ن لیگ کی مقبولیت پیپلز پارٹی سے بڑھ گئی تحریک انصاف تیسرے نمبر پر
پنجاب اور خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف اور ن لیگ نے مضبوط قدم جمالیے، سندھ میں پی پی کی حمایت
KARACHI:
گیلپ پاکستان نے اس سال اپنے سروے میں نشاندہی کی ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی بہت تیزی سے ایک انتہائی غیر مقبول جماعت بن گئی ہے اور اس کی مقبولیت کا گراف اس کے اپنے ہی دور اقتدار کے 4سال کے دوران انتہائی نیچے آگیا ہے۔
2008ء کے عام انتخابات میں 31 فیصد ووٹروں نے پاکستان پیپلزپارٹی کو ووٹ دے کر منتخب کیا تھا۔ گیلپ سروے میں ملک بھر کے 4940 افراد سے رائے لی گئی تو یہ بات سامنے آئی کہ 2012ء میں 21 فیصد افراد پاکستان پیپلزپارٹی کو ووٹ دینے کے حق میں ہیں اس طرح اس کی مقبولیت 10فیصد کم ہوگئی ہے۔ دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف پاکستان کو آئندہ انتخابات میں ووٹ دینے کی خواہش رکھنے والے افراد کی تعداد میں بھاری اضافہ ہوا ہے۔
2008ء میں 20فیصد ووٹ حاصل کرنے والے میاں نواز شریف کی جماعت مسلم لیگ (ن) کو ووٹ دینے کی خواہش رکھنے والے افراد کی تعداد2012ء میں 33 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ سیاسی منظر پر ابھرنے والے نئے سیاستدان عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کو 17فیصد افراد ووٹ دینا چاہتے ہیں جس نے 2008ء میں انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔ سروے کے مطابق صدر آصف علی زرداری کے زیر انتظام چلنے والی حکومت کو عوام کی اکثریت کی جانب سے مسلسل ناپسند کیا جارہا ہے تاہم اس سال ایسے لوگوں کی تعداد میں کمی ہوئی ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ ملک صحیح سمت میں نہیں جارہا۔
2012ء میں ملک کی 87 فیصد آبادی یہ یقین رکھتی ہے کہ ملک غلط سمت میں آگے بڑھ رہا ہے، پچھلے سال یہ تناسب 93 فیصد تھا یعنی لوگوں کو ناموافق حالات میں بھی کوئی امید کی کرن نظر آرہی ہے۔ سروے کے نتائج کے مطابق صوبائی سطح پر پاکستان تحریک انصاف کو پنجاب اور خیبر پختوانخوا میں مضبوط جگہ بنائی ہے۔ عمران خان کو پیپلزپارٹی کے مقابلے میں پنجاب میں تقریبا دگنی حمایت حاصل ہے، پیپلزپارٹی کو 12فیصد جب کہ تحریک انصاف کو 21 فیصد ووٹرز پسند کررہے ہیں۔
اس صوبے میں تحریک انصاف کی بے پناہ کامیابیوں کے باوجود عمران خان کی سیاسی صلاحیت مسلم لیگ (ن) کے لیے کوئی خطر نہیں بن پائی اور مسلم لیگ ن نے بھی پنجاب میں اپنی حمایت میں اضافہ کیا ہے۔2008ء میں 29فیصد ووٹروں نے ن لیگ کو ووٹ دیے تھے اور آئندہ انتخابات میں 44 فیصد ووٹر اسے ووٹ دینے کے حق میں ہیں۔ سروے کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ پیپلزپارٹی نے حیرت انگیز طور پر سندھ میں اپنے ووٹرز کی تعداد میں اضافہ کیا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کراچی میں ایک بہت بڑا جلسہ کرنے کے باوجود قدم نہیں جما سکی اور صرف 6 فیصد ووٹر اس کے حق میں ہوئے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ کا نمبر سب سے آخر میں ہے اور اس کو 5 فیصد لوگ ووٹ دینا چاہتے ہیں۔ سروے کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے ہے کہ خیبر پختونخوا میں پیپلزپارٹی کے ساکھ بری طرح متاثر ہوئی ہے اور اس کے ووٹروں کی تعداد 2008ء کے 18فیصد سے کم ہوکر 2012ء میں 6 فیصد رہ گئی ہے۔ پیپلزپارٹی کی اتحادی اور حکمراں جماعت عوامی نیشنل پارٹی بھی 2008ء کے مقابلے میں 2012ء میں اپنے آدھے ووٹر گنوا چکی ہے۔
اس صوبے میں مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف نے قابل ذکر کامیابی حاصل کی اور دونوں پارٹیوں کو بالترتیب 42 اور 25 فیصد ووٹر منتخب کرنے کے حق میں ہیں۔ گیلپ سروے کے مطابق بلوچستان میں کوئی بھی جماعت بہت زیادہ مقبول نہیں۔ پیپلزپارٹی، مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف تینوں کی طاقت میں اضافہ ہوا ہے جب کہ دیگر جماعتوں کی حمایت میں کافی کمی آئی ہے۔
گیلپ سروے میں بلوچستان اور وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات میں امن و امان کی صورت حال پر بھی لوگوں نے رائے دی جس کے مطابق 71 فیصد بلوچستان کی خود مختاری کے حامی ہے اور دو تہائی آبادی آزادی کے خلاف ہے۔ 37فیصد آزادی کے حامی ہیں۔ این این آئی کے مطابق پیپلزپارٹی کی اتحادی جماعتوں ایم کیو ایم، اے این پی، مسلم لیگ ق اور جے یو آئی (ف) کو 2008ء میں 35فیصد ووٹ ملے تھے لیکن اب یہ تعداد کم ہوکر 14فیصد رہ گئی ہے۔
گیلپ پاکستان نے اس سال اپنے سروے میں نشاندہی کی ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی بہت تیزی سے ایک انتہائی غیر مقبول جماعت بن گئی ہے اور اس کی مقبولیت کا گراف اس کے اپنے ہی دور اقتدار کے 4سال کے دوران انتہائی نیچے آگیا ہے۔
2008ء کے عام انتخابات میں 31 فیصد ووٹروں نے پاکستان پیپلزپارٹی کو ووٹ دے کر منتخب کیا تھا۔ گیلپ سروے میں ملک بھر کے 4940 افراد سے رائے لی گئی تو یہ بات سامنے آئی کہ 2012ء میں 21 فیصد افراد پاکستان پیپلزپارٹی کو ووٹ دینے کے حق میں ہیں اس طرح اس کی مقبولیت 10فیصد کم ہوگئی ہے۔ دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف پاکستان کو آئندہ انتخابات میں ووٹ دینے کی خواہش رکھنے والے افراد کی تعداد میں بھاری اضافہ ہوا ہے۔
2008ء میں 20فیصد ووٹ حاصل کرنے والے میاں نواز شریف کی جماعت مسلم لیگ (ن) کو ووٹ دینے کی خواہش رکھنے والے افراد کی تعداد2012ء میں 33 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ سیاسی منظر پر ابھرنے والے نئے سیاستدان عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کو 17فیصد افراد ووٹ دینا چاہتے ہیں جس نے 2008ء میں انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔ سروے کے مطابق صدر آصف علی زرداری کے زیر انتظام چلنے والی حکومت کو عوام کی اکثریت کی جانب سے مسلسل ناپسند کیا جارہا ہے تاہم اس سال ایسے لوگوں کی تعداد میں کمی ہوئی ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ ملک صحیح سمت میں نہیں جارہا۔
2012ء میں ملک کی 87 فیصد آبادی یہ یقین رکھتی ہے کہ ملک غلط سمت میں آگے بڑھ رہا ہے، پچھلے سال یہ تناسب 93 فیصد تھا یعنی لوگوں کو ناموافق حالات میں بھی کوئی امید کی کرن نظر آرہی ہے۔ سروے کے نتائج کے مطابق صوبائی سطح پر پاکستان تحریک انصاف کو پنجاب اور خیبر پختوانخوا میں مضبوط جگہ بنائی ہے۔ عمران خان کو پیپلزپارٹی کے مقابلے میں پنجاب میں تقریبا دگنی حمایت حاصل ہے، پیپلزپارٹی کو 12فیصد جب کہ تحریک انصاف کو 21 فیصد ووٹرز پسند کررہے ہیں۔
اس صوبے میں تحریک انصاف کی بے پناہ کامیابیوں کے باوجود عمران خان کی سیاسی صلاحیت مسلم لیگ (ن) کے لیے کوئی خطر نہیں بن پائی اور مسلم لیگ ن نے بھی پنجاب میں اپنی حمایت میں اضافہ کیا ہے۔2008ء میں 29فیصد ووٹروں نے ن لیگ کو ووٹ دیے تھے اور آئندہ انتخابات میں 44 فیصد ووٹر اسے ووٹ دینے کے حق میں ہیں۔ سروے کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ پیپلزپارٹی نے حیرت انگیز طور پر سندھ میں اپنے ووٹرز کی تعداد میں اضافہ کیا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کراچی میں ایک بہت بڑا جلسہ کرنے کے باوجود قدم نہیں جما سکی اور صرف 6 فیصد ووٹر اس کے حق میں ہوئے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ کا نمبر سب سے آخر میں ہے اور اس کو 5 فیصد لوگ ووٹ دینا چاہتے ہیں۔ سروے کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے ہے کہ خیبر پختونخوا میں پیپلزپارٹی کے ساکھ بری طرح متاثر ہوئی ہے اور اس کے ووٹروں کی تعداد 2008ء کے 18فیصد سے کم ہوکر 2012ء میں 6 فیصد رہ گئی ہے۔ پیپلزپارٹی کی اتحادی اور حکمراں جماعت عوامی نیشنل پارٹی بھی 2008ء کے مقابلے میں 2012ء میں اپنے آدھے ووٹر گنوا چکی ہے۔
اس صوبے میں مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف نے قابل ذکر کامیابی حاصل کی اور دونوں پارٹیوں کو بالترتیب 42 اور 25 فیصد ووٹر منتخب کرنے کے حق میں ہیں۔ گیلپ سروے کے مطابق بلوچستان میں کوئی بھی جماعت بہت زیادہ مقبول نہیں۔ پیپلزپارٹی، مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف تینوں کی طاقت میں اضافہ ہوا ہے جب کہ دیگر جماعتوں کی حمایت میں کافی کمی آئی ہے۔
گیلپ سروے میں بلوچستان اور وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات میں امن و امان کی صورت حال پر بھی لوگوں نے رائے دی جس کے مطابق 71 فیصد بلوچستان کی خود مختاری کے حامی ہے اور دو تہائی آبادی آزادی کے خلاف ہے۔ 37فیصد آزادی کے حامی ہیں۔ این این آئی کے مطابق پیپلزپارٹی کی اتحادی جماعتوں ایم کیو ایم، اے این پی، مسلم لیگ ق اور جے یو آئی (ف) کو 2008ء میں 35فیصد ووٹ ملے تھے لیکن اب یہ تعداد کم ہوکر 14فیصد رہ گئی ہے۔