انتخابی احتیاطیں اور حقائق

اصل مسئلہ یہ ہے کہ ووٹ عوام ڈالتے ہیں اور ہمارے سیاستدانوں نے عوام کو تقسیم کرکے اپنا مطیع بناکر رکھا ہے۔


Zaheer Akhter Bedari July 02, 2018
[email protected]

ہماری عبوری حکومت اور اہم ریاستی ادارے انتخابات کو شفاف اور منصفانہ بنانے کے لیے جو کوششیں کررہے ہیں ان میں سے ایک کوشش بیوروکریسی میں اکھاڑ پچھاڑ کی بھی ہے۔

میڈیا میں آنے والی خبروں کے مطابق پنجاب سے 48 افسروں کو وفاق واپس بھجوایا گیا ہے، سندھ کے 14 سیکریٹریز، 6 کمشنرز، 33 ڈی ایس پیز،2 ایڈیشنل آئی جیز، 14 ڈی آئی جیز اور متعدد ایس ایس پیز تبدیل کر دیے گئے ہیں۔ بلوچستان میں 3 سیکریٹریز، 6 کمشنر، 33 ڈی سیز کے تبادلے کردیے گئے ہیں، پنجاب میں 34 سیکریٹریز، 9 کمشنرز، 10 آر پی اوز، 4 سی پی اوز سمیت 113 ایس ایس پیز تبدیل کردیے گئے ہیں، ان تبدیلیوں سے جہاں یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ افسران غیر ذمے دار ہوسکتے ہیں وہیں یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ ہماری بیورو کریسی کس قدر ناقابل اعتبار سمجھی جارہی ہے۔

کسی بھی ''جمہوری ملک میں بیورو کریسی ریاست کی ریڑھ کی ہڈی سمجھی جاتی ہے، یہ صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں بلکہ دنیا کے جمہوری ملکوں میں یہی صورتحال ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اتنی بڑی تعداد میں بیوروکریٹس کو تبدیل کرنے سے منصفانہ الیکشن کی ضمانت مل جائے گی؟ جو بیوروکریٹس تبدیل کیے گئے ہیں وہ یقیناً پاکستان ہی کے دوسرے شہروں میں تعینات کیے جائیں گے۔

ان تبدیلیوں کی ایک وجہ یہ سمجھی جاتی ہے کہ ان بیوروکریٹس کی وفاداریاں صوبائی اور مرکزی سیاست دانوں یا حکمرانوں سے وابستہ ہوسکتی ہیں، جنھیں سیاست دان اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرسکتے ہیں، اس پس منظر میں یہ تبدیلیاں بامعنی تو نظر آتی ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا شفاف انتخابات میں صرف بیوروکریسی ہی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ اس حوالے سے پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بیورو کریسی پر عدم اعتماد کی وجہ کیا ہے؟

پاکستان کی پوری تاریخ اٹھاکر دیکھ لیں، بیورو کریسی ہمیشہ حکمرانوں کی تابعدار رہی ہے اور منہ زور بھی رہی ہے، تابعداری اس کی تربیت میں شامل ہے، کیونکہ اسے قانون کا تابعدار بننے نہیں دیا گیا بلکہ سیاست دانوں نے ذاتی مفادات کے لیے اسے اپنا تابعدار بناکر رکھا اور اس کے منہ زور ہونے کی وجہ بھی یہی ہے کہ اسے ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے، جن بیورو کریٹس کو تبدیل کیا گیا ہے ان کی جگہ لینے والے ناموں کے فرق کے ساتھ وہی اوصاف کے مالک ہوں گے، جو ہمارے جیسے جمہوری ملکوں کا لازمہ ہے۔ ان حقائق کے باوجود نگران حکمران قابل تعریف ہیں کہ وہ اپنے اختیارات کے مطابق الیکشن کو شفاف اور منصفانہ بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔

اصل مسئلہ یہ ہے کہ ووٹ عوام ڈالتے ہیں اور ہمارے سیاستدانوں نے عوام کو تقسیم کرکے اپنا مطیع بناکر رکھا ہے، آپ لاکھ تبدیلیاں کریں ووٹر کا ذہن تبدیل نہیں کرسکتے۔ ہمارے مہربان اور محب وطن سیاستدانوں نے عوام کو ایک قوم یعنی پاکستانی بننے دیا ہی نہیں، انھیں پنجابی، پٹھان، سندھی، مہاجر، بلوچی کے علاوہ سرائیکی، ہزارے وال، سنی، شیعہ، اہل حدیث وغیرہ بناکر مختلف خانوں میں اس طرح بانٹ کر رکھا ہے کہ ان کی حمایت یا ووٹ حاصل کرنے میں آسانی ہو۔

ہماری اجتماعی بد قسمتی یہ ہے کہ ہمارے ملک میں وہ سیاستدان نہیں رہے یا اگر ہیں تو نہ ہونے کے برابر جو عوام کو عوام رہنے دینا چاہتے ہیں، انھیں پنجابی، پٹھان، سندھی، بلوچ، شیعہ، سنی، اہلحدیث وغیرہ میں تقسیم نہیں ہونے دیتے، اس کلچر کے خاتمے کے لیے ایک انقلاب کی ضرورت ہے اور بدقسمتی سے انقلاب کو بچوں کے ہاتھوں کا جھنجھنا بناکر رکھ دیا گیا ہے۔ آج ہم ملک میں جو جو خرابیاں دیکھ رہے ہیں اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ تبدیلی لانے والے کم ظرفی کام ظاہرہ کررہے ہیں اور دوست دشمن کی تمیز کھو بیٹھے ہیں۔

پاکستان کی سیاست میں پنجاب کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ پنجاب ہمارے مجموعی آبادی کا لگ بھگ 63 فیصد حصہ ہے، یوں سیاسی توازن پنجاب کے ہاتھوں میں آگیا ہے، یہ کوئی بری بات نہیں کیونکہ پنجاب کے عوام بھی پاکستانی ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے انھیں پاکستانی رہنے نہیں دیا گیا بلکہ انھیں پنجابی بناکر رکھ دیا گیا اور اس تفریق کو مضبوط بنانے کے لیے ''جاگ پنجابی جاگ تیرے پگ نوں لگ گئی اگ'' جیسے متعصب نعروں میں گھسیٹا گیا۔ یہ ملک اور عوام دشمن کام، اگرچہ سیاستدانوں نے اپنے مفاد کے لیے کیا لیکن یہ بدبختانہ کام عوام کو اس طرح تقسیم کرگیا کہ ہماری نیشنل کمیونٹی پارہ پارہ ہوکر رہ گئی اور سیاستدان اس تقسیم کا بھرپور فائدہ اٹھاتے رہے۔ یہ تقسیم صرف پنجاب تک محدود نہیں رہی بلکہ سندھ، خیبرپختونخوا، بلوچستان تک پھیل گئی۔

پاکستان کی سیاست میں یہ تقسیم اس قدر گہری کردی گئی ہے کہ اسے بیورو کریٹس کی تبدیلیوں سے کم نہیں کیا جاسکتا۔ اگر 2018ء کے الیکشن کے نتائج پر غور کرنا ہو تو بیورو کریسی کی تبدیلیوں کے بجائے پاکستان کے عوام کے ذہن اور نظریات کو تبدیل کرنا پڑے گا۔ اور یہ کام نہ ڈنڈے سے ہوسکتا ہے نہ تقاریر دل پذیر سے ہوسکتا ہے، اس کے لیے ان طاقتوں کو آگے آنا پڑے گا جو پاکستان کے عوام کو پاکستان کے عوام بنانا چاہتے ہیں۔ انھیں سندھی، بلوچی، پنجابی، پٹھان، شیعہ، سنی وغیرہ نہیں بننے دینا چاہتے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 70 سال سے وہ لوگ کیوں برسر اقتدار نہ آسکے جو عوام کی کسی حوالے سے تقسیم کے خلاف ہیں اور وہی لوگ کیوں برسر اقتدار رہے ہیں جو عوام کو تقسیم کرکے رکھنا چاہتے ہیں؟ ہماری عبوری حکومت ہوسکتا ہے بڑی ایمانداری سے 25 جولائی کے انتخابات کو شفاف اور منصفانہ بنانا چاہتی ہو اور اس حوالے سے وہ بیورو کریسی میں اتنے بڑے پیمانے پر تبدیلیاں بھی کررہی ہے لیکن اصل مسئلہ عوام کا ہے محض دھاندلی سے انتخابی نتائج کو بدلا نہیں جاسکتا۔ اس کے باوجود عبوری حکومت کی کارروائیوں پر اعتراض نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن اصل مسئلہ ووٹر کا ہے؟ کیا ووٹر کا ذہن تبدیل کیا جاسکتا ہے جو انتخابات میں فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے؟ اس سوال کا تعلق محض انتخابات سے نہیں بلکہ ہمارے پورے سیاسی ڈھانچے اور اس کے ماتحت سیاستدانوں سے ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔