عث کچے رنگ تتلیوں کے پروں کے…
بیٹیوں، بہنوں اور بیویوں کو اعتماد دیں، ان سے محبت کریں، ان پر بے جا سختی نہ کریں۔
اپنے علاقے کے قریبی مال میں بیٹی کے ساتھ گئی تھی، کچھ خاص خریدنا بھی نہ تھا مگر مال جاؤ تو بندہ تھوڑی دیر کے لیے گھوم پھر کر ذرا ریلیکس ہو جاتا ہے سو ہم ریلیکس ہونے کے لیے گھوم رہے تھے۔
ایک پیاری سی، دبلی پتلی اسمارٹ نوجوان لڑکی میری بیٹی کے پاس آئی اور اس سے کچھ کہنے لگی، جیسے کوئی کچھ مانگ رہا ہو... مجھے آواز نہ آ رہی تھی مگر اس کے انداز سے میں نے قیافہ لگایا، وہ اپنا فون میری بیٹی کی طرف بڑھا رہی تھی۔ مجھے لگا کہ وہ اس سے کچھ رقم مانگ رہی ہو گی اوراس کے بدلے اسے اپنا فون دینے کی پیشکش کر رہی ہو گی۔ بیٹی نے انکار میں سرہلایا اور وہ مایوسی سے چلی گئی۔ چند قدم چل کر میں نے بیٹی سے پوچھا کہ وہ کیا مانگ رہی تھی، اگر کوئی رقم مانگ رہی تھی تو کیا معلوم کہ وہ واقعی ضرورت مند ہو...
''نہیں ماما... وہ کوئی مانگنے والی نہیں تھی، مگر اس کا مطالبہ عجیب سا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ گھر سے کسی سہیلی کی بیماری کا بہانہ کر کے نکلی تھی اور یہاں مال میں آ گئی تھی، یہاں اسے کافی وقت ہو گیا ہے اور اب اس کے گھر سے اس کا بھائی کال کر رہا ہے اور وہ چاہ رہی تھی کہ میں اس کی کال وصول کروں اور اسے کہوں کہ ہاں تمہاری بہن میرے ساتھ ہی ہے!! '' بیٹی نے بتایا۔ میںنے مڑ کر اس بچی کو دیکھا، اس کی عمر اٹھارہ بیس برس کی ہو گی، اس نے لباس بھی اچھا پہن رکھا تھا اور ہلکا ہلکامیک اپ بھی کر رکھا تھا، با ل بھی اچھے سے بنا رکھے تھے۔ اب وہ ہمارے پیچھے آنے والے لوگوں میں سے ممکنہ ''اسامی'' ڈھونڈ رہی تھی۔
''آپ اس سے فون لے کر بات کر کے دیکھتیںبیٹا، اس کا بھائی ہوتا تو اس کو بتا دیتیں کہ وہ لڑکی خود بھی جھوٹ بول رہی تھی اور آپ کو اس جھوٹ میں شامل ہونے کو کہہ رہی تھی!!'' میںنے بیٹی سے کہا۔
''مجھے کیا ضرورت پڑی تھی ماما اس خواہ مخواہ کے جھگڑے میں فریق بننے کی!! '' بیٹی نے کہا۔
'' آ پ مجھے اسی وقت بتاتیںتومیں اس سے بات کرتی اور اس کے بھائی سے بھی، دونوں کو سمجھاتی۔ جانے یہ بے وقوف لڑکی کس کے کہے میں آ کر گھر سے جھوٹ بول کر نکلی ہے اور کسی طرح دھوکہ کھا جائے گی، میں اسے سمجھاتی کہ وہ ایسی کسی غلط راہ کا انتخاب نہ کرے... یہ راہ بڑی خار دار ہے۔ معصوم لڑکیاں گھاک شکاریوں کے جال میں پھنس جاتی ہیں، ان کے دل و دماغ نازک اور وجود تتلیوں جیسے ہوتے ہیں جن کے رنگ تتلیوں کے پروں کی طرح کچے ہوتے ہیں، ایک بار کسی کا سخت ہاتھ لگ جانے سے یہ رنگ چھوٹ جائیں تو کبھی لوٹ کر نہیں آتے!! ''
'' ہمیں کیا معلوم کہ کیا کہانی ہے اس کے اس جھوٹ کے پیچھے... '' بیٹی نے کہا۔
ایسی ہرکہانی کے کردار اور واقعات ہمیشہ ایک جیسے رہے ہیں، آدم و حوا سے لے کر آج تک شیطان بہکانے میں مصروف ہے اورانسان لاکھ سمجھدار ہو کبھی نہ کبھی جال میں پھنس ہی جاتا ہے۔ جب ایک ایسی پیاری اور نوجوان لڑکی جھوٹ بول کر اپنے گھر سے نکلتی ہے تو اس کے پیچھے عموما ایک بہکانے والا مرد ہوتا ہے... سہیلی نہیں۔ اگر سہیلی کے گھر کا کہہ کر گھر سے نکلے اور سہیلی ہی کے ساتھ اس کے گھر سے نکل کر کہیں اور چلی جائے تو بھی گھر والوں کے ساتھ یوں جھوٹ نہیں بولنا پڑتا، ایسا تبھی ہوتا ہے جب اس سارے قصے میں سہیلی کہیں نہیں ہوتی۔ اپنی بے وقوفی سے وہ اپنی معصومیت اور عزت کا جوہر گنوا بیٹھتی ہیں اور کوئی وقت آتا ہے کہ پکڑی جائیں تو باپوں اور بھائیوں کے ہاتھوں غیرت کے نام پر قتل ہو جاتی ہیں۔
ہم بہت قدیم زمانے کے نہیں مگر ہمارے گھر کا ایک اصول تھا کہ محلے کی دوستیاں محلے تک، اسکول کی اسکول تک اور کالج کی کالج تک۔ کسی کے ہاں اسکول اور کالج کے بعد جانے کی اجازت نہ ہوتی تھی اور نہ ہی اس بات کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی کہ کوئی سہیلی ہمارے ہاں آئے۔ بالخصوص اگر کسی سہیلی کا جوان بھائی ان کے گھر پر وہ یا اسے لانے اور لے جانے کی ڈیوٹی کرتا ہو۔ اگر کسی سہیلی کو ملنے کے لیے آنا ہے تو اپنی ماں کے ساتھ آئے اور ہمیں بھی کہیں جانے کی اجازت اس لیے نہ ہوتی تھی کہ ہمارے بھائی ہماری سہیلیوں کے گھروں کا راستہ نہ دیکھیں۔ اول تو یہ بات تھی ہی ناممکن کہ ہمیں کہیں جانے کی اجازت ہی مل جائے۔ ہماری نسل نے اپنے بچوں کی پرورش بھی ان ہی خطوط پر کی ہے مگر اب!!
آج کل تو چھوٹے چھوٹے بچوں سے لے کر جوان بچوں تک کو ٹیوشن، اسکول، کالج اور یونیورسٹی کے ٹرپ، گروہوںمیںمل بیٹھ کر پڑھنے کا نیا رواج، combined study دوسروں کے گھر میں پارٹیوں اور sleep over کے لیے بھیجتے وقت یہ نہیں سوچا جاتا کہ بچہ ماں باپ کے بغیر اور ان کی نظر سے اوجھل ہو گا۔ جہاں وہ جا رہا ہے وہاں جانے کون کون ہو گا، ملازم، رشتہ دار جنھیں ہم نہیں جانتے اور ان ہی میں سے کوئی نہ کوئی ایسا شیطان صفت بھی ہو گا جو ایسے مواقع پر شکار تاڑتا ہے۔
اس کے علاوہ جب بچہ نظر کے سامنے نہیں ہے تو جانے وہ دوسرے بچوں کے ساتھ مل کر ٹیلی وژن یا کمپیوٹر پرکیا دیکھے گا کیونکہ آج کا بچہ بے وقوفی کی حد تک میچور ہو گیا ہے۔ اس کے لیے کیا جاننا ضروری ہے اور کیا نہیں، اس کی حدیں اب ماں باپ نہیں بلکہ بچے سیٹ کرنا شروع ہو گئے ہیں۔
گھروں کے ماحول میں ضرورت سے زیادہ گھٹن ہونا، والدین کا اپنے بچوں پر شک کرنا، بڑ ے بہن بھائیوں کی طرف سے بے جا پابندیاں اور بچوںکی تعلیم اور تربیت میں اخلاقیات کا فقدان ہونا ایسے عوامل ہیں جو بچوںکو بالآخر بغاوت پر اکساتے ہیں۔ انھیں علم بھی نہیں ہوتا کہ جس راہ کو وہ پر کشش اور آسان سمجھ رہے ہیں اس پر کتنی کٹھنائیاں ہیں اور نہ صرف اس معاشرے بلکہ اللہ تعالی کی نظر میں بھی ایسی راہ ناپسندیدہ ہے۔ ایسا برا دور آ گیا ہے کہ لڑکیوں کے ساتھ ساتھ لڑکوں کی عزت بھی محفوظ نہیں رہی، کہیں بھی نہیں، گھروں کی چار دیواری میں بھی جانے کیا کیا ہو رہا ہے، محرم اور نا محرم رشتوں کی پہچان ختم ہو گئی ہے۔
مردوں کی بد فطرتی اس حد تک بڑھ چکی ہے جہاں پر ماضی میں قوموں پر عذاب نازل ہوتے رہے ہیں۔ یہ بد خصلتی صرف مردوں کی میراث ہے کہ انھیں عورت استعمال کی ایک جنس نظر آتی ہے، انھیں اس کی عظمت اور عزت کرنا نہیں آتا، اسے چھو کر اور داغدار کر کے ان کی جانے کن کن حسوں کی تسکین ہوتی ہے۔ عورت ازل سے اس معاملے میں بے وقوف ہے اور مرد کی ہوس کا شکار ہوتی آئی ہے... اس کے دلفریب وعدے اور مکر و فریب کے الفاظ اسے الجھا لیتے ہیں اور وہ اس کے دھوکے کو محبت سمجھ کر اپنے گھر والوں سے جھوٹ بولتی ہے تا وقتیکہ پانی سر سے اونچا ہوجائے۔
پیاری پیاری بیٹیو... پھولوں سی نازک اور کلیوں سی کومل بچیو!! تتلیوں جیسی لبھانے والی خوبصورتی کی مالک لڑکیو!! یقین کرو، جیسے بھی برے اور سخت گیر ہوں مگر تمہارے گھر کے مردوں کے علاوہ باہر کا کوئی مرد تمہیں غرض کے بغیر محبت نہیں کرے گا... وہ کبھی تمہارے ساتھ مخلص نہیں ہو گا اگر اس کی وجہ سے تمہیں اپنے باپ یا بھائی سے جھوٹ بولنا پڑے اور آج کل کے حالات میں تو میں کہوں گی کہ خاوند اور بیٹوں سے بھی غلط بیانی کرنا پڑے۔ کچی عمر کی کچے ذہنوں والی بچیاں تو بے وقوف ہوتی ہی ہیں مگر آج کل تو سفید چونڈوں والی، جوان اولادوں والی بھی اپنے گھر کے مردوں کو چھوڑ کر باہر کے مردوں کی چکنی چپڑی باتوںمیں آ جاتی ہیں اور اس فریب کا شکار ہو جاتی ہیں کہ شاید کوئی اور مرد ان کے غصیلے شوہر سے مختلف ہو گا!!
بیٹیوں، بہنوں اور بیویوں کو اعتماد دیں، ان سے محبت کریں، ان پر بے جا سختی نہ کریں... انھیں بچپن سے ہی سچ بولنا اور والدین کے ساتھ ہر بات شئیر کرنا سکھائیں، ان کے ساتھ کوئی غلط حرکت کرے تو فورا ماں باپ کو بتائیں، کبھی جو وہ بھٹک جائیں اوران سے کوئی بھول چوک ہو جائے تو انھیں معاف کردیں، سمجھائیں، غیرت کے نام پر قتل کرنے کی بجائے انھیں عزت سے جینے کا سبق سکھائیں۔ گھر کا ماحول ان کے لیے اس طرح سازگار رکھیں کہ گھر سے باہر خوشی ڈھونڈنے نہ نکلیں اور نہ ہی جذباتی سہاروں کی تلاش میں وہ اپنی عزت اور آبرو کا گوہر گنوا بیٹھیں۔