یہ بجلی کے بل

بلوں کا خوف ایسا ہے جو اس طرح ہر دل میں بیٹھتا جا رہا ہے جیسے کسی ڈاکو کا خوف۔


Abdul Qadir Hassan July 01, 2018
[email protected]

ان دنوں پورا ملک ایک بار پھر سرکاری دہشت گردی کا شکار ہے روز مرہ کے استعمال کی اشیا کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ پہلے پہل تو ہماری نگران حکومت نے اعلان کیاکہ پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کیا جائے گا لیکن چند دن کے بعد ہی یہ نگران حکمران بھی پرانے حکمرانوں کی روش پر چل نکلے اور تیل کی قیمتوں میں اتنا اضافہ کیا کہ عوام کی چیخیں نکل گئیں ابھی ان چیخوں کی آواز مدھم نہیں پڑی تھی کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کا جھٹکا لگا دیا گیا جس کی وجہ سے مختلف اشیا کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ دیکھنے میں آیا۔

عوام ابھی اس سے سنبھلنے بھی نہ پائے تھے کہ یکایک گیس کی قیمتوں میں تیس فیصد کا اضافہ کر دیا گیا جو کہ ایک بہت بڑا اضافہ ہے اور عوامی استعمال کی کسی بھی چیز میں اس قدر اضافہ پہلے دیکھنے میں نہیں آیا۔ نگران حکومت کا مطلب ہی یہ ہے کہ وہ انتخابات کا عمل مکمل ہونے تک حکومتی معاملات کی نگرانی کرے اور اہم فیصلے نئی آنے والی حکومت کے لیے چھوڑ دے لیکن شائد نگرانوں کو بھی یہ اندازہ ہو چکا ہے کہ بے بس عوام پر جس قدر بھی بوجھ لاد دیا جائے وہ اس کو برداشت کر جائیں گے اس لیے انھوں نے بھی عوام پر ظلم کرنے میں اپنا حصہ ڈالنا مناسب سمجھا اور آئے دن کسی نہ کسی چیز کی قیمت میں اضافہ سننے میں آرہا ہے۔

آج کل کے گرم موسم میں جب بجلی کے بل موصول ہوتے ہیں تو ان میں یکایک اضافہ دیکھنے میں آتا ہے حالانکہ اتنا استعمال نہیں بڑھتا جتنا بل بڑھ جاتے ہیں اور حکومت کی جانب سے جتنے بجلی کے یونٹوں پر رعایت دی گئی ہے اس سے زیادہ یونٹ ہر گھر میں استعمال ہوتے ہیں اور ہر مہینے ایک خوف لگا رہتا ہے کہ خدا جانے اس بار بجلی کا بل کتنا آئے گا ۔

محدود آمدنی والے متوسط طبقے کی اکثریت گرمیوں میں بجلی کے بلوں کا شکار بنتی ہے بجلی کے بل میں بجلی کی قیمت کے علاوہ ٹیکسوں کی بھر مار بھی ہے جس کو اب بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں نے علیحدہ لکھنا شروع کر دیا ہے تا کہ عوام کو بجلی کی اس قیمت اور ٹیکسوں کے بارے میں علم ہوتا رہے لیکن بل میں درج تمام رقم کی ادائیگی عوام نے ہی کرنی ہے ۔

بلوں کے بارے میں ایسا ہی ہے جیسے دکانداروں کے ہاں کسی چیز کی وہ قیمت نہیں ہوتی جو بازار میں ہونی چاہیے بلکہ وہ ہے جو اس کے منہ سے نکل جائے اسی طرح یہ بل بھی وہ نہیں جو کسی چیز کے استعمال کو سامنے رکھ کر لگائے جائیں بلکہ وہ ہیں جو بل بنانے والے لگا دیتے ہیں قطع نظر اس کے کہ آپ نے بجلی ، گیس ، پانی یا ٹیلی فون کتنا استعمال کیا ہے ۔میں ان شہریوں میں سے ہوں جو یہ بل ہر ماہ وصول کرتے ہیں اور ظاہر ہے کہ ادا بھی کرتے ہیں اور جب یہ بل ادا کر چکتے ہیں تو پھر مہینہ گزارنے کے لیے باقی کچھ نہیں بچتا یا جو کچھ بچتا ہے وہ اتنا کم ہوتا ہے کہ اسے دیکھ کر سرکار کو دعا ہی دی جا سکتی ہے۔

بجلی گیس پانی کوئی عیاشی نہیں زندگی کی بنیادی ضروریات ہیں جن کے بغیر گزر نہیں ہو سکتی۔ حکومت نے اس یقینی آمدنی پر عوام کا شکریہ ادا کرنے کے بجائے اسے مزید آمدنی کا ایک یقینی ذریعہ بنا لیا ہے اور تمام ضروریات کی قیمتوں اور نرخوں میں اضافہ کر دیا ہے ۔

یہ اضافہ غیر معمولی ہے اور اسے یقینا ان عالمی مالیاتی اداروں کے حکم پر کیا ہے جن کے سامنے غریب نہیں امیر ملک ہیں اور یہ جو امیر ملک ہیں وہاں کسی ضرورت زندگی کے نرخوں میں اضافہ کرنا کسی حکومت کے لیے بہت بڑی آزمائش سے گزرنا ہوتا ہے کیونکہ وہاں کے لوگ رعایا کے فرد نہیں ہوتے ملک کے آزاد شہری ہوتے ہیں اور احتجاج کرتے ہیں اور کوئی حکومت ان کے احتجاج کو رد نہیں کر سکتی۔ لیکن ہم غریب ملکوں کے لوگ رعایا میں شمار ہوتے ہیں اور ان کے احتجاج پر لاٹھی یا آنسو گیس تو چل سکتی ہے ان کے مطالبات کی قبولیت ممکن نہیں ہوتی ۔ چنانچہ ہماری حکومت نے عوام کی فلاح کے لیے ان پر ایسے ٹیکس لگا دیئے ہیں جنھیں وہ کسی افسر سے مل کر آدھا آدھا بانٹ بھی نہیں سکتے۔

ان ضروریات سے متعلقہ دفاتر میں خوف زدہ چہروں والے لوگوں کی بھی لمبی قطاریں لگی ہوتی ہیں جو بل ٹھیک کرانے کے لیے آتے ہیں ۔ کوئی سابقہ بل ساتھ لایا ہے اور کوئی اپنے میٹروں کی ریڈنگ پیش کر رہا ہے لیکن وہاں سے جواب ملتا ہے کہ پہلے بل جمع کراؤ پھر اگر اس میں کوئی زیادتی ہوئی ہے تو درخواست دیں ۔ دوسر ا جواب یہ ملتا ہے کہ یہ بل درست ہے اس کو ادا کریں ورنہ میٹر کاٹ دیا جائے گا اور پھر مزید ادائیگی کرنی پڑے گی۔

یہ بل ٹھیک کرانا ہر ایک کاکام نہیں اس کے لیے کم ازکم ایک دن چاہیے اور گھر میں کوئی بیروزگار نوجوان موجود نہیں تو پھر کسی کو چھٹی لے کر یہ کام کرنا پڑتا ہے ۔اگرچہ ایسی کوشش بے نتیجہ ثابت ہوتی ہے لیکن بل اس قدر زیادہ ہوتے ہیں کہ کوشش ناکام ہی سہی کرنی ضرور پڑتی ہے کہ دنیا امید پر قائم ہے۔

بلوں کی زیادتی کے لیے حکومت کے کارندے کئی حربے استعمال کرتے ہیں، ایک دفعہ اگر ریڈنگ نہ کی جائے تو اگلی دفعہ اکٹھی ریڈنگ کا بل گلے کی ہڈی بن جاتا ہے اگر میٹر ریڈر مہربان رہے تو اس ظلم سے بچا جا سکتا ہے ۔ میں کئی ایسے گھرانوں کو جانتا ہوں جو کہ بجلی کا استعمال انتہائی ضرورت کے تحت کرتے ہیں یعنی ان میں اتنی سکت ہی نہیں کہ فالتو بجلی استعمال کر کے اس کا بل ادا کر سکیں لیکن ان کے ساتھ بھی گرمیوںمیں ظلم روا رکھا جاتا ہے اور کئی ہزار روپے کے بل ان کو بجھوا کر ان کی بددعائیں لی جاتی ہیں۔

بلوں کا خوف ایسا ہے جو اس طرح ہر دل میں بیٹھتا جا رہا ہے جیسے کسی ڈاکو کا خوف اور بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ بل کسی ڈاکوکی طرف سے نہیں حکومت کی طر ف سے آتے ہیں جن کو یا تو آپ ادا کریں ورنہ بجلی پانی اور گیس وغیرہ کی بنیادی ضرورت سے محروم ہو جائیں ۔ فریاد کریں تو کس سے کریں ہمارے بااختیار حکمران ایسی زندگی گزار رہے ہیں کہ وہ لاکھ کوشش کے باوجود بل ادا نہ کر سکنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔