خاموش تبدیلی

ایسا لگتا ہے کہ ذات پات کے ووٹ بھی ریاستی اسمبلی کے اراکین کے لیے نہایت اہم کردار ادا کریں گے۔


Kuldeep Nayar May 02, 2013

کانگریس کے لیڈر سجن کمار کی دہلی سے رہائی پر یقینی طور پر خاصا ہنگامہ بر پا ہو گا کیونکہ موصوف 1984ء میں ہونے والے سکھوں کے قتل عام والے واقعے کی علامت بن چکے ہیں۔ اگرچہ اس قتل عام کو 29 سال گزر چکے ہیں لیکن غصہ ابھی تک ٹھنڈا نہیں ہوا کیونکہ سکھوں کی طرف سے ذمے داروں کو سزا دینے کا مطالبہ ابھی تک پورا نہیں کیا گیا۔ ان کا زخم مندمل کرنے کا کوئی سامان ضرور کیا جانا چاہیے۔

جب جنوبی افریقہ میں گوروں اور کالوں میں جھڑپیں ہونے لگی تھیں تو افہام و تفہیم کی خاطر ایک عدالتی کمیشن قائم کیا گیا تھا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ عدالتوں میں مقدمات کا لامتناہی سلسلہ شروع کرنے کے بجائے حقیقت حال کو تلاش کر لیا جائے۔ بھارت میں اس قسم کا کوئی طریقہ عین ممکن ہے کہ سکھوں کے مطالبے کو پورا نہ کرے مگر فسادات کا اصل مقصد ضرور بے نقاب ہو سکتا ہے۔ یہاں اگر کوئی مفاہمتی کمیشن بنایا جائے تو اس کا مقصد کسی کو قصور وار ٹھہرا کر سزا دینے کے بجائے اس جرم کی وجوہات تلاش کرنا ہو۔ درست کہ سکھ محض کمیشن کے قیام سے مطمئن نہیں ہوں گے لیکن مفاہمتی کمیشن کے قیام کے بغیر عین ممکن ہے کہ ہم اصل حقائق تک کبھی نہ پہنچ سکیں۔

اس دوران کرناٹک میں انتخابات ہونے جا رہے ہیں لیکن ریاست میں کوئی جھاڑو پھیرنے والی انتخابی لہر پیدا نہیں ہوئی نہ حکمران بی جے پی کے لیے اور نہ ہی کانگریس کے لیے اور نہ ہی کوئی جواری انتخابی نتائج پر ایک پیسے کا جوا لگانے پر بھی تیار ہے۔ عوام کا سیاسی عمل سے ربط ٹوٹ چکا ہے، اس کی وجہ بے جے پی کی فرقہ ورانہ پالیسی ہے جس سے کانگریس کو خوامخوا پاؤں جمانے کی جگہ مل رہی ہے اور ریاست میں اس کی بات سنی جانے لگی ہے۔

بہرحال کسی حتمی نتیجے سے قطع نظر کرناٹک کے انتخابی نتائج دونوں بڑی پارٹیوں کی پیمائش کے لیے ایک پیمانے کا کام کریں گے جس سے دونوں پارٹیوں کو پتہ چل جائے گا کہ ملک کے عام انتخابات میں ان کی کیا پوزیشن ہو گی جب کہ دوسری طرف مرکز میں وسط مدتی انتخابات کی باتیں بھی ہو رہی ہیں۔ حتیٰ کہ بصورت دیگر بھی کانگریس اور بی جے پی عام انتخابات سے قبل چار ریاستوں مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، راجستھان اور دہلی۔۔۔ میں ہونے والے انتخابات کے لیے ''ریڈ الرٹ'' (یعنی مکمل تیاری) کی حالت میں آ جائیں گی۔ لوک سبھا کے انتخابات 2014ء میں ہوں گے۔

درحقیقت جنوبی ریاست میں ہونے والے انتخابات کی ٹائمنگ ایسی ہے کہ اس سے باقی ماندہ ملک کے ووٹر بھی انتخابی نتائج کے بارے میں اندازے لگاتے رہیں گے۔ ان کو اس ریاست میں جیتنے والوں سے خصوصی دلچسپی ہو گی کیونکہ ریاست دو واضح دھڑوں میں بٹ چکی ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ ذات پات کے ووٹ بھی ریاستی اسمبلی کے اراکین کے لیے نہایت اہم کردار ادا کریں گے جیسا کہ ماضی میں بھی دیکھا گیا جب اقلیتی ووٹوں کی اہمیت اور زیادہ بڑھ گئی تھی اور جس طرح کہ ہر انتخابات میں ہوتا ہے کرناٹک میں بھی دولت کی نمائش نمایاں کردار ادا کرے گی۔ امیدوار کی دولت مندی کا اس کی کامیابی کی ضمانت ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں۔ اس ریاست کے گزشتہ انتخابات میں کم از کم 9 امیدوار ایسے تھے جنھوں نے محض اپنی دولت کے بل پر انتخابات میں شرطیہ کامیابی حاصل کی۔ ایک امیدوار نے اپنے اثاثوں کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا تھا کہ اس کے اثاثوں کی مالیت 690 کروڑ روپے ہے۔

اس مرتبہ بھی وہاں کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔ موجودہ امیدواروں کی فہرست پر ایک سرسری نظر ڈالنے سے ہی معلوم ہو جاتا ہے کہ سیاسی پارٹیاں کس طرح زیادہ سے زیادہ مالدار افراد کو الیکشن لڑنے کے لیے لا رہی ہیں۔ شراب کا کاروبار کرنے والی انتہائی امیر لابی سے لے کر کانکنی کے شعبے کے مالکان اور رئیل اسٹیٹ شعبہ کے چوٹی کے لوگوں کو دونوں پارٹیوں نے فراخدلی سے انتخابی ٹکٹ جاری کیے ہیں۔ ان میں سے کم از کم 10 امیدوار جن کو دونوں پارٹیوں سے ٹکٹ ملے ہیں، ان کے اثاثوں کی مالیت 100 کروڑ روپے سے زیادہ کی ہے۔ اس سے صرف میرے اس موقف کو تقویت حاصل ہوئی ہے کہ انتخابات میں دھن دولت کا عنصر بتدریج بلند سے بلند تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ہم یہ رجحان گزشتہ دس سال سے دیکھتے چلے آ رہے ہیں اور مجھے حیرت ہو گی اگر اس قسم کے کاروباری لوگوں کی مزید تعداد انتخابی سیاست کی طرف راغب نہیں ہو گی۔ مسلمانوں کے ووٹ اب بھی اہمیت رکھتے ہیں۔

تمام سیاسی پارٹیوں کی چوٹی کی قیادت نے انتخابی مہم زور و شور سے شروع کر رکھی ہے۔ کانگریس کی مہم سونیا گاندھی، راہول گاندھی اور وزیر اعظم منموھن سنگھ چلا رہے ہیں جب کہ ارون جیٹلے اور ایل کے ایڈوانی ووٹروں کو تلقین کررہے ہیں کہ بی جے پی کو ہی ووٹ دیا جائے۔ بی جے پی نے گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے جس کی متعصبانہ تقریریں معاشرے میں نفاق پیدا کر رہی ہیں اور باقی ماندہ ملک کے لیے منفی پیغام پہنچا رہی ہیں۔ ملک میں بی جے پی کے خلاف مخالفانہ جذبات پنپ رہے ہیں جن پر قابو پانا حکمران پارٹی کے لیے مشکل ہو گا۔ اس کے علاوہ بھی پارٹی کی ساکھ کرپشن اور مجرمانہ مقدمات کی وجہ سے بے حد خراب ہو چکی ہے جو اس پارٹی کے دور حکومت میں اس کے خلاف قائم ہوئے نیز پارٹی کے اندر بھی ایک کشمکش چل رہی ہے جس کے نتیجے میں سابق وزیر اعلیٰ بی ایس ایدی اروپا کو بی جے پی چھوڑ کر کرناٹک جنتا رکشا (کے جے پی) نامی پارٹی قائم کرنا پڑی۔ مخالف سیاستدان ممکن ہے زیادہ نشستیں نہ جیتیں مگر وہ بی جے پی کے جیتنے کے امکانات میں ضرور رخنہ ڈال سکتے ہیں۔

اسی طرح ایک اور سابقہ وزیر ایچ ڈی کمارا سوامی جو گزشتہ پانچ سال سے اقتدار سے باہر ہیں لیکن اپنے ضلع میں ان کی بنیاد بہت مضبوط ہے۔ وہ کانگریس اور بی جے پی کے ووٹ بینک کو بہت حد تک متاثر کر سکتے ہیں۔ کمارا سوامی نے ایک ماہرانہ چال چلتے ہوئے ان تمام امیدواروں کو اپنے حصار میں لینا شروع کر دیا ہے جنھیں دوسری دونوں پارٹیوں نے انتخابی ٹکٹ نہیں دیئے۔ ان کو ''سیاسی مہاجر'' کا نام دیا گیا ہے۔ بہرحال جنتا دل (سیکولر) اور کمارا سوامی کی سرگرمیاں صرف پرانے میسور ریجن تک محدود ہیں۔

جو چیز دھچکہ پہنچانے والی ہے وہ یہ ہے کہ میں نے ابھی تک کسی بھی سیاسی پارٹی کو کسی بھی اہم ایشو پر بات کرتے نہیں سنا بلکہ اس کی بجائے لوگوں کو سبز باغ دکھائے جا رہے ہیں۔ چاول سستے کرنے کے دعوے اور طلبہ کو لیپ ٹاپ دینے کے اور زرعی قرضے معاف کر دینے کے اعلانات کیے جا رہے ہیں۔ اسمبلی کے انتخابات سے قبل اسی قسم کے وعدے کر کے ووٹروں کو اپنی طرف راغب کرنا ایک فیشن بن گیا ہے لیکن ریاستی اسمبلی کی 224 نشستوں میں سے 113 کی سادہ اکثریت حاصل کرنا کانگریس اور بی جے پی دونوں کا ایک خواب بن گیا ہے جو پورا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ اب وہ ریڈی برادرز کی بی ایس آر کانگریس جیسی چھوٹی چھوٹی جماعتوں کی حمایت کا بھی محتاج بن گئے ہیں اور اس صورتحال میں کمارا سوامی کنگ میکر (یا بادشاہ گر) کا کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں۔

بظاہر ایسا لگتا ہے جیسے کانگریس یہاں اپنی حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائے گی اور اگر واقعی ایسا ہو جاتا ہے تو کانگریس کی بڑی کامیابی ہو گی کیونکہ کرناٹک بالعموم قومی سیاسی لہر کی مخالف سمت میں جاتا ہے اور ان پارٹیوں کو ووٹ ملتے ہیں جو مرکز کے اقتدار میں شامل نہیں ہوتیں۔ 1975ء کی ایمرجنسی کے بعد سے اس ریاست کا یہی وطیرہ رہا ہے لیکن ممکن ہے اس بار یہ رجحان خاموشی سے بدل جائے۔

(ترجمہ: مظہر منہاس)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں