لاپتہ زندگیوں کے گم شدہ خواب

المیہ یہ ہے کہ لاپتا لوگوں کی بیٹیاں، بہنیں، مائیں اور ان کے ساتھ سول سوسائٹی کے افراد عرصے سے سراپا احتجاج ہیں۔

''وہ تو صبح آفس جانے کے لیے گھر سے نکلے تھے، راستے سے ہی گم ہوگئے۔ سنا ہے کہ ان کو ''ویگو'' گاڑی میں بٹھا کر لے گئے۔'' ایک بیٹی نے کہا۔

دوسری آواز: میرے بابا کتابیں چھاپتے تھے ۔

ایک اور آواز: میرے بابا اسکول میں پڑھاتے تھے۔

میرے بابا کتابوں کے تراجم کرتے تھے۔

کوئی آرٹسٹ ہے، کوئی ٹیچر ہے، کوئی رائٹر ہے، کوئی شاعر ہے۔ کئی لاپتہ زندگیوں کے نوحے اس کیمپ پر گونج رہے ہیں۔ لاپتہ زندگیوں کے گم شدہ خواب تلاش کرنے جو لڑکیوں کا قافلہ نکلا ہے وہ ملک کے سارے بڑے شہروں میں احتجاجی کیمپ لگا کر لاپتہ زندگیوں کا ماتم کر رہا ہے۔ یہ ہنستے بستے گھر جو آج ویران بن چکے ہیں۔ ہاں! ہم سب جانتے ہیں کہ جو ہمارا معاشرتی نظام ہے، اس میں ایک کمانے والا ہوتا ہے جو سارے کنبے کا خرچہ اٹھاتا ہے۔ جب ایک کمانے والا گھر سے اچانک گم ہوجائے تو سار خاندان بکھرنے لگتا ہے۔

ہر جرم کی سزا ہوتی ہے اور ہر مسئلے کا ایک حل بھی ہوتا ہے۔ جب ہم پر کوئی مصیبت آتی ہے تو ہمیں پتا ہوتا ہے کہ اس سے باہر نکلنے کا کوئی نہ کوئی راستہ ہوگا۔

بندہ بیمار ہوتا ہے تو اسپتال جاتا ہے۔ قانونی مسئلہ ہو تو وکیل کے پاس جاتے ہیں، کوئی چیز خریدنی ہو تو بازار کا رخ کیا جاتا ہے، بھوک لگے تو ہوٹل جاتے ہیں۔ لیکن لاپتا لوگوں کو ڈھونڈنے کہاں جائیں؟

بیٹی نہیں جانتی بابا کہاں ہے؟ بہن نہیں جانتی بھائی کہاں ہے؟ ماں کے لیے اپنے جگر گوشوں کو ڈھونڈنا ممکن نہیں۔ اب ہمارے روڈ راستے اور پریس کلب آباد ہیں، جہاں لاپتا زندگیوں کے گم شدہ خواب تلاش کرنے کے لیے عورتیں فلک شگاف نعرے لگا رہی ہیں۔ یہ لڑکیاں ڈیڑھ سال سے لانگ مارچ، احتجاج، بھوک ہڑتال کیے بیٹھی ہیں۔ ان کو نہیں معلوم کہ ان کے پیارے کہاں ہیں۔ پاکستان کا قانون اجازت دیتا ہے کہ ہر فرد اپنی رائے کا اظہار کرے۔ پاکستان کا قانون سیاسی وابستگی کی بھی اجازت دیتا ہے۔ پھر یہ 46 افراد جو پاکستان کے شہری ہیں، کہاں ہیں؟ 46 افراد وہ ہیں جن کے نام معلوم ہیں۔ سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔ لیکن ذرایع کہتے ہیں کہ 160 سے زیادہ افراد ہیں جوکہ مختلف جگہوں سے گم ہوچکے ہیں۔

المیہ یہ ہے کہ لاپتا لوگوں کی بیٹیاں، بہنیں، مائیں اور ان کے ساتھ سول سوسائٹی کے افراد عرصے سے سراپا احتجاج ہیں۔ رمضان کے مہینے میں ممبران کی اپیلیں جاری تھیں کہ عید پر ان کے پیاروں کو گھر بھیجا جائے۔ لیکن معلوم نہیں وہ زندہ بھی ہیں یا نہیں۔


پریس کلب حیدر آباد کے سامنے بیٹھی ہوئی ایک لڑکی کہتی ہے کہ تین عیدیں ان لوگوں نے پریس کلب کے سامنے احتجاج کرتے ہوئے گزاری ہیں۔ کبھی کبھی میڈیا پر یہ خبر بھی گردش کرتی ہے کہ عید پر جیل میں قیدیوں کی قید کی مدت میں کمی کی جاتی ہے اور ان کو آزاد کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ لوگ تو ایسے مجرم ہیں جن پر نہ کیس چلا ہے نہ یہ کورٹ میں پیش ہوئے ہیں۔ ایک مظاہرے میں ایک لڑکی نے کہا تھا کہ: ''ہمارے پیاروں کو ہمارے سامنے لاؤ، عدالتوں میں پیش کرو، اگر جرم ثابت ہو جائے تو بھلے ہمارے سامنے پھانسیاں لگاؤ۔ کوئی بتاؤ ہمیں کہ ہمارے پیارے مرگئے ہیں یا مار دیے گئے ہیں تو کم ازکم ہم ان کی آخری رسومات تو ادا کرلیں، کہیں کوئی دعا کرلیں یا ختم وغیرہ کروائیں۔''

یہ ان چاک گریباں، دریدہ دل لڑکیوں کی آہ و فغاں ہے جس سے ابھی تک نہ کوئی آسماں لرزا ہے نہ کسی ایوان کی دیواریں شق ہوتی ہیں۔ ہوا ہے تو یہ کہ عام انسان ان کے دکھوں پر خون کے آنسو روتے ہیں، نعرے لگاتے ہیں ۔۔۔۔ کو بازیاب کرو ۔۔۔۔۔ آزاد کرو!

لیکن جن کو نوٹس لینا چاہیے وہ نوٹس نہیں لیتے۔ حکومت کہتی ہے کہ اس کو نہیں معلوم کہ یہ لوگ کہاں گئے۔ یہ روتے بلکتے چیختے لوگ جو پاکستان کے شہری ہیں، یہ آخر کس سے پوچھیں؟

وزیر اعظم بے خبر، صدر بے خبر، سیاستدان بے خبر۔ پھر باخبر کون ہے؟ ذمے دار کون ہے؟ یہ جو انسانی حقوق کا علم لیے پھرتے ہیں، ان کے حقوق تو اس طرح گم ہیں کہ پتا ہی نہیں چلتا کہ شکایت کس سے کریں۔ ریاست، افراد کی زندگیوں کے تحفظ کی پابند ہوتی ہے اور افراد کو حق حاصل ہے کہ اپنی مرضی کی زندگی جیئیں۔ لیکن یہاں کچھ پتا نہیں چلتا کہ حقوق کی جنگ کہاں سے شروع ہوتی ہے اور کہاں ختم ہوتی ہے۔

ڈیڑھ سال سے زیادہ عرصہ ہوچکا ہے۔ چند لڑکیاں سندھ کے ہر بڑے شہر میں اپنے پیاروں کی تصاویر اور ناموں کی لسٹ لے کر فلک شگاف نعرے لگا رہی ہیں کہ ہمارے پیاروں کو واپس کرو۔ ہر پریس کلب کے آگے جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے دن رات گزار رہی ہیں، کوئی بتائے تو کہ کیا ہمارا معاشرہ اتنا محفوظ ہے کہ لڑکیاں 24 گھنٹے روڈ راستوں پر احتجاج کرتی رہیں اور کوئی مسئلہ نہ ہو۔ کراچی پریس کلب کے سامنے تو ایک لڑکی پر تشدد کرنے کی خبریں بھی سوشل میڈیا پر آئی تھیں۔ کچھ لڑکیوں نے اپنے والد کی بازیابی کے لیے کورٹ میں پٹیشن بھی کی ہوئی ہے۔ نیلم آریجو اپنے والد خادم حسین آریجو کے لیے کورٹ کے چکر لگا رہی ہے۔ اس کے والد فوڈ ڈپارٹمنٹ میں ملازم تھے۔ کئی لوگ سرکاری ملازم ہیں جوکہ اپنی روزی روٹی کی فکر میں لگے ہوئے تھے۔ ایسے لوگ جن کی نہ کوئی جائیداد ہے، نہ کوئی زمین ہے۔ ایسے لوگ جو اپنے اپنے خاندانوں کے واحد کفیل ہیں، وہ گم ہوگئے ہیں اور کوئی سوچتا ہی نہیں کہ ان کے گھر کا چولہا کیسے جلتا ہوگا؟ صرف انسانی حقوق کی بنیاد پر سوچا جائے تو کوئی بتائے کہ ان لوگوں کے بنیادی حقوق کہاں ہیں؟ ان لڑکیوں کو کسی کی پرواہ نہیں ہے۔

نہ معاشرتی رسموں رواجوں کی، نہ ان پر اٹھنے والی خراب نظروں کی، نہ کسی تشدد، نہ گرمی کی۔ یہ چلچلاتی دھوپ کے سائے میں بیٹھی ہیں۔ شاید نہیں جانتیں کہ اس ملک کا قانون تبدیل ہوچکا ہے، وہ تو اس حکومت سے انصاف مانگ رہی ہیں، قانون کے مطابق اپنے حقوق کا تحفظ مانگ رہی ہیں۔ وہ شاید نہیں جانتیں کہ اس ملک میں وہ راکھشس گھوم رہا ہے جوکہ روز رات کو زندہ لوگوں کو اٹھا کے لے جاتا تھا۔ وہ بری داستانوں کا دور لوٹ آیا ہے جن میں روز لوگ مرتے تھے، راکھشس کو روکنے والا کوئی نہیں تھا۔ راکھشس سے بچنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہوتا تھا کہ گھر کے دروازے زور سے بند کرکے سو جاؤ۔ کسی بھی آواز پہ دروازہ نہ کھولنا۔

سنو نیلم! سنو سندھو! سنو سورٹھ! سنو سسی! تم کس کو سنانے نکلی ہو، قوم ڈری ہوئی ہے، سب سہمے ہوئے ہیں، جو بولتا ہے وہ گم ہوتا ہے، جو باہر نکلے گا مار دیا جائے گا۔ پھر ہماری کون سنے گا؟ یہ اندھی جنگ ہے جس میں دشمن ہمارے سامنے نہیں ہے، نہ مارنے والے سامنے ہیں، نہ انصاف دینے والے سامنے ہیں، جہاں جینا جرم بن جائے وہاں انصاف کی بات کون کرے گا؟

ہم قانون کی بات کرتے ہیں کہ مجرموں سے قانون کے مطابق سلوک کیا جائے، لیکن قانون پر عملدرآمد کا فقدان ہے۔ شاید ہم نہیں جانتے کہ ملک کا قانون تبدیل ہوچکا ہے۔ اب ہم نہیں جانتے کہ ہم پر حکومت کس کی ہے؟ حکمران کون ہیں ؟ نگران کون ہیں؟ انسانی زندگیوں کے محافظ کون ہیں؟ ہم صرف یہ جانتے ہیں کہ آزاد سوچ جرم ہے، آزاد شعور جرم ہے، آزاد لفظ لکھنا جرم ہے، آزاد سچ جرم ہے، شاعری جرم ہے، مصوری جرم ہے، پڑھانا جرم ہے، زندگی جرم ہے۔

صرف سانس لو اور دروازے بند کرلو، جو آواز بلند کرے گا اندھیرے کا ''برمودہ ٹرائی اینگل ''اسے نگل لے گا، وہ لاپتہ ہوجائے گا۔
Load Next Story