یہ میاں مٹھو لوگ
ہم اپنے بڑے بڑے کارناموں کی بھی مناسب پبلسٹی نہ کرنے کی وجہ سے گمنام رہ جاتے ہیں۔
ایک خبر نے ہمیں پھر چونکا دیا بلکہ اتنا چونکا دیا کہ بہت سارے چونکہ، چنانچہ اور چناکہ پیدا ہو گئے ہیں۔ ان بہت سارے چونکوں، چنانچوں اور چنانکوں میں سب سے بڑا چونکا چنانچا اور چنانکا یہ ہے کہ لوگ کس کس طرح اپنی اپنی چھوٹی چھوٹی باتوں کو بڑا بڑا کر کے بنالیتے ہیں اور ہم اپنے بڑے بڑے کارناموں کی بھی مناسب پبلسٹی نہ کرنے کی وجہ سے گمنام رہ جاتے ہیں۔ ایک سیدھے شعر کو اُلٹا کرکے یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ
وہ '' آہ '' بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں ''نیک نام''
ہم قتل بھی کرتے ہیں تو ''چرچا'' نہیں ہوتا
اب یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ کسی شخص نے کپڑے دھونے کا ایک نیا طریقہ ایجاد کر لیا ہے۔ واشنگ مشین کی ''موٹر'' نکال کر وہ اسے سائیکل سے منسلک کر کے چلاتا ہے اورکپڑے دھونے کے ساتھ ساتھ ورزش بھی کرتا ہے۔
اس میں کوئی نئی بات ہے کیا؟ یہ بیک وقت دو کام کو تو ہمارے حسرتؔ موہانی بہت پہلے ایجاد کرچکے ہیں۔ وہ ادھر ''چیک'' پیس کر آٹا نکالتے ہیں اور ساتھ دل و جگر پیس کر شاعری بھی کرتے تھے۔ بلکہ اگر ایسی ایجادات کو شمار کیا جانے لگے تو ہماری خواتین میں بھی بہت بڑی بڑی موجدائیں مل جاتی ہیں۔ مثلاً چپل پہنتی بھی ہیں اور۔۔۔یا جھاڑو سے صفائی بھی کرتی ہیں اور ساتھ ہی اس کے کپڑے اتارے بغیر صاف بھی کرتی ہیں بلکہ گھر میں کم سے کم دس بیس یہی چیزیں ہوتی ہیں جن کا وہ دوہرا بلکہ تہرا استعمال کر لیتی ہیں۔
اب خواتین کی بات آگئی ہے اور ساتھ ہی دھلائی کی بھی تو اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے ہم نہایت فخریہ انداز میں انکشاف کرتے ہیں کہ سائیکل سے کپڑے دھونے میں کمال کیا ہے اور صرف دوہی تو کام ایک چیز سے لیے جاتے ہیں اور کیا ۔ لیکن یہاں آکر دیکھئے تو ہماری خواتین۔ اللہ نظر بد یا شوہر سے بچائے) صرف ایک چیز سے سوسو کام بھی لے سکتی ہیں،بلکہ لیتی رہتی ہے حالانکہ بظاہر یہ ''چیز'' کوئی خاص ''چیز'' نہیںایک دم ''ناچیز'' ہی ہے ''شوہر'' نام کی اس ''چیز'' کا ملٹی پرپز استعمال کسی کو معلوم نہیں سوائے کنواروں کے۔بلکہ ہماری تحقیق کے مطابق اس ''چیز'' کا ذکر اکثر استعارہ میں بھی ہوتا رہتا ہے مثلاً
سب کچھ خدا سے مانگ لیا تجھ کو مانگ کر
اٹھتے نہیں ہاتھ میرے اس دعا کے بعد
ایسی دنیا میں اور کونسی ''چیز'' بھلا ہو سکتی ہے سوائے اس ''چیز'' کے جو سراسر ''ناچیز'' ہوتے ہوئے بھی ''ہر چیز'' اپنے اندر رکھتا ہے ایک طرح سے اسے ''عمرو عیار'' کی زنبیل بھی کہہ سکتے ہیں بلکہ ہمارا تو خیال ہے جس پر ہم کسی دن تحقیق بھی کریں گے کہ ''عمرو عیار'' کوئی مرد نہیں بلکہ عورت بلکہ ''بیوی'' تھا۔ اور اس ''زنبیل'' کا اصلی جدی پشتی اور قانونی نام ''شوہر'' تھا ذرا اس کی کثیر الاستعمالی پر نظر ڈالیے۔ اُون درکار ہے تو اس سے کُتر لیجیے۔ انڈے چاہیں اسے بٹھا دیجیے، دودھ درکار ہے وہ تو اس کا خاص کام ہے، کھال چاہیے ابھی اتار لیجیے کپڑے دھلوانا ہیں، تو حاضر، برتن دھلوانا ہے تو ناظر، دوڑانا ہے بٹھانا ہے بڑانا ہے نہانا ہے لتاڑنا ہے پیٹنا ہے دور جانے کی ضرورت ہی نہیں جو کچھ بھی چاہیے گھر میں ملتی پھرتی کھل جا سم سم موجود ہے لیکن ہمیں چونکہ اپنے منہ میاں مٹھو بننا نہیں آتا اورایک یہ بھی ہے کہ ہمارے پاس ان چھوٹی چھوٹی باتوں کے لیے نہ وقت نہ اہمیت، ہم تو بڑے بڑے کاموں میں مصروف ہیں۔ بقول خوشحال خان خٹک میری نگاہ بڑے بڑے شکاروں پر ہے یہ چھوٹے موٹے یہاں وہاں کے گھریلوں کام بھی بھلا کوئی کام ہیں
پیوں شراب اگر خم بھی دیکھ لوں دو چار
یہ شیشہ و قدح و کوزہ و سبو کیا ہے
جہاں تک کپڑے دھونے کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں سب سے پہلا نام چشم گل چشم عرف قہر خداوندی عرف سوائن فلو کا درج ہونا چاہیے۔
یہ اس دور جاہلیت کی بات ہے جب مردوئیے لوگ گھر کا سارا کام بچاری بیویوں سے لیتے تھے اور اکثر مارتے پیٹتے رہتے بھی تھے۔
لیکن پھر وہ انقلاب آیا جیسے مقامی لوگوں میں ''آپریشن ایمپاسیبل'' کہا جاتا ہے کیونکہ اس کے چاروں سالوں نے وہ کر دکھایا جو ہر گز ناممکن تھا۔
اس کے بعد اس کا مکمل ''کایا کلپ'' ہوگیا، اور بیویوں کی طرف داری میں اتنا آگے بڑھ گیا کہ لوگوں نے اسے اپنی بیوی کا بیوی کہنا شروع کیا باقی کایاکلپ'' تو یقینی تھا کیونکہ اس کے سالوں نے باری باری اپنے پیشوں کا استعمال کیا تھا بڑا جوقصائی تھا اس نے اسے ''ذبیحہ سمجھ کر ہاتھوں ہی سے ان تمام مراحل سے گزارا جو جانور پر ہانڈی تک گزرتے ہیں دوسرا نانبائی تھا اس نے اسے گوندھا پیڑے بنائے اور تندور میں لگایاتیسرے سے فٹ بال کی پریکٹس کرتے ہوئے دو چار درجن گول کروادیے اور تیسرے کرکٹر نے اس پر اپنی نصف سنچری مکمل کی۔ نتیجے میں وہ اندر باہر سے اتنا بدل گیا جیسے کوئی کرتا ہو جو الٹا یا گیا ہو
اس کا یہ قول زرین تو مقبول خاص و عوام ہے کہ میں بیشک بیوی سے مار کھاتا ہے کیونکہ میں جابر بیوی کے سامنے کلمہ حق بلند کرتا ہوں وہ لوگ کیوں مار کھائیں گے جو ''ہاں جی'' اور ''یس سر'' کے سوا اورکوئی لفظ بول نہیں سکتے ہیں ایک دن علامہ نے اسے طعنہ دیتے ہوئے کہا شرم نہیں آتی کہ تم بیوی کے ساتھ کپڑے دھوتے ہو تو بولا۔ کیوں شرماؤں جب وہ میرے ساتھ برتن دھوتی ہے کھانا پکاتی ہے تو کیا میں اتنا بے غیرت ہوں جو اس کے ساتھ کپڑے نہ دھوں اب آپ ہی بتائیے کہ ایسی زبر دست ایجاد کے سامنے اس بڑبولے شخص کی اوقات ہی کیا ہے جو سائیکل سے کپڑے دھوتا ہے خوامخواہ بات کا بتنگڑ بنا لیتے ہیں یہ لوگ ورنہ اپنے ہاں ایک سے بڑھ کر ایک موجد اور مجاہد پڑا ہوا ہے
بلکہ ہمیں تو شبہ ہے کہ اس سائیکل والے شخص کے ساتھ اس کی بیوی بالکل تعاون نہیں کرتی ہوگی اور اکیلے اکیلے کپڑے دھونے میں اسے تکلیف ہوتی ہوگی بلکہ شاید واشنگ مشین کی 'موٹر'' نے بھی ہاتھ کھڑے کر دیے ہوں گے اس لیے اس نے بچاری سائیکل کو اپنا مدد گار بنادیا کہ
آعند لیب مل کے کریں آہ و زاریاں
بلکہ صاف و صفائیاں
وہ آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں چرچے
ہم خود کشی کریں بھی تو چرچا نہیں ہوتا
وہ '' آہ '' بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں ''نیک نام''
ہم قتل بھی کرتے ہیں تو ''چرچا'' نہیں ہوتا
اب یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ کسی شخص نے کپڑے دھونے کا ایک نیا طریقہ ایجاد کر لیا ہے۔ واشنگ مشین کی ''موٹر'' نکال کر وہ اسے سائیکل سے منسلک کر کے چلاتا ہے اورکپڑے دھونے کے ساتھ ساتھ ورزش بھی کرتا ہے۔
اس میں کوئی نئی بات ہے کیا؟ یہ بیک وقت دو کام کو تو ہمارے حسرتؔ موہانی بہت پہلے ایجاد کرچکے ہیں۔ وہ ادھر ''چیک'' پیس کر آٹا نکالتے ہیں اور ساتھ دل و جگر پیس کر شاعری بھی کرتے تھے۔ بلکہ اگر ایسی ایجادات کو شمار کیا جانے لگے تو ہماری خواتین میں بھی بہت بڑی بڑی موجدائیں مل جاتی ہیں۔ مثلاً چپل پہنتی بھی ہیں اور۔۔۔یا جھاڑو سے صفائی بھی کرتی ہیں اور ساتھ ہی اس کے کپڑے اتارے بغیر صاف بھی کرتی ہیں بلکہ گھر میں کم سے کم دس بیس یہی چیزیں ہوتی ہیں جن کا وہ دوہرا بلکہ تہرا استعمال کر لیتی ہیں۔
اب خواتین کی بات آگئی ہے اور ساتھ ہی دھلائی کی بھی تو اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے ہم نہایت فخریہ انداز میں انکشاف کرتے ہیں کہ سائیکل سے کپڑے دھونے میں کمال کیا ہے اور صرف دوہی تو کام ایک چیز سے لیے جاتے ہیں اور کیا ۔ لیکن یہاں آکر دیکھئے تو ہماری خواتین۔ اللہ نظر بد یا شوہر سے بچائے) صرف ایک چیز سے سوسو کام بھی لے سکتی ہیں،بلکہ لیتی رہتی ہے حالانکہ بظاہر یہ ''چیز'' کوئی خاص ''چیز'' نہیںایک دم ''ناچیز'' ہی ہے ''شوہر'' نام کی اس ''چیز'' کا ملٹی پرپز استعمال کسی کو معلوم نہیں سوائے کنواروں کے۔بلکہ ہماری تحقیق کے مطابق اس ''چیز'' کا ذکر اکثر استعارہ میں بھی ہوتا رہتا ہے مثلاً
سب کچھ خدا سے مانگ لیا تجھ کو مانگ کر
اٹھتے نہیں ہاتھ میرے اس دعا کے بعد
ایسی دنیا میں اور کونسی ''چیز'' بھلا ہو سکتی ہے سوائے اس ''چیز'' کے جو سراسر ''ناچیز'' ہوتے ہوئے بھی ''ہر چیز'' اپنے اندر رکھتا ہے ایک طرح سے اسے ''عمرو عیار'' کی زنبیل بھی کہہ سکتے ہیں بلکہ ہمارا تو خیال ہے جس پر ہم کسی دن تحقیق بھی کریں گے کہ ''عمرو عیار'' کوئی مرد نہیں بلکہ عورت بلکہ ''بیوی'' تھا۔ اور اس ''زنبیل'' کا اصلی جدی پشتی اور قانونی نام ''شوہر'' تھا ذرا اس کی کثیر الاستعمالی پر نظر ڈالیے۔ اُون درکار ہے تو اس سے کُتر لیجیے۔ انڈے چاہیں اسے بٹھا دیجیے، دودھ درکار ہے وہ تو اس کا خاص کام ہے، کھال چاہیے ابھی اتار لیجیے کپڑے دھلوانا ہیں، تو حاضر، برتن دھلوانا ہے تو ناظر، دوڑانا ہے بٹھانا ہے بڑانا ہے نہانا ہے لتاڑنا ہے پیٹنا ہے دور جانے کی ضرورت ہی نہیں جو کچھ بھی چاہیے گھر میں ملتی پھرتی کھل جا سم سم موجود ہے لیکن ہمیں چونکہ اپنے منہ میاں مٹھو بننا نہیں آتا اورایک یہ بھی ہے کہ ہمارے پاس ان چھوٹی چھوٹی باتوں کے لیے نہ وقت نہ اہمیت، ہم تو بڑے بڑے کاموں میں مصروف ہیں۔ بقول خوشحال خان خٹک میری نگاہ بڑے بڑے شکاروں پر ہے یہ چھوٹے موٹے یہاں وہاں کے گھریلوں کام بھی بھلا کوئی کام ہیں
پیوں شراب اگر خم بھی دیکھ لوں دو چار
یہ شیشہ و قدح و کوزہ و سبو کیا ہے
جہاں تک کپڑے دھونے کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں سب سے پہلا نام چشم گل چشم عرف قہر خداوندی عرف سوائن فلو کا درج ہونا چاہیے۔
یہ اس دور جاہلیت کی بات ہے جب مردوئیے لوگ گھر کا سارا کام بچاری بیویوں سے لیتے تھے اور اکثر مارتے پیٹتے رہتے بھی تھے۔
لیکن پھر وہ انقلاب آیا جیسے مقامی لوگوں میں ''آپریشن ایمپاسیبل'' کہا جاتا ہے کیونکہ اس کے چاروں سالوں نے وہ کر دکھایا جو ہر گز ناممکن تھا۔
اس کے بعد اس کا مکمل ''کایا کلپ'' ہوگیا، اور بیویوں کی طرف داری میں اتنا آگے بڑھ گیا کہ لوگوں نے اسے اپنی بیوی کا بیوی کہنا شروع کیا باقی کایاکلپ'' تو یقینی تھا کیونکہ اس کے سالوں نے باری باری اپنے پیشوں کا استعمال کیا تھا بڑا جوقصائی تھا اس نے اسے ''ذبیحہ سمجھ کر ہاتھوں ہی سے ان تمام مراحل سے گزارا جو جانور پر ہانڈی تک گزرتے ہیں دوسرا نانبائی تھا اس نے اسے گوندھا پیڑے بنائے اور تندور میں لگایاتیسرے سے فٹ بال کی پریکٹس کرتے ہوئے دو چار درجن گول کروادیے اور تیسرے کرکٹر نے اس پر اپنی نصف سنچری مکمل کی۔ نتیجے میں وہ اندر باہر سے اتنا بدل گیا جیسے کوئی کرتا ہو جو الٹا یا گیا ہو
اس کا یہ قول زرین تو مقبول خاص و عوام ہے کہ میں بیشک بیوی سے مار کھاتا ہے کیونکہ میں جابر بیوی کے سامنے کلمہ حق بلند کرتا ہوں وہ لوگ کیوں مار کھائیں گے جو ''ہاں جی'' اور ''یس سر'' کے سوا اورکوئی لفظ بول نہیں سکتے ہیں ایک دن علامہ نے اسے طعنہ دیتے ہوئے کہا شرم نہیں آتی کہ تم بیوی کے ساتھ کپڑے دھوتے ہو تو بولا۔ کیوں شرماؤں جب وہ میرے ساتھ برتن دھوتی ہے کھانا پکاتی ہے تو کیا میں اتنا بے غیرت ہوں جو اس کے ساتھ کپڑے نہ دھوں اب آپ ہی بتائیے کہ ایسی زبر دست ایجاد کے سامنے اس بڑبولے شخص کی اوقات ہی کیا ہے جو سائیکل سے کپڑے دھوتا ہے خوامخواہ بات کا بتنگڑ بنا لیتے ہیں یہ لوگ ورنہ اپنے ہاں ایک سے بڑھ کر ایک موجد اور مجاہد پڑا ہوا ہے
بلکہ ہمیں تو شبہ ہے کہ اس سائیکل والے شخص کے ساتھ اس کی بیوی بالکل تعاون نہیں کرتی ہوگی اور اکیلے اکیلے کپڑے دھونے میں اسے تکلیف ہوتی ہوگی بلکہ شاید واشنگ مشین کی 'موٹر'' نے بھی ہاتھ کھڑے کر دیے ہوں گے اس لیے اس نے بچاری سائیکل کو اپنا مدد گار بنادیا کہ
آعند لیب مل کے کریں آہ و زاریاں
بلکہ صاف و صفائیاں
وہ آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں چرچے
ہم خود کشی کریں بھی تو چرچا نہیں ہوتا