پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ
پٹرول مصنوعات کی قیمتوں میں نیا اضافہ مہنگائی کے طوفان کو مہمیز کرنے کا باعث بنے گا۔
نگران حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ایک بار پھر اضافہ کر دیا۔ حکومتی اعلامیہ کے مطابق اوگرا کی جانب سے پٹرول کی قیمت میں 7.54 روپے،ہائی اسپیڈ ڈیزل 14روپے، مٹی کا تیل 3.36روپے اور لائٹ ڈیزل آئل 5.92روپے فی لٹر کے حساب سے مہنگا کرنے کی تجویز دی گئی تھی جس پرحکومت نے اوگرا کی تجویز کو منظور کر تے ہوئے قیمتوں میں اضافے کی منظوری دی ہے۔ اس طرح پٹرول کی نئی قیمت 99.5روپے فی لیٹر ہو گئی ہے۔
پٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں اضافے کا جواز پیش کرتے ہوئے سرکاری بیان میں کہا گیا کہ بین الاقوامی مارکیٹ کی قیمتوں میں اضافے اور روپے کی قدر میں کمی سے پیش آنے والے مشکل مالی حالات کے پیش نظر قیمتوں میں اضافہ کیا گیا۔
اس وقت پاکستان کو داخلی اور خارجی سطح پر بہت سے چیلنجز اور مشکلات درپیش ہیں جن سے نبرد آزما ہونے کے لیے وہ چومکھی لڑ رہا ہے' پاکستانی معیشت مشکل حالات سے دوچار ہے' ایک جانب قرضوں کا بوجھ اور ان کی ادائیگی کا مسئلہ عفریت بن چکا تو دوسری جانب درآمدات میں افزونی اور برآمدات میں کمی سے جنم لینے والا تجارتی خسارہ ملکی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کر رہا ہے۔ ان مسائل کے فوری حل کے لیے پاکستان کو اپنے زرمبادلہ کے ذخائر پر انحصار کرنا پڑا جو اسے زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کی صورت میں مہنگا پڑا۔
زرمبادلہ کے ذخائر میں تیزی سے ہونے والی اس کمی کو پورا کرنے کے لیے پاکستان کو اپنے دیرینہ دوست چین کی جانب ہاتھ بڑھانا پڑا جو پاکستان کو ایک ارب ڈالر کی امداد دے گا۔ پاکستان کو اپنے کمزور معاشی ڈھانچے کو سہارا دینے کے لیے غیرملکی قرضے لینا پڑ رہے جن میں روز بروز بڑی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان کی مشکلات میں ایک اور نیا اضافہ گرے لسٹ کی صورت میں سامنے آیا ہے۔
فرانس کے شہر پیرس میں ہونے والے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے اجلاس میں پاکستان کا نام گرے لسٹ میں رکھنے کا فیصلہ کیا گیا' اس کے بعد پاکستان کو بلیک لسٹ میں شامل کرنے کے خدشات جنم لینے لگے جس پر دفتر خارجہ کے ترجمان نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ کوئی نئی بات نہیں پہلے ہی بتا دیا تھا کہ پاکستان جون میں گرے لسٹ میں جائے گا' اس لسٹ میں رہتے ہوئے وہ ایکشن پلان پر عملدرآمد کریگا' اس حوالے سے اس کی پرفارمنس بہتر رہی تو گرے لسٹ سے اس کا نام نکل سکتا ہے ورنہ مشکل ہو سکتی ہے تاہم پاکستان کا نام بلیک لسٹ میں جانے کا کوئی امکان نہیں۔
عالمی سطح پر دہشت گردوں کی مالی معاونت اور منی لانڈرنگ کے الزامات کے حوالے سے پاکستان کا نام فروری میں گرے لسٹ میں ڈالا گیا تھا' اس سے پیشتر 2012ء سے 2015ء تک پاکستان تین سال تک گرے لسٹ میں شامل رہا لیکن اس کے باوجود اس کے دیگر ریاستوں اور یورپی یونین کے ساتھ تجارتی تعلقات قائم رہے۔
ایف اے ٹی ایف کے حالیہ اجلاس میں وزیر خزانہ شمشاد اختر نے بھرپور جنگ لڑتے ہوئے پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل ہونے سے بچانے کی کوشش کی لیکن امریکا' برطانیہ اور بھارت کی سازشیں رنگ لائیں' امریکا اور بھارت نے اس حوالے سے ترکی' سعودی عرب اور چین پر بھی دباؤ ڈالا کہ وہ پاکستان کی حمایت نہ کریں اور اسے گرے لسٹ میں شامل کرنے کے لیے ان کا ساتھ دیں۔ اگرچہ نگران حکومت کو اقتدار انتہائی مشکل دور میں ملا اور وہ ملکی مسائل کے حل کے لیے لانگ ٹرم فیصلے نہیں کر سکتی لیکن اسے معاشی مسائل کے حل کے لیے اور پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کرنے کی عالمی سازش کو ناکام بنانے کے لیے واضح موقف اپنانا ہو گا۔
17روز بعد پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ایک بار پھر ہونے والے اضافے سے ملکی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے' پٹرول کی قیمت میں اتار چڑھاؤ سے روز مرہ اشیا کے علاوہ دیگر ضروریات زندگی کی قیمتیں بھی متاثر ہوتی ہیں۔ اس وقت سبزیوں' پھلوں اور دیگر اجناس کی قیمتوں میں تیزی سے ہونے والی بڑھوتری سے عام آدمی پر معاشی دباؤ میں اضافہ ہو گیا ہے، خاص طور پر کم آمدنی والے طبقات کی حالت زار بہت بری ہے ۔
پٹرول مصنوعات کی قیمتوں میں نیا اضافہ مہنگائی کے طوفان کو مہمیز کرنے کا باعث بنے گا۔نگران حکومت ملکی معاشی مسائل کے لیے بہتر اقدامات کرے نہ کہ ایسے فیصلے کرے کہ ملکی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں۔ان فیصلوں کے اثرات اس حکومت کو بھی بھگتنے ہوں جو عام انتخابات کے بعد برسر اقتدار آئے گی۔
پٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں اضافے کا جواز پیش کرتے ہوئے سرکاری بیان میں کہا گیا کہ بین الاقوامی مارکیٹ کی قیمتوں میں اضافے اور روپے کی قدر میں کمی سے پیش آنے والے مشکل مالی حالات کے پیش نظر قیمتوں میں اضافہ کیا گیا۔
اس وقت پاکستان کو داخلی اور خارجی سطح پر بہت سے چیلنجز اور مشکلات درپیش ہیں جن سے نبرد آزما ہونے کے لیے وہ چومکھی لڑ رہا ہے' پاکستانی معیشت مشکل حالات سے دوچار ہے' ایک جانب قرضوں کا بوجھ اور ان کی ادائیگی کا مسئلہ عفریت بن چکا تو دوسری جانب درآمدات میں افزونی اور برآمدات میں کمی سے جنم لینے والا تجارتی خسارہ ملکی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کر رہا ہے۔ ان مسائل کے فوری حل کے لیے پاکستان کو اپنے زرمبادلہ کے ذخائر پر انحصار کرنا پڑا جو اسے زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کی صورت میں مہنگا پڑا۔
زرمبادلہ کے ذخائر میں تیزی سے ہونے والی اس کمی کو پورا کرنے کے لیے پاکستان کو اپنے دیرینہ دوست چین کی جانب ہاتھ بڑھانا پڑا جو پاکستان کو ایک ارب ڈالر کی امداد دے گا۔ پاکستان کو اپنے کمزور معاشی ڈھانچے کو سہارا دینے کے لیے غیرملکی قرضے لینا پڑ رہے جن میں روز بروز بڑی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان کی مشکلات میں ایک اور نیا اضافہ گرے لسٹ کی صورت میں سامنے آیا ہے۔
فرانس کے شہر پیرس میں ہونے والے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے اجلاس میں پاکستان کا نام گرے لسٹ میں رکھنے کا فیصلہ کیا گیا' اس کے بعد پاکستان کو بلیک لسٹ میں شامل کرنے کے خدشات جنم لینے لگے جس پر دفتر خارجہ کے ترجمان نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ کوئی نئی بات نہیں پہلے ہی بتا دیا تھا کہ پاکستان جون میں گرے لسٹ میں جائے گا' اس لسٹ میں رہتے ہوئے وہ ایکشن پلان پر عملدرآمد کریگا' اس حوالے سے اس کی پرفارمنس بہتر رہی تو گرے لسٹ سے اس کا نام نکل سکتا ہے ورنہ مشکل ہو سکتی ہے تاہم پاکستان کا نام بلیک لسٹ میں جانے کا کوئی امکان نہیں۔
عالمی سطح پر دہشت گردوں کی مالی معاونت اور منی لانڈرنگ کے الزامات کے حوالے سے پاکستان کا نام فروری میں گرے لسٹ میں ڈالا گیا تھا' اس سے پیشتر 2012ء سے 2015ء تک پاکستان تین سال تک گرے لسٹ میں شامل رہا لیکن اس کے باوجود اس کے دیگر ریاستوں اور یورپی یونین کے ساتھ تجارتی تعلقات قائم رہے۔
ایف اے ٹی ایف کے حالیہ اجلاس میں وزیر خزانہ شمشاد اختر نے بھرپور جنگ لڑتے ہوئے پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل ہونے سے بچانے کی کوشش کی لیکن امریکا' برطانیہ اور بھارت کی سازشیں رنگ لائیں' امریکا اور بھارت نے اس حوالے سے ترکی' سعودی عرب اور چین پر بھی دباؤ ڈالا کہ وہ پاکستان کی حمایت نہ کریں اور اسے گرے لسٹ میں شامل کرنے کے لیے ان کا ساتھ دیں۔ اگرچہ نگران حکومت کو اقتدار انتہائی مشکل دور میں ملا اور وہ ملکی مسائل کے حل کے لیے لانگ ٹرم فیصلے نہیں کر سکتی لیکن اسے معاشی مسائل کے حل کے لیے اور پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کرنے کی عالمی سازش کو ناکام بنانے کے لیے واضح موقف اپنانا ہو گا۔
17روز بعد پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ایک بار پھر ہونے والے اضافے سے ملکی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے' پٹرول کی قیمت میں اتار چڑھاؤ سے روز مرہ اشیا کے علاوہ دیگر ضروریات زندگی کی قیمتیں بھی متاثر ہوتی ہیں۔ اس وقت سبزیوں' پھلوں اور دیگر اجناس کی قیمتوں میں تیزی سے ہونے والی بڑھوتری سے عام آدمی پر معاشی دباؤ میں اضافہ ہو گیا ہے، خاص طور پر کم آمدنی والے طبقات کی حالت زار بہت بری ہے ۔
پٹرول مصنوعات کی قیمتوں میں نیا اضافہ مہنگائی کے طوفان کو مہمیز کرنے کا باعث بنے گا۔نگران حکومت ملکی معاشی مسائل کے لیے بہتر اقدامات کرے نہ کہ ایسے فیصلے کرے کہ ملکی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں۔ان فیصلوں کے اثرات اس حکومت کو بھی بھگتنے ہوں جو عام انتخابات کے بعد برسر اقتدار آئے گی۔