میانمار کے فوجی جنرل زیر عتاب

ایک بدھسٹ خاتون کے ساتھ پیش آنے والے شادی اور مبینہ زیادتی کے واقعات نے فسادات کی آگ میں دھکیل دیا۔


توقیر چغتائی July 02, 2018

MULTAN: تیسری دنیا کے کچھ ممالک میں مارشل لا کے بعد سیاست دانوں کو جمہوریت کی بحالی کے لیے کڑے امتحان سے گزرنا پڑا اور کچھ ابھی تک اس امتحان سے گزر رہے ہیں۔ بہت ساروں کو جان کی قربانی دینا پڑی اور ان کا خاندان بھی دوسرے ممالک میں سیاسی پناہ حاصل کرنے پر مجبور ہوا۔ میانمار کی آزادی کے ہیرو آنگ سان کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا، جسے غیر ملکی طاقتوں سے نبرد آزمائی پر عوام نے تو اپنا ہیرو تسلیم کیا مگر آمریت پسندوں نے مخالف دھڑے کے ساتھ مل کر آزادی کی تکمیل سے چند ماہ قبل ہی انھیں قتل کردیا۔

ملک کی آزادی کے لیے طویل جدوجہد کرنے والے قومی ہیرو کے قتل کے بعد اس کا خاندان بھی بکھر گیا، مگر ہونہار بیٹی آنگ سان سوچی مقامی اسکول اور اس کے بعد دہلی سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد امریکا منتقل ہوگئی۔ آنگ سان سوچی جب اپنے ملک واپس لوٹی تو آمریتی ٹولہ پہلے سے زیادہ شدت سے اس کے ساتھ پنجہ آزمائی کے لیے تیار بیٹھا تھا۔ گھر کو قیدخانے میں تبدیل کردیا گیا لیکن آمریت کے خلاف جدوجہد تیز سے تیز تر ہوتی گئی، جس کے نتیجے میں انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کو میانمار کی طرف متوجہ ہونا پڑا۔

اسی دوران آنگ سان سوچی کو ''نوبل ایوارڈ'' کا حق دار قرار دیا گیا تو وہ دنیا بھر کے جمہوریت پسندوں کے لیے روشنی کا مینار بن کر سامنے آئی اور تیسری دنیا کا چھوٹا سا مگر تاریخی ملک میانمار دنیا بھر کے میڈیا کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ آنگ سان سوچی نے شاید یہ سوچ کر سکھ کا سانس لیا کہ دنیا بھر کی حمایت کے بعد وہ دن دور نہیں جب میانمار سے آمریت کا بوریا بستر گول ہو نے والا ہے، لیکن آدھی صدی سے فوجی آمریت کے چنگل میں پھنسے میانمار کو آزاد کروانا اتنا آسان کام نہیں تھا۔

جن ممالک میں طویل عرصے تک آمریت قائم رہے وہاں سیاسی، سماجی اور علمی اداروں کے بجائے دائیں بازو کے ادارے زیادہ مضبوط ہوتے چلے جاتے ہیں اور عوام کے ذہنوں میں یہ بات ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اب اس ملک کو آمرانہ نظام اور دائیں بازو کی پارٹیاں مل کر ہی سیاسی اور معاشی ترقی کی راہ پر گامزن کرسکتی ہیں۔

میانمار میں بھی یہی کچھ ہوا، جہاں آمریت تو اسی دن سے چلی آرہی تھی جس دن آنگ سان سوچی کے والد اور میانمار کے قوم پرست رہنما کو الیکشن میں واضح اکثریت حاصل کرنے کے باوجود برطانیہ سے طے شدہ آزادی سے پہلے ہی قتل کردیا گیا تھا، مگر جب آنگ سان سوچی اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد واپس لوٹیں تو انھیں بھی گرفتار کرکے نظر بند کردیا گیا۔ جو لوگ یہ امید کرنے لگے تھے کہ اب اس ملک کو آمریت سے نجات ملنے والی ہے انھیں اس بات کا علم نہیں تھا کہ آمریت کے طویل دور میں ''بدھ مت'' کے نام سے جس مذہبی پودے کو انتہاپسندی کے پانی سے سینچا جاتا رہا وہ اپنے روایتی اور پرامن چہرے کے بجائے ایک نئے اور بھیانک روپ کے ساتھ دنیا کے سامنے آنے والا ہے۔

1988میں آنگ سان سوچی کی ملک واپسی اور عوام کا شاندار استقبال اس بات کی ضمانت تھا کہ اب اس ملک میں جمہوریت کا خواب حقیقت کا روپ دھارنے والا ہے، مگر اس سے اگلے سال طویل مدت کے لیے انھیں اپنے گھر میں نظربند کردیا گیا۔ اپنی قید کے دوران انھوں نے مہاتما بدھ اور گاندھی کے خیالات کو مزید بہتر انداز سے سمجھنے کے لیے دوبارہ مطالعہ کیا اور یہ سمجھنے لگیں کہ عدم تشدد کا راستہ ہی انھیں اپنی منزل تک پہنچائے گا، جو ان کی خام خیالی تھی۔ ان کی تصوراتی منزل ان سے مزید دور ہوتی چلی گئی اور رہائی کے بعد جب انھوں نے ملک کی باگ ڈور سنبھالی تو جمہوریت پسندوں کے وہم و گمان بھی نہیں تھا کہ دنیا بھرکے لیے مشعل راہ کی حیثیت اختیار کرنیوالی خاتون کے خیالات میں اقتدار سنبھالنے کے بعد کتنی بڑی تبدیلی آنیوالی ہے۔

میانمار کی دھرتی پر دنیا کے بہت سارے ممالک کی طرح بدھ مت کے دو فرقے مہایان اور تھراویدا آباد ہیں۔ آنگ سان سوچی کا تعلق تھراویدا فرقے سے ہے اور اپنے والد کے برعکس ان کی زندگی پر بدھ مت کا زیادہ اثر ہے۔ ان کے اقتدار میں آنے سے قبل بھی میانمار کے مسلمانوں اور بدھسٹوں کے درمیان زمین کی ملکیت اور کاروبار کے سلسلے میں تنازعات پائے جاتے تھے، جنھیں ایک بدھسٹ خاتون کے ساتھ پیش آنے والے شادی اور مبینہ زیادتی کے واقعات نے فسادات کی آگ میں دھکیل دیا۔

ان فسادات کی وجہ سے سات لاکھ سے زائد روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے اور ان کی عزت و آبرو اور جان و مال پر حملوں کے بعد ہزاروں کی جان بھی چلی گئی۔ اس دوران آنگ سان سوچی نے جو مجرمانہ خاموشی اختیار کی اس کی وجہ سے دنیا بھر میں ان کے خلاف آوازیں بلند ہوئیں اور معاملہ یہاں تک پہنچا کہ ان سے ''نوبل انعام '' واپس لینے کا مطالبہ کیا جانے لگا۔

اس ہفتے کے دوران یورپی یونین نے میانمار کے پانچ فوجی جرنیلوں سمیت سات سرکردہ افسران پر انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں، روہنگیا مسلمانوں سے بدسلوکی اور خواتین کی آبروریزی کا الزام عائد کیا ہے اور ان کے اثاثے منجمد کرنے کے ساتھ سفری پابندیوں کا بھی اعلان کیا ہے، جسے اہم فیصلہ قرار دیا جا سکتا ہے، مگر فوجی جرنیلوں کے خلاف کارروائی کے اس اعلان کے ساتھ اگر کچھ بدھسٹ شدت پسندوں کی نقل و حرکت پر بھی پابندی عائد کی جاتی تو زیادہ بہتر نتائج سامنے آتے کہ اصل آگ تو ان ہی کی لگائی ہوئی ہے۔

میانمار کے اشین وارتو نامی بدھسٹ شدت پسند نے ہی تو میانمار میں 969 تنظیم کی بنیاد رکھی تھی اور سماجی رابطوں کے ذریعے مسلمانوں کے قتل عام اور لوٹ مار کو ہوا دی تھی۔ اسی قبیل کے شدت پسند بدھسٹ مذہبی رہنما سری لنکا اور تھائی لینڈ میں بھی سرگرم ہیں، جن کی نقل و حرکت پر پابندی عائد کرنے سے مذہبی شدت پسندی کو مزید کمزور کیا جاسکتا ہے۔

یاد رہے کہ یورپی یونین کے اس اعلان کے بعد انسانی حقوق کے بین الاقوامی ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی روہنگیا مسلمانوں کو ملک سے باہر دھکیلنے اور انسانیت کے خلاف جرائم کا الزام لگاتے ہوئے میانمار کے سینئر فوجی افسران کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں