بھارتی جاسوس سربجیت سنگھ دم توڑ گیا
پاکستان کی جیلوں میں قیدیوں کی حفاظت کے کے لیے انتظامات تسلی بخش نہیں ہیں۔
لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں قاتلانہ حملے میں زخمی ہونے والا بھارتی جاسوس سربجیت سنگھ جناح اسپتال میں بدھ کو دم توڑ گیا۔ اس کی میت اس کے لواحقین کے حوالے کر دی گئی ہے جسے ایک خصوصی طیارے پر بھارت بھیج دیا گیا ہے۔ سربجیت پر 26 اپریل کو جیل میں سزائے موت کے دو قیدیوں مدثر اور عامر تانبا سمیت چھ قیدیوں نے تشدد کر کے شدید زخمی کر دیا تھا جس پر اسے اسپتال منتقل کیا گیا۔
ڈاکٹروں نے اس کو انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں وینٹی لیٹر پر رکھا ہوا تھا۔ سربجیت کی جان بچانے کی سرتوڑ کوششیں کی گئیں مگر وہ جانبر نہ ہو سکا۔ سربجیت کی بہن دلبیرکور نے اس کے اہلخانہ کی جانب سے ایک درخواست پاکستانی حکام کو دی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ سربجیت کی حالت خطرے میں ہے 'اس کو علاج کے لیے بیرون ملک بھیجا جائے۔ پاکستان کا دفتر خارجہ اس درخواست پر سنجیدگی سے غور کر رہا تھا کہ وہ دم توڑ گیا۔ سربجیت کو 1990 میں لاہور اور فیصل آباد میں بم دھماکے کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا جن میں 14 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ وہ تب سے کوٹ لکھپت جیل میں قید تھا۔ 1991 میں اس کو سزائے موت سنا دی گئی تھی تاہم اس سزا پر دو بار عملدرآمد موخر کیا گیا۔
اس کی رہائی کے لیے حکومت پاکستان سے پانچ بار پٹیشن کی گئی۔ سربجیت سنگھ پر قیدیوں نے حملہ اس وقت کیا جب بھارت سے ایک جوڈیشل کمیشن کی پاکستان آنے کی اطلاعات مل رہی تھیں اور خیال تھا کہ یہ جوڈیشل کمیشن بھارتی جاسوس سربجیت سنگھ کی رہائی کے لیے کوشش کریگا۔ سربجیت کے اہلخانہ اگلے روز واپس بھارت گئے تھے۔ یہ بھی کہنا تھا کہ جیل میں غیر ملکی قیدیوں کی زندگی کا تحفظ حکومت پاکستان کی اولین ذمے داری ہے جس میں غفلت کا مظاہرہ کیا گیا۔
حکومت نے سربجیت پر حملے کے الزام میں جیل کے بعض افسروں اور اہلکاروں کو معطل کر کے انکوائری شروع کر دی تھی۔ اخبارات میں جیل ذرائع کے حوالے سے شائع ہونے والی معلومات کے مطابق جیل کی بیرک نمبر7 میں سربجیت سنگھ کا دو روز قبل مدثر اور عامر نامی دو قیدیوں سے جھگڑا ہوا تھا جوختم کرا دیا گیا تھا لیکن گزشتہ جمعہ اسے جب چہل قدمی کے لیے بیرک سے باہر نکالا گیا تو دوسری بیرک میں بند دونوں قیدیوں نے اچانک اس پر حملہ کر دیا، مزید 2 قیدیوں نے بھی حملہ آوروں کا ساتھ دیا جس سے وہ شدید زخمی ہو گیا۔
ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ سربجیت کا معاملہ خاصا حساس اور پیچیدہ نوعیت کا ہے۔ ایسے قیدی کے حفاظتی انتظامات فول پروف ہونے چاہیے تھے لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ یہ حملہ کسی وقتی اشتعال کا نتیجہ ہے یا اس میں کوئی منصوبہ بندی شامل ہے' اس کا پتہ تو تحقیقات کے نتیجے میں چل سکے گا لیکن اس واقعے سے یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان کی جیلوں میں قیدیوں کی حفاظت کے کے لیے انتظامات تسلی بخش نہیں ہیں۔ ماضی میں بھی جیلوں میں کئی قیدی قتل ہو چکے ہیں۔ بہر حال اب سربجیت سنگھ پر حملے کی تحقیقات ضرور منظر عام پر آنی چاہیے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات سے بچا جا سکے۔
ڈاکٹروں نے اس کو انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں وینٹی لیٹر پر رکھا ہوا تھا۔ سربجیت کی جان بچانے کی سرتوڑ کوششیں کی گئیں مگر وہ جانبر نہ ہو سکا۔ سربجیت کی بہن دلبیرکور نے اس کے اہلخانہ کی جانب سے ایک درخواست پاکستانی حکام کو دی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ سربجیت کی حالت خطرے میں ہے 'اس کو علاج کے لیے بیرون ملک بھیجا جائے۔ پاکستان کا دفتر خارجہ اس درخواست پر سنجیدگی سے غور کر رہا تھا کہ وہ دم توڑ گیا۔ سربجیت کو 1990 میں لاہور اور فیصل آباد میں بم دھماکے کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا جن میں 14 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ وہ تب سے کوٹ لکھپت جیل میں قید تھا۔ 1991 میں اس کو سزائے موت سنا دی گئی تھی تاہم اس سزا پر دو بار عملدرآمد موخر کیا گیا۔
اس کی رہائی کے لیے حکومت پاکستان سے پانچ بار پٹیشن کی گئی۔ سربجیت سنگھ پر قیدیوں نے حملہ اس وقت کیا جب بھارت سے ایک جوڈیشل کمیشن کی پاکستان آنے کی اطلاعات مل رہی تھیں اور خیال تھا کہ یہ جوڈیشل کمیشن بھارتی جاسوس سربجیت سنگھ کی رہائی کے لیے کوشش کریگا۔ سربجیت کے اہلخانہ اگلے روز واپس بھارت گئے تھے۔ یہ بھی کہنا تھا کہ جیل میں غیر ملکی قیدیوں کی زندگی کا تحفظ حکومت پاکستان کی اولین ذمے داری ہے جس میں غفلت کا مظاہرہ کیا گیا۔
حکومت نے سربجیت پر حملے کے الزام میں جیل کے بعض افسروں اور اہلکاروں کو معطل کر کے انکوائری شروع کر دی تھی۔ اخبارات میں جیل ذرائع کے حوالے سے شائع ہونے والی معلومات کے مطابق جیل کی بیرک نمبر7 میں سربجیت سنگھ کا دو روز قبل مدثر اور عامر نامی دو قیدیوں سے جھگڑا ہوا تھا جوختم کرا دیا گیا تھا لیکن گزشتہ جمعہ اسے جب چہل قدمی کے لیے بیرک سے باہر نکالا گیا تو دوسری بیرک میں بند دونوں قیدیوں نے اچانک اس پر حملہ کر دیا، مزید 2 قیدیوں نے بھی حملہ آوروں کا ساتھ دیا جس سے وہ شدید زخمی ہو گیا۔
ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ سربجیت کا معاملہ خاصا حساس اور پیچیدہ نوعیت کا ہے۔ ایسے قیدی کے حفاظتی انتظامات فول پروف ہونے چاہیے تھے لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ یہ حملہ کسی وقتی اشتعال کا نتیجہ ہے یا اس میں کوئی منصوبہ بندی شامل ہے' اس کا پتہ تو تحقیقات کے نتیجے میں چل سکے گا لیکن اس واقعے سے یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان کی جیلوں میں قیدیوں کی حفاظت کے کے لیے انتظامات تسلی بخش نہیں ہیں۔ ماضی میں بھی جیلوں میں کئی قیدی قتل ہو چکے ہیں۔ بہر حال اب سربجیت سنگھ پر حملے کی تحقیقات ضرور منظر عام پر آنی چاہیے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات سے بچا جا سکے۔