آئین قانون اور انصاف کی بنیادی ذمے داری
آئین میں ترمیم کا حق پارلیمنٹ کو حاصل ہے اور آج کل ہمارے پارلیمنٹیرین، پارلیمنٹ کو اپنی ماں کہہ کر فخر کر رہے ہیں۔
KARACHI:
ہمارے آئین کے آرٹیکل 6 کی آج کل ملک کے اندر اور ملک کے باہر دھوم مچی ہوئی ہے۔ اس آرٹیکل ہی کی وجہ سے دنیا کو یہ پتہ چلا ہے کہ ہمارے ملک میں اس آرٹیکل کی خلاف ورزیاں ہوتی رہی ہیں اور پہلی بار ایک سابق فوجی جنرل اس آرٹیکل کی خلاف ورزی کے جرم میں گرفتار ہوا ہے اور عدالتوں کا سامنا کر رہا ہے۔
اس آرٹیکل کے تحت کسی ''جمہوری حکومت'' کا تختہ الٹنے کی سزا موت ہے۔ اب یہ عدالت کی صوابدید پر ہے کہ وہ اس آرٹیکل کی خلاف ورزی کے مرتکب کو سزائے موت دیتے ہیں یا کوئی اور سزا۔ جنرل (ر) مشرف کی گرفتاری کے بعد ہمارے میڈیا میں سیاسی مفکرین یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ مشرف سے قبل ایوب خان سے ضیاء الحق تک جن جنرلوں نے اس اہم ترین آرٹیکل کی جو خلاف ورزیاں کی ہیں اس کا نوٹس کیوں نہیں لیا گیا؟ یہی نہیں بلکہ ہماری ماضی کی عدلیہ نے نہ صرف فوجی بغاوتوں کو نظریہ ضرورت کے تحت جائز قرار دیا بلکہ فوجی آمروں کو آئین میں ترامیم کے اختیارات بھی دیے گئے اور محترم جج صاحبان نے ان ہی آمروں کے پی سی او کے تحت حلف بھی اٹھائے۔
ہماری معلومات کے مطابق آرٹیکل 6 کی خلاف ورزی کرنے والے کے خلاف منتخب حکومت کو عدالت سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔ ایوب خان کے بعد یحییٰ خان نے اقتدار سنبھالا۔ کیا یحییٰ خان کا اقتدار سنبھالنا آرٹیکل 6 کی خلاف ورزی تھی؟ اس کا جواب تو قانونی ماہرین ہی دے سکتے ہیں لیکن جو بات وضاحت طلب ہے وہ یہ ہے کہ سول حکومتوں کے برسر اقتدار آنے کے باوجود فوجی آمروں کے خلاف عدالت سے رجوع کیوں نہیں کیا گیا اور معزز عدلیہ کے جج صاحبان نے فوجی حکومتوں کو جائز قرار کیوں دیا اور ان ہی آمروں کے نافذ کردہ پی سی او کے تحت حلف کیوں لیا؟ جن جج صاحبان نے پی سی او کے تحت حلف لینے سے انکار کیا ان کی عظمت کے اعتراف سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ پی سی او کے تحت حلف لینا انتہائی غلط اور قابل اعتراض بات ہے۔
آرٹیکل 6 کی خلاف ورزی آئین کے مطابق بغاوت ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس بغاوت کو کسی بھی حوالے سے جائز قرار دینا اور پی سی او کے تحت حلف اٹھانا بغاوت کی اعانت کے زمرے میں آتا ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو نے نہ آرٹیکل 6 کی خلاف ورزی کی تھی نہ نواب احمد کو قتل کیا تھا انھیں جو سزائے موت دی گئی وہ اعانت جرم کی وجہ سے دی گئی۔ اور آج تک بھٹو کی سزائے موت کو عدالتی قتل کہا جاتا ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بھٹو کو یہ سزا ضیاء الحق نے دلوائی کیونکہ بھٹو کا زندہ رہنا ضیاء الحق کی زندگی اور اقتدار کے لیے خطرہ بن رہا تھا۔
یعنی بھٹو کی پھانسی میں ذاتی انتقام کا پہلو موجود تھا۔ اعانت جرم اگر اتنا بڑا جرم ہے کہ جس کی سزا پھانسی ہو سکتی ہے تو پھر ہمارے میڈیا میں اٹھائے جانے والے ان سوالوں کا جواب کیا ہو گا کہ فوجی بغاوتوں کو جائز قرار دینا اور فوجی حکمرانوں کے نافذ کردہ پی سی او کے تحت حلف اٹھانا اعانت جرم کے زمرے میں آتا ہے، اگر آتا ہے تو آگے کیا ہونا چاہیے؟
آرٹیکل 6 کا تعلق جمہوری حکومتوں کا تختہ الٹنے سے ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک کی سیاسی تاریخ جس جمہوریت سے بھری ہوئی ہے اسے اہل خرد جمہوریت ماننے کے لیے ہی تیار نہیں۔ 1958ء تک جمہوریت کے نام پر محلاتی سازشوں کا دور رہا، ان ہی محلاتی سازشوں نے ایوب خان کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ اقتدار پر قبضہ کر لے۔ 1970ء کے الیکشن کا نتیجہ ہمارے سامنے سول اور ملٹری رہنماؤں کی ان سازشوں کی شکل میں موجود ہے جو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا سبب بن گئیں۔
ہمارے ذہنوں میں فطری طور پر یہ سوال ابھرتا ہے کہ فوجی بغاوت ہماری رائج الوقت جمہوریت میں چند افراد کی اقتدار کے لیے لڑائی سے زیادہ معنی نہیں رکھتی جب کہ پاکستان توڑنا آرٹیکل 6 سے زیادہ بڑا جرم کہلاتا ہے۔ اگر ملک توڑنا فوجی بغاوت سے بڑا جرم ہے تو اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف کیا کارروائی کی گئی؟ اگر کوئی کارروائی نہیں کی گئی تو اس کی ذمے داری کس پر آتی ہے، کیا کسی ادارے نے اس بدترین جرم کا نوٹس لیا تھا؟ نہیں لیا تو کیوں نہیں لیا؟ حتیٰ کہ حمود الرحمٰن کمیشن کی رپورٹ کو بھی سازشوں کا شکار کر دیا گیا۔
دنیا کے کسی قانون، کسی آئین کو لے لیں، اس کی بنیادی روح عوام کی فلاح و بہبود، عوامی مسائل کا حل اور عوام کے حقوق کا تحفظ ہی ہوتی ہے۔ اگر آئین قانون اور انصاف کا مطلب و مقصد یہی ہے تو پھر ہمارے ملک میں 65 سال سے جو قانون، آئین اور انصاف موجود ہے کیا وہ اس روح کے مطابق ذمے داری ادا کر رہا ہے؟ ریاست اور ریاست کے تمام ادارے سیاست اور سیاست کے تمام ادارے عوام کی خدمت، عوام کے مسائل کے حل کے پابند ہی نہیں بلکہ ملازم ہیں اور آئین قانون اور انصاف کی بنیادی ذمے داری عوام کے حقوق کی حفاظت ہے اور عوام کے حقوق میں سب سے بڑا حق عوام کے جان و مال کا تحفظ ہے۔
اگر کوئی حکومت عوام کے جان و مال کا تحفظ نہیں کر سکتی تو وہ ہمارے خیال میں آرٹیکل 6 کی خلاف ورزی سے بڑی خلاف ورزی کی مرتکب ہوتی ہے کیونکہ یہ خلاف ورزی ایک یا چند افراد کے درمیان ہونے والی خلاف ورزی نہیں بلکہ اس ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے اور اس خلاف ورزی کی سزا آرٹیکل 6 کی سزا سے زیادہ سنگین ہونی چاہیے۔ کیا اس حقیقت سے کوئی صاحب بصیرت انسان اختلاف کر سکتا ہے؟ اگر یہ فلسفہ درست ہے تو ہمارے آئین میں ترمیم کر کے عوام کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزیاں کرنے والوں کو سزائے موت دینے کا بندوبست کیا جانا چاہیے۔ 65 سال سے اس ملک کا حکمراں طبقہ عوام کے بنیادی حقوق کی بدترین خلاف ورزی کرتا آ رہا ہے اور آج بھی کر رہا ہے اور اگر آئین میں یہ ضروری اور ناگزیر ترمیم کر کے برسراقتدار طبقات کو آرٹیکل 6 جیسی سزا کا مستحق نہ بنایا گیا تو عوام کے حقوق آئندہ بھی اسی طرح پامال ہوتے رہیں گے جس طرح اب تک ہوتے آ رہے ہیں۔
آئین میں ترمیم کا حق پارلیمنٹ کو حاصل ہے اور آج کل ہمارے پارلیمنٹیرین، پارلیمنٹ کو اپنی ماں کہہ کر فخر کر رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے ہماری پارلیمنٹ پارلیمنٹیرینز کی ماں ہو لیکن 65 سال سے ہماری پارلیمنٹ اس ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام کی ایسی سوتیلی ماں بنی ہوئی ہے جو اپنے نکمے بیٹوں کو تو زندگی کے ہر عیش و عشرت سے نواز رہی ہے اور 18 کروڑ غریب عوام کو جو اس ملک کے حقیقی مالک ہیں بھوک، افلاس، بیماری، بے روزگاری، دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، جان و مال کے عدم تحفظ کے صحراؤں میں دھکیل رہی ہے۔ کیا ان چشم کشا حقائق کی روشنی میں آرٹیکل 6 جیسے ایک اور آرٹیکل کی آئین میں شمولیت ضروری نہیں؟ لیکن یہ کام کرے گا کون؟ کیا نظام بدلنے، انقلاب لانے، نیا پاکستان بنانے والے اور اسلامی نظام نافذ کرنے کے دعویدار آئین میں ایسی ترمیم لانے کے لیے تیار ہیں اور ان سوالوں کے جواب دیں گے ؟
ہمارے آئین کے آرٹیکل 6 کی آج کل ملک کے اندر اور ملک کے باہر دھوم مچی ہوئی ہے۔ اس آرٹیکل ہی کی وجہ سے دنیا کو یہ پتہ چلا ہے کہ ہمارے ملک میں اس آرٹیکل کی خلاف ورزیاں ہوتی رہی ہیں اور پہلی بار ایک سابق فوجی جنرل اس آرٹیکل کی خلاف ورزی کے جرم میں گرفتار ہوا ہے اور عدالتوں کا سامنا کر رہا ہے۔
اس آرٹیکل کے تحت کسی ''جمہوری حکومت'' کا تختہ الٹنے کی سزا موت ہے۔ اب یہ عدالت کی صوابدید پر ہے کہ وہ اس آرٹیکل کی خلاف ورزی کے مرتکب کو سزائے موت دیتے ہیں یا کوئی اور سزا۔ جنرل (ر) مشرف کی گرفتاری کے بعد ہمارے میڈیا میں سیاسی مفکرین یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ مشرف سے قبل ایوب خان سے ضیاء الحق تک جن جنرلوں نے اس اہم ترین آرٹیکل کی جو خلاف ورزیاں کی ہیں اس کا نوٹس کیوں نہیں لیا گیا؟ یہی نہیں بلکہ ہماری ماضی کی عدلیہ نے نہ صرف فوجی بغاوتوں کو نظریہ ضرورت کے تحت جائز قرار دیا بلکہ فوجی آمروں کو آئین میں ترامیم کے اختیارات بھی دیے گئے اور محترم جج صاحبان نے ان ہی آمروں کے پی سی او کے تحت حلف بھی اٹھائے۔
ہماری معلومات کے مطابق آرٹیکل 6 کی خلاف ورزی کرنے والے کے خلاف منتخب حکومت کو عدالت سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔ ایوب خان کے بعد یحییٰ خان نے اقتدار سنبھالا۔ کیا یحییٰ خان کا اقتدار سنبھالنا آرٹیکل 6 کی خلاف ورزی تھی؟ اس کا جواب تو قانونی ماہرین ہی دے سکتے ہیں لیکن جو بات وضاحت طلب ہے وہ یہ ہے کہ سول حکومتوں کے برسر اقتدار آنے کے باوجود فوجی آمروں کے خلاف عدالت سے رجوع کیوں نہیں کیا گیا اور معزز عدلیہ کے جج صاحبان نے فوجی حکومتوں کو جائز قرار کیوں دیا اور ان ہی آمروں کے نافذ کردہ پی سی او کے تحت حلف کیوں لیا؟ جن جج صاحبان نے پی سی او کے تحت حلف لینے سے انکار کیا ان کی عظمت کے اعتراف سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ پی سی او کے تحت حلف لینا انتہائی غلط اور قابل اعتراض بات ہے۔
آرٹیکل 6 کی خلاف ورزی آئین کے مطابق بغاوت ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس بغاوت کو کسی بھی حوالے سے جائز قرار دینا اور پی سی او کے تحت حلف اٹھانا بغاوت کی اعانت کے زمرے میں آتا ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو نے نہ آرٹیکل 6 کی خلاف ورزی کی تھی نہ نواب احمد کو قتل کیا تھا انھیں جو سزائے موت دی گئی وہ اعانت جرم کی وجہ سے دی گئی۔ اور آج تک بھٹو کی سزائے موت کو عدالتی قتل کہا جاتا ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بھٹو کو یہ سزا ضیاء الحق نے دلوائی کیونکہ بھٹو کا زندہ رہنا ضیاء الحق کی زندگی اور اقتدار کے لیے خطرہ بن رہا تھا۔
یعنی بھٹو کی پھانسی میں ذاتی انتقام کا پہلو موجود تھا۔ اعانت جرم اگر اتنا بڑا جرم ہے کہ جس کی سزا پھانسی ہو سکتی ہے تو پھر ہمارے میڈیا میں اٹھائے جانے والے ان سوالوں کا جواب کیا ہو گا کہ فوجی بغاوتوں کو جائز قرار دینا اور فوجی حکمرانوں کے نافذ کردہ پی سی او کے تحت حلف اٹھانا اعانت جرم کے زمرے میں آتا ہے، اگر آتا ہے تو آگے کیا ہونا چاہیے؟
آرٹیکل 6 کا تعلق جمہوری حکومتوں کا تختہ الٹنے سے ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک کی سیاسی تاریخ جس جمہوریت سے بھری ہوئی ہے اسے اہل خرد جمہوریت ماننے کے لیے ہی تیار نہیں۔ 1958ء تک جمہوریت کے نام پر محلاتی سازشوں کا دور رہا، ان ہی محلاتی سازشوں نے ایوب خان کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ اقتدار پر قبضہ کر لے۔ 1970ء کے الیکشن کا نتیجہ ہمارے سامنے سول اور ملٹری رہنماؤں کی ان سازشوں کی شکل میں موجود ہے جو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا سبب بن گئیں۔
ہمارے ذہنوں میں فطری طور پر یہ سوال ابھرتا ہے کہ فوجی بغاوت ہماری رائج الوقت جمہوریت میں چند افراد کی اقتدار کے لیے لڑائی سے زیادہ معنی نہیں رکھتی جب کہ پاکستان توڑنا آرٹیکل 6 سے زیادہ بڑا جرم کہلاتا ہے۔ اگر ملک توڑنا فوجی بغاوت سے بڑا جرم ہے تو اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف کیا کارروائی کی گئی؟ اگر کوئی کارروائی نہیں کی گئی تو اس کی ذمے داری کس پر آتی ہے، کیا کسی ادارے نے اس بدترین جرم کا نوٹس لیا تھا؟ نہیں لیا تو کیوں نہیں لیا؟ حتیٰ کہ حمود الرحمٰن کمیشن کی رپورٹ کو بھی سازشوں کا شکار کر دیا گیا۔
دنیا کے کسی قانون، کسی آئین کو لے لیں، اس کی بنیادی روح عوام کی فلاح و بہبود، عوامی مسائل کا حل اور عوام کے حقوق کا تحفظ ہی ہوتی ہے۔ اگر آئین قانون اور انصاف کا مطلب و مقصد یہی ہے تو پھر ہمارے ملک میں 65 سال سے جو قانون، آئین اور انصاف موجود ہے کیا وہ اس روح کے مطابق ذمے داری ادا کر رہا ہے؟ ریاست اور ریاست کے تمام ادارے سیاست اور سیاست کے تمام ادارے عوام کی خدمت، عوام کے مسائل کے حل کے پابند ہی نہیں بلکہ ملازم ہیں اور آئین قانون اور انصاف کی بنیادی ذمے داری عوام کے حقوق کی حفاظت ہے اور عوام کے حقوق میں سب سے بڑا حق عوام کے جان و مال کا تحفظ ہے۔
اگر کوئی حکومت عوام کے جان و مال کا تحفظ نہیں کر سکتی تو وہ ہمارے خیال میں آرٹیکل 6 کی خلاف ورزی سے بڑی خلاف ورزی کی مرتکب ہوتی ہے کیونکہ یہ خلاف ورزی ایک یا چند افراد کے درمیان ہونے والی خلاف ورزی نہیں بلکہ اس ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے اور اس خلاف ورزی کی سزا آرٹیکل 6 کی سزا سے زیادہ سنگین ہونی چاہیے۔ کیا اس حقیقت سے کوئی صاحب بصیرت انسان اختلاف کر سکتا ہے؟ اگر یہ فلسفہ درست ہے تو ہمارے آئین میں ترمیم کر کے عوام کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزیاں کرنے والوں کو سزائے موت دینے کا بندوبست کیا جانا چاہیے۔ 65 سال سے اس ملک کا حکمراں طبقہ عوام کے بنیادی حقوق کی بدترین خلاف ورزی کرتا آ رہا ہے اور آج بھی کر رہا ہے اور اگر آئین میں یہ ضروری اور ناگزیر ترمیم کر کے برسراقتدار طبقات کو آرٹیکل 6 جیسی سزا کا مستحق نہ بنایا گیا تو عوام کے حقوق آئندہ بھی اسی طرح پامال ہوتے رہیں گے جس طرح اب تک ہوتے آ رہے ہیں۔
آئین میں ترمیم کا حق پارلیمنٹ کو حاصل ہے اور آج کل ہمارے پارلیمنٹیرین، پارلیمنٹ کو اپنی ماں کہہ کر فخر کر رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے ہماری پارلیمنٹ پارلیمنٹیرینز کی ماں ہو لیکن 65 سال سے ہماری پارلیمنٹ اس ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام کی ایسی سوتیلی ماں بنی ہوئی ہے جو اپنے نکمے بیٹوں کو تو زندگی کے ہر عیش و عشرت سے نواز رہی ہے اور 18 کروڑ غریب عوام کو جو اس ملک کے حقیقی مالک ہیں بھوک، افلاس، بیماری، بے روزگاری، دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، جان و مال کے عدم تحفظ کے صحراؤں میں دھکیل رہی ہے۔ کیا ان چشم کشا حقائق کی روشنی میں آرٹیکل 6 جیسے ایک اور آرٹیکل کی آئین میں شمولیت ضروری نہیں؟ لیکن یہ کام کرے گا کون؟ کیا نظام بدلنے، انقلاب لانے، نیا پاکستان بنانے والے اور اسلامی نظام نافذ کرنے کے دعویدار آئین میں ایسی ترمیم لانے کے لیے تیار ہیں اور ان سوالوں کے جواب دیں گے ؟