محتسب احتساب اور ضمیر
افسوس کا مقام ہے کہ وہ حضرات جو حکومتی نوکریاں فروخت کرتے ہیں وہ کلیدی مقام پر فائز رہے۔
جمہوریت کے پانچ برسوں میں عوام کو جس قدر مشکلات کا سامنا کرنا پڑا شاید ہی ایسی کسمپرسی کا عالم کبھی دیکھا گیا ہو، جمہوریت، آزاد خیالی، روشن خیالی، مذہبی آزادی و رواداری، معاشی انصاف، روٹی، کپڑا اور مکان کے نام پر جو کچھ کیاگیا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔
تمام اداروں کو یہ چھوٹ دے دی گئی کہ وہ عوام کو خوب لوٹیں اور باز پرس کرنے کی ہر سیڑھی کو توڑ دیا گیا کہ عوام کہاں جائیں اور کس دروازے پر دستک دیں، یہاں تک کہ وفاقی اور صوبائی محتسب بھی عوام کے بعض معاملات پر فیصلہ نہیں کرسکتے، ایک وقت تھا کہ ٹیلی فون کے من مانے بل، بجلی کی بے دریغ بلنگ کی روک تھام موجود تھی مگر جب سے کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کو صوبائی اور وفاقی محتسب کے احتساب سے دور کردیا گیا ہے اور اس کو نجی کی شق لگادی گئی ہے تو پھر کیا ہے۔
سڑک پر خوانچے فروشوں، گنے کے رس نکالنے والی مشینوں کا بل بھی اسی علاقے کے عوام پر ڈال دیا جاتا ہے اور دادرسی کسی کی بھی نہیں، غریب علاقوں میں تو یہ بلنگ ایک کاروبار بن گیا ہے، ماہانہ ''سیٹنگ'' پر کام جاری ہے اور عوام اپنی مشکلات کا ازالہ کیسے کریں۔ بجلی کا خانہ ابھی بھی وفاقی محتسب کی دسترس سے باہر ہے۔ اگر آپ کو بلنگ درست کرانی ہے تو پھر ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کریں کیونکہ کے ای ایس سی میں حکومتی سطح کے بااثر حضرات کی ساجھے داری ہے، کمیشن مافیا موجود ہے ۔
گزشتہ کافی عرصے سے یہ بے ڈھنگی چال جاری ہے، گزشتہ روشن خیال جماعتوں کو جو بھٹو اور بے نظیر کے نام پر حکومت میں آئی تھیں یہ ان کا فرض تھا کہ ملک میں ایک ایسی حکومت قائم کریں جو عوام کی ہو، عوام کے لیے ہو اور عوام کے ذریعے سے تمام کاموں کو سرانجام دیتی ہو، مگر ایسا نہ کیا گیا۔ افسوس کا مقام ہے کہ وہ حضرات جو حکومتی نوکریاں فروخت کرتے ہیں وہ کلیدی مقام پر فائز رہے۔
کرپشن پر چیف جسٹس صاحب نے بھی بہت سے معاملات پر از خود نوٹس لیے مگر معاملات اور کرپشن جاری رہی۔ جنگ زرگری میں مشغول حکومتوں نے ہر صوبہ کے عوام کو متنفر کردیا اور ان کی نظروں میں جمہوریت کا موجودہ انداز نگہبانی مسترد کردیا ہے۔ صوبائی حکومتوں کی ناقص کارکردگی نے عوام کو یہ محسوس کرنے پر مجبور کردیا ہے کہ جمہوری طرز حکومت کا مقصد لاقانونیت، کرپشن اور ہر چیز برائے فروخت ہے۔ محض نعروں اور اجداد کی کارکردگی کی بنیاد پر حکومتوں کا کنٹرول نہیں سنبھالا جاسکتا، کئی مرتبہ پیپلزپارٹی کو یہ موقع ملا مگر وہ اپنے اجداد کے منشور تو دور کی بات کوئی واضح حکمت عملی کی وضاحت کرنے سے گریزاں ہیں، محض ماضی کی زیادتیوں کی بنیاد پر ووٹ مانگ رہے ہیں، اگر یہ سیکولر جماعتیں عوامی کارکردگی کے میدان میں نمایاں ہوتیں تو آج یہ مایوس کن صورتحال نہ ہوتی۔
کراچی کا احوال یہ ہے کہ سائٹ ایریا بنارس کے پل سے لے کر ولیکا مل اور پھر جو روڈ ولیکا سے مرکزی سائٹ ایریا جارہا ہے، جہاں سے مصنوعات کی ترسیل ہوتی ہے، بسیں چلتی ہیں، وہ ایک بدترین علاقے کا نظارہ پیش کررہی ہیں، فیکٹریاں خصوصاً گارمنٹ کی بے حد زبوں حالی کا شکارہیں ، اس پر بدنظمی، لاقانونیت نے کاروباری صنعت کو زبردست دھچکا پہنچایا ہے۔ 2013 اچانک نہیں آگیا حکمرانوں کو یہ بھی ادراک نہیں کہ ہماری ترقی کی رفتار بعض اعداد وشمار کے اعتبار سے معکوس اور بعض شماریات کے تحت 2 فیصد مگر آبادی کی شرح 10 فیصد سے بھی کہیں زیادہ ہے جس کی پوری طرح مردم شماری نہیں کی گئی ہے۔
اب تک کراچی کی اصل آبادی طے نہ ہوسکی کہ کتنے کروڑ پر مشتمل ہے، ناقص منصوبہ بندی، کمزور ذرائع پیداوار نے بجلی کا مسئلہ پیدا کیا اور حکومت کے پاس ہر چیز کا یہ حل کہ وہ بجلی کی قیمت میں اور پٹرولیم مصنوعات میں اضافہ کرکے اپنے اخراجات پورے کرے۔ آج ہم جس مشکل دور سے گزر رہے ہیں تمام حکمران چشم پوشی سے کام لے رہے ہیں اور عوام کو سچ بتانے کی کوشش نہیں کرتے کہ وہ معیشت کو کیسے سنبھالیں گے۔ یہ ایک طرف تو دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑرہے ہیں مگر دہشت گردی کا ماحول پیدا کرنے اور اس کے لیے زمین ہموار کررہے ہیں۔ بے روزگاری، مایوسی، زندگی سے بیزاری عوام کو ایک وقت کی بھی نان شبینہ میسر نہیں، بجلی، پانی، گیس ہی غربا کے لیے پانا مشکل، انصاف ناممکن۔
پاکستان کے بینکوں سے زرکثیر نکالنے والے لیڈر ظاہر ہے عوام ان کو پہچان رہے ہیں، اور غریب عوام لا قانونیت کے راستہ کو فلاح کا راستہ تصور کررہے ہیں اور روز بروز ان کی فکری قوت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ پاکستان کی ترقی پسند اور سیکولر قوتوں کا کردار عوام کے لیے باعث تقلید ہرگز نہیں بلکہ ان کی نااہلی نے غریب عوام کے دلوں میں نفرت بھردی ہے اور ان کو ایک سیاسی پلیٹ فارم مقرر کردیا ہے۔
اس وقت پاکستان میں دائیں اور بائیں بازو کی جو تفریق ہے وہ یقیناً ملک کے لیے ہرگز بہتر نہیں۔ ان پانچ برسوں میں جو کچھ بھی ہوا اور فرینڈلی اپوزیشن اتحادی حکومت نے بھی جو کردار انجام دیا وہ بھی قابل تحسین نہیں، بلکہ ایسا لگتاہے کہ جمہوریت کے5 برس جو عوام کا سخت ترین دور تھا اﷲ اﷲ کرکے گزرگیا مگر سیاسی پارٹیوں کے مابین بڑھتی ہوئی خلیج ایک خطرے کا نشان ہے۔
پیپلزپارٹی سندھ میں مزید محدود ہوکر رہ جائے گی، کیونکہ یہ شخصیتوں کی سیاست کرتی ہے اور عوامی معاملات اور امنگوں کی سیاست نہیں کررہی بلکہ جلد یا دیر سندھ کی قوم پرست جماعتیں پیپلزپارٹی پر حاوی ہوجائیں گی کیونکہ پیپلزپارٹی پڑھے لکھے نوجوانوں میں اپنا ووٹ بینک کھورہی ہے۔
اس کی نظریاتی اساس نہایت کمزور ہوگئی ہے، مذہبی پارٹیاں دوبارہ ملک میں مضبوط ہورہی ہیں مگر عمران خان کی پارٹی نے دائیں اور بائیں کے درمیان اپنا مقام بخوبی بنالیا ہے اور عوامی نیشنل پارٹی نے اپنی ناقص کارکردگی میں پانچ سال ضایع کردیے، اس لیے پشتون نوجوانوں میں عمران خان نے ایک مقام بنالیا ہے، نہ وہ کھل کر امریکا کی مخالفت کرتے ہیں اور نہ ہی طالبان کی، اس لیے اپنی میانہ روی سے انتخابی پالیسی، ایک مضبوط پالیسی بنانے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور کامیابی سے جلسے کررہے ہیں۔
البتہ عمران خان اور نواز شریف میں زبردست مقابلہ نظر آتا ہے، دونوں پارٹیاں کھل کر جلسے کررہی ہیں مگر پیپلزپارٹی کا پنجاب میں انتخابی میدان بالکل خالی ہے جو انھوں نے دانستہ نواز شریف کے لیے چھوڑ دیا ہے۔
پیپلزپارٹی نے اپنے ووٹر کے لیے کچھ بھی ایسا نہ کیا کہ جس کی بنیاد پر وہ عوام کے روبرو جاسکتے ہیں، جب کہ ان کے مقابل قوتیں جو پورے پاکستان میں موجود ہیں وہ پرعزم اور پر حوصلہ ہیں، گو کہ عمران خان تو اس میدان میں نو وارد ہیں ان کے متعلق پیش گوئی کرنا قبل از وقت ہے مگر ن لیگ تو کئی بار حکومت میں آئی اور گئی، ایک اور کیس جو انتخابی مہم کو کمزور کرے گا اور سوالیہ نشان بن سکتا ہے وہ ہے پرویز مشرف کا مسئلہ، جو انتخابات کے بعد یا چند روز قبل ایسے انکشافات ممکن ہیں کہ جس میں بہت سے پرانے سیاسی چہروں کی نقاب کشائی ممکن ہے۔
موجودہ انتخابی عمل جس راہ پر گامزن ہے اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ پنجاب میں ووٹنگ کی شرح 50 فیصد اور خیبر پختونخوا میں 35/40 فیصد کے قریب ہوگی، سندھ میں انتخابی گہما گہمی میں بھی 40 فیصد تک کے امکانات ہیں یا ممکن ہے اس سے بھی کم پر فیصلہ ہوجائے، کیونکہ کراچی پر خوف کے سائے لہرا رہے ہیں۔
پاکستان کا یہ بھی ایک المیہ رہا ہے کہ یہاں کے بائیں بازو کے لیڈر ہمیشہ اصولوں اور اپنے ضمیر کے قیدی بن کر نہیں رہے جو بائیں بازو کے اصل سیاست دان تھے وہ نظر انداز کیے گئے اور سیاست میں ضمیر فروشی کی ایک رسم چل نکلی ہے، جس کو سیاست کا نام دیاگیا۔ ظاہر ہے جس ملک میں احتساب نام کا کوئی حصہ ہی نہ ہو اور سیاست دان سرتاج اور قانون سے بالاتر ہوں وہاں امن کیونکر قائم ہوسکتا ہے۔ سیاست دانوں کا فرض ہے کہ وہ خود اپنا احتساب کریں اور مواخذہ کی سیاست کو فروغ دیا جائے۔
اگر ملک سے انصاف یونہی رخصت ہوتا رہا تو پھر ہم جو موجودہ انتخابات کو تمام مسائل کا حل سمجھ بیٹھے ہیں کسی مسئلے کو حل نہ کرسکے گا، کیونکہ ملک کی خارجہ پالیسی پر کسی بھی پارٹی کی کوئی واضح حکمت عملی نہیں ہے۔ بھارت، افغانستان، ایران سے تعلقات کی نوعیت کیا ہوگی اور انتخابات کے بعد ہمارے تعلقات چین، روس اور امریکا سے کس بنیاد پر ہوں گے، کیونکہ میں نے ماضی میں کئی بار یہ تحریر کیا ہے کہ اب دنیا یونی پولرنہیں رہی، شمالی کوریا، شام کے معاملات ورنہ اس قدر پیچیدہ نہ ہوتے مگر لیڈروں کو نہ اپنے ملکی معاملات کا ادراک ہے اور نہ دنیا کا، محض پیٹ اور پیسہ ہی ان کا مطمع نظر ہے، لیڈروں نے لوٹ مار کے کلچر کو فروغ دیا، اسی لیے ملک میں لا قانونیت کا دور دورہ ہے، اس لیے یہ یقینی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ نظام کو بدلنا ہوگا۔
تمام اداروں کو یہ چھوٹ دے دی گئی کہ وہ عوام کو خوب لوٹیں اور باز پرس کرنے کی ہر سیڑھی کو توڑ دیا گیا کہ عوام کہاں جائیں اور کس دروازے پر دستک دیں، یہاں تک کہ وفاقی اور صوبائی محتسب بھی عوام کے بعض معاملات پر فیصلہ نہیں کرسکتے، ایک وقت تھا کہ ٹیلی فون کے من مانے بل، بجلی کی بے دریغ بلنگ کی روک تھام موجود تھی مگر جب سے کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کو صوبائی اور وفاقی محتسب کے احتساب سے دور کردیا گیا ہے اور اس کو نجی کی شق لگادی گئی ہے تو پھر کیا ہے۔
سڑک پر خوانچے فروشوں، گنے کے رس نکالنے والی مشینوں کا بل بھی اسی علاقے کے عوام پر ڈال دیا جاتا ہے اور دادرسی کسی کی بھی نہیں، غریب علاقوں میں تو یہ بلنگ ایک کاروبار بن گیا ہے، ماہانہ ''سیٹنگ'' پر کام جاری ہے اور عوام اپنی مشکلات کا ازالہ کیسے کریں۔ بجلی کا خانہ ابھی بھی وفاقی محتسب کی دسترس سے باہر ہے۔ اگر آپ کو بلنگ درست کرانی ہے تو پھر ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کریں کیونکہ کے ای ایس سی میں حکومتی سطح کے بااثر حضرات کی ساجھے داری ہے، کمیشن مافیا موجود ہے ۔
گزشتہ کافی عرصے سے یہ بے ڈھنگی چال جاری ہے، گزشتہ روشن خیال جماعتوں کو جو بھٹو اور بے نظیر کے نام پر حکومت میں آئی تھیں یہ ان کا فرض تھا کہ ملک میں ایک ایسی حکومت قائم کریں جو عوام کی ہو، عوام کے لیے ہو اور عوام کے ذریعے سے تمام کاموں کو سرانجام دیتی ہو، مگر ایسا نہ کیا گیا۔ افسوس کا مقام ہے کہ وہ حضرات جو حکومتی نوکریاں فروخت کرتے ہیں وہ کلیدی مقام پر فائز رہے۔
کرپشن پر چیف جسٹس صاحب نے بھی بہت سے معاملات پر از خود نوٹس لیے مگر معاملات اور کرپشن جاری رہی۔ جنگ زرگری میں مشغول حکومتوں نے ہر صوبہ کے عوام کو متنفر کردیا اور ان کی نظروں میں جمہوریت کا موجودہ انداز نگہبانی مسترد کردیا ہے۔ صوبائی حکومتوں کی ناقص کارکردگی نے عوام کو یہ محسوس کرنے پر مجبور کردیا ہے کہ جمہوری طرز حکومت کا مقصد لاقانونیت، کرپشن اور ہر چیز برائے فروخت ہے۔ محض نعروں اور اجداد کی کارکردگی کی بنیاد پر حکومتوں کا کنٹرول نہیں سنبھالا جاسکتا، کئی مرتبہ پیپلزپارٹی کو یہ موقع ملا مگر وہ اپنے اجداد کے منشور تو دور کی بات کوئی واضح حکمت عملی کی وضاحت کرنے سے گریزاں ہیں، محض ماضی کی زیادتیوں کی بنیاد پر ووٹ مانگ رہے ہیں، اگر یہ سیکولر جماعتیں عوامی کارکردگی کے میدان میں نمایاں ہوتیں تو آج یہ مایوس کن صورتحال نہ ہوتی۔
کراچی کا احوال یہ ہے کہ سائٹ ایریا بنارس کے پل سے لے کر ولیکا مل اور پھر جو روڈ ولیکا سے مرکزی سائٹ ایریا جارہا ہے، جہاں سے مصنوعات کی ترسیل ہوتی ہے، بسیں چلتی ہیں، وہ ایک بدترین علاقے کا نظارہ پیش کررہی ہیں، فیکٹریاں خصوصاً گارمنٹ کی بے حد زبوں حالی کا شکارہیں ، اس پر بدنظمی، لاقانونیت نے کاروباری صنعت کو زبردست دھچکا پہنچایا ہے۔ 2013 اچانک نہیں آگیا حکمرانوں کو یہ بھی ادراک نہیں کہ ہماری ترقی کی رفتار بعض اعداد وشمار کے اعتبار سے معکوس اور بعض شماریات کے تحت 2 فیصد مگر آبادی کی شرح 10 فیصد سے بھی کہیں زیادہ ہے جس کی پوری طرح مردم شماری نہیں کی گئی ہے۔
اب تک کراچی کی اصل آبادی طے نہ ہوسکی کہ کتنے کروڑ پر مشتمل ہے، ناقص منصوبہ بندی، کمزور ذرائع پیداوار نے بجلی کا مسئلہ پیدا کیا اور حکومت کے پاس ہر چیز کا یہ حل کہ وہ بجلی کی قیمت میں اور پٹرولیم مصنوعات میں اضافہ کرکے اپنے اخراجات پورے کرے۔ آج ہم جس مشکل دور سے گزر رہے ہیں تمام حکمران چشم پوشی سے کام لے رہے ہیں اور عوام کو سچ بتانے کی کوشش نہیں کرتے کہ وہ معیشت کو کیسے سنبھالیں گے۔ یہ ایک طرف تو دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑرہے ہیں مگر دہشت گردی کا ماحول پیدا کرنے اور اس کے لیے زمین ہموار کررہے ہیں۔ بے روزگاری، مایوسی، زندگی سے بیزاری عوام کو ایک وقت کی بھی نان شبینہ میسر نہیں، بجلی، پانی، گیس ہی غربا کے لیے پانا مشکل، انصاف ناممکن۔
پاکستان کے بینکوں سے زرکثیر نکالنے والے لیڈر ظاہر ہے عوام ان کو پہچان رہے ہیں، اور غریب عوام لا قانونیت کے راستہ کو فلاح کا راستہ تصور کررہے ہیں اور روز بروز ان کی فکری قوت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ پاکستان کی ترقی پسند اور سیکولر قوتوں کا کردار عوام کے لیے باعث تقلید ہرگز نہیں بلکہ ان کی نااہلی نے غریب عوام کے دلوں میں نفرت بھردی ہے اور ان کو ایک سیاسی پلیٹ فارم مقرر کردیا ہے۔
اس وقت پاکستان میں دائیں اور بائیں بازو کی جو تفریق ہے وہ یقیناً ملک کے لیے ہرگز بہتر نہیں۔ ان پانچ برسوں میں جو کچھ بھی ہوا اور فرینڈلی اپوزیشن اتحادی حکومت نے بھی جو کردار انجام دیا وہ بھی قابل تحسین نہیں، بلکہ ایسا لگتاہے کہ جمہوریت کے5 برس جو عوام کا سخت ترین دور تھا اﷲ اﷲ کرکے گزرگیا مگر سیاسی پارٹیوں کے مابین بڑھتی ہوئی خلیج ایک خطرے کا نشان ہے۔
پیپلزپارٹی سندھ میں مزید محدود ہوکر رہ جائے گی، کیونکہ یہ شخصیتوں کی سیاست کرتی ہے اور عوامی معاملات اور امنگوں کی سیاست نہیں کررہی بلکہ جلد یا دیر سندھ کی قوم پرست جماعتیں پیپلزپارٹی پر حاوی ہوجائیں گی کیونکہ پیپلزپارٹی پڑھے لکھے نوجوانوں میں اپنا ووٹ بینک کھورہی ہے۔
اس کی نظریاتی اساس نہایت کمزور ہوگئی ہے، مذہبی پارٹیاں دوبارہ ملک میں مضبوط ہورہی ہیں مگر عمران خان کی پارٹی نے دائیں اور بائیں کے درمیان اپنا مقام بخوبی بنالیا ہے اور عوامی نیشنل پارٹی نے اپنی ناقص کارکردگی میں پانچ سال ضایع کردیے، اس لیے پشتون نوجوانوں میں عمران خان نے ایک مقام بنالیا ہے، نہ وہ کھل کر امریکا کی مخالفت کرتے ہیں اور نہ ہی طالبان کی، اس لیے اپنی میانہ روی سے انتخابی پالیسی، ایک مضبوط پالیسی بنانے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور کامیابی سے جلسے کررہے ہیں۔
البتہ عمران خان اور نواز شریف میں زبردست مقابلہ نظر آتا ہے، دونوں پارٹیاں کھل کر جلسے کررہی ہیں مگر پیپلزپارٹی کا پنجاب میں انتخابی میدان بالکل خالی ہے جو انھوں نے دانستہ نواز شریف کے لیے چھوڑ دیا ہے۔
پیپلزپارٹی نے اپنے ووٹر کے لیے کچھ بھی ایسا نہ کیا کہ جس کی بنیاد پر وہ عوام کے روبرو جاسکتے ہیں، جب کہ ان کے مقابل قوتیں جو پورے پاکستان میں موجود ہیں وہ پرعزم اور پر حوصلہ ہیں، گو کہ عمران خان تو اس میدان میں نو وارد ہیں ان کے متعلق پیش گوئی کرنا قبل از وقت ہے مگر ن لیگ تو کئی بار حکومت میں آئی اور گئی، ایک اور کیس جو انتخابی مہم کو کمزور کرے گا اور سوالیہ نشان بن سکتا ہے وہ ہے پرویز مشرف کا مسئلہ، جو انتخابات کے بعد یا چند روز قبل ایسے انکشافات ممکن ہیں کہ جس میں بہت سے پرانے سیاسی چہروں کی نقاب کشائی ممکن ہے۔
موجودہ انتخابی عمل جس راہ پر گامزن ہے اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ پنجاب میں ووٹنگ کی شرح 50 فیصد اور خیبر پختونخوا میں 35/40 فیصد کے قریب ہوگی، سندھ میں انتخابی گہما گہمی میں بھی 40 فیصد تک کے امکانات ہیں یا ممکن ہے اس سے بھی کم پر فیصلہ ہوجائے، کیونکہ کراچی پر خوف کے سائے لہرا رہے ہیں۔
پاکستان کا یہ بھی ایک المیہ رہا ہے کہ یہاں کے بائیں بازو کے لیڈر ہمیشہ اصولوں اور اپنے ضمیر کے قیدی بن کر نہیں رہے جو بائیں بازو کے اصل سیاست دان تھے وہ نظر انداز کیے گئے اور سیاست میں ضمیر فروشی کی ایک رسم چل نکلی ہے، جس کو سیاست کا نام دیاگیا۔ ظاہر ہے جس ملک میں احتساب نام کا کوئی حصہ ہی نہ ہو اور سیاست دان سرتاج اور قانون سے بالاتر ہوں وہاں امن کیونکر قائم ہوسکتا ہے۔ سیاست دانوں کا فرض ہے کہ وہ خود اپنا احتساب کریں اور مواخذہ کی سیاست کو فروغ دیا جائے۔
اگر ملک سے انصاف یونہی رخصت ہوتا رہا تو پھر ہم جو موجودہ انتخابات کو تمام مسائل کا حل سمجھ بیٹھے ہیں کسی مسئلے کو حل نہ کرسکے گا، کیونکہ ملک کی خارجہ پالیسی پر کسی بھی پارٹی کی کوئی واضح حکمت عملی نہیں ہے۔ بھارت، افغانستان، ایران سے تعلقات کی نوعیت کیا ہوگی اور انتخابات کے بعد ہمارے تعلقات چین، روس اور امریکا سے کس بنیاد پر ہوں گے، کیونکہ میں نے ماضی میں کئی بار یہ تحریر کیا ہے کہ اب دنیا یونی پولرنہیں رہی، شمالی کوریا، شام کے معاملات ورنہ اس قدر پیچیدہ نہ ہوتے مگر لیڈروں کو نہ اپنے ملکی معاملات کا ادراک ہے اور نہ دنیا کا، محض پیٹ اور پیسہ ہی ان کا مطمع نظر ہے، لیڈروں نے لوٹ مار کے کلچر کو فروغ دیا، اسی لیے ملک میں لا قانونیت کا دور دورہ ہے، اس لیے یہ یقینی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ نظام کو بدلنا ہوگا۔