گزشتہ مالی سال 35 فیصد ترقیاتی منصوبے فنڈز سے محروم اور 25 فیصد بجٹ لیپس کر گیا
نیشنل ہائی وے اتھارٹی کومختص بجٹ کا93‘مجموعی کا40فیصد‘324ارب72کروڑمیں سے 302 ارب91 کروڑ جاری کیے گئے
وفاقی حکومت کی جانب سے مالی سال2017-18 کے دوران 25 فیصد ترقیاتی فنڈ جاری نہیں کیا جا سکا۔
وزارت منصوبہ بندی کی جانب سے گزشتہ مالی سال 2017-18کے دوران وفاقی ترقیاتی فنڈز کی مد میں جاری کیے جا نے والے اعداد و شمار کے مطابق وفاقی حکومت نے گزشتہ مالی سال کے دوران 1001ارب روپے ترقیاتی فنڈز میں سے صرف 752 ارب 14 کروڑ 58 لاکھ روپے جاری کیے ہیں جو کہ مالی سال 2017-18کے مجموعی ترقیاتی فنڈز کا 75 فیصد بنتا ہے۔
اس کے مقابلے میں مالی سال 2016-17کے دوران 800ارب روپے کے ترقیاتی فنڈز میں سے 744 ارب 12کروڑ 74لاکھ روپے جا ری کیے گئے تھے جو کہ 93فیصد بنتا ہے۔ اس طرح مالی سال 2017-18 میں 75 فیصد جبکہ اس سے پچھلے مالی سال 2016-17کے دوران 93فیصد ترقیاتی فنڈز کا اجرا کیا گیا اور گزشتہ مالی سال کے دوران 25 فیصد تک ترقیاتی فنڈ لیپس کر گیا۔
اگر گزشتہ مالی سال کے دوران وزارتوں کے ترقیاتی فنڈز کو دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ گزشتہ مالی سال کے دوران وفاقی حکومت کی جانب سے وفاقی وزارتوں کے لیے مختص 301ارب 82کروڑ 59لاکھ روپے ترقیاتی فنڈز میں سے 186ارب 35کروڑ روپے جاری کیے جا سکے ہیں جبکہ 115ارب روپے تک وفاقی وزارتوں کا ترقیاتی بجٹ لیپس کر گیا اور یہ فنڈ ز استعمال میں نہیں لائے جا سکے۔
کارپوریشنز میں نیشنل ہائی وے اتھارٹینے 324ارب 72کروڑ روپے میں سے 302 ارب 91 کروڑ 66 لاکھ روپے ترقیاتی فنڈز استعمال کیے۔ اس طرح این ایچ اے نے اپنے مختص کردہ ترقیاتی فنڈز میں 93 فیصد سے زائد فنڈز حاصل کیے۔ واپڈ نے 60ارب 90کروڑ 93لاکھ روپے ترقیاتی فنڈز میں سے 43ارب 44کروڑ 26لاکھ روپے حاصل کیے۔ اس طرح واپڈا نے اپنے ترقیاتی فنڈز میں سے 71 فیصد فنڈز حاصل کیے۔
اسپیشل ایریاز میں آزاد جموں و کشمیر بلاک ایلوکیشن کی مد میں 25 ارب 84 کروڑ 43 لاکھ روپے مختص ترقیاتی فنڈز میں سے 24 ارب 61 کروڑ 43 لاکھ روپے جاری کیے گئے۔ گلگت بلتستان بلاک ایلوکیشن میں 18ارب 30کروڑ روپے مختص ترقیاتی فنڈز میں سے 15 ارب 49 کروڑ 76 لاکھ روپے اور اسی طرح فاٹا، سیفران کے لیے مختص 26 ارب 60 کروڑ روپے میں سے 26 ارب 3 کروڑ 34لاکھ روپے جا ری کیے گئے ہیں۔
گزشتہ مالی سال 2017-18کے دوران وفاقی حکومت کی جانب سے 1148 ترقیاتی اسکیموں میں سے 400سے زائد ترقیاتی اسکیموں پر کوئی پیش فت نہ ہو سکی اور نہ ہی ان منصوبوں کے لیے کوئی فنڈز جاری کیے گئے۔
گزشتہ مالی سال کے دوران وفاقی دارالحکومت میں کینسر اسپتال کا منصوبہ، اسلام آباد میں لڑکیوں کے لیے ماڈل کالج کی تعمیر، ایکسپو سینٹر اسلام آباد، ایکسپوسینٹر کوئٹہ، چکدرہ تا کالام ایکسپریس وے کی تعمیر، انڈس ہائی وے کے باقی سیکشن کی ڈیولائزیشن، میر پور، منگلا، مظفر آباد، مانسہرہ، جگلوٹ سکردو روڈ کی امپرومنٹ اور توسیع، ژوب تا کچلاک روڈ لینڈ ایکوزیشن، نوکنڈی مشخیل پنجگور روڈ، نیشنل یونیورسٹی آف پبلک پالیسی اینڈ ایڈمنسٹریشن، نیشنل ایجوکیشن ریفارم انیشیٹو، زیارت ٹاؤن کی ڈیولپمنٹ، اربن واٹرسپلائی اسکیم بے نظیر آباد، پبلک سیکٹر انٹرپرائزز ریفارم پروجیکٹ، لورالائی اور سبی میں یونیورسٹی کی تعمیر، نیشنل سینٹر فار بیسک سائنسز کی تعمیر، نیشنل یونیورسٹی آف سپورٹس اسلام آباد کا قیام، پاک یوکے نالج گیٹ وے، گوادر ایکسپورٹ پروسیسنگ زون کا انفرااسٹرکچر ڈیولپمنٹ، ایف آئی اے سائبر پٹرولنگ یونٹ، میڈیکل کالج گلگت، اسلام آباد ہائی کورٹ ججز کی ریسٹ ہاؤسز کی تعمیر، ایگریکلچر انفارمیشن پورٹل، سٹرس ڈیولپمنٹ بورڈ کا قیام، گوادر پورٹ ماسٹر پلان کے تحت لینڈ ایکوزیشن سمیت متعدد اہم منصوبے ترقیاتی فنڈز سے محروم رہے ہیں۔
وزارت منصوبہ بندی کی جانب سے گزشتہ مالی سال 2017-18کے دوران وفاقی ترقیاتی فنڈز کی مد میں جاری کیے جا نے والے اعداد و شمار کے مطابق وفاقی حکومت نے گزشتہ مالی سال کے دوران 1001ارب روپے ترقیاتی فنڈز میں سے صرف 752 ارب 14 کروڑ 58 لاکھ روپے جاری کیے ہیں جو کہ مالی سال 2017-18کے مجموعی ترقیاتی فنڈز کا 75 فیصد بنتا ہے۔
اس کے مقابلے میں مالی سال 2016-17کے دوران 800ارب روپے کے ترقیاتی فنڈز میں سے 744 ارب 12کروڑ 74لاکھ روپے جا ری کیے گئے تھے جو کہ 93فیصد بنتا ہے۔ اس طرح مالی سال 2017-18 میں 75 فیصد جبکہ اس سے پچھلے مالی سال 2016-17کے دوران 93فیصد ترقیاتی فنڈز کا اجرا کیا گیا اور گزشتہ مالی سال کے دوران 25 فیصد تک ترقیاتی فنڈ لیپس کر گیا۔
اگر گزشتہ مالی سال کے دوران وزارتوں کے ترقیاتی فنڈز کو دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ گزشتہ مالی سال کے دوران وفاقی حکومت کی جانب سے وفاقی وزارتوں کے لیے مختص 301ارب 82کروڑ 59لاکھ روپے ترقیاتی فنڈز میں سے 186ارب 35کروڑ روپے جاری کیے جا سکے ہیں جبکہ 115ارب روپے تک وفاقی وزارتوں کا ترقیاتی بجٹ لیپس کر گیا اور یہ فنڈ ز استعمال میں نہیں لائے جا سکے۔
کارپوریشنز میں نیشنل ہائی وے اتھارٹینے 324ارب 72کروڑ روپے میں سے 302 ارب 91 کروڑ 66 لاکھ روپے ترقیاتی فنڈز استعمال کیے۔ اس طرح این ایچ اے نے اپنے مختص کردہ ترقیاتی فنڈز میں 93 فیصد سے زائد فنڈز حاصل کیے۔ واپڈ نے 60ارب 90کروڑ 93لاکھ روپے ترقیاتی فنڈز میں سے 43ارب 44کروڑ 26لاکھ روپے حاصل کیے۔ اس طرح واپڈا نے اپنے ترقیاتی فنڈز میں سے 71 فیصد فنڈز حاصل کیے۔
اسپیشل ایریاز میں آزاد جموں و کشمیر بلاک ایلوکیشن کی مد میں 25 ارب 84 کروڑ 43 لاکھ روپے مختص ترقیاتی فنڈز میں سے 24 ارب 61 کروڑ 43 لاکھ روپے جاری کیے گئے۔ گلگت بلتستان بلاک ایلوکیشن میں 18ارب 30کروڑ روپے مختص ترقیاتی فنڈز میں سے 15 ارب 49 کروڑ 76 لاکھ روپے اور اسی طرح فاٹا، سیفران کے لیے مختص 26 ارب 60 کروڑ روپے میں سے 26 ارب 3 کروڑ 34لاکھ روپے جا ری کیے گئے ہیں۔
گزشتہ مالی سال 2017-18کے دوران وفاقی حکومت کی جانب سے 1148 ترقیاتی اسکیموں میں سے 400سے زائد ترقیاتی اسکیموں پر کوئی پیش فت نہ ہو سکی اور نہ ہی ان منصوبوں کے لیے کوئی فنڈز جاری کیے گئے۔
گزشتہ مالی سال کے دوران وفاقی دارالحکومت میں کینسر اسپتال کا منصوبہ، اسلام آباد میں لڑکیوں کے لیے ماڈل کالج کی تعمیر، ایکسپو سینٹر اسلام آباد، ایکسپوسینٹر کوئٹہ، چکدرہ تا کالام ایکسپریس وے کی تعمیر، انڈس ہائی وے کے باقی سیکشن کی ڈیولائزیشن، میر پور، منگلا، مظفر آباد، مانسہرہ، جگلوٹ سکردو روڈ کی امپرومنٹ اور توسیع، ژوب تا کچلاک روڈ لینڈ ایکوزیشن، نوکنڈی مشخیل پنجگور روڈ، نیشنل یونیورسٹی آف پبلک پالیسی اینڈ ایڈمنسٹریشن، نیشنل ایجوکیشن ریفارم انیشیٹو، زیارت ٹاؤن کی ڈیولپمنٹ، اربن واٹرسپلائی اسکیم بے نظیر آباد، پبلک سیکٹر انٹرپرائزز ریفارم پروجیکٹ، لورالائی اور سبی میں یونیورسٹی کی تعمیر، نیشنل سینٹر فار بیسک سائنسز کی تعمیر، نیشنل یونیورسٹی آف سپورٹس اسلام آباد کا قیام، پاک یوکے نالج گیٹ وے، گوادر ایکسپورٹ پروسیسنگ زون کا انفرااسٹرکچر ڈیولپمنٹ، ایف آئی اے سائبر پٹرولنگ یونٹ، میڈیکل کالج گلگت، اسلام آباد ہائی کورٹ ججز کی ریسٹ ہاؤسز کی تعمیر، ایگریکلچر انفارمیشن پورٹل، سٹرس ڈیولپمنٹ بورڈ کا قیام، گوادر پورٹ ماسٹر پلان کے تحت لینڈ ایکوزیشن سمیت متعدد اہم منصوبے ترقیاتی فنڈز سے محروم رہے ہیں۔