بینائی بحال ہونے کے آفٹر شاک
اس وقت آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر بینائی کی بحالی کا انتہائی بھیانک نتیجہ ہم بھی ملاحظہ کر رہے تھے۔
اپنی بینائی بحال ہونے کا مژدہ تو ہم نے آپ کو نہایت مسرت کے ساتھ سنایا تھا لیکن اب اس میں ترمیم کر لیجیے اور مژدہ جان فزا کی بجائے ''صدمہ جانکاہ'' فرض کر لیجیے، کیونکہ اس کا آفٹر شاک کچھ زیادہ خوشگوار نہیں رہا کیونکہ جس بینائی کی بحالی پر ہم پھولے نہیں سما رہے تھے اب وہی بینائی ہمارے لیے مصیبت بن گئی ہے۔
بینائی بحال ہونے کی خوشی میں ہمارے منہ سے کچھ بے مہار قسم کی باتیں نکلنا شروع ہو گئیں جن میں سب سے خطرناک جملہ وہ تھا جو ہم نے اپنی بڑھیا کے بارے میں ارشاد فرمایا تھا ، جب نظر سے پردہ ہٹا اور پہلی مرتبہ یا یوں کہئے کہ کئی سال بعد ہم نے اس کا چہرہ دیکھا تو اچانک منہ سے وہ خودکش بم پھسل پڑا حالانکہ جملہ زیر لب تھا لیکن شاید ہماری بینائی کی طرح اس کے کان بھی تیز ہو گئے تھے۔
جملہ بھی سوالیہ تھا، ہم نے اپنے بیٹے سے صرف اتنا پوچھا کہ یہ بھدی سی بڑھیا کون ہے، حیرت اس لیے تھی کہ لباس اس نے وہی پہنا تھا جو ہمارا جانا پہچانا تھا، دراصل ہمیں شبہ ہو رہا تھا کہ اس سخی عورت نے شاید اپنا لباس اس عورت کو دے دیا ہے، جملہ نہیں تھا بم کا ڈیٹونیٹر تھا، اچانک وہی جانی پہچانی سی کرخت آواز آئی، اچھا تو اب میں موٹی سی بھدی سی بڑھیا ہو گئی، ارے لباس کے ساتھ ساتھ اس نے تو آواز بھی وہی پائی تھی پہلے تو لگا کہ ہم نے بھڑوں کے چھتے کو ڈھیلا مار دیا ہو، خیر بہت سارے ڈنک سہنے کے بعد پتہ چلا کہ جسے سمجھے تھے انناس وہ بیوی نکلی، یہ تو وہی تھی صرف ہماری آنکھوں سے وہ پردہ ہٹ گیا تھا جو پرانے تصورات کے تانے بانے سے خود ہی ہم ہی نے بُنا ہوا تھا۔
اس وقت آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر بینائی کی بحالی کا انتہائی بھیانک نتیجہ ہم بھی ملاحظہ کر رہے تھے اور من ہی من میں اس ڈاکٹر کو کوس رہے تھے جس نے ہم پر یہ ظلم ڈھایا تھا۔ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ آئینے میں دیکھ کر ہنسا جائے یا سامنے بیٹھی ہوئی زوجہ محترمہ کو دیکھ کر رویا جائے، لیکن وہ بھی محو نظارہ تھی اس لیے ہم سے پہلے ہی ہنس پڑی ۔۔۔ اور بولی ۔۔۔ کیوں دیکھ لیا ۔۔۔ کون ہے یہ بدصورت بڈھا جو آئینے میں تمہیں گھور رہا ہے ۔۔۔ اب صرف یہ کرنا رہ گیا تھا کہ ہم پتھر اٹھا کر آئینے کو مارتے لیکن خود ہی اپنے نقصان کے خیال سے رک گئے، بلکہ ایک پرانا لطیفہ بھی سامنے لہراتا ہوا دکھائی دیا ۔
جس میں بچے نے پانی کے مٹکے میں جھانک خود کو دیکھ لیا اور چلا کر باپ سے بولا ۔۔۔ بابا مٹکے میں کوئی ہے؟ باپ نے اٹھ کر مٹکے میں دیکھا تو فوراً ایک بڑا سا پتھر اٹھا کر مٹکے کو مارتے ہوئے بولا بدصورت بدمعاش بچوں کو ڈراتے ہوئے شرم نہیں آتی تمہیں، آئینے کے سامنے سے ہٹ کر ہم اداس اور بھیگے ہوئے الو کی طرح بیٹھ کر دنیا کی بے ثباتی سے زیادہ چہروں کی بے ثباتی پر غور کرنے لگے اور بینائی کی بحالی کی خوشی کڑوی ہوتی چلی گئی۔
وہ بھی کیا دن تھے کہ ہر چہرہ گلاب نظر آتا ہے۔ دور سے اسی سال کی بڑھیا کو بھی دیکھتے تو کپڑوں کی رنگینی پر قیاس کر کے سولہ سالہ دوشیزہ دکھائی دیتی تھی۔ گویا بینائی کی بحالی نہیں ہوئی بلکہ ہماری آنکھیں کھل گئیں ۔۔۔۔ یعنی گویا دبستاں کھل گیا، لیکن اس تمام مصیبت بیانی کا جو کلائمکس ہے وہ کسی ایٹمی دھماکے سے کم نہیں ہم اپنے بیٹوں کے ساتھ بیٹھ کر گپ شپ کر رہے تھے ان کی ماں سامنے کچھ فاصلے پر اپنی مصروفیات میں لگی ہوئی تی کچھ لنگڑانا، کچھ کھانسنا، کچھ ہاپنا، کچھ کانپنا چل رہا تھا۔
بخدا کسی بدنیتی سے نہیں بلکہ خالص ہمدردی سے ہم نے بیٹیوں کو سمجھایا کہ دیکھو اپنے لیے ہر وقت کسی نئی ماں کا بندوبست کر رکھو کیوں کہ یہ محترمہ تو اب کچھ زیادہ چلنے والی نہیں ہے۔ اس کی گارنٹی بلکہ ڈیٹ آف ایکسپائری ختم ہو چکی ہے اور ایکسٹینشن پر جی رہی ہے۔ پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہیں ہوئی۔ نہ جانے کیا ہوا۔
سنا ہے کہ ایک چیونٹی دوسری چیونٹی کی آواز سیکڑوں میل دور سے بھی سن لیتی ہے اس وقت شاید اس کے کان میں کوئی چیونٹی بیٹھی تھی حالانکہ پہلے کبھی اس کے کانوں پر جوں بھی نہیں رینگی تھی اور شاید ہمارے ہونٹوں پر بھی کوئی چیونٹی چپکی ہوئی تھی کہ اچانک وہ تن گئی، سلفے دی لاٹ ورگی تو نہیں کھڑی کمان کی طرح بھی نہیں بلکہ ڈھیلی کمان کی طرح تن گئی کولہوں پر ہاتھ رکھ کر اس نے جو تیر اندازی کی، خدا کی پناہ آٹو میٹک رائفل تو دیکھے تھے۔
لیکن آٹو مینک کمان کبھی نہیں دیکھی بلکہ سنی تھی ایک زبردست برسٹ مار کر وہ حیرت انگیز تیز رفتاری کے ساتھ کمرے میں گھسی، نکلی تو برقعہ ہاتھ میں تھا اور میکے چلی جانے کی دھمکی ہونٹوں پر ۔۔۔۔۔ لیکن دہلیز پر ٹھٹک گئی غالباً یہ سوچ کر کہ اس کا ''میکہ'' رہا ہی کہاں ہے پہلے جہاں اس کا میکہ ہوا کرتا تھا وہاں اب بھاوجوں اور بہوؤں کا ایک پورا محلہ آباد ہو چکا تھا ہم نے بھی کہا ٹھیک ہے خیر نال جا، تے خیر نال آ ۔۔۔۔ لیکن فوراً پلٹ گئی بولی میکے کون جا رہا ہے میں تو سڑک پر جا رہی ہوں بس پکڑنے، یہ ایک اور اچنبھا تھا ہمیں معلوم ہی نہ تھا کہ اس کا کوئی رشتہ دار کہیں اور بھی رہتا ہے جہاں بس کے ذریعے جایا جا سکتا ہے پوچھا کہاں؟ ۔۔۔ ترنت بولی لاری تلے آنے کے لیے؟ مت پوچھئے کہ اس طوفان کو ہم نے بیٹوں کی مدد لے کر کیسے روکا بلکہ برداشت کیا اور یہ سب اس نئی بینائی کا کیا دھرا تھا
خوب تھا پہلے سے ہوتے جو ہم اپنے بدخواہ
کہ بھلا چاہتے ہیں اور برا ہوتا ہے
ڈاکٹر میر علی شاہ کے پاس گئے کہ یہ اسی کی لائی ہوئی مصیبت تھی خدا کے بندے نے کام تو اچھا کیا لیکن اس کے آفٹر شاک نہیں بتائے تھے لیکن اس کا بھی ٹکا سا جواب دیا بولے اب کچھ نہیں ہو سکتا یہ لینز بھی پاکستانی لیڈروں کی طرح ہوتے ہیں کہ ایک مرتبہ ملک کے گلے پڑ گئے تو پڑے گئے ان سے چھٹکارا پانا ناممکن ہو جاتا ہے
قیدِ حیات و بندِ غم اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی ان سے نجات پائے کیوں؟
کچھ بھی نہ بنا تو ''آنکھیں آہن پوش'' کر دیں انتہائی گاڑھا چشمہ لگاتے ہیں لیکن پھر بھی نظر آنے والے چہرے ناقابل برداشت ہوتے ہیں اس لیے آخری اقدام کے طور پر گھر میں چپ رہتے ہیں اور راستہ ''جھک کر'' چلتے ہیں لیکن اب ہم پر مفرور ہونے کا الزام لگتا جا رہا ہے، سوچتے ہیں چلو ٹھیک ہے مفرور ہونے سے تو یہ مغرور ہونا اچھا ہے۔
بینائی بحال ہونے کی خوشی میں ہمارے منہ سے کچھ بے مہار قسم کی باتیں نکلنا شروع ہو گئیں جن میں سب سے خطرناک جملہ وہ تھا جو ہم نے اپنی بڑھیا کے بارے میں ارشاد فرمایا تھا ، جب نظر سے پردہ ہٹا اور پہلی مرتبہ یا یوں کہئے کہ کئی سال بعد ہم نے اس کا چہرہ دیکھا تو اچانک منہ سے وہ خودکش بم پھسل پڑا حالانکہ جملہ زیر لب تھا لیکن شاید ہماری بینائی کی طرح اس کے کان بھی تیز ہو گئے تھے۔
جملہ بھی سوالیہ تھا، ہم نے اپنے بیٹے سے صرف اتنا پوچھا کہ یہ بھدی سی بڑھیا کون ہے، حیرت اس لیے تھی کہ لباس اس نے وہی پہنا تھا جو ہمارا جانا پہچانا تھا، دراصل ہمیں شبہ ہو رہا تھا کہ اس سخی عورت نے شاید اپنا لباس اس عورت کو دے دیا ہے، جملہ نہیں تھا بم کا ڈیٹونیٹر تھا، اچانک وہی جانی پہچانی سی کرخت آواز آئی، اچھا تو اب میں موٹی سی بھدی سی بڑھیا ہو گئی، ارے لباس کے ساتھ ساتھ اس نے تو آواز بھی وہی پائی تھی پہلے تو لگا کہ ہم نے بھڑوں کے چھتے کو ڈھیلا مار دیا ہو، خیر بہت سارے ڈنک سہنے کے بعد پتہ چلا کہ جسے سمجھے تھے انناس وہ بیوی نکلی، یہ تو وہی تھی صرف ہماری آنکھوں سے وہ پردہ ہٹ گیا تھا جو پرانے تصورات کے تانے بانے سے خود ہی ہم ہی نے بُنا ہوا تھا۔
اس وقت آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر بینائی کی بحالی کا انتہائی بھیانک نتیجہ ہم بھی ملاحظہ کر رہے تھے اور من ہی من میں اس ڈاکٹر کو کوس رہے تھے جس نے ہم پر یہ ظلم ڈھایا تھا۔ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ آئینے میں دیکھ کر ہنسا جائے یا سامنے بیٹھی ہوئی زوجہ محترمہ کو دیکھ کر رویا جائے، لیکن وہ بھی محو نظارہ تھی اس لیے ہم سے پہلے ہی ہنس پڑی ۔۔۔ اور بولی ۔۔۔ کیوں دیکھ لیا ۔۔۔ کون ہے یہ بدصورت بڈھا جو آئینے میں تمہیں گھور رہا ہے ۔۔۔ اب صرف یہ کرنا رہ گیا تھا کہ ہم پتھر اٹھا کر آئینے کو مارتے لیکن خود ہی اپنے نقصان کے خیال سے رک گئے، بلکہ ایک پرانا لطیفہ بھی سامنے لہراتا ہوا دکھائی دیا ۔
جس میں بچے نے پانی کے مٹکے میں جھانک خود کو دیکھ لیا اور چلا کر باپ سے بولا ۔۔۔ بابا مٹکے میں کوئی ہے؟ باپ نے اٹھ کر مٹکے میں دیکھا تو فوراً ایک بڑا سا پتھر اٹھا کر مٹکے کو مارتے ہوئے بولا بدصورت بدمعاش بچوں کو ڈراتے ہوئے شرم نہیں آتی تمہیں، آئینے کے سامنے سے ہٹ کر ہم اداس اور بھیگے ہوئے الو کی طرح بیٹھ کر دنیا کی بے ثباتی سے زیادہ چہروں کی بے ثباتی پر غور کرنے لگے اور بینائی کی بحالی کی خوشی کڑوی ہوتی چلی گئی۔
وہ بھی کیا دن تھے کہ ہر چہرہ گلاب نظر آتا ہے۔ دور سے اسی سال کی بڑھیا کو بھی دیکھتے تو کپڑوں کی رنگینی پر قیاس کر کے سولہ سالہ دوشیزہ دکھائی دیتی تھی۔ گویا بینائی کی بحالی نہیں ہوئی بلکہ ہماری آنکھیں کھل گئیں ۔۔۔۔ یعنی گویا دبستاں کھل گیا، لیکن اس تمام مصیبت بیانی کا جو کلائمکس ہے وہ کسی ایٹمی دھماکے سے کم نہیں ہم اپنے بیٹوں کے ساتھ بیٹھ کر گپ شپ کر رہے تھے ان کی ماں سامنے کچھ فاصلے پر اپنی مصروفیات میں لگی ہوئی تی کچھ لنگڑانا، کچھ کھانسنا، کچھ ہاپنا، کچھ کانپنا چل رہا تھا۔
بخدا کسی بدنیتی سے نہیں بلکہ خالص ہمدردی سے ہم نے بیٹیوں کو سمجھایا کہ دیکھو اپنے لیے ہر وقت کسی نئی ماں کا بندوبست کر رکھو کیوں کہ یہ محترمہ تو اب کچھ زیادہ چلنے والی نہیں ہے۔ اس کی گارنٹی بلکہ ڈیٹ آف ایکسپائری ختم ہو چکی ہے اور ایکسٹینشن پر جی رہی ہے۔ پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہیں ہوئی۔ نہ جانے کیا ہوا۔
سنا ہے کہ ایک چیونٹی دوسری چیونٹی کی آواز سیکڑوں میل دور سے بھی سن لیتی ہے اس وقت شاید اس کے کان میں کوئی چیونٹی بیٹھی تھی حالانکہ پہلے کبھی اس کے کانوں پر جوں بھی نہیں رینگی تھی اور شاید ہمارے ہونٹوں پر بھی کوئی چیونٹی چپکی ہوئی تھی کہ اچانک وہ تن گئی، سلفے دی لاٹ ورگی تو نہیں کھڑی کمان کی طرح بھی نہیں بلکہ ڈھیلی کمان کی طرح تن گئی کولہوں پر ہاتھ رکھ کر اس نے جو تیر اندازی کی، خدا کی پناہ آٹو میٹک رائفل تو دیکھے تھے۔
لیکن آٹو مینک کمان کبھی نہیں دیکھی بلکہ سنی تھی ایک زبردست برسٹ مار کر وہ حیرت انگیز تیز رفتاری کے ساتھ کمرے میں گھسی، نکلی تو برقعہ ہاتھ میں تھا اور میکے چلی جانے کی دھمکی ہونٹوں پر ۔۔۔۔۔ لیکن دہلیز پر ٹھٹک گئی غالباً یہ سوچ کر کہ اس کا ''میکہ'' رہا ہی کہاں ہے پہلے جہاں اس کا میکہ ہوا کرتا تھا وہاں اب بھاوجوں اور بہوؤں کا ایک پورا محلہ آباد ہو چکا تھا ہم نے بھی کہا ٹھیک ہے خیر نال جا، تے خیر نال آ ۔۔۔۔ لیکن فوراً پلٹ گئی بولی میکے کون جا رہا ہے میں تو سڑک پر جا رہی ہوں بس پکڑنے، یہ ایک اور اچنبھا تھا ہمیں معلوم ہی نہ تھا کہ اس کا کوئی رشتہ دار کہیں اور بھی رہتا ہے جہاں بس کے ذریعے جایا جا سکتا ہے پوچھا کہاں؟ ۔۔۔ ترنت بولی لاری تلے آنے کے لیے؟ مت پوچھئے کہ اس طوفان کو ہم نے بیٹوں کی مدد لے کر کیسے روکا بلکہ برداشت کیا اور یہ سب اس نئی بینائی کا کیا دھرا تھا
خوب تھا پہلے سے ہوتے جو ہم اپنے بدخواہ
کہ بھلا چاہتے ہیں اور برا ہوتا ہے
ڈاکٹر میر علی شاہ کے پاس گئے کہ یہ اسی کی لائی ہوئی مصیبت تھی خدا کے بندے نے کام تو اچھا کیا لیکن اس کے آفٹر شاک نہیں بتائے تھے لیکن اس کا بھی ٹکا سا جواب دیا بولے اب کچھ نہیں ہو سکتا یہ لینز بھی پاکستانی لیڈروں کی طرح ہوتے ہیں کہ ایک مرتبہ ملک کے گلے پڑ گئے تو پڑے گئے ان سے چھٹکارا پانا ناممکن ہو جاتا ہے
قیدِ حیات و بندِ غم اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی ان سے نجات پائے کیوں؟
کچھ بھی نہ بنا تو ''آنکھیں آہن پوش'' کر دیں انتہائی گاڑھا چشمہ لگاتے ہیں لیکن پھر بھی نظر آنے والے چہرے ناقابل برداشت ہوتے ہیں اس لیے آخری اقدام کے طور پر گھر میں چپ رہتے ہیں اور راستہ ''جھک کر'' چلتے ہیں لیکن اب ہم پر مفرور ہونے کا الزام لگتا جا رہا ہے، سوچتے ہیں چلو ٹھیک ہے مفرور ہونے سے تو یہ مغرور ہونا اچھا ہے۔