کچھ اِس کا علاج بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں
ملک اور قومی اداروں کے بارے میں چیف جسٹس جناب ثاقب نثار کے فیصلے نہایت مفید اور مستحسن ثابت ہو رہے ہیں۔
ابھی تو لندن میں نواز شریف ، راج دلاری اور مفرور ''صاحبزادگان'' کے لُوٹ مار سے بنائے گئے اربوں مالیت کے ایون فیلڈ نامی فلیٹس کا فیصلہ ہونا باقی ہے ، ابھی تو شریفوں کی بیرونِ ملک و اندرونِ ملک کھربوں کی جائیداد اور نقد رقوم کی ہوشربا داستانیں بازگشت پیدا کررہی تھیں کہ برطانوی اخبار''ڈیلی میل'' نے سابق نااہل وزیر اعظم نواز شریف پر تحقیق کا ایک نیا ''بم'' پھینک دیا ہے۔
انکشاف کیا گیا ہے کہ ایون فیلڈ فلیٹوں کے علاوہ بھی لندن میں نواز شریف، راج دلاری ، حسن نواز اور حسین نواز نے 38 ملین پونڈز کی پراپرٹیز بنا رکھی ہیں۔ یہ خبر سُن اور پڑھ کر اہلِ پاکستان کے ہوش اُڑ رہے ہیں اور وہ بجا طور پر کہہ رہے ہیں: یا خدایا،یہ خاندان پچھلے تین، ساڑھے تین عشروں تک پاکستان میں حکمرانی کے دَور میں کیا لُوٹ مار ہی کرتا رہا ہے؟ شریفوں کی نئی جائیدادوں کی گونج پاکستان سمیت پورے برطانیہ میں بھی گونج رہی ہے۔
یورپی معاشرہ بجا طور پر کہہ اور سوچ رہا ہے کہ یہ ہیں پاکستان ایسے انتہائی غریب ملک کے حکمران اور اُن کی آل اولاد جس پاکستان کے کمزور کندھوں پر 93ارب ڈالر کے غیر ملکی قرضے چڑھ چکے ہیں؟یہ ہوشربا خبر عین اُن لمحات میں سامنے آئی ہے جب سابق نااہل وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت اور پارٹی کی کرپشنوں کی بدولت پاکستان کو ایف اے ٹی ایف میں بلیک لسٹ میں شامل کرنے کی تیاریاں کی جارہی تھیں۔
شریف خاندان تو اقتدار سے نکل گیا ہے لیکن ان کی بدعنوانیوں کے کارن مصیبتیں پاکستان اور پاکستانیوں کو پڑ گئی ہیں۔ پاکستان کو معاشی جان کے لالے پڑے ہُوئے ہیں اور اُدھر لندن میں شریف خاندان کی بدعنوانیوں کی داستانوں کے چرچے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کے اگر کرتوت یہ ہیں تو پھر غیروںکو ہم سے ہمدردی کیوں ہو؟ کیسے ہو؟
راج دلاری نے لندن میں زیر لب فرمایا ہے :'' یہ جھوٹی خبر دانستہ اُس وقت شائع کی گئی ہے جب پاکستان میں الیکشن سر پر کھڑے ہیں۔ صاف نظر آرہا ہے کہ ہمیں سیاسی نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے۔''
پاکستان کے ایک نجی ٹی وی کے ایک مبصر نے جو شریفوں کی شرافتوں کے جعلی قصے بیان کرنے میں بڑی شہرت رکھتے ہیں، اِس خبر پر تبصرہ کرتے ہُوئے کہا ہے کہ ''لندن میں چونکہ عمران خان کے دستِ راست اور دوست زُلفی بخاری کے میڈیا سے گہرے تعلقات ہیں ، اسلیے محسوس یہی ہوتا ہے کہ ڈیلی میل کی یہ خبر اُنہی کی شرارت ہے۔'' یہ تبصرہ کرکے اپنی روٹی تو حلال کر لی گئی ہے لیکن کیا یہ مناسب نہیں تھا کہ اس انکشاف انگیز خبر میں شرارت اور سازش کا عنصر تلاش کرنے کے بجائے اخبار مذکور پر ہتک عزت کا دعویٰ کر دیا جاتا؟
لندن میں تو یہ کام آسان بھی ہے اور ہتک عزت دعوے کا فیصلہ جلد بھی ہوجاتا ہے۔ شریف برادران ، راج دلاری اور مفرور صاحبزادگان اگراُنہیں ''بدنام'' کرنے والے اخبار کے خلاف کسی برطانوی عدالت کے دروازے پر دستک دیتے تو دعویٰ بھی جیت سکتے ہیں اور ہرجانے میں کروڑوں پاؤنڈز کی رقم بھی پا سکتے ہیں۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ نااہل سابق وزیر اعظم اور اُن کی کھرب پتی آل اولاد ایسا ہر گز نہیں کرے گی۔ اِسی لیے تو اُن کی طرف سے مریل سی آواز میں یہ جواب آیا ہے:'' کسی مناسب فورم پر جلد ہی اِس خبر کا جواب دیا جارہا ہے۔''
ارے بھائی، کونسا فورم اور کونسا جواب ؟ سچی بات یہ ہے کہ سابق نااہل وزیر اعظم اور اُن کی آل اولاد کی کرپشنوں کی داستانوں نے ساری دنیا میں ملک کو بدنام کیا ہے ۔ لیکن حیرانی کی بات یہ ہے کہ اِس سب کے باوجود قوم ، ہمارے اداروں اور عدالتوں کے سامنے یہ اکڑ رہے ہیں۔ کیا شرم اور حیا نام کی کوئی شئے بھی دنیا میں پائی جاتی ہے کہ نہیں؟ڈھٹائی اور بے شرمی کا بھی کوئی حد سے گزرنا دیکھے۔
اب جب کہ وطنِ عزیز کے متعلقہ اداروں کی طرف سے یہ کہا گیا ہے کہ حسن نواز اور حسین نواز کو انٹرپول کے ذریعے گرفتار کرکے پاکستان لایا جائے گا تو نواز شریف کے مفرور بڑے صاحبزادے نے کہا ہے کہ'' نیب انٹرپول کے ذریعے جو کرنا چاہے، کر لے۔'' ذرا اکڑ تو ملاحظہ کیجئے۔ اِسے کہتے ہیں: ایک تو چوری اور اوپر سے سینہ زوری۔مفرور صاحبزادگان میں سے ایک نے یہ بھی کہا ہے کہ ''اب'' یہ جائیداد ہماری نہیں ہے۔ اِس تردیدی بیان میں لفظِ ''اب'' قابلِ غور ہے۔
پاکستان اور پاکستانیوں کا معاشی بیڑہ غرق کرنے والے سابق وزیر خزانہ اور نواز شریف کے سمدھی اسحق ڈار بھی لندن میں دندنا رہے ہیں۔ وہ پاکستانی عدالتوں کو مطلوب ہیں لیکن پیش نہیں ہو رہے۔ بہانہ بنا رکھا ہے دل کی بیماری کا ۔ ارے بابا، کونسی دل کی بیماری؟ یہ سمدھی صاحب تو ایک تازہ ویڈیو کلپ کے مطابق لندن میں ہٹے کٹے اور چاک و چوبند ہو کر بھاگتے دوڑتے نظر آرہے ہیں لیکن عدالتوں میں پیش ہوتے ہُوئے ان کی جان نکلتی ہے۔
جانتے ہیں کہ کئی کرپشنوں کے الزام میں دھر لیے جائیں گے اور جیل کی ہوا کھانا پڑے گی، اسی لیے حالتِ فرار میں لندن کی ٹھنڈی ہوائیں کھا پی رہے ہیں۔نگران وزیر قانون بیرسٹر علی ظفر نے گذشتہ روز یہ کہا تو ہے کہ اسحق ڈار کے خلاف ریڈ وارنٹ جاری کرنے کی کارروائی کا آغاز ہو چکا ہے لیکن مزہ تو تب ہے جب ان پر عمل بھی سامنے آئے۔ صرف اعلان کو عوام نے چاٹنا ہے؟
ہم سمجھتے ہیں کہ شریفوں اور اُن کے وابستگان کوجرائم میں سزائیں دینے کے بجائے ہمارے ادارے ان سے نرمی برت رہے ہیں۔ کیا کسی غریب کو ایسی ڈھِیل دئیے جانے کا سوچا بھی جا سکتا ہے؟ اِسی لیے تو پاکستان کے خاک نشینوں میں ریاست اور اداروں کے خلاف ناراضگی اور غصے کے جذبات پنپ رہے ہیں۔ اس سے پہلے کہ یہ غصہ آتش فشاں بن جائے، ہمارے متعلقہ اداروں پر لازم ہے کہ قومی مجرموں اور قوم کا پیسہ لُوٹنے والوں کو کیفرِ کردار تک پہنچا دیا جائے ، خواہ وہ دنیا کے کسی بھی خطے میں رہتے ہوں۔
اُن کی جائدادیں بھی بحقِ سرکار ضبط کرکے نئی مثالیں قائم کی جاسکتی ہیں۔ اگر ماضی قریب میں پاک بحریہ کے ایک سینیئر ترین کرپٹ اور مفرور افسر منصور الحق کو امریکا سے بلا کر اُس کے پیٹ سے کرپشن کا کروڑوں روپیہ نکالا جا سکتا تھا تو نواز شریف، راج دلاری اور مفرور ''صاحبزادگان'' کس باغ کی مولی ہیں؟ اُن سے محبت کی پینگیں کیوں بڑھائی جا رہی ہیں؟
عوام بجا طور پر استفسار کررہے ہیں کہ آیا شریفوں کی مبینہ اربوں کھربوں کی کرپشن کہانیاں بھی اُسی طرح داستانِ پارینہ بن جائیں گی جس طرح آصف علی زردار ی پر کروڑوں ، اربوں کی کرپشن کے الزامات لگائے گئے تھے؟ وہ سہولتوں بھری جیلوں میں گیارہ سال جیلوں میں تو رہے، بچے بھی پیدا کرتے رہے لیکن ہمارے اداروں کی غفلتوں، نالائقیوں اور کاہلیوں کی بدولت زرداری کو کسی کرپشن کے الزام میں سزا نہ ہو سکی اور نہ ہی بیرونِ ملک اُن کے لُوٹے گئے پیسوں کو واپس پاکستان لایا جا سکا۔
کہا گیا تھا کہ اُنہوں نے سوئٹزر لینڈ میں پاکستان سے لُوٹے گئے ساٹھ ملین ڈالرز رکھے ہیں، برطانیہ میںکروڑوں کا سرے محل خرید رکھا ہے اور فرانس میں بیش قیمت وِلّاز بھی اپنے نام کروا رکھے ہیں۔ آج یہ سب کہاں ہیں؟ کیوں نہیں سوئس بینکوں میں رکھے گئے اُن کے لُوٹ مار کے چھ کروڑ ڈالر واپس پاکستان لائے گئے؟ آج ہماری عدالتوں اور میڈیا میں ان کا ذکر کیوں نہیں ہوتا؟
کیا زرداری مطلق پاک اور مصفّا ہو چکے ہیں؟ ایسے ماحول میں مایوس پاکستانی غریب عوام پھر کیوں نہ اِس پس منظر میں یہ سوچیں کہ اگر آج شریفوں کی مبینہ کرپشنوں کے پیش منظر میں اُنہیں سزائیں نہ دی گئیں تو کیا یہ داستانیں بھی زرداری کی داستانوں کی طرح فراموش کر دی جائیں گی؟ اور ہم عوام بس ہاتھ ملتے رہ جائیں گے؟کیا پاکستان میں سزائیں اور جیلیں صرف تہی دستوں کا مقدر ہیں؟ہم سمجھتے ہیں کہ عزت مآب چیف جسٹس جناب میاں ثاقب نثار صاحب بظاہر ناممکن کو ممکن کر سکتے ہیں۔
پاکستان کے بیس کروڑ عوام نے سچے دل کے ساتھ اُن سے بلند توقعات لگا رکھی ہیں۔ چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب جس اخلاص اور تندہی کے ساتھ پاکستان کو درپیش پانی کے بحران سے نجات دلانے کے اقدامات کرتے نظر آرہے ہیں، اُنہوں نے کروڑوں اربوں روپے معاف کروانے والوں کا جس جرأتمندی سے تعاقب کررکھا ہے، ان سب کے پس منظر میں ہم یہ اُمید بھی رکھنے میں حق بجانب ہیں کہ قومی دولت لُوٹنے والوں کا ٹیٹوا بھی وہی دبا سکتے ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ نیب اور عدالتِ عظمیٰ متحد ہو کر قومی مجرموں کو قرار واقعی سزائیں دے کر قوم کے دل جیت سکتے ہیں۔ قوم تو اِن سزاؤں کی شدت سے منتظر ہے۔کرپٹ عناصر کو پسِ دیوارِزنداں دیکھنے کے لیے آنکھیں ترس گئی ہیں۔ انتخابات کے آس پاس تو بڑے مجرموں کے بارے میں کوئی اہم فیصلہ آجانا چاہیے تاکہ ملک بھر میں انصاف کا بول بالا ہو اور الیکشنوں کی شفافیت میں بھی اضافہ ہو سکے۔
نیب کی جانب سے صاف پانی سکینڈل کے مبینہ ملزم قمر الاسلام کی جرأتمندانہ گرفتاری بھی اِسی عمل کا ایک حصہ ہے۔ جس کسی نے قوم اور ملک کا مال ہڑپ کیا ہے، بلا استثنا اُس پر ہاتھ ڈالا جانا چاہیے۔ قمر الاسلام کی گرفتاری پر لندن میں بیٹھے نواز شریف کو جو دلی تکلیف پہنچی ہے، اِسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مال پانی کہاں کہاں تقسیم ہُوا ہوگا۔حقیقت یہ ہے کہ قانون کا نفاذ سب کے لیے یکساں ہوتا اور مجرموں کو بروقت سزادئیے جانے کا عمل جاری رہتا تو نہ اِس خوبصورت اور پیارے ملک میں کرپشن جڑ پکڑتی اور نہ کبھی میرٹ کی مٹّی پلید ہوتی۔
قانون کی نظر میں سب برابر ہوتے اور ہمارے حکمران اگر بانیِ پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کے ارشادات کی روشنی ہی میں چلتے رہتے تو دنیا کی برادری میں ہمارا وقار بھی قائم رہتا اور ہماری قومی عزت بھی ان ہی بنیادوں پر استوار رہتی ۔ بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو سکا۔ حکمرانوں نے اپنے نجی مفادات کے حصول کے لیے اِس ملک کی بنیادوں میں پانی بھر دیا ۔ نتائج پوری قوم اور پورا ملک بھگت رہا ہے۔
ملک اور قومی اداروں کے بارے میں چیف جسٹس جناب ثاقب نثار کے فیصلے نہایت مفید اور مستحسن ثابت ہو رہے ہیں۔ جناب چیف جسٹس کے گزشتہ روز کے دو فیصلے تو نہایت ہی اہمیت کے حامل ہیں ۔ جیسا کہ وفاقی سیکریٹری اطلاعات جناب سردار احمد نواز سکھیرا کے تبادلے کی تنسیخ۔ عزت مآب میاں ثاقب نثار نے سکھیرا صاحب کے تبادلے کے احکامات کو ریورس کر کے اور انھیں دوبارہ سیکریٹری اطلاعات کے عہدے پر تعینات کر کے ایک قابلِ قدر اقدام کیا ہے۔
جناب سکھیرا نے سنجیدگی اور شائستگی سے پاکستان بھر کے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے جملہ مسائل جس دلجمعی اور دلچسپی سے حل کیے ہیں، وہ قابلِ قدر ہیں۔ نگران وزیر اطلاعات علی ظفر اور سیکریٹری اطلاعات سردار احمد نواز سکھیرا نے سی پی این ای کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے اسلام آباد کے اجلاس میں ہمارے دیرینہ مسائل کے حل کرنے کا اعلان کیا اور اسی روز نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا۔
ان کے اعلان کے مطابق اے بی سی سرٹیفکیٹ کی تجدیدی معیاد تین سال کر دی گئی ہے اور اخبارات و جرائد کی رجسٹریشن کی تجدیدی معیاد بھی پانچ سال کر دی گئی جب کہ اخبارات و جرائد کے لیے سرکاری اشتہارات کے نرخوں کو کنزیومر پرائز انڈکس (سی پی آئی) سے منسلک کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ عدالتِ عظمیٰ نے بھی میڈیا کے مسائل کے حل کے لیے مناسب ترین فورم کی تشکیل بھی دی۔
سکھیرا صاحب معزز عدالت کے احکامات کے تحت ہی یہ مسائل حل کر رہے تھے کہ اچانک اور غیرمتوقع طور پر ان کا تبادلہ کر دیا گیا۔ اطمینان بخش بات یہ ہے کہ چیف جسٹس صاحب نے اس تبادلے کا بروقت نوٹس لیا اور انھیں دوبارہ سیکریٹری اطلاعات تعینات کر دیا۔ اس موقع پر ہم اُمید کرتے ہیں کہ سکھیرا صاحب پہلے کی طرح میڈیا کو درپیش بقیہ سنگین مسائل کے حل کی جانب بھی خصوصی توجہ دیں گے۔ یہاں ہم یہ کہے بغیر بھی نہیں رہ سکتے کہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار صاحب نے محمد سلیم بیگ کے حق میں جو فیصلہ صادر فرمایا ہے' وہ بھی قابلِ تعریف ہے۔
سلیم بیگ کو سپریم کورٹ کے احکامات کے تحت ''پیمرا'' ایسے ممتاز، مشہور اور معتبر ادارے کا چیئرمین مقرر کیا گیا ہے۔ سلیم بیگ وزارتِ اطلاعات کے سینئر ترین، انتہائی تجربہ کار افسر ہیں۔ وہ پرنسپل انفارمیشن آفیسر بھی رہے۔ وہ اس سے قبل بھی ''پیمرا'' میں بطورِ ڈی جی اپنی ذہانتوں اور کمٹمنٹ کا لوہا منوا چکے ہیں۔ امید کی جاتی ہے کہ بطورِ چیئرمین ''پیمرا'' سلیم بیگ محنت اور کمٹمنٹ سے قابلِ قدر نقوش ثبت کر سکیں گے۔ اور اس ادارے کو آئیڈیل بنانے میں دن رات ایک کر دیں گے۔
ہم انھیں تجویز کریں گے کہ ''پیمرا'' کو اس بارے میں بھی عملی اقدامات کرنے چاہئیں کہ وہ سینئر صحافی اور ادارے جو نئے ریڈیو اور نئے ٹی وی کے لائسنس لینے کے خواہش مند ہوں، ان کے لیے آسانیاں پیدا کی جائیں۔ نئے لائسنسوں کے حصول میں مشکلات بھی دُور کی جائیں اور بھاری فیسوں کو آسان اور قابلِ برداشت بنانے کی کوششیں کریں۔ ہمیں امید ہے جناب محمد سلیم بیگ اس رُخ پر مسلسل سوچ و بچار کریں گے اور جلد ہی اس بارے میں کوئی ٹھوس اور قابلِ عمل لائحہ عمل پیش کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اوراس وقت تک نئے لائنس جاری کرنے کی کارروائی کا عمل روک دیں گے جب تک حتمی اصلاحات نافذ نہیں ہو جاتیں۔