مہنگائی کا نیا طوفان کیسے تھمے گا

نگراں حکومت چند دن کی مہمان ہے جبکہ دوسری طرف بھیڑیئے ہیں جو بے بس عوام کو نوچ کھانے کےلیے تیار بیٹھے ہیں


اگر حکومت کو ایک جگہ سے ٹیکس لینے سے روکا جائے گا تو وہ کسی دوسری جگہ سے یہ کسر پوری کرلے گی جیسا کہ حالیہ دنوں میں حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کردیا۔ (فوٹو: فائل)

یہ گئے وقتوں کی بات ہے، کسی شہرکا قاضی مرغی لینے گیا۔ دکان بند کرنے کا وقت ہوچکا تھا، دکاندار ایک گاہک کی مرغی کاٹے اس کا انتظار کررہا تھا، قاضی صاحب نے فرمائش کی تو دکاندار گویا ہوا کہ وہ مرغی کے مالک کو کیا جواب دے گا؟ قاضی صاحب نے کہا کہ وہ مرغی کے مالک کو کہہ دے کہ مرغی اڑ گئی۔ (دکاندار کا اترا ہوا چہرہ دیکھتے ہوئے فرمایا) بات بڑھے گی تو معاملہ میرے پاس ہی آئے گا۔ پس دکاندار نے مرغی قاضی کو دے دی۔ کچھ ہی دیر میں مرغی کا اصل مالک آن پہنچا، مرغی طلب کرنے پر دکاندار نے بتایا کہ مرغی اڑ گئی ہے، وہ نہ مانا، جھگڑا کرنے لگا اور دکاندار کو پکڑ کر قاضی کے پاس چل دیا۔

راستے میں دو افراد جھگڑ رہے تھے، دکاندار بیچ بچاﺅ کرانے میں پڑا تو اس کی انگلی لڑنے والوں میں سے ایک شخص کی آنکھ میں لگ گئی (جو یہودی تھا) جس سے اس کی ایک آنکھ ضائع ہوگئی۔ سو وہ بھی اپنا یہ معاملہ لے کر قاضی کی طرف (انصاف لینے کےلیے) ساتھ ہی چل پڑا۔

دکاندار بہت پریشان تھا کہ مرغی کے معاملے میں تو قاضی اسے بچا لے گا مگر اس معاملے میں کیا ہوگا؟ دکاندار ہاتھ چھڑا کر بھاگا اور مسجد کے مینار پر چڑھ کر کھڑکی سے نیچے کود گیا۔ نیچے سے ایک بوڑھا شخص گزر رہا تھا، دکاندار اس پر گرا اور وہ بوڑھا شخص مرگیا۔ مرنے والے بوڑھے شخص کے بیٹے نے دکاندار کو پکڑ لیا، جب پتا چلا کہ اس دکاندار کو قاضی کے پاس پیش کرنے کےلیے لے جایا جارہا ہے تو وہ بھی (اپنے باپ کا قصاص لینے کےلیے) ساتھ ہولیا۔

معاملہ قاضی کی عدالت میں پہنچا تو سب سے پہلے مرغی والے شخص نے اپنا کیس پیش کیا کہ وہ مرغی ذبح کروا کر گیا تھا، اب دکاندار اسے کہہ رہا ہے کہ مرغی اڑ گئی بھلا مری ہوئی مرغی کیسے اڑ سکتی ہے؟ قاضی نے مدعی کو غصے سے دیکھا اور کہا کہ کیا مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے پر تمہارا ایمان نہیں؟ مدعی ڈر گیا کہ کہیں کفر کا فتوی ہی نہ لگ جائے۔ اس نے کہا کہ بالکل! میں مرنے کے بعد زندہ کیے جانے پر یقین رکھتا ہوں۔ قاضی نے جواب دیا کہ پھر تم مرغی کے زندہ ہونے پر کیوں یقین نہیں رکھتے؟ بیچارا کیا کرتا، قاضی کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنے کے سوا اور کوئی چارا بھی نہ تھا۔

اب قاضی کے پاس دوسرا مقدمہ تھا کہ دکاندار نے ایک یہودی کی آنکھ پھوڑ دی تھی؛ اور یہودی قصاص کا طلب گار تھا۔ (چونکہ یہودی کےلیے قصاص آدھا مقرر تھا) قاضی صاحب نے فیصلہ سنایا کہ دکاندار نے یہودی کی ایک آنکھ پھوڑی ہے، بدلے میں نصف قصاص دشوار ہوگا، بہتر ہے کہ دکاندار یہودی کی دوسری آنکھ بھی پھوڑ دے (تاکہ آسانی ہو) اور یہودی بدلے میں نصف قصاص یعنی دکاندار کی ایک آنکھ پھوڑے۔ فیصلہ سنتے ہی یہودی کی ہوا گم ہوگئی کہ اگر دوسری آنکھ بھی چلی گئی تو وہ کہیں کا نہیں رہے گا، سو اس نے اپنی جان بچانے کےلیے دکاندار کو معاف کردیا۔

تیسرے مقدمے میں بوڑھے کا بیٹا قاضی کے روبرو تھا۔ قاضی نے معاملہ سنا اور فیصلہ سنایا کہ دکاندار کو مسجد کے اسی مینار کے آگے کھڑا کردیا جائے (جہاں بوڑھا شخص دکاندار کے گرنے کی وجہ سے مرا تھا) اور مرنے والے بوڑھے کا بیٹا مینار کی اسی کھڑکی سے دکاندار پر چھلانگ لگائے اور اس کی جان لے کر اپنا قصاص وصول کرلے۔ بوڑھے کے بیٹے نے جواب دیا کہ قاضی صاحب اگر دکاندار ذرا ادھر ادھر ہوا تو اس کی اپنی جان چلی جائے گی۔ قاضی نے جواب دیا کہ تمہارا بوڑھا باپ بھی تو ادھر ادھر ہوسکتا تھا ناں؟

یہ گئے دنوں کی بات ہے جب بادشاہت ہوا کرتی تھی، قاضی ہوا کرتے تھے، اور پھر کسی ایک آدھ شعبے میں ایسا ہوتا ہوگا۔ موجودہ حالات میں تو ملک کا شاید ہی کوئی شعبہ زندگی ایسا بچا ہو جہاں صورتحال مذکورہ کہانی سے مختلف بلکہ زیادہ افسوسناک نہ ہو۔ انفرادی حیثیت سے لے کر اجتماعی اور نجی سے لے قومی سطح تک، اخلاقی ضوابط اور اصولوں سے لے کر ملکی آئین اور قانون تک کا جو تیا پانچا یہاں کیا جارہا ہے، دنیا میں ایسی مثال شاذ ہی ملتی ہو۔

موجودہ خوفناک اور مایوس کن صورتحال میں بھی عدالت عظمیٰ بالخصوص چیف جسٹس ثاقب نثار کے عزم نے پاکستانی عوام میں امید کی کرن روشن کردی ہے۔ گزشتہ دنوں چیف جسٹس صاحب کے موبائل فون کارڈ کے لوڈ پر عائد غیر منصفانہ ٹیکس معطل کرنے کے جرأت مندانہ فیصلے نے ملکی صورتحال سے بددل عوام کےلیے امنگ پیدا کردی ہے۔ عوام اب توقع کررہے ہیں کہ مستقبل میں بھی عدالتوں سے عوامی مفاد کے ایسے فیصلے آتے رہیں گے۔ عوام بجلی کی بے جا لوڈشیڈنگ اور پیٹرولیم مصنوعات پر عائد ٹیکسوں کے حوالے سے بھی عدالت عظمیٰ کے فیصلوں کے بے تابی سے منتظر ہیں کیونکہ موبائل فون پر عائد ٹیکسوں میں کمی سے عوام کو جو ریلیف ملا ہے، بجلی کی لوڈشیڈنگ اور پیٹرولیم مصنوعات پر عائد ٹیکسوں کے حوالے سے متوقع ریلیف کے مقابلے میں زیادہ اہمیت کا حامل نہیں کیونکہ بجلی عوام کی بنیادی ضرورت بن چکی ہے اور دوسری جانب یہ صنعتی پیداواری عمل میں خام مال کی حیثیت رکھتی ہے۔ صنعتوں کا پہیہ چلتا ہے تو مزدور کی زندگی کا پہیہ چلتا ہے، ملکی معیشت میں استحکام آتا ہے۔

بجلی کے نرخ کم اور لوڈشیڈنگ مقررہ اوقات میں کی جائے تو ذہنی اذیت سے نجات میں مدد مل سکتی ہے، جب کہ ڈسٹری بیوشن کمپنیوں میں جاری کرپشن کے حوالے سے خصوصی طور پر عوام کو فراہمی انصاف کی خاص ضرورت ہے اور اس تاثر کو زائل کرنے کی بھی کہ اربوں بلکہ کھربوں روپے کی کرپشن کرنے والے شعبے پر کوئی ہاتھ نہیں ڈال سکتا۔ حالانکہ یہی تاثر موبائل فون کمپنیوں سے متعلق بھی ہے، جہاں عوام میں یومیہ بنیادوں پر بیلنس چوری کی شکایت عام ہے۔ چونکہ بیلنس کی یہ چوری عام طور پر دس بیس پچاس سو روپے تک ہوتی ہے، اور اس کے ازالے کیلیے ملک میں کوئی طریقہ کار اور پلیٹ فارم بھی موجود نہیں، اس لیے اسے نظرانداز کردیا جاتا ہے مگر چودہ کروڑ صارفین کے ساتھ اس ناانصافی کے نتیجے میں موبائل فون کمپنیاں کروڑوں روپے یومیہ عوام سے بٹورتی ہیں۔

اگر کوئی اس حوالے سے ہیلپ لائن پر رابطہ کربھی لے تو موبائل فون کمپنیاں سے "آٹو رینیوئل" کے کھاتے میں ڈال دیتی ہیں اور پتا چلتا ہے کہ کئی ماہ یا کئی سال قبل صارف نے ایک پیکیج کروایا تھا اور چونکہ اسے منسوخ کرنے کا کوئی طریقہ کمپنی کی طرف سے بتایا ہی نہیں گیا تھا لہذا وہ منسوخ نہ کرسکا تھا اور اس غلطی کی پاداش میں وہ جب بھی بیلنس لوڈ کرتا ہے، دس بیس پچاس سو روپے فوری طور پر کاٹ لیے جاتے ہیں اور اسے اس حوالے سے مطلع بھی نہیں کیا جاتا۔ ایک اندازے کے مطابق اگر موبائل فون کمپنیاں چودہ کروڑ صارفین سے یومیہ اوسطا دس روپے کا فراڈ بھی کریں تو ایک ارب چالیس کروڑ روپے روزانہ بٹورلیتی ہیں اور یہی رقم سال بھر میں پانچ سو ارب روپے سے بھی زائد تک پہنچ جاتی ہے جو ملکی بجٹ کا دس فیصد ہے (دیگر فراڈ اور چوریاں اس کے علاوہ ہیں)۔ لہذا ٹیکسوں سے زیادہ اس حوالے سے اقدامات کی ضرورت ہے کیونکہ ٹیکسوں کا حصول ملکی معاملات چلانے کےلیے ضروری ہے، اگر حکومت کو ایک جگہ سے ٹیکس لینے سے روکا جائے گا تو وہ کسی دوسری جگہ سے یہ کسر پوری کرلے گی جیسا کہ حالیہ دنوں میں ہوا کہ حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کردیا۔

چیف جسٹس اس حوالے سے بھی پاکستانی عوام کےلیے ایک مسیحا کا کردار ادا کررہے ہیں اور حالیہ دنوں یہ مقدمہ بھی عدالت عظمیٰ میں زیرسماعت ہے۔ موبائل فون پر عائد ٹیکس کے اثرات اتنے وسیع نہیں جتنے پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی گیس وغیرہ کے ہیں کیونکہ یہ پیداواری یا خام مال کا درجہ رکھتی ہیں اور ان کی قیمتوں میں اضافے کے نتیجے میں مینوفیکچرنگ سے لے کر روزمرہ استعمال کی عام اشیا کی ترسیلی لاگت بڑھ جاتی ہے جس سے عام آدمی کے لیے گزر اوقات مشکل ہوجاتی ہے۔

اس لیے ضروری ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات بالخصوص پیٹرول، ڈیزل، فرنس آئل پر عائد ٹیکسوں کی شرح میں ممکن حد تک کمی لائی جائے۔ (اس تناظر میں خام تیل سے پیدا ہونے والی دیگر 600 اشیا سے متعلق معلومات بھی ضروری ہیں جن پر نہ تو ٹیکس کم کیے جاتے ہیں اور نہ ہی عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں کمی کے اثرات ان پر مرتب ہوتے ہیں، ان کا ذکر ہم آئندہ کبھی کریں گے۔) اگر ٹیکسوں کی وصولی ضروری ہی ہے تو ایسی اشیا کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے جن کے اثرات کا دائرہ کار وسیع نہ ہو جیسا کہ دودھ دہی، گوشت یا ایسی کسی شے پر ٹیکس لگاکر حکومت باآسانی پانچ سو ارب روپے سالانہ ٹیکس حاصل کرسکتی ہے۔ یقیناً اس کا اثر عام لوگوں پر پڑے گا مگر یہ صرف ایک شے تک محدود ہوگا کیونکہ یہ پیداواری یا خام شے نہیں۔ دیگر اشیا پر دودھ مہنگا ہونے سے اثر نہیں پڑے گا اور مجموعی طور پر عوام کو ریلیف ہی ملے گا۔ اسی طرح دیگر اشیا اور افراد بھی ہیں جنہیں ٹیکس نیٹ میں لاکر عوام پر مہنگائی کا بوجھ کم کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح ڈالر کی قدر میں اضافے کو روکنے کےلیے ٹھوس اقدامات بھی انتہائی ضروری ہیں جو عام آدمی کی زندگی پر بالواسطہ طورپر اثرانداز ہوتا ہے۔

پیداواری یا خام اشیا کی طرز کی مصنوعات پر ٹیکس کم کرنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ ان کے سستا ہونے سے پیداواری (مینوفیکچرنگ) سرگرمیاں بڑھ سکتی ہیں اور بین الاقوامی منڈیوں میں ان مصنوعات کی مسابقت آسان ہوسکتی ہے جس سے برآمدات میں اضافہ کرکے زرمبادلہ ذخائر کو مستحکم اور روپے کی قدر کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ سپریم کورٹ کو روپے کی گرتی ہوئی قدر کو سہارا دینے کےلیے بھی اقدامات کرنا ہوں گے کیونکہ فی الوقت ملک میں حکمرانی نام کی کوئی چیز موجود ہی نہیں۔

یقیناً نگراں حکمران چند دن کے مہمان ہیں، انہیں عوام کی فلاح سے کوئی غرض نہیں اور دوسری طرف بھیڑیئے بے بس عوام کو نوچ کھانے کےلیے ہمہ وقت تیار بیٹھے ہیں۔ اس وقت عوام کی نظریں صرف اور صرف سپریم کورٹ پرہیں۔ وہ چیف جسٹس کو ہی مسیحا سمجھتے ہیں، ان کا خیال ہے کہ چھوٹے موٹے اور طویل مدتی معاملات کے مقابلے میں ایسے مسائل کو ترجیح دی جائے جن کے نتائج فوری برآمد ہونے کے علاوہ جامع اور دیرپا ہوں تاکہ لوگ مہنگائی کے نئے طوفان سے کسی حد تک بچ سکیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں