا رکھنے والوں کا دور ختم ہوچکا تھا۔
گزشتہ تیس سال میں مہاجروں کو جس طرح استعمال کیا گیا وہ اس پر نادم تھے، گو کہ اس میں ان کی تین نسلیں تباہ ہوچکی تھیں مگر انھیں اس سے کہیں زیادہ پاکستان کو نقصان پہنچنے کا غم تھا۔ انھیں پاکستان کو کسی قسم کی گزند پہنچنا کسی طرح گوارا نہیں تھا، وہ اپنے بزرگوں کی میراث پاکستان سے بے رخی کے مرتکب نہیں ہوسکتے۔ اب خدا کا شکر ہے کراچی ایک کھلا شہر ہے۔
پہلے کراچی صرف ایک سیاسی پارٹی کے رحم و کرم پر تھا، وہی پارٹی ہمیشہ فتح مند ہوتی رہی اور پھر حکومت میں شامل ہوتی رہی، عوام سمجھتے تھے کہ ان کے مسائل کی راہ نکالی جائے گی، انھیں مشکل حالات سے بریت حاصل ہوسکے گی، مگر ان کے حالات تو جوں کے توں ہی رہتے، البتہ کچھ رہنماؤں کے حالات میں تبدیلی ضرور آجاتی۔ وہ اپنے پرانے رہائشی علاقوں سے ڈیفنس اور کلفٹن منتقل ہوجاتے۔ 22 اگست کے بعد ایم کیو ایم کی قیادت کا بوجھ فاروق ستار کے کاندھوں پر آگیا، ان کی اس وقت سب سے بڑی طاقت قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ممبران تھے جو بیک زبان ان کے ساتھ کھڑے تھے۔
یہ صورتحال لندن والوں کے لیے انتہائی باغیانہ اور ناقابل برداشت تھی، چنانچہ اعلان کیا گیا کہ تمام قومی اور صوبائی اسمبلی کے ممبران فوراً استعفیٰ دے دیں۔ کئی دنوں تک یہ وارننگ دی جاتی رہی، مگر ایک کے سوا کسی نے استعفیٰ نہیں دیا۔ تمام کے تمام ممبران اپنی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی رکنیت پر قائم رہے۔ ان سب کا یہ وہ انقلابی اقدام تھا جس کی اس سے پہلے کوئی نظیر نہیں ملتی۔ ان لوگوں کی اس استقامت سے یہ ہوا کہ اس دن سے وہ شخصی مینڈیٹ سے آزاد ہوگئے، البتہ اب صرف اور صرف ایم کیو ایم کا مینڈیٹ باقی رہ گیا۔
فاروق ستار نے 22 اگست کو جو فیصلہ کیا تھا وہ اس پر جمے رہے، انھیں بہت ڈرایا، دھمکایا گیا مگر وہ اپنے فیصلے پر اٹل رہے اور ایم کیو ایم کو چلاتے رہے، ایسے میں ایک ایسا شخص پارٹی کے اندر گھس آیا جو پہلے ہی کئی سیاسی پارٹیوں سے باہر کردیا گیا تھا، یہ نووارد ہرگز ایم کیو ایم میں داخل نہ ہوپاتا، اگر فاروق ستار کی اسے مدد حاصل نہ ہوتی۔ اس نو وارد کو کچھ ہی عرصے میں رابطہ کمیٹی کا ڈپٹی کنوینر پھر محمود آباد سے ضمنی الیکشن لڑایا گیا اور بعد میں سینیٹ کا ممبر بنانے کے لیے آگے لایا گیا۔
نووارد کی ضرورت سے زیادہ آؤ بھگت پارٹی کے پرانے ممبران کو ذرا نہ بھائی اور انھوں نے سرعام احتجاج شروع کردیا، مگر اس کا کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ اسی دوران فاروق ستار نے اپنے لیے مزید اختیارات کا مطالبہ کردیا، جسے پارٹی کے سینئر رہنماؤں نے رد کردیا، کیونکہ ان کے مطابق اس طرح وہ پارٹی کو پھر مطلق العنانی کے دور میں واپس لے جانا چاہتے تھے، اس کے بعد انھوں نے اپنی سرگرمیوں کو پی آئی بی تک محدود کرلیا اور بہادر آباد سے رشتہ توڑکر پارٹی میں نئی دھڑے بندی شروع کردی۔ بہادر آباد والوں نے بھی اپنا راستہ الگ کرلیا اور خالد مقبول صدیقی کو رابطہ کمیٹی کا کنوینر مقرر کردیا۔
فاروق ستار نے ان کی کنوینرشپ کو عدالت میں چیلنج کردیا مگر فیصلہ ایک بار نہیں بلکہ دو بار خالد مقبول صدیقی کے حق میں ہی آیا اور ساتھ ہی پتنگ کو بھی بہادر آباد والوں کے حوالے کردیا گیا۔ ایسے حالات میں فاروق ستار تنہا ہوکر رہ گئے۔ حالات پھر اس حد تک گمبھیر ہوگئے کہ ان کا اپنا الیکشن جیتنا مشکل نظر آنے لگا، اپنے مستقبل کو خطرے میں دیکھ کر بہادرآباد والوں کی اصولی شرائط کو انھیں تسلیم کرنا پڑا۔ اب حالات یہ ہیں کہ انھیں بہادرآباد والوں کی شرائط پر اپنی سیاست کو آگے بڑھانا ہوگا اور اب وہ اپنے لیے وسیع تر اختیارات کے حصول کا کبھی مطالبہ نہیں کرسکیںگے۔
خیر سے فاروق ستار تو ایم کیو ایم میں واپس آگئے مگر ان کی بلاجواز لڑائی سے ایم کیو ایم کو جو شدید نقصان پہنچا ہے اس کا کیا بنے گا، اس کی دھڑے بندی سے کتنے ہی ایم کیو ایم کے پرانے اور مستند رہنما ایم کیو ایم کو چھوڑ کر دوسری سیاسی پارٹیوں میں چلے گئے، اس سے سب سے زیادہ فائدہ پاک سرزمین پارٹی کو ہوا ہے جسے ایم کیو ایم کے مزمل قریشی جیسے اہم رہنما بھی اپنا چکے ہیں اور اب اس کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کا الیکشن لڑ رہے ہیں اور کہا جارہا ہے کہ وہ سرخرو ہوںگے۔
پی آئی بی اور بہادر آباد کی باہمی کشمکش کے نتیجے میں پارٹی کا مینڈیٹ تو بکھر ہی چکا ہے۔ حالات یہاں تک سنگین ہوگئے کہ الیکشن میں کھڑا کرنے کے لیے مناسب امیدواروں کے چناؤ میں سخت مشکل کا سامنا رہا، جب کہ دوسری طرف پی ایس پی میں امیدوارں کی لائنیں دیکھنے میں آئی ہیں، پی ایس پی میں عوام کی دلچسپی ایم کیو ایم کے لیے کافی مشکلات کھڑی کرسکتی ہے۔ ایسے مشکل اور اہم وقت میں نئی بغاوت بھی پھوٹ پڑی ہے، شاہد پاشا جو فاروق ستار کے بہادرآباد والوں سے ملنے کے سخت خلاف تھے، اب انھیں اپنے بعض نامناسب مطالبات کی وجہ سے بہادرآباد کی جانب سے پارٹی سے خارج کردیا گیا ہے۔
تازہ خبر کے مطابق وہ کامران ٹیسوری کے ساتھ مل کر ایم کیو ایم کا ایک نیا دھڑا کھڑا کررہے ہیں۔ بعض تجزیہ کار ان تمام حالات کی ذمے داری فاروق ستار پر ڈال رہے ہیں اور یہ بھی کہا جارہا ہے کہ انھوں نے جان بوجھ کر بہادر آباد والوں سے مصالحت کرنے میں دیر کی، جس سے ایم کیو ایم پاکستان کو الیکشن میں رسوا کرنے کی لندن کی بائیکاٹ کی پالیسی کو تقویت پہنچ سکتی ہے۔